شدّتِ احساس اور گہرے شعوری رویے کا شاعر: افتخار راغبؔ

ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی

(صدر  شعبۂ اردو، انجمن ڈگری کالج، بھڈکل، کرناٹک، ہندوستان)

        ’’پیکرِ مہر و وفا روحِ غزل یعنی توٗ ‘‘سے میری مراد جناب افتخار راغبؔ ہیں جو شدّتِ احساس اور گہرے شعوری رویے کے شاعر ہیں۔ جن کے یہاں جدّت و روایت کی حسین آمیزش، ہجرت کا کرب، محبوب کا درد، ہجر کی بے چینی اور عشق کی تڑپ کے ساتھ ساتھ عصری حسّیت، مسائلِ حیات اور تہذیبی کشمکش کی مختلف تصویریں پائی جاتی ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ  ’’ فکر و فن کی پاکدامانی ہے معراجِ غزل‘‘  کا افتخار بھی راغبؔ کی غزلوں کو حاصل ہے۔

        اب آئیے اس اجمال کی تفصیل کی طرف۔ لیکن ذرا ٹھہریے!  پہلے اس تقریبِ ملاقات کا ذکر جب۸/ نومبر ۲۰۱۸ء؁  کو  میرا دوحہ قطر کا سہ روزہ ادبی سفر ہوا۔ جس کا ایک حاصل افتخار راغبؔ کی دید و شنید اور دوستی کی صورت میں میرے سامنے آیا۔ ادارہ ٔادبِ اسلامی ہند کی منصبی ذمہ داریوں کے بعد پورے ملک میں شہروں شہروں جانے اور ہم فکر ادباء و شعراء کو پانے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور اب اسی بہانے پہلی بار ملک سے باہر جانے کا آغازِ سفر دوحہ قطر سے ہوا، جہاں ایئرپورٹ پر میرے استقبال سے لے کر تیسرے دن رخصت کرنے اور خداحافظ کہنے تک تقریباً ہر انجمن آرائی میں جنابِ راغبؔ سایے کی طرح میرے ساتھ ساتھ رہے۔ بلاشبہ آپ ایک نیک نہاد، نیک کردار، خوش اخلاق، مہمان نواز، ملنسار، سادہ مزاج اور صاحبِ علم و وجدان ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ خیالِ خاطرِ احباب انھیں ہمیشہ ملحوظ رہتا ہے۔ میں نے مختلف محفلوں میں انھیں غزل پڑھتے بھی دیکھا غزلوں پر نقد و تبصرہ کرتے بھی سنا اور ادبی مسائل اور تحریکی و تنظیمی معاملات پر رائے دیتے ہوئے بھی۔ ہر جگہ ان کے ایک دھیمے، ٹھہرے ہوئے انداز اور نرم رویے نے متاثر کیا اور مسرور بھی۔

        افتخار راغبؔ ایک ایسے  فطری شاعر اور زود گو ہیں جو بے تکان اشعار کہتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ ہر جگہ آمد ہی آمد ہے آورد کا احساس کہیں نہیں ہوتا۔ جن کی شعری صلاحیتیں کسبی سے زیادہ وہبی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کے ٹھہرے ہوئے لہجے کی حلاوت اور سوزِ دروں کی چنگاری پوری طرح قاری کو اپنے حصار میں مقیّد کر لیتی ہے اور پھر وہ دھیمی دھیمی آنچ میں سلگنے لگتا ہے۔ روح کے اندر ایک ایسا ارتعاش پیدا ہوتا ہے کہ جسم و جاں عزمِ نو کی تابش سے چمک اٹھتاہے۔

        راغبؔ کی غزلوں کے اب تک چار مجموعے  ’’لفظوں میں احساس‘‘،  ’’ خیال چہرہ ‘‘، ’’غزل درخت‘‘  اور  ’’ یعنی توٗ‘‘  شائع ہو چکے ہیں اور پانچواں مجموعہ ’’ کچھ اور ‘‘ طباعت کے لیے تیار ہے۔ افتخار راغبؔ کا اتنی کم عمری میں اتنا سارا  دل کش کلام دیکھ کر ڈاکٹر کلیم عاجزؔ مرحوم کی طرح میں بھی حیرت زدہ رہ گیا کہ پیشے سے ایک سول انجنئیر، صبح سے شام تک سیمنٹ، پتھّر اور لوہا لکّڑ کے غیر شاعرانہ ماحول میں زندگی گزارنے والا شخص اتنی عمدہ شاعری کرتا ہے جیسا کہ کلیم عاجز ؔنے لکھا ہے کہ  ’’میں افتخار راغبؔ صاحب کا کلام سن کر چونکا کہ اس عہد میں یہ آواز یہ لہجہ اور یہ تیور اور یہ کلاسیکل اسلوب اس جوان کے ذوقِ شعر میں کیسے داخل ہو گیا‘‘۔ تو جیسا کہ میں نے آغاز میں عرض کیا کہ شعری صلاحیتیں کسبی سے زیادہ وہبی ہوا کرتی ہیں۔ اور یہ  ’’تا نہ بخشد خدائے بخشندہ‘‘ والا معاملہ ہے۔ بہرحال راغبؔ کی شاعری دراصل ایک حسّاس روح کا سفر ہے۔ جدید برہمی اور نا آسودگی ان کی شاعری کا اہم حوالہ ہے۔ بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں۔  غزل کے مزاج اور اس کے تقاضوں کو نظرانداز کیے بغیر بھی جدید تجربات کو غزل کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے پیش روؤں کے تجربات سے استفادہ بھی کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے انفرادی رنگ کی تلاش بھی جاری رکھی ہے۔ آپ کی غزلیں کربِ ذات کا اظہار ہیں۔ ظاہری آسودگی کے باوجود وہ اپنے اندر سمٹے ہوئے ہیں۔ یہ کرب صرف اپنا ہی نہیں اپنے عہد کا بھی ہے۔ ان کی شاعری میں اپنے عہد کی روح کو سمونے کی کوشش ہے۔ ان کے ہاں جینے کی خواہش، بھیڑ سے الگ چلنے کی جستجو، جمالیاتی احساس، شعری روایت کا گہرا شعور اور تخلیقی میلان موجود ہے۔ ان کی غزلیں صرف متاثر ہی نہیں کرتیں بلکہ ذہن کو متحرّک بھی کرتی ہیں اس لیے ان کے ہاں اچھی اور نئی شاعری دونوں ہی کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔

        مجھے یقین ہے کہ مذاقِ سلیم رکھنے والے حضرات راغبؔ کے کلام سے ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ لہٰذا میں اصولی باتوں اور عمومی تاثرات کے اظہار سے ہٹ کر اب ان کے خیابانِ شاعری کے صاف ستھرے اور سنجیدہ ماحول کی سیر شروع کرتا ہوں۔ سب سے پہلے ایک حمد یہ شعر:

وسعت کی انتہا نہیں اُس کی صفات کی

یکتائی اُس کی ذات کی دل میں اتار دیکھ

        نعتِ شہِ ابرار کے عنوان سے کس سادگی اور سلیقے سے نبی آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی شان بیان کرتے ہوئے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں :

انؐ کی محبت انؐ کی اطاعت میں سرمست ہو دل راغبؔ

جنت کیا فردوسِ بریں میں ہوگا بڑا رتبہ حاصل

        اور اب خالص غزل کے چند اشعار دیکھیے جہاں فکر و فن کا حسین امتزاج دامنِ دل کھینچتا ہے:

وہ جس نے شعر و سخن پر کیا مجھے راغبؔ

کسی کے عشق کا نقشِ دوام ہے شاید

کبھی صحرا کبھی دریا رہا ہوں

بجھا کر پیاس بھی پیاسا رہا ہوں

دل کی خستہ حالی میں مسکرا کے ملنا بھی

کس قدر غنیمت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

زہرِ عشق رگ رگ میں کس قدر سرایت ہے

مجھ میں کتنی وحشت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

جب ثمربار تھیں مری شاخیں

مستقل مجھ پہ سنگ باری تھی

آنکھوں میں بارش کا موسم، دل میں بلا کی زرخیزی

تیرے میٹھے درد کے پودے خود ہی پنپنے لگتے ہیں

ان اشعار کو سرسری دیکھنے سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ سارے انجان راستے اور مشاہدے شدّتِ احساس کی رو میں بہتے ہوئے جلتے دھڑکتے لفظوں کی شکل میں نمایاں ہوگئے ہیں۔ راغبؔ نے جدید فکر کے دائرے میں تازہ بہ تازہ نو بہ نو تقاضوں کو نئے الفاظ اور نئے اسلوب میں ڈھالا ہے۔ اور اب کچھ تغزل بہ رنگِ سیاست دیکھئے۔ عصری حسّیت غزل کی نزاکت و اشاریت کے ساتھ:

رقص دہشت کا آنکھوں میں راغبؔ ہے کیوں

قریۂ جسم و جاں میں اگر امن ہے

مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان

اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں

یقیں ہے لوٹ کر آئے گا سورج

کھلوں گا پھر اگر مرجھا رہا ہوں

بہت ہے فرق دانا اور دیوانے کی کوشش میں

ہزاروں رنج کی زد میں ہو مسکانے کی کوشش میں

ربط اب کوئی راغبؔ خرد سے کہاں، الامان

 ڈھا رہا ہے مسلسل قیامت جنوٗں کیا کروں

کیا مساوات کے ہے کاندھوں پر

لاش تہذیب اور ثقافت کی

کچھ بھی سنتا کہاں ہے دل راغبؔ

خاک بدلے گی رُت اذیّت کی

        آج ظلم و بربریت کا ایسا ننگا ناچ شروع ہو گیاہے جیسے عنقریب تہذیب و ثقافت اور شرافت و شائستگی جل کر خاکستر ہونے کو ہوں۔ چنانچہ اس سے پہلے کہ انسانیت دم توڑ دے، اے اہل جنوں اٹھو اور سینہ سپر ہو جاؤ۔ جرأت و بے باکی سے راغبؔ دیکھئے کیا کہتے ہیں :

صرف دل میں نہیں زباں سے بھی

میں نے ظالم کہا ہے ہاں میں نے

سچ کی کشتی ہی پار اترے گی

کرنے والا ہے خود کنارہ جھوٹ

        شاعر کو اس بات کا احساس ہے کہ اپنے نصب العین سے غفلت کرنے والا رائگاں ہو جاتا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں ہم سب کو دعوت و تحریک کی مہم میں لگ جانا چاہیے:

خود میں یوں ہی نہ رائگاں ہو جاؤں

توٗ نوازے تو جاوداں ہو جاؤں

        شاعر کو صرف اپنے مالکِ حقیقی کی مہربانیاں مطلوب ہیں۔ اسے کوئی غم نہیں خواہ اس کے بدلے ساری دنیا اس سے دور ہو جائے:

مہرباں ہو جائے مجھ پر اک توجہ آپ کی

غم نہیں کر لے جو مجھ سے ساری دنیا اجتناب

        دنیا طلبی میں مبتلا آج کا انسان جس کی آنکھوں پر مادیت کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دراصل اس کی آنکھیں اس وقت کھُلیں گی جب وہ ہمیشہ کے لیے بند ہونے لگیں گی:

اس سے پہلے کہ بند ہوں آنکھیں

آنکھیں کھُل جائیں اور سنبھل جائیں

        افتخار راغبؔ کے لہجے کی سادگی سب سے پہلے اپنی طرف کھینچتی ہے یہ دراصل ان کی شخصیت کی فطری  سادگی کا پرتو ہے۔ فن ہمیشہ شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن اس سلیس اور سادہ اندازِ اظہار میں جوہرِ سخن کچھ اِس طرح چمک پیدا کردیتا ہے کہ قاری چونک اٹھتا ہے۔ ڈاکٹر ابن فرید نے کسی شاعر کی سادگیِ بیان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ وہ شعر اس طرح کہتے ہیں کہ مضمونِ شعر سامنے کی بات معلوم ہوتا ہے لیکن جب شعر مکمل ہوتا ہے تو اپنی ندرت سے چونکا دیتا ہے‘‘۔ میرے نزدیک یہ بات راغبؔ پر بھی صادق آتی ہے۔ راغبؔ کی سادگی و پرکاری کے کچھ نمونے  ملاحظہ کیجئے:

کب تک مناتی خیر عمارت یقین کی

کس درجہ خستہ حال تھی دیوارِ اعتبار

جانے کب تک صبر کرنا ہے ہمیں

جانے کب ہوگی ندامت آپ کو

قوّتِ برداشت میری کم نہ ہو

اور خدا رکھّے سلامت آپ کو

مُسکرا دیتا ہوں میں تکلیف میں

اور ہو جاتی ہے زحمت آپ کو

اب آخر میں ایک غزل کا مطلع اور ایک شعر دیکھئے ردیف ہے ’’ یعنی میں ‘‘:

خرد گزیدہ جنوٗں کا شکار یعنی میں

ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں

میں ایسے جنوٗں کا شکار ہوں جو دراصل خرد گزیدہ  یعنی عقل کا مارا ہے جس نے اپنے غم کو بھُلا دیا تھا مگر اسی غم کی خوش بختی دیکھئے کہ اسے میرے جیسا غم گسار مل گیا جس نے اپنے غم کو امَر بنادیا۔ ایک دوسرا شعر ہے:

محبتیں نہ لٹاتا تو اور کیا کرتا

وفورِ شوق کا آئینہ دار یعنی میں

محبت شاعر کی کمز دری ہے۔ کہتا ہے کہ میں مخلوقِ خدا میں محبتیں نہ لٹاتا تو کیسے زندہ رہ پاتا۔ میں وفورِ شوق کا آئینہ دار ہوں  یعنی شوقِ بے پایاں سے شرابور ہوں۔ صرف تیری توجہ سے میں خلوص کا مرکز بنا ہوا ہوں۔  در اصل یہاں شاعر پوری خلقت کو اپنا محبوب سمجھتا ہے اسی لیے اپنی محبت کی تابانی سے پوری دنیا کو روشن کر دینا چاہتا ہے۔ دوسری طرف راغبؔ کے چوتھے مجموعۂ غزلیات ’’ یعنی توٗ‘‘ کی پہلی غزل بہ ردیف’’ یعنی توٗ ‘‘ کا ایک مطلع اور دو شعر دیکھئے:

پیکرِ مہر و وفا روحِ غزل یعنی توٗ

مل گیا عشق کو ایک حسن محل یعنی توٗ

یہاں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہے اور اس کی شان میں رطب اللسان ہے۔ اس کا محبوب مرکزِ عشق ہے جس میں غزل کی روح سمائی ہوئی ہے، جو وفا کی دیوی اور پیکرِ مہر و محبت ہے۔ ایک ایسی ذاتِ شریف جہاں خود عشق محبوب کی شکل میں قیام پذیر ہوگیا ہے۔ دوسرا شعر ہے:

شہرِ خوباں میں کہاں سہل تھا دل پر قابو

مضطرب دل کو ملا صبر کا پھل یعنی توٗ

شہرِ خوباں یعنی محبوب کی گلی میں یعنی اس پوری کائنات میں دل پر قابو رکھنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ دنیا کے ہنگامے اور مسائل مضطرب کئے ہوئے تھے۔ صبر و سکون کا حصول آسان نہ تھا۔ ایسے میں حقیقت سے آشنائی ہوگئی یعنی تجھ کو (معرفتِ خداوندی کو) پا لینے کی وجہ سے میرے دل کو قرار آ گیا۔ سکون و اطمینان اور طمانیتِ قلب کی دولت سے مالامال ہو گیا۔ اور اب ایک تیسرا شعر دیکھئے:

غمِ دل ہو، غمِ جاناں کہ غمِ دوراں ہو

سب مسائل کا مرے ایک ہی حل یعنی توٗ

شاعر کہتاہے کہ زمانے کا کوئی بھی غم ہو غمِ دل ہو غمِ جاناں یا غمِ زمانہ یعنی کوئی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ ہو دنیا کے تمام مشکل مسائل کا حل ایک ہی ہے۔ اور وہ تیری ذات اقدس ہے۔ یعنی توٗ ہی  اس دنیائے فانی کے تمام مسائل و مصائب کا واحد حل ہے۔ دراصل تو شاہِ کلید ہے۔ آٹھ اشعار کی یہ پوری غزل پڑھتے جائیے حسنِ ارضی کے پردے میں محبوب ازل کے حسنِ حقیقی و لا زوال کے ہزار رنگ اور پیغامِ دل نواز کے مختلف پہلو ہمارے سامنے آتے جائیں گے۔ بہ ظاہر تو یہ حسنِ مجاز کی دل پذیر تصویریں ہیں۔ مگر سوچئے تو حقیقتاً یہ سب حسنِ ازل اور عشقِ حقیقی کی وہ کرم فرمائیاں ہیں جو بہ شکلِ تصوّرِ توحید شاعر کو حاصل ہوئی ہیں جو:

قلبِ راغبؔ میں عجب شان سے ہے جلوہ فگن

        راغبؔ کی شاعری ایسے ہی جذبوں کی آواز ہے جن میں علامتی پیرہنوں کی پیاس ہے۔ عصری حسّیت کا ہر پل زندگی کی کائنات کے ہر گوشے کو ٹٹولنا چاہتا ہے۔ راغبؔ کی شاعری اسی پل کی گیلی مٹی سے نمو پانے والے پودے کی شاخ سے پھوٹا اپنے وجود کے اظہار کی روشن دلیل ہے۔ نئی شاعری میں خود رو جذبوں کی شوریدہ سری نے جن تجربوں کی راہ اپنائی ہے وہ تمام تر تنقیدی نگاہ میں معتبر نہ سہی کچھ تو قابل قدر ضرور ہیں۔ کیوں کہ نئے تجربے ہی ذہنوں کی گرہ کشائی کرتے ہیں۔ یہ تجربے جب  شدّتِ احساس اور گہرے شعوری رویے کو تخلیقی اظہار عطا کرتے ہیں تو پھر ہر لفظ بولنے لگتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔