اخوان المسلمین: صبر و استقامت کا عظیم کارواں 

الطاف جمیل شاہ ندوی

اخوان المسلمین وہ عالمی تنظیم ہے جو  اخلاص و تقوی و بے نفسی اور اپنے کارکنوں کے جانثارانہ کردار کی وجہ سے بہت کم مدت میں یہ تحریک سرزمین عرب میں دعوت اسلام ہی نہیں بلکہ تحفظ اسلام کی عظیم تحریک اور انقلاب فکر و نظر کی روشن علامت بن گئی، اور پھر اس وقت جب کہ پوری عرب دنیا انتشار و افتراق اور بے رحم استعماریت کے نرغے میں تھی،  اس نے آگے بڑھ کرخطہ عرب میں تمام استعماری قوتوں کو للکارا اور یورپی اقتدار کے خلاف جہاد آزادی کی قیادت سنبھال لی

اخوان المسلمون کے خلاف مصر کی غاصب حکومت کا ظالمانہ رویہ تاحال جاری ہے۔ مصر کی غاصب و ظالم حکومت نے صدر محمد مرسی، ڈاکٹر محمد بدیع اور اخوان کے دیگر قائدین اور کارکنان کو سزا سنا کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ اخوان جیسی صاحب استقامت جماعت کو اس کے راستے اور مقصد سے الگ کر دے گی، لیکن حقیقت میں یہ غاصب حکومت کی غلط فہمی ہے۔ اخوان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اخوان اپنے قائدین اور ارکان کے قتل، گرفتاری، تعذیب اور جلاوطنی کے باوجود گزشتہ 9 دہائیوں سے عالم اسلام کی سب سے بڑی اور منظم جماعت ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت آج تک اسے اس کے راستے سے نہیں ہٹا سکی۔ شاہ فاروق، جمال عبدالناصر، انور سادات اور حسنی مبارک جیسے ظالم حکمران آج اس دنیا سے مٹ چکے یا مٹنے کے قریب ہیں، مگر اخوان المسلمین پوری دنیا میں اپنے مضبوط وجود کے ساتھ قائم ہے اور اس امت کے دلوں میں زندہ ہے، جس کی بنیادی وجہ اس کے بانی شیخ حسن البنا کی فکر و اخلاص اور اس کی لاوزال قربانیاں ہیں

حسن البنا رح کی تحریک ‘الاخوان المسلمون’ کی تاسیس کو 90 برس ہو گئے ہیں۔ 1928 میں تشکیل پانے والی عالم عرب کی اس بے نظیر تحریک جس کی بناء حسن البنا رح نے رکھی تھی کے مرشد اول ان حقائق کو شدت سے محسوس کر رہے تھے جو حقائق دھندلے ہورہے تھے اسی لئے انہوں نے پہلے   پہل صوفی و ملا دونوں کے حلقوں میں جا کر انہیں جگانے کی سعی کی۔ ان کے کانوں میں بیداری ک اذانیں دیں ۔ جب ان میں گرمی فکر اور حرارت احساس کی چنگاریاں بجھی ہوئی دیکھیں تو پھر ایک عزم کے ساتھ اٹھے اور الاخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کا امتیاز یہ ہے کہ مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ایک طرف اس نے ریاست و سیاست کو اپنی جدوجہد کا میدان بنایا اور دوسری طرف ذہنی تبدیلی کے لیے علم و فکر کے چراغ روشن کیے۔ اہل قلم کا ایک لشکر کھڑا کر دیا جس نے مغرب سے اسلام کے بارے میں آنے والے ہر اعتراض اور سوال کا جواب دیا اور اور ساتھ ہی اقدامی طور پر مغرب کی تہذیب اور اجتماعی نظام کے کھوکھلے پن کو واضح کیا۔ دوسری طرف اپنے متعلقین و متوسلین کی روحانی و باطنی اصلاح و تربیت کا ایک حکیمانہ لائحہ عمل ترتیب دیا۔ گویا اہل تصوف اور موجودہ فکری محاذ پر ‘دین فرد کی اصلاح کا نام ہے اخوان المسلمون۔

تاریخ گواہ ہے کہ اخوان المسلمون نے قربانیوں جواں مردیوں اور ایثار و استقامت کے ایسے انمٹ نقوش اخوان نے چھوڑے ہیں جنکی مثال عہد صحابہ اکرام کے سوا پوری اسلامی تاریخ میں نظر نہیں آتی، یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کی نامور شخصیت مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی کو یہ کہنا پڑا کہ  جسے اخوان سے محبت ہے اسکے ایمان میں کوئ شبہ نہیں ہے، اور جسے اخوان سے بغض اور نفرت ہے اسکے نفاق میں کوئ شبہ نہیں ہے، گویا کہ اخوان سے محبت یا نفرت موجودہ صدی میں ایمان اور نفاق کے درمیان حد فاصل ہے، کم از کم بیسویں اور اکیسویں صدی کا عالم اسلام بحیثیت ایک جماعت تنظیم اور تحریک کے اخوان المسلمین کا کوئ متبادل نہیں ہے،  اور اخوان کا مستحکم وجود پوری دنیاۓ اسلام کے لئے خیر و برکت اور روشن مستقبل کی بشارت بلکہ ضمانت ہے ۔

اخوان کادستور قرآن ہے، ان کی حکومت شریعت اور نظامِ محبت پر مبنی ہے اور ان کی غایت انسانیت کاملہ کا حصول ہے لہذا ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اس دینی نظام میں ہر مذہب اور ہر فرقہ کے لوگ خوشی کی زندگی گذار سکیں گے۔ ان کی زبانوں پر ہمہ دم کلمہ الہی ہو تا ہے۔ سارے مصر کی اساس اخوانی نصب العین پر ہونی چاہیے۔ یعنی ایمان باللہ اور عمل صالح پر۔

اخوان المسلمون کا نعرہ ہے ، ‏اخلاص ہمارا سرمایہ ۔اللہ ہماری غایت ہے محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم ہمارے رہبر ہیں، القرآن ہمارا دستور ہے آخرت ہماری منزل ہے ، آنکھوں میں رضا کی جنت ہے :

قانون خدا کو لے کے اٹھے قانون بشر کو توڑیں گے 

انساں کی خدائی باطل ہے آثار نہ باقی چھوڑیں گے 

یہ گنگا الٹی بہتی ہے ہم دھارے کا رخ موڑیں گے 

یاں طاری مستیءزم زم ہے اسلام ہمارا ہمدم ہے

امام حسن البناء شهيد رحمه الله نے تحریک اخوان المسلمین کا جامع تعارف پانچویں میقاتی کانفرنس میں یوں بیان کیا کہ
تحریک اخوان” ایک سلفی_دعوت ہے؛ کیونکہ وہ اسلام کو اسکے خالص سر چشمے  کتاب و سنت کی طرف لوٹانے کی داعی ہے
وہ ایک سنی_مسلک بھی ہے، کیونکہ وہ تمام چیزوں میں بالخصوص عقائد و عبادات میں سنت رسول پر گامزن ہے۔

وہ تصوف_کا_ایک_طائفہ بھی ہے، کیونکہ وہ خیر کی اساس ،دل کی طہارت، نفس کی پاکیزگی، عمل پر مداومت، مخلوق سے درگزر، اللہ کے لئے محبت اور نیکی کے لئے یگانگت کو ضروری سمجھتی ہے۔

وہ ایک سیاسی_تنظیم بھی ہے، کیونکہ اسکا مطالبہ ہے کہ حکومت کی اصلاح کی جائے، اسکی خارجہ پالیسی میں ترمیم کی جائے، رعایا کے اندر عزت و کرامت کی روح پھونکی جائے آخری حد تک انکی قومیت کی حفاظت کی جائے
وہ ایک ورزشی_ٹیم بھی ہے کیونکہ وہ تندرستی اور صحت کا خیال رکھتی ہے – اسکا عقیدہ ہے کہ طاقتور مومن ،کمزور مومن سے  بہتر ہے۔

وہ ایک علمی اور ثقافتی ادارہ بھی ہے، یہ اخوانی انجمنیں حقیقت میں علم و ثقافت کی درسگاہیں ہیں اور جسم و روح کی تربیت گاہیں ہیں کیونکہ اسلام کے نزدیک حصول علم ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے

وہ ایک معاشی_کمپنی بھی ہے کیونکہ اسلام صحیح رخ سے مال کمانے کی بھی ترغیب دیتا ہے ، وہ ایک معاشی اسکیم بھی ہے کیونکہ وہ معاشرہ اسلامی کی بیماریوں پر دھیان دیتی ، انکا علاج دریافت کرتی اور امت کو صحت مند رکھنے کی کوشش بھی کرتی ہے

اخوان المسلمین کفر الحاد اور استعمار کے سمندر میں اسلام کا وہ جزیرہ ہے جسے پوری ایک صدی کے تمام طوفانوں سے گزرنا پڑا ہے،  لیکن ظلم و جبر کے تمام طوفانوں کی سرکشی پوری دنیاۓ اسلام میں اسلام کے اس واحد جزیرے کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے سکی ہے۔

مرشد اول ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺒﻨﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ .ﺍﮮ ﺍﺧﻮﺍﻥ !ﺟﺐ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮯ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻟﮱ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﺋﮯﺟﺎﺋﯿﮟﺍﻭﺭ ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﮐﯽ ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﻟﭩﮑﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﯿﮟ . ﺗﻮﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺩﻋﻮﺕ ﻧﮯ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺧﯿﺰ ﮨﻮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ. ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺒﻨﺎ ﺟﺐ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮ ﺩﺋﮯ ﮔﮱ .ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﻮ ﮐﺎﻧﺪﮬﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﮱ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮧ ﺩﯼ ﮔﺊ .ﺗﻮ ﺑﺰﺭﮒ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﻧﮯ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ.ﺍﻣﺎﻡ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﮨﻠﯿﮧ،ﺑﮩﻦ،ﺑﯿﭩﯽ،ﺍﻭﺭ ﺑﺰﺭﮒ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﺏ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭﺭﻭﺍﻧﮧ ﮬﻮﺍ. ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺻﺎﺣﺒﺰﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺩﺍ ﮐﮱ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮯ ﺩﻝ ﻧﺸﯿﻦ ﮐﺮ ﻟﮱ. ﺑﺎﺑﺎ ﺟﺎﻥ ! ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ . ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ. ﻣﮕﺮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ .. ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﮩﺪﺍ ﮐﯽ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﭼﻼ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ. ﺁﭖ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺣﻖ ﮐﺎ ﺟﻮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﮬﻤﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺟﻮ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﮭﻤﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺳﺮ ﺑﻠﻨﺪ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ۔

اخوان المسلمون نے  اگر اپنے کارکنوں کے لیے تربیت کی بھٹی گرم نہ رکھی ہوتی اور تزکیۂ ِ نفس، اصلاحِ باطن، تعمیر اخلاق اور تشکیل کردار کی صنعت گری نہ کی ہوتی تو عزم وہمت اور عزیمت و صبر کی یہ داستان رقم نہ ہو پاتی۔ یہ تعلق باللہ اور توکل علی اللہ کی کیفیات ہی ہیں جو ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتیں۔ زخم کھا کر گرتے ہیں اور گر کر اٹھتے ہیں۔ وحشی صفت آمریت کی کمان میں تیر ختم ہو جاتے ہیں مگر تیر کھانے والے سینے ختم نہیں ہوتے۔ اخوان المسلمون کے منصب قیادت کے لیے گویا معیار ہی یہ ٹھہر گیا کہ کس نے سب سے زیادہ قید کاٹی اور مظالم برداشت کیے۔ مصر کی آمریت کا نیا چہرہ عبد الفتاح السیسی پانچ سال پہلے تاریخ کے ا سٹیج پر فرعونی کردار ادا کرنے کے لیے نمودار ہوا۔ خیر و شر کی کشمکش کی اس داستان میں نئے ا وراق کا اضافہ ہونے لگا۔ السیسی نے بربریت، خساست اور شقاوت میں ناصر کے ریکارڈ بھی توڑ دیے جس پر اس کی پیٹھ تھپتپھائی گئی اس کے لئے دولت کی ریل پیل کی گئی مصر کے لوگ خوش نصیب ہیں کہ انہیں اپنے ہاں اخوان المسلمون جیسی خالص اسلامی جماعت کے ظہور و عروج دور دیکھنا نصیب ہوا۔ صدہا سالوں سے اسلام کی جو روح مر گئی تھی، اخوان کے ہاتھوں زندہ ہوئی۔ اخوان انسان کو خدا کی طرف بلا رہے تھے اور مصریوں کو روح اسلامی کے احیاء کی دعوت دے رہے تھے۔ وہی اسلام جس نے کبھی بدوی زندگی کی کایا پلٹی تھی۔ مسخ شدہ معاشرہ میں اخوان کے ہاتھوں اسلام کا احیاء نوشتۂ تقدیر تھا۔ وہ بازاروں تک میں مساجد کی طاہر روح پھونکنا چاہتے تھے۔ جسم وروح جدا نہیں ہو سکتے۔دنیا سے دین کو جدا کرنا کفر ہے۔ اہل اخوان اخلاص کی مجسم تصویر تھے۔ ظہور اخوان دراصل روح محمدﷺ کا اعجاز تھا۔ یہ تحریک استعماری قوت کے لئے برقِ تپاں تھی۔

اخوان کی برق رفتارمقبولیت سے خود غرض لوگ گھبرا اٹھے۔ سیاسی رہنما اور حکمراں لرزنے لگے اور اسے دہشت پسند قرار دینا شروع کیاکیونکہ یہ ایک اسلامی حکومت اور اسلامی نظام حیات کی دعوت دے رہے تھے

عرب ممالک خصوصاً مصر میں قومیت، وطنیت اور الحاد و دہریت کا طوفان برپا ہوگیا۔ ہر طرف اباحیت، بے راہ روی اور اخلاقی گراوٹ و فحاشی کا بول بالا ہوگیا۔ ان حالات میں حسن البناء نے اخوان المسلمون کی بنا ڈالی اور دعوت و اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ ستر پچھتّر سال میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ شہید ہوئے اور لاتعداد افراد جیلوں کی سختیاں برداشت کیں ۔ اس جماعت پر پابندیوں پر پابندیاں عائد ہوتی رہیں لیکن پانچ سال پہلے آمریت کے خلاف مسلسل جدو جہد کے نتیجے میں اخوان المسلمون بھاری مینڈیٹ سے جیت کر ایوان اقتدار پہنچی۔ اسلام دشمنوں اور مغربی طاقتوں کو یہ کامیابی برداشت نہیں ہوئی۔ انھوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ اخوان المسلمون پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے۔ بادشاہوں اور شیخوں نے خونی السیسی کی ہر طرح سے مدد کی۔ اگر یہ بات کوئی اورکہے گا اور لکھے گا تو شاید کچھ لوگ طرف داروں کی بات سمجھیں گے، لیکن ایک سعودی شہزادہ کی بات تو شاید ہی دنیا نظر انداز کرسکے۔

سعودی عرب کے شاہی خاندان کی با اثر شخصیت اور شاہ عبداللہ (شاہ سلمان سے پہلے عبداللہ سعودی عرب کے بادشاہ تھے) کے بھتیجے خالد بن طلال نے حکومت کو متنبہ کیا کہ ا س کی جانب سے مصر کی فوجی بغاوت سعودی عرب کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے۔ شہزادہ خالد بن طلال نے سعودی علمائے کرام سے مصری عوام پر ڈھائے جانے والے فوجی مظالم کے خلاف خطابات کرنے کی بھی استدعا کی۔ العربیہ، سی این این کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے مصر میں اخوان المسلمون کے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کی حمایت کے فیصلے کو جہاں ملک کے مذہبی و عوامی حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت اور تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، وہیں سعودی عرب کے شاہی خاندان میں موجود اہم افراد بھی اس حمایت کو سعودی عرب کی حکومت کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں  دوسری طرف اخوان المسلمون  کے جیالے سرفروش خندہ پیشانی سے استقبال کررہے ہیں تمام مشکلات و مصائب کا  تحریر اسکوائر میں جب ظلم و ستم  کی انتہا کی گئی تب بھی ان کے ہاتھ قرآن کریم  لئے تھے جب پھانسی گھاٹ  پہنچے تب بھی قرآن کریم  ساتھ تھے ان کا تعلق اسلام سے کس قدر مضبوط  ہے یہ ہر وہ قاری جانتا ہے جسے تھوڑی سی بھی جانکاری ہو  وہ جانتا ہے کہ یہ ایسے جیالے ہین جو شہادت کا استقبال ہی نہیں بلکہ انتظار کرتے ہیں ان کے لئے یہ طوفان ستم کوئی نیا ہے ہی نہیں جو اب تک ان کے لئے جاری ہے شام مصر میں ایک نظر ان کی جوان مردی کو آج بھی دیکھئے اسی مقصد عظیمہ کے لئے  سرتن کی بازی لگائے  کھڑے ہیں جس کی آبیاری کے لئے اب تک چلے جارہے ہیں جس کے لئے اس کی بنیاد رکھی گئی تھی  یقینا ایک نہ ایک دن دنیا ان کی علمی کاوشوں کو دل سے قبول کرکے ان کی سراہنا کرے گئی بس ایک ذرا اور صبر۔

تبصرے بند ہیں۔