عوامی اقدار و احساسات کے انقلابی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری

ڈاکٹر احمد علی جوہر

ڈاکٹر راحت اندوری جری اور بے باک لب و لہجہ کے انقلاب آفریں شاعر ہیں۔ ان کے انقلابی نغموں کی گونج بازار، گلی کوچوں اور سڑکوں سے لے کر پارلیمنٹ تک، ہر مجلس اور محفل میں سنائی دی اور آج بھی دے رہی ہے۔ ان کا لہجہ تو انقلابی تھا ہی، اس کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں بھی ایسا انقلابی آہنگ ہے کہ ان کے کلام کو پڑھتے ہی قاری کے دل میں  انقلابی جذبہ انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔ڈاکٹر راحت اندوری کے اسی انقلابی لب و لہجہ نے انہیں موجودہ ادبی و شعری منظرنامہ میں ایک الگ شناخت عطا کی۔

ڈاکٹر راحت اندوری کا اصل نام ‘راحت اللہ قریشی ‘ تھا۔ وہ یکم جنوری 1950ء کو اندور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اندور کے اسکولوں میں حاصل کی۔ برکت اللہ یونیورسٹی سے انہوں نے 1973ء میں ایم-اے اردو کی ڈگری حاصل کی اور 1975ء میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔

ڈاکٹر راحت اندوری کو طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر و شاعری کا شوق تھا۔ اسی شوق نے انہیں اردو کا ایک بے باک اور انقلابی شاعر بنادیا۔ ڈاکٹر راحت اندوری  نے درس و تدریس کا پیشہ بھی اختیار کیا مگر پھر انہوں نے درس و تدریس کو خیرباد کہہ کر شعر و شاعری اور مشاعروں کے لئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو وقف کردیا۔‌ انہوں نے تقریبا پچاس برسوں تک شاعری کی۔ اپنے پچاس سالہ شعری سفر میں ڈاکٹر راحت اندوری نے حمد، نعت، قطعے لکھے، متعدد فلمی گانے تحریر کئے، کئی کتابوں کی تصنیف کا فریضہ انجام دیا، لیکن ان سب کے باوجود ان کی اصل شناخت ایک غزل گو شاعر کی ہے۔ ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ جیسے "دھوپ”, "میرے بعد”, "پانچواں درویش”, "رت بدل گئی”, "ناراض”, "موجود”. ڈاکٹر راحت اندوری کی غزلیں ادبی اعتبار سے کس مقام و مرتبہ کی حامل ہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، لیکن یہ بات سچ ہے کہ ڈاکٹر راحت اندوری اپنے عہد میں اردو مشاعروں کے سب سے مقبول ترین شاعر تھے۔ انہوں نے اردو مشاعروں کے توسط سے ملک کے اطراف و اکناف اور بیرون ملک امریکہ، افریقہ، خلیجی ممالک اور یورپ میں اردو شاعری کا پرچم بلند کیا۔ اردو مشاعروں کے ذریعہ بیرونی ممالک میں اردو کی نئی بستیاں قائم کرنے اور اردو زبان کی سرحدوں کی توسیع میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔  ڈاکٹر راحت اندوری کے پڑھنے کا انداز بہت نرالا تھا۔ بار بار دہرا دہرا کر شعر پڑھنا اور سامعین کو لطف سے سرشار کرنا ان کا خاص وصف تھا۔‌ یہی وجہ ہے کہ اردو مشاعروں میں ان کی شاعری کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا اور وہ اردو مشاعروں کے بے تاج بادشاہ تسلیم کئے جاتے تھے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے عصر حاضر میں اردو مشاعروں کو جو زیب و زینت بخشی اور وقار و استحکام عطا کیا، اس میں ان کے ہم عصر شعراء میں کوئی ان کا مدمقابل نظر نہیں آتا۔ بیسویں صدی کے نصف آخر اور شروع اکیسویں صدی کے اردو مشاعروں کی جو بھی تاریخ مرتب کی جائے گی، وہ شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔

 ڈاکٹر راحت اندوری کو بہ حیثیت شاعر یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اردو اور ہندی دونوں حلقوں میں اور اپنے ملک کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت و شہرت آسمان کی بلندیوں کو پہنچی ہوئی ہے۔ ان کی غیرمعمولی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں۔ مشہور ناقد پروفیسر شارب ردولوی فرماتے ہیں۔

"راحت اندوری نے اردو شاعری کو ایک نئی زبان دی۔ انھوں نے شاعری کو اپنے قارئین اور سامعین سے مکالمہ بنادیا۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری بازار سے پارلیمنٹ تک ہر جگہ مقبول ہوئی اور لوگ آج بھی ان کے اشعار ہر موقع پر پڑھتے ہیں”۔

ڈاکٹر راحت اندوری کے عوام میں مقبول و ہردلعزیز ہونے کا ایک راز یہ بھی ہے کہ عوام کو ان کی شاعری میں اپنے خوابوں کی تعبیر اور اپنا مستقبل نظر آتا تھا۔ دراصل ڈاکٹر راحت اندوری کی شاعری کا خمیر عام انسانی زندگی سے تیار ہوا ہے۔ ان کی شاعری عوامی اقدار و روایات میں گتھی ہوئی شاعری ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری  نے اپنی شاعری میں  سماج کے ان سلگتے چیختے مسائل کو جگہ دی جس کا اظہار عوام براہ راست نہیں کرپارہے تھے۔ انہوں نے عام انسانی دکھوں، پیچیدگیوں اور جذبات و احساسات کو اتنی نزاکت سے بیان کیا کہ ہر آدمی کو ان کی شاعری میں اپنے دل کی بات نظر آنے لگی۔‌ ڈاکٹر راحت اندوری نے عام انسانوں کی عام فہم اور سادہ زبان میں ان کی بات اس طرح کی کہ ان کی شاعری "میں نے یہ مانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے” کے مصداق ہوتی گئی۔ انھوں ‌نے اپنی شاعری کے ذریعہ عام انسانوں  کے جذبات و احساسات اور عوامی اقدار و روایات کی موثر عکاسی کی۔ ان کی شاعری  انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن اور عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہے جو ہمیں سماجی مسائل کا ادراک سکھاتی ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے اردو مشاعروں کے اسٹیج سے عوام کے حقوق کے لئے جس پرزور انداز میں صدا بلند کی اور جس موثر انداز میں عوام کی نمائندگی و ترجمانی کی، اس نے ان کی شاعری کو عوام کی ایسی طاقت بنادی جسے عوام کھونا نہیں چاہتے اور پوری طرح اس کا احترام کرتے ہوئے اسے ہردلعزیز رکھتے ہیں۔

 ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنی شاعری کے ذریعہ سماج کو اس کی تلخ سچائیوں سے روبرو کروایا ہے اور عہد حاضر کی پیچیدہ زندگی کے سنگین مسائل کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں عصر حاضر کی زندگی کی بھرپور جھلک دکھائی دیتی ہے۔ آج کی انسانی زندگی کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ رشتوں کی معنویت ختم ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے عام انسانی زندگی بے سہارا و بے بس نظرآتی ہے۔ غیرانسانی رویوں کی وجہ سے آبادیوں میں زندگی آباد ہونے کے بجائے، برباد ہوتی جارہی ہے۔ ہر جگہ اصل اور مستحق لوگوں کا استحصال ہورہا ہے اور نقلی لوگ ہیرو بنتے جارہے ہیں۔‌ انسانی معاشرے میں بربریت و بہیمیت عام ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانی آبادی میں درندے آکر بس گئے ہیں۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنے طنزیہ انداز میں ان تمام پہلوؤں کی تصویرکشی اس طرح کی ہے۔

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہوگئے

اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہوگئے 

آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ

ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہوگئے

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ

گیلی زمین کھود کر فرہاد ہوگئے

بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے

جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہوگئے 

آج کے عہد میں دوستی کی بنیاد خودغرضی و مصلحت پسندی پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دوستی میں ایک وقت ایسا موڑ آتا ہے کہ وہ دشمنی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اسی لئے اب لوگ دوستی کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں یا پھر بہت چھان پھٹک کر دوستی کرتے ہیں۔ آج انسانی آبادی کی فضا ماحولیاتی اور سماجی دونوں اعتبار سے اتنی آلودہ اور زہریلی ہوگئی ہے کہ ہر آدمی کی زبان پر یہ شکوہ ہے کہ اب کیسے اور کہاں سانس لی جائے اور ایسے حالات میں زندگی کی ندی کیسے پار کی جائے۔

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

موت کا زہر ہے فضاؤں میں 

اب کہاں جاکے سانس لی جائے

بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا 

یہ ندی کیسے پار کی جائے

ہمارے معاشرے کے آستینوں میں سانپوں کا پلنا عام بات ہے مگر حالات کی سنگینی دیکھئے کہ اب بچھو بھی پالے جارہے ہیں اور بڑے بزرگ جو گھر کی بنیاد کا پتھر ہیں، انہیں گھر سے نکالنے بات ہورہی ہے۔

تھے پہلے ہی کئی سانپ آستیں میں 

اب اک بچھو بھی پالا جارہا ہے

ہمیں بنیاد کا پتھر ہیں لیکن 

ہمیں گھر سے نکالا جارہا ہے

آج ہمارے معاشرے میں خلوص و محبت اور وفاداری کے جذبات کا فقدان ہے۔ ریاکاری اور دکھاوا عام بات ہے۔ اب شناسائی لوگ ہمارے زخموں کا مداوا کرنے کے بجائے، مزید کاری زخم لگاتے ہیں۔ اس لئے اب ان سے ملتے ہوئے ڈرلگنے لگا ہے۔ لوگ بظاہر تو ساتھ ساتھ ہیں لیکن حقیقت میں کوسوں دور ہیں۔ انسان کی سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ بھائی اپنے سگے بھائی سے عید میں گلے نہیں ملتے۔ دیکھئے شاعر  ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنے بے باک طنزیہ لہجہ میں ان پہلوؤں کی مصوری کرتے ہوئے موجودہ خودغرض اور سنگدل معاشرہ کو کس طرح بے نقاب کیا ہے۔

مرے خلوص کی گہرائی سےنہیں ملتے

یہ جھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے

پرانے زخم ہیں کافی، شمار کرنے کو 

سو اب کسی بھی شناشائی سے نہیں ملتے 

ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا 

مرے قدم مری پرچھائی سے نہیں ملتے 

محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دنیا کو 

جو عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے 

آج منافقت زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ انسان کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ۔ ہر آدمی کے کئی کردار اور کئی چہرے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ندا فاضلی نے کہا تھا۔

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی 

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا 

ڈاکٹر راحت اندوری نے آج کے معاشرے کے منافقانہ کردار کی تصویرکشی اپنے مخصوص انداز میں اس طرح کی ہے۔

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں 

سب اپنے چہروں پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں 

ہمارے معاشرے میں اب سچائی کی کوئی قدر نہیں ہے جہاں دیکھئے جھوٹ کا بول بالا ہے۔ جھوٹ نے بڑی تیزی سے نہ صرف ترقی کی ہے بلکہ یہ اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ ہر آدمی اس کا قدم چومنے پر مجبور ہے اور سچائی کی سزا اتنی بھیانک ہے کہ اب آدمی کو سچ بولنے سے ڈر لگنے لگا ہے۔ دیکھئے شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے اس تلخ سچائی کو اپنے طنزیہ انداز میں کس طرح اجاگر کیا ہے۔

ہم بھی اب جھوٹ کی پیشانی کو بوسہ دیں گے

تم بھی سچ بولنے والوں کو سزا دیتے تھے 

سچ بات کون ہے جو سرعام کہہ سکے

میں کہہ رہا ہوں مجھ کو سزا دینی چاہئے

آج  انسانوں کو معاشرے میں جھوٹ، ریا، مکر وفریب جیسے منفی عناصر کے ساتھ ساتھ قدم قدم پر سنگدلانہ اور وحشیانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس سے عام لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوچلا ہے کہ اب کچھ لوگوں کے سینوں میں دل نہیں، پتھر ہیں جو دلجوئی و تسلی کی دوبات بھی نہیں کرسکتے۔

خود کو پتھر سا بنا رکھا ہے کچھ لوگوں نے

بول سکتے ہیں مگر بات ہی کب کرتے ہیں۔

لوگ مجبوری یا لالچ میں ظالم طاقتوں کی حمایت تو کرتے ہیں مگر انسانی زندگی کی یہ عجیب و غریب حقیقت ہے کہ وقت پہ معاشرے کے عام لوگ ہی کام آتے ہیں۔

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں

روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

آج کی زندگی کی ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ اپنوں سے اس قدر تکلیفیں اور صعوبتیں پہنچنے لگی ہیں کہ آدمی دشمنوں میں پناہ لینے پر مجبور ہے اور وہیں اس کے کچھ ہمدرد نکل آتے ہیں۔

میں آکر دشمنوں میں بس گیا ہوں 

یہاں ہمدرد ہیں دوچار میرے 

ہمارے معاشرے میں ایک وبا یہ بھی ہے کہ سب کو اپنا عیب، ہنر معلوم ہوتا ہے۔ کسی کی اپنی برائی پہ نظر نہیں، بلکہ سارے عیوب دوسروں میں ہی نظر آتے ہیں۔

سب ہنر اپنی برائی میں دکھائی دیں گے

عیب تو بس مرے بھائی میں دکھائی دیں گے

آج کی زندگی میں محبتوں و مروتوں کا فقدان ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کا انسان مررہا ہے اور انسانی آبادی میں ایک سناٹے اور ہو کا عالم ہے۔

محلہ سائیں سائیں کررہا ہے

مرے اندر کا انساں مررہا ہے 

آج کی زندگی مختلف مسائل میں گھری ہونے کی وجہ سے اس قدر معمہ اور پیچیدہ ہوگئی ہے کہ وہ کسی گونگے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اسے بہت ہی سنبھل کر برتنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے آباء و اجداد کے روشن کارنامے اگرچہ تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں مگر آج ہم عام انسانوں کا مقدر خراب ہے اور بہت ہی شاطرانہ انداز میں ظالم تخریبی طاقتوں کی بد نگاہیں ہمارے تعاقب میں ہیں۔

یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا

سنبھل کر چلنا کہ رستہ خراب ہے بیٹا

ہمارا نام لکھا ہے پرانے قلعوں پر 

مگر ہمارا مقدر خراب خراب ہے بیٹا

ہمارے صحن کی مہندی پہ ہے نظر اس کی

زمیندار کی نیت خراب ہے بیٹا

آج پوری دنیا میں بے روزگاری و بیکاری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ خصوصا اپنے ملک ہندوستان کے تناظر میں یہ مسئلہ ایک ناسور کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے جہاں کروڑوں نوجوان کالج اور یونیورسٹی سے پڑھنے کے بعد بے روزگاری کا درد جھیل رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔  ڈاکٹر راحت اندوری نے اس صورت حال پر بلیغ طنز کرتے ہوئے اس کی تصویرکشی اس طرح کی ہے۔

کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے

چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے

ہمارے معاشرے کا یہ کتنا دردناک پہلو ہے کہ مائیں محنت و مشقت سے اپنے بیٹوں کی پرورش کرتی ہیں مگر یہ بیٹے ان کی ضعیفی کا سہارا بننے کے بجائے اپنے آپ کو شہر کی رنگ رلیوں کے حوالے کردیتے ہیں اور ان کی ضعیف مائیں اکیلی و بے سہارا زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔   ڈاکٹر راحت اندوری نے اس دردناک صورت حال کو اس طرح بیان کیا ہے۔

نوجواں بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اڑے

گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں

آج کی زندگی کی یہ سچائی ہے کہ انسان ملازمت یا دووقت کی روٹی کی خاطر اپنے گھر سے باہر اور وطن سے دور رہنے پر مجبور ہے۔ اس کی وجہ سے بھرے پرے گھر کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے۔ پورے پورے گھر اور پوری پوری حویلی میں صرف چند ضعیف حضرات یا کچھ لوگ ہی رہ جاتے ہیں، بقیہ بیشتر افراد دوسرے شہر یا بیرون ملک ہجرت کرجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے سماج میں ایسی کھائیاں پیدا ہوگئی ہیں جس کی تلافی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دیکھئے شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے اس سماجی درد و کسک کو کس طرح لفظوں کا پیرہن عطا کیا ہے۔

زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں

میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں

ایک ایک کرکے ہوئے رخصت مرے کنبے کے لوگ

گھر کے سناٹے سے ٹکراتی ہوائیں رہ گئیں

آج چاروں طرف بظاہر بہت چمک دمک نظر آتی ہے مگر بباطن ہمارے سماج میں ظلمت و تاریکی کا دور دورہ ہے۔ سماجی کجروی کا یہ عالم ہے کہ بیمار، معالج بن گئے ہیں۔ بدعنوانی کی دھوپ کی تپش اس قدر شدید ہے کہ سماج کے اچھے بھلے خیرخواہ لوگ اس میں جھلس رہے ہیں اور اس سے پناہ مانگتے نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں  سماج کے ان المناک پہلوؤں کی عکاسی موثر پیراۓ میں کی ہے۔

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے 

چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے

ترقی کرگئے بیماریوں کے سوداگر

یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے

جھلس رہے ہیں یہاں چھاؤں بانٹنے والے

وہ دھوپ ہے کہ شجر التجائیں کرنے لگے

آج انسانی معاشرے میں منفی عناصر جیسے جھوٹ، فریب، مکاری و عیاری اور بدعنوانی کا بول بالاہے۔ استحصالی قوتوں نے پورے معاشرے کو اپنے شکنجہ میں جکڑ لیا ہے۔ انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے اور بربریت و بہیمیت غالب آرہی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر انسانی زندگی اس قدر اذیت ناک ہوگئی ہے کہ عام انسان ایسی زندگی سے پناہ مانگنے پر مجبور ہے۔ شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے اس دردناک صورت حال کی تصویرکشی اس طرح کی ہے۔

کہہ دو اس عہد کے بزرگوں سے

زندگی کی دعا نہ دی جائے 

یہ بات تو سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے ضمیری عام ہے۔ خودغرضی، مفاد پرستی اور تملق و چاپلوسی کا بڑا غلبہ ہے، لیکن اسی کے پہلو بہ پہلو ہمارے سماج میں کم تعداد میں ہی سہی ایسے قلندر صفت اور باضمیر و خوددار افراد موجود ہیں جن کی درویشی، باضمیری و خودداری کے سامنے بڑی بڑی سلطنتیں ہیچ ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے وجود سے آج بھی ہمارے انسانی معاشرے اور دنیا کا حسن قائم ہے۔

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا

میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

 ڈاکٹر راحت اندوری ایسے شاعر ہیں جن کے زاویۂ فکر میں اعلی انسانی اقدار کا رنگ جلوہ گر ہے۔ انہیں انسانی اقدار کے کھوجانے کا بے حد رنج و ملال ہے۔ وہ اس کی بازیافت کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں اور آلام و مصائب بھی برداشت کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔

مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے

مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گذرے ہوں گے

کم سے کم راہ کا پتھر تو ہٹاتے جاتے

ڈاکٹر راحت اندوری کی شاعری کا ایک خاص موضوع سیاست ہے۔ آج مقامی سیاست سے لے کر عالمی سیاست تک میں نہ جانے کتنے منفی عناصر درآۓ ہیں۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا موقع پرست سیاست کا عام شیوہ ہے۔ سیاست میں نئے نئے کرداروں کی آمد ہورہی ہے مگر جھوٹ اور مکروفریب کا وہی برسوں قدیم گھناؤنا کاروبار چل رہا ہے۔ رہزن، رہبر بن گئے ہیں۔ سیاست کی دکان چلانے کے لئے نہ جانے کیسی کیسی سازشوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور افواہوں کا راگ الاپا جاتا ہے۔ دیکھئے شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنے طنزیہ  و مزاحیہ انداز میں آج کی عصری سیاست کو بے نقاب کرتےہوئے اس پر کیسا تیکھا طنز کیا ہے۔

نئے کردار آتے جارہے ہیں

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

دیکھئے جس کو اسے دھن ہے مسیحائی کی

آج کل شہروں کے بیمار مطب کرتے ہیں 

 ڈاکٹر راحت اندوری نے سیاسی شاعری کرتے ہوئے بعض سامنے کے موضوعات پر ایسے اچھوتے اشعار کہے ہیں جو عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ان کے اس قسم کے اشعار لوگوں کے دلوں اور زبانوں پر زندہ ہیں۔ ایسے ہی اشعار میں ان کا ایک بہت ہی معروف شعر ہے۔

سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟

کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟

ہمارے ملک میں منفی اور گھناؤنی سیاست کے نتیجہ میں آئے دن کہیں نہ کہیں فرقہ وارانہ فسادات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کے امن پسند اور صلح جو حضرات ان فسادات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں بھی لہولہان کردیا جاتا ہے۔

خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر

جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے

 ڈاکٹر راحت اندوری اپنے عہد کے بے باک، نڈر اور جری لب و لہجہ کے منفرد انقلابی شاعر ہیں۔ انجام کی پروا کئے بغیر بے باکی سے اپنے عہد کے مسائل کو اٹھانا اور دوٹوک انداز میں شاعری کرنا ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ وہ جبر و استحصال کے خلاف اور عدل و انصاف کے حامی ہیں۔ دکھی انسانیت کے لئے مرہم الفاظ مہیا کرنا، مظلوموں کے لئے ظالموں سے پنجہ آزمائی کی جرأت دلانا، خوشگوار مستقبل کی نوید سنانا اور جیتی جاگتی محبتوں اور الفتوں کی نغمہ خوانی کرنا ان کے شاعری کے مخصوص اوصاف ہیں۔ وہ عوام کو انسانی قوتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور تخلیقی کاوشوں کو انسانی ہمدردی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردیا۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنی شاعری سے عوام کے جمہوری، سماجی اور سیاسی حقوق کی پاسداری کے لئے صدا بلند کی اور استحصالی قوتوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ انہوں نے موقع پرست سیاست دانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوۓ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح للکارا کہ ایوان سیاست میں لرزہ طاری ہوگیا۔ دیکھئے  ڈاکٹر راحت اندوری کے اس نوع کے اشعار میں کس قدر طنز کی کاٹ،  مزاحمت کا عنصر اور کتنا شدید رزمیہ آہنگ اور احتجاجی رنگ نمایاں ہے۔

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے 

جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں، کوئی ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں 

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

 ڈاکٹر راحت اندوری عوامی انقلاب کے شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ عوام کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور مظلوموں اور بیکسوں کی آواز کو اٹھا کر سماج میں تبدیلی لانے کی کوشش کی تاکہ ان کو ان کا حق ملے، لیکن جب سماج میں کسی طرح کی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اور انسانیت پر ظلم و استبداد کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا تو ان کے دردمند دل نے مضطرب و بے چین ہوکر اپنے اشعار کے ذریعہ ظالمانہ و غاصبانہ قوتوں پر اس طرح کاری ضرب لگائی۔

دوگز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے

اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کردیا

یہ شعر بظاہر تو بہت سادہ سا معلوم ہوتا ہے مگر یہ شعر  سامراجیت کےمنہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ آج پوری دنیا میں سامراجی نظام کس طرح سے مزدوروں و محنت کشوں کا لہو پیتا ہے، اس شعر میں اس کی بھرپور ترجمانی موجود ہے۔

شاعر ڈاکٹر راحت اندوری انقلاب کے اس قدر حامی ہیں کہ جب بے گناہوں پر ظلم وستم کی انتہا ہونے لگتی ہے تو وہ ایسے بے گناہوں کی خاطر گناہ تک کے کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

گناہ کرنا کسی بے گناہ کی خاطر

مری نگاہ میں کار ثواب ہے بیٹا 

انقلابی شاعر کے یہاں زندگی اور موت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ زندگی کی طرح موت بھی عزیز شئے ہوتی ہے اور عوام کو بھی اسی کی ترغیب و تلقین کی جاتی ہے۔ شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کے یہاں بھی یہ انقلابی رویہ موجود ہے۔

ایک ہی ندی کے ہیں یہ دوکنارے دوستو

دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو 

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

ڈاکٹر راحت اندوری اپنے انقلابی نظریہ کے پیش نظر سماج اور عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن سماج اور عوام میں اس قدر بے حسی و بزدلی ہے کہ وہ کسی طرح بیدار نہیں ہوتے۔ ایسے میں

شاعر ڈاکٹر راحت اندوری بزدل اور بے حس سماج پر طنز کا تیکھا وار کرتے ہوئے شکوہ سنج نظر آتے ہیں۔

ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی

کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں

لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں

اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں 

شاعر ڈاکٹر راحت اندوری شکوہ ضرور کرتے ہیں مگر وہ اپنے عوام اور سماج سے مایوس نہیں ہیں۔ کیوں کہ انقلابی شاعر کے یہاں یاس و قنوطیت کے بجاۓ رجائیت کے عنصر کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔  ڈاکٹر راحت اندوری بھی رجائیت کے حامل انقلابی شاعر ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ عوام میں جوش و جذبہ پیدا کرنے اور انہیں ہمت و حوصلہ بخشنے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ عوام کو صعوبتوں میں زندگی کے برتنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ عوام میں اس طاقت کو پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے انقلابی جذبہ کی چنگاری بجھنے نہ پائے اور مناسب موقع پر وہ چنگاری، انقلاب کی صورت لے سکے۔  ڈاکٹر راحت اندوری کے جوش و جذبہ سے پر اس طرح کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم

آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا 

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا 

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو

زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں 

راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو 

بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر 

جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو

سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے 

ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤگے 

 ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں

ڈاکٹر راحت اندوری کے انقلابی جذبہ میں حب وطن کا پہلو نمایاں ہے۔ انہیں ملک کے ذرے ذرے سے بےپناہ عقیدت و محبت ہے۔ اپنے ملک ہندوستان کی آن بان شان پر وہ ذرہ برابر بھی آنچ آنے کے قائل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنے ملک ہندوستان کو آنکھ دکھانے والی طاقتوں کو اس پرزور انداز میں چیلینج کیا اور للکارا ہے کہ ان کے اشعار کو پڑھ کر قاری کے اندر انقلاب کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے اور وہ اپنے وطن پر مرمٹنے کے لئے تیار دکھائی دیتا ہے۔ دیکھئے ڈاکٹر راحت اندوری نے اس موقع سے رزمیہ آہنگ سے معمور کس طرح کے انقلابی اشعار کہے ہیں۔

راہ میں خطرے بھی ہیں لیکن ٹھہرتا کون ہے

موت کل آتی ہے، آج آجاۓ ڈرتا کون ہے

تیرے لشکر کے مقابل میں اکیلا ہوں مگر 

فیصلہ میدان میں ہوگا کہ مرتا کون ہے 

ڈاکٹر راحت اندوری، سیکولر اقدار پر یقین رکھنے والے روشن خیال اور  وسیع النظر شاعر ہیں۔ وہ اردو تہذیب و ثقافت کے سچے ترجمان، اردو کی قدیم روایتوں کے امین اور مشترکہ تہذیبی وراثت کے علم بردار ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری سے ہمیشہ جمہوریت اور سیکولرزم کے تحفظ کا درس دیا۔ ڈاکٹر راحت اندوری گنگا جمنی تہذیب کے عاشق و شیدائی ہیں اور ہمیشہ اس کی بقا و تحفظ کے لئے کوشاں رہے۔ یہی گنگا جمنی تہذیب، ملک ہندوستان کی روح اور یہاں کی مٹی کی خوشبو ہے جو ڈاکٹر راحت اندوری کی شاعری میں پوری طرح موجود ہے۔ ا‌ن کی شاعری میں ملک ہندوستان کی مٹی سے عقیدت و محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں پورا ہندوستان بولتا ہوا اور جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔

ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں 

محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں 

.

میں جب مرجاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا 

لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا 

ڈاکٹر راحت اندوری نے رومانی اور عشقیہ شاعری بھی کی ہے مگر ان کی شاعری صرف  حسن و عشق کے تنگ دائروں میں محصور یا خوابوں کی دنیا تک محدود نہیں ہے، بلکہ مسائل زیست کی ترجمان ہے۔  ڈاکٹر راحت اندوری نے بہت جلد دل کی دنیا سے نکل کر اپنی شاعری کا رخ سماجی مسائل کی طرف پھیر دیا۔ انہوں نے سماج میں ظلم کرنے والی قوتوں کو پہچانا اور مظلوموں کے مسائل کی طرف اپنی توجہ مبذول کی۔ ان کی شاعری میں سماج میں جینے والے ان مظلوموں کے دکھ درد اور آنسوؤں کی سچی تصویرکشی کی گئی ہے جن کی طرف عموما نگاہ نہیں جاتی۔ ایسے بے بس و بے سہارا مظلوم انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کرکے ڈاکٹر راحت اندوری نے انہیں جینے کا حوصلہ بخشا۔ انہوں نے اپنی شاعری کو سماج کے ایسے دبے کچلے مجبور و مظلوم عوام کی آواز بنادی جن کی آواز کو سننے والا کوئی نہیں۔ آزادئ فکر، آزادئ اظہار، احترام آدمیت اور انسانی اقدار کی پاسداری، ان کی شاعری کے ایسے عناصر ہیں جو ان کی شاعری کو اپنے عہد کی توانا آواز بناتے ہیں۔

ڈاکٹر راحت اندوری کی شاعری کی بنت میں عوام کا دردوکسک اور آج کی انسانی زندگی کی آہ و کراہ شامل ہے۔ ان کی شاعری میں عوام کا مجروح و مخدوش چہرہ صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ بے باکی سے عوامی مسائل کو اٹھانا، عوامی اقدار و احساسات کی انقلابی ترجمانی کرنا اور شاعری کو عوام کی آواز بنا دینا، یہ سب ڈاکٹر راحت اندوری کی شاعری کی ایسی خصوصیات ہیں جو ان کی شاعری کی خوبصورتی بھی ہیں اور طاقت بھی۔ باغیانہ تیور، تیکھا طنزیہ و مزاحیہ انداز بیان، جرأت مندانہ لب و لہجہ، بے باکی و بے خوفی، مزاحمت کا عنصر اور احتجاجی رنگ، یہ سب ان کی شاعری کے وہ اوصاف ہیں جو موجودہ ادبی و شعری منظرنامہ میں انہیں  ایک منفرد اور بے باک انقلابی شاعر کی حیثیت سے سامنے لاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔