جدید امتِ مسلمہ منتشر اور زوال پذیر کیوں؟ 

ولی اللہ سندھی

 آج دنیا میں مسلمانوں کو جو بھی مسائل درپیش ہیں یا ان کو دشمنانِ اسلام کی جن سازشوں، تحریکوں کا سامنا ہے  تو اس کا سبب یہ ہے کہ آج  ہماری وہ مثالی وحدت باقی نہیں رہی  جو ہمیں  اسلام نے عطا کی ہے،جس وحدت و اتحاد کا سبق ہمیں فاروق اعظم ؓ وامام حسینؓ نے دیا تھا،جو قوت وطاقت،وحدت ومساوات اور محبت ورافت کا سرچشمہ تھی۔ یہی تو  وہ طاقت تھی کہ جس کے سامنے دشمن کی کوئی فوج نہ ٹک سکتی تھی۔اور آج ہم حضرت عمر فاروقؓ اور امام حسینؓ کے دیے ہوئے سبق کو بھول چکے ہیں۔آج ہم  فرقوں، جماعتوں میں تقسیم ہوکر  قومیت ووطنیت، علاقائیت اور خاندانی انانیت کا شکار ہیں۔جدیدتصور ِجغرافیت نے پوری دنیا میں نفرت وتنفر، بیزاری و ناپسندیدگی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ جب میں تاریخ انسانی کا مطالعہ کرتا ہوں تو وہی نسل جس میں  قوموں کی دوام و بقا ہےان نسلوں کا تصادم ہر دور میں پاتا ہوں۔ اسی نسلی تصادم امت کے بت  کو فکرِ انبیاء ؑو رسلؑ نے خاصہ  پاش پاش کیا تھا۔آج بھی دنیا کی دیگر اقوام میں گورے کالے،زبانوں کی تفریق ،قوم و قبیلہ، اعلیٰ نسل، کم تر نسل کا تصورسرایت کرچکا ہے،جو کہ اسلام نے اعلانی طور پر اور حضرات صحابہ کرام بالخصوص حضرت عمر فاروق ؓاور امام حسین ؓ نے عملی طور پر یہ سب فرق مٹا کر امت میں وحدت و مساوات کی ایک ایسی مثال قائم کردی تھی کہ تاقیامت کوئی  فلسفہ،کوئی دین ،کوئی تہذیب و تمدن،کوئی نظام ایسی مثال پیش نہ کرسکا نہ کر سکے گا۔پر افسوس! آج  پھر وہی جہالت کی سوچ وتصور جس میں امت مسلمہ بٹ چکی ہے ہمارا ملک پاکستان بھی اسی نہج پر ترقی کررہا ہے۔ یہاں نسل پرستی کا صنم ہماری بگلوں میں  ہے،ذات پات کے نظام نے زمین و آسمان کی تفریق ڈال رکھی ہے۔ایک بڑی ستم ظرفی تو  یہ ہے کہ جو مذہب  وحدت و اخوت کا داعی  ہے آج اس کےپیروکار بھی جو کم علم و عقل اور دین  اسلام کو اپنی محدود عقل تک مقید سمجھتے ہیں وہ گروہی وعلاقائی عصبیت، خاندانی ونسلی برتری، زبان و بیان اور مسلکی اجتہادی و فروعی  اختلاف کی بنیاد پر انتشار و افتراق کا خود بھی شکار ہوگئے ہیں اور امتِ مسلمہ کو بھی خوب منتشر  و متنفر کررکھا ہے۔اور دوسری طرف سے  موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرعونی و  نمرودی   اور اسلام کی دشمن طاقتیں دین ِاسلام اور امت ِمسلمہ  اور ان کی عبادت گاہوں اور  درس گاہوں پر  اندرونی و بیرونی طریقوں سے حملہ آور ہیں۔جبکہ یہاں امتِ مسلمہ کو آپس میں ہی جھگڑے اور فساد سے نکلنے کی فرصت ہی نہیں۔اگر یہی سلسلہ چلتا رہا توعنقریب ہمارا بھی   وہی حال ہوگا  جو بغداد کے مسلمان باشندوں کا ہلاکو خان  اور تاتاریوں کی تلواروں نے کیا تھا۔

میں گفتار کے اسلوب  پہ قابو نہیں رہ سکتا

جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

پیغام ِ وحدت و اتحاد

پیغامِ وحدت امت میری فکر اور میرا ہدف و نشاں ہے۔تصورِ ملتِ بیضا،اور تصورِ اتحادِ امت ہی خالصتاً فکر اسلامی ہے۔اسلام تو ہمیں اتحاد و یکجہتی کا درس دیتا ہے ،حضرات صحابہ کرام کی زندگیوں کرداروں نے تو ہمیں ایک امت ایک جمعیت بنایا تھا۔ اقبال نےبھی تو ہمیں پیغام و حدتِ امت، اتحادِ امت، وحدتِ ملت، ربطِ فرد و ملت، تصورِ ملتِ بیضا سے آشنا کیا تھا ۔جبکہ آج  ہم کیا کر رہے ہیں؟آج  ہمارے مفکرین  و مجتہدین  کیا کر رہے ہیں؟آج ہمارے قائد و حکمران کیا کررہے ہیں؟آج ہماری سوچ و فکر کہاں بھٹک رہی ہے؟ وہ کیا بنیادی چیزیں تھیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کو طویل ترین جدوجہد،کوششوں،کاوشوں، قربانیوں کے بعد وجود ملا؟جی ہاں وہ اسلام ہے ،وہ اسلامی سوچ و فکر ہے،وہ اسلامی وحدت و یگانگت ہے،وہ تصورِ اتحادِ امت ہے،جسے ہم  نےپس پشت کر رکھا ہے۔ جی ہاں ہم ترقی کر رہے ہیں تو تنزلی کی طرف۔ہم ترقی کر رہے ہیں تو تاریک و ظلمت کی طرف، ہم ترقی کر رہے ہیں تو ذلالت و رذالت کی طرف۔اب ہمارے اندر وہ اخوت و یکجہتی نہ رہی، وہ اتحاد و اتفاق نہ رہا، وہ تعلیم و فکر نہ رہی۔رہ گئی ہے تو تعلیمِ مغرب،رہ گئی ہے تو فقط مال و دولت کی حرص و طمع،رشتہ و پیوند پر فخر و غرور،ا س بتان وہم و گماں نے کس قدر  ہماری سوچ و فکر پر تسلط جما رکھا ہے۔ہمیں سقوط ِغرناطہ،سقوطِ بغداداورڈھاکہ شاید  بھول چکے ہیں۔آج مسلمان مظلوموں کی آہ و زاریاں ،ہر جانب سے مسلمانوں کی بے گور و کفن لاشیں چلا چلا کر ہمیں متحد بننے کا درس دے رہی ہیں کہ آوازِ غیب کب سے تجھے جگا رہی ہے ،تُو تو میرِ کارواں تھا اُٹھ میر ِکارواں بن ۔ہمیں اب اپنی فکر، اپنی ملت و دین کی فکر اور اتحاد و یکجہتی  کی فکر اور کوشش کرنی چاہیے یہی ہمارا ہدف ہو۔

  تھام لے خدا کی رسی کو چھوڑ دے اغیار کو

  کہ ضربِ وحدت سے گرا دے دیوار ِکفر کو

خلاصہ کلام

پچھلے صفحات میں ہم حضرت عمر اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کی خلافت و سیاست اور حیات مقدسہ کے ان عظیم پہلوؤں کا ذکرکر آئے ہیں جن سے ہمارے لیے پیغام اتحادِ امت،وحدت و تفرید،محبت و یگانگت، وغیرہ جیسی گُن ووصف کا عظیم درس پہناں ہے۔بلاشبہ یہی قیامت تک کے لیے وحدت امت کے امین ہیں۔اور انہی ہستیوں کی زندگیوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ امت کی وحدت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اورامت مسلمہ میں اتحاد کے لیے ہر وقت جدوجہد کرنی چاہیے۔

اب وقت آچکا ہے کہ ہمیں ہر ایسے مسائل جو ملت اسلامیہ کے اتحاد میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان تمام مسائل کا سد ِباب کرنا چاہیے،چاہے وہ اسلامی فقہی،اجتہادی،فروعی مسائل ہوں، یا قومی  و خاندانی افتراق ہو، یا پھر ذات  و قوم کا غرور و کبر ہو ،یا خود غرضی و مفاد پرستی ہو،یا پھر سرپر رنگ ونسل کا بھوت  بُت بن کر سوار ہو۔یہی وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے امت سے اتحاد و اتفاق جیسی عظیم نعمت رخصت ہوتی جارہی ہے ۔جس کی وجہ سے دشمن کی راہیں آسان ہورہی ہیں جس کے ذریعے وہ ہمارے مذہب،ہماری مساجد و مدارس ،ہمارے اکابرین ،ہمارے ملک ہماری پاک سرزمین پر حملےکر کے ہمیں اور ہمارے اتحاد کو توڑنا چاہتا ہے۔آج بھی اگر امت مسلمہ آنکھیں کھول لے ،خوابِ غفلت سے نکل آئے، تو دشمنوں کی یہ چالیں  واپسی انہی پر وبال بن سکتی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ  سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آپس میں اختلاف و افتراق سے بچنے اوراتحاد و اجتماعیت کی زندگی گذارنے کی توفیق بخشے آمین۔

یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے سارا جہاں لا الٰہ الا اللہ

تبصرے بند ہیں۔