ابھی بھی وقت باقی ہے مسلمانوں سنبھل جاؤ

محمد اظہر شمشاد مصباحی

اللہ تعالیٰ کا بے پناہ فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں امت محمدیہ اور ایک مسلمان گھرانے میں پیدا فرمایا جس کا شکر بجا لانا ہم پر واجب و ضروری ہے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے سر بلندی بھی عطا فرمائی اور ان کے غلط کرتوت کے بنا پر انہیں  پستی کا مزہ بھی چکھایا ہے اگر مسلمانوں کے موجودہ حالات پر غور کیا جائے تو آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں جاری ہو جاتا ہے اور درد و کرب سے دل بے چین ہونے لگتا ہے کہ اتنی بڑی مسلمانوں کی تعداد ہونے کے باوجود بھی دنیا کا سب سے مظلوم ترین قوم اقوام متحدہ نے برما کے مسلمانوں کو کو کہا ہے جب کہ پوری دنیا میں آبادی کے لحاظ سے مسلمان دوسرے نمبر پر ہے لیکن اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھی افسوس ہے کہ سب سے زیادہ ظلم و ستم مسلمانوں کو ہی برداشت کرنا پڑ رہا ہے چاہے وہ فلسطینی مسلمان ہوں یا برما کے مسلمان ہوں ، چین کے مسلمان ہوں یا پھر ہندوستان کے ہر جگہ مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور پوری امت مسلمہ خاموش بیٹھی ہے خصوصاً وہ دیش جن کو اللہ تعالیٰ نے دولت و ثروت سے نوازا ہے جیسے دبئی، سعودی، قطر وغیرہ چند ایسے ممالک ہیں کہ اگر وہ مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائیں اور عملی اقدام کریں تو ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے مسلمانوں کے درد پر مرہم ہو جائے مگر ایسا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے آرام و آسائش اور شراب و شباب میں مست ہیں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے ان سب باتوں سے انہیں کوئی مطلب نہیں جب کہ قرآن مجید میں صاف لفظوں میں فرمایا گیا "انما المؤمنون اخوۃ” یعنی تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایک بھائی تکلیف میں ہو ظلم و ستم کا نشانہ بن رہا ہو تو دوسرے بھائی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی مدد کو پہنچیں  اس کی خبر گیری کرے اس لیے ہم پر یہ لازم ہے کہ مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائیں ظالموں کے خلاف عملی اقدام کریں۔

 بیت المقدس جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے یہودیوں کے نرغے میں جاتا جا رہا ہے بہادر نڈر فلسطینی مسلمان ہتھیار سے مسلح اسرائیلی افواج کا مقابلہ بنا ہتھیار پتھر وغیرہ سے کر رہے ہیں لیکن جذبۂ ایمانی اس قدر ہے کہ گولیوں سے شھید ہو جانا انہیں گوارہ ہے لیکن دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا گوارہ نہیں اور اپنی شجاعت و بہادری سے شراب و کباب میں مست مسلمانوں کو یہ دعوت فکر دے رہے ہیں کہ اب بھی دنیا میں کچھ ایسے مسلمان ہیں جو باطل قوتوں کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میں بھی کر سکتے ہیں اور اپنے کردار سے یہ ہماری سنہری ماضی کی یاد تازہ کروارہے ہیں کہ کس طرح بدر کے میدان میں صرف ۳۱۳ مسلمانوں نے بے سروسامان ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے ایک ہزار کفار کا مقابلہ کرنے میدان میں کود پڑیں اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح بظاہر کمزور نظر آنے والے مسلمانوں نے کفاروں کو تہ تیغ کر ڈالا اور ان کا نام و نشان بھی جہاں سے مٹا دیا اور پھر مسلمانوں نے دن بہ دن ترقی کر کے ایک عظیم اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو ایک عرصے تک قائم رہی پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا علم ترکوں کو عطا فرمایا اور تاریخ گواہ ہے کہ کیسے چند خانہ بدوش قبیلوں نے اپنے ہمت و حوصلے اور جذبے سے بڑی بڑی سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور پھر ایک ایسی اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو تقریباً دنیا کے آدھے سے زیادہ آبادی کو محیط تھی جسے لوگ سلطنت عثمانیہ کے نام سے جانتے ہیں پھر  کردہ گناہوں کی وجہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پستی کی طرف ڈھکیل دیا اور آج مسلمانوں کا حال نا قابل گفت و شنید ہے اور ہم اس قدر بزدلی کی شکار ہو چکے ہیں کہ ہر ظلم و ستم چپ چاپ سہہ کر خاموش رہتے ہیں حتیٰ کہ خود کا دفاع بھی نہیں کرتے آج دنیا کو محبت کی ضرورت ہے۔ اس جملے کی آڑ میں در اصل ہم اپنی بزدلی کو چھپا رہے ہیں بلا شبہ آج دنیا کو محبت کی ضرورت ہے لیکن صرف ایک قوم سے نہیں دنیا کو صرف مسلمانوں کی محبت کی ضرورت نہیں بلکہ ہر قوم ہر طبقہ کے لوگوں سے محبت کی ضرورت ہے ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں پر طرح طرح کے مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں مگر ہم‌ خاموش امن و شانتی کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں مسلمانوں کے علاوہ سبھوں کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہے کریں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کیوں کہ ظلم برداشت کرنا بھی ایک طرح سے ظالم کی حمایت ہے ہر قوم و مذہب کو یہ آزادی ہے وہ اپنے اوپر ہو رہے ظلم و ستم کا دفاع کرے ظالموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرے صرف گھر میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر چند پوسٹ کر کے ہم اپنے اوپر ہو رہے ظلم و ستم کا دفاع نہیں کر سکتے اور ہرگز یہ امید نہیں کر سکتے کہ پھر سے کوئی صلاح الدین ایوبی آۓ گا جو بیت المقدس کو دشمنوں کے چنگل سے آزاد کرا لے گا یا ابابیلوں کا کوئی ایسا لشکر آۓ گا جو ظالموں کو نیست و نابود کر دے گا یا پھر فرشتوں کی ایسی فوج اترے گی جو دشمنان اسلام کو تہ تیغ کر ڈالے گی اب شاید ایسا کچھ نہیں ہونے والا کیوں کہ ہمارے اندر بزدلی آگئی ہے۔

 آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پہلے کے مسلمان کس قدر بہادر اور جانباز تھے اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتوں کا لشکر اس وقت بھیجا جب وہ میدان جنگ میں اتر چکے تھے اس لیے اگر واقعی ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد چاہیے تو ہمیں میدان جنگ میں اترنا ہوگا تب اللہ تعالیٰ کی مدد ہم تک پہونچے گی اور صرف یہ خیال کرنا کہ ہم گھر پر آرام سے بیٹھے رہیں گے اور بنا کسی عملی اقدام‌ کے خدا کی مدد ہم تک پہونچ جائے گی تو یہ محض خام‌ خیالی ہے اگر ہمیں واقعی اللہ تعالیٰ کی مدد چاہیے تو ہمیں میدان میں اترنا بھی ہوگا اور ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر عملی اقدام بھی کرنا ہوگا تب انشاءاللہ تعالیٰ ضرور اللہ تعالیٰ کی مدد ہم تک پہونچے گی اپنے اوپر ہو رہے ظلم و ستم کا دفاع کرنا کمزوری کی علامت نہیں بلکہ یہ بہادروں کا کام ہے اور دفاع کرنے اپنے حق کا مطالبہ کرنے سے کوئی کمزور نہیں ہوتا بلکہ اور مضبوط ہوتا ہے امریکہ مسلسل کئی سالوں سے بنا رکے کسی نہ کسی ملک جنگ کرتا چلا آ رہا ہے لیکن پھر بھی وہ کمزور نہیں بلکہ ایک طاقتور ملک ہے اس لیے کسی بھی چیز کا بہانا بنا کر ظلم و ستم برداشت کرنا اور یہ کہنا کہ ہم امن پسند ہے بزدلی کی علامت ہے اس لیے میرا یہ کہنا ہے کہ اپنے اوپر ہو رہے ظلم و ستم کا دفاع خود کریں کوئی آپ کی مدد کرنے نہیں آنے والا اس لیے جس حد‌تک ممکن ہو خود کا دفاع کریں کیوں کہ ظلم برداشت کرتے رہنا بھی گناہ ہے اور ظالم کی حمایت کے مترادف ہے اور خود کا دفاع کرنا کسی بھی طرح سے غلط نہیں ہے اور یہ امید کرنا بالکل ہی غلط ہے کہ کوئی آپ کی مدد کرنے آگے آئے گا کیوں کہ ۵۷ سے زیادہ مسلم ممالک ہیں اور تقریباً ۱.۸ بلین مسلمانوں کی آبادی ہے اس کے باوجود بھی مسجد اقصیٰ کی حفاظت چند نہتے فلسطینی مسلمان ہی کر رہے ہیں اور پوری امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے جب کہ اگر پوری امت مسلمہ متحد ہو کر ایک ساتھ اسرائیل کے خلاف عملی اقدام کرے اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت میں اپنی قوت صرف کرے تو ضرور بالضرور مسجد اقصیٰ دشمنوں کے چنگل سے محفوظ رہے گا اور مظلوم‌ فلسطینی مسلمانوں کو اپنی جان یوں ہی نہ گنوانی پڑے گی مگر ایسا نہیں ہے طاقت و دولت والے مسلم ممالک اپنے شراب و شباب میں مست ہیں اور انہیں اپنے علاوہ کسی سے کوئی سروکار نہیں ہے اس لیے اب ہمیں جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے جس کے لیے ہر کام کو سوچ سمجھ کر عقلمندی سے انجام دینا ہوگا اور ہر عملی اقدام سے پہلے اس کے نتائج پر ضرور غور کر لینا چاہیے کیوں کہ کوئی بھی کام بنا سوچے سمجھے جذبات کے تحت انجام دینا بے وقوفی ہے اس لیے گھروں میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے نہ رہیں بلکہ اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور ہرگز کسی بھی طرح کا ظلم برداشت نہ کریں بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں مگر ہر کام سوچ سمجھ کر عقلمندی اور دانائی کی ساتھ کریں ۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ میں اتحاد عطا فرمائے اور مسلمانوں کو ظلم و ستم سے نجات دے کر سر بلندی عطا فرمائے،آمین۔

دم ہے تو کر دے سمندر میں تلاطم پیدا

یوں ہی موجوں میں روانی نہیں آنے والی

تبصرے بند ہیں۔