رمضان المبار ک کا پیغام اور عید الفطر کی آمد !

محمد آصف اقبال

   اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکرو احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کی سعادت نصیب فرمائی۔ اس ماہ مبارک سے استفادہ کا بھر پور موقع عنایت فرمایا۔ ہم نے اس ماہ میں خدا کے آگے سجدے کیے یعنی صرف اپنے جسمانی وجودہی کو اللہ رب العزت کے سامنے نہیں جھکایا بلکہ اپنی خواہشات کو اور زندگی کے جملہ معاملات کو بھی اللہ کے حکم کے مطابق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ نتیجہ میں ہمیں اللہ کا قرب حاصل ہوااور اس کی رحمتیں اوربرکتیں ہم پر سائیہ فگن ہوئیں۔ ہمیں یہ موقع بھی ملا کہ ہم اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں شب قدر تلاش کریں، اللہ کی مغفرت حاصل کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور اپنے نامہ اعمال کو ایک بار پھر پاک و صاف کر لیں۔ یہ تمام مواقع میسر آئے اور ہم نے اپنی استطاعت کی حد تک ان سے استفادہ بھی کیا۔ لیکن اب جبکہ رمضان المبار ک ہم سے دور ہونے جا رہا ہے، اس کے بعد کی زندگی کیسی گزرے گی؟یہ ہمیں اور آپ کو آج ہی طے کر لینا چاہیے۔ یعنی اس ماہ رمضان المبارک کے بعد کی زندگی اور اس کے شب و روز کے اعمال کیا اور کیسے ہوں گے ؟وہی جو اس ماہ میں رہے یا ان تمام لمحات کو بھلاتے ہوئے ہم ایک بار پھر معصیت میں ملوث ہو جائیں گے؟یہ فیصلہ انفرادی طور پے بھی کرنا ہے اور ملت کو اجتماعی سطح پر بھی طے کرنا چاہیے۔

        آئیے اس موقع پر عہد کریں کہ ! اپنی زندگی میں نماز کا خا ص اہتمام کریں گے۔ کسی بھی وقت کی نماز قضا نہیں کریں گے، اگر قضا ہو بھی گئی تو اس کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ قرآن کو اپنا دستور حیات بنائیں گے، اس کو پڑھیں گے اور اس کے لیے اپنے روز و شب میں سے کوئی مخصوص ٹائم ضرور نکالیں گے، تاکہ اس کو سمجھیں اور اس میں مزید غور و فکر اور تدبر کامواقع حاصل ہوں۔ سیرت رسو ل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالع کریں گے اورحدیث کی مستند کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا ترتیب کے ساتھ مطالع کریں گے۔ لوگوں کے لیے امن و امان کا ذریعہ بنیں گے، اپنے رشتہ داروں، قرابت داروں اور جاننے والوں کے کام آئیں گے، ان کی مدد کریں گے،اور اِن اعمال کے بدلہ اُن سے کسی طرح کا بھی صلہ نہ چاہیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو”(آل عمران:۱۳۹)۔ اللہ کی زمین پر اللہ کی کبرائی بیان کریں گے، اِس کے لیے سعی وجہد کریں گے اور اُس کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرڈالیں گے۔ اور یہ سب کچھ صرف اس لیے کریں گے تاکہ اللہ تعالی ہم سے راضی ہو جائے، یہی ہماری خواہش ہے اور یہی ہمارا نصب العین۔

        عید الفطر بس آیا ہی چاہتی ہے۔ بس چند ایام باقی ہیں اور پھر ہمیں وہ سعادت حاصل ہوگی جبکہ ہمارا رب ہم سے خوش ہوگا اور ہمیں عید کی خوشیاں عطا فرمائے گا۔ دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ بھی دیگر مذاہب کے ماننے مختلف تہوار مناتے ہیں۔ ان تہواروں میں جہاں وہ ایک جانب اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں وہیں دوسری جانب اُن کے عقائد و افکار اور طور طریق کی عکاسی بھی ہوتی ہے اوریہی تہوار مذہب کا ترجمان بھی بنتے ہیں۔ تہواروں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کے نتیجہ میں یا تو اُس مذ ہب اور اُس کی فکرسے قربت پیدا ہوتی ہے،دل اس کی جانب مائل ہوتا ہے یا اِن طور طریقوں کو دیکھ کر کراہیت محسوس ہوتی ہے اور دوری اختیار کرنے کا جی چاہتا ہے۔ لیکن اسلام وہ عالمگیر دین ہے جو قیامت تک تمام اقوام عالم کو کامیابی و فلاح کا پیغام دیتا رہے گا۔ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب نیکی کر کے تجھے خوشی ہو اور برائی کرنے سے رنج ہو، تو، تو‘ مومن ہے۔ بندہ مومن ہر کام کرنے سے قبل اور بعد میں اپنے دل کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کے بعد یا تووہ مطمئن ہو جاتا ہے یا پھر توبہ و استغفار کا رویہ اختیارکرتا ہے۔ یہی اطمینان اور توبہ و استغفار کا رویہ جہاں ایک جانب بندہ مومن کے لیے دنیااور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے وہیں دیگر لوگوں کے لیے اس کی زندگی اسلام سے متعارف ہونے اور اس سے قرب حاصل کرنے کاذریعہ بن جاتی ہے۔ اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ دنیا میں موجود خدا کے تمام بندے اُس خالق برحق کے احکام کی جملہ مسائل میں تعمیل کریں جس نے اُنہیں تخلیق کیا ہے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی رویوں سے اسلام کو مکمل طور پر پیش کریں، ورنہ وعظ و تذکیرکی مجلسیں سجتی رہیں گی،اس کے باوجود نہ مسلمانوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی بندگان خدا کے افکار و اعمال میں تبدیلی ممکن ہے۔

        آپ جانتے ہیں کہ عید الفطرکا دن مومنین کو پورے ایک ماہ رمضان المبارک کی عبادات کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں وہ اپنے آپ کو ظاہر ی اور باطنی طور پر پاک کرتے ہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہوتا ہے۔ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے، سعدؓ بن اوس انصاری اپنے والد حضرت اویسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ و سلم نے ارشاد فرمایا :جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو خدا کے فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے مسلمانو! رب کے پاس چلو جو بڑا کریم ہے، نیکی اور بھلائی کی راہ بتاتا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس پر بہت انعام سے نوازتا ہے، تمہیں اس کی طرف سے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کی۔ تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے تراویح پڑھی سو اب چلو اپنا انعام لو۔ اور جب لوگ عید کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے۔ اے لوگو! تمہارے رب نے تمہاری بخشش فرمادی پس تم اپنے گھروں کو کامیاب و کامران لوٹو یہ عید کا دن انعام کا دن ہے۔ اس اجر و انعام اور رحمت و مغفرت کے تعلق سے یہ اضافہ بھی ملتا ہے کہ، جب لوگ عید گاہ میں آجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: جن مزدور وں نے اپنا پورا کام کیا ہو اُس کی مزدوری کیا ہے! فرشتے عرض کرتے ہیں اُس کی مزدوری یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے، تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ جن لوگوں نے روزے رکھے اور نمازیں پڑھیں ان کے عوض میں، میں نے انہیں مغفرت سے نوازدیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا کرم ہی ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں بھی خوشیاں مہیا کراتا ہے،اُن اعمال کے بدلہ جو ہم نے خالص اس کی رضا کے لیے انجام دی ہیں اور آخرت کا اجر تو اس سے زائد ہے اور وہی اجرِ عظیم ہے۔ ہم نے رمضان میں روزے رکھے اورعبادات انجام دی ہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر دیر کیے ہمیں ہماری مزدوری اور اجرت عطافرمادی۔ یہی اللہ کی سنت ہے اور اسی طریقہ کو مسلمانوں کو بھی اختیارکرنا چاہیے۔

        اس عید سعید کے موقع پر ہمیں اپنے ان تمام اسلام پسند بھائیوں کو نہیں بھلانا چاہیے جو آج تنگ دستی اور تشدد کا شکار ہیں۔ ان میں بطور خاص فلسطین،مصر اور شام کے مظلوم مسلمان ہیں تو وہیں وہ تمام مسلمان جن پر صرف اس بنا پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلام کو ماننے والے ہیں، جو اپنی بقا اور وجود کی جدو جہد میں مصروف ہیں یا اسلامی تشخص کے فروغ میں سرکرداں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حامی و مدد گار ہواور ان کو دنیا ہی میں وہ کامیابی عطا فرمادے جس کے بعد ان کا ہر غم ہلکا ہوجائے۔ نیز ملت اسلامیہ کے وہ تمام لوگ جو کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں اللہ کے دین کے قیام کی جدو جہد میں مصروفِ عمل ہیں اور باطل قوتیں ان کی سرکوبی میں لگی ہوئی ہیں، ایسے تمام لوگوں کے لیے بھی ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سعی کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور وہ فتح نصیب فرمائے جس کا وعدہ اُس نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وقت جلد آئے جب کہ اسلام کو غلبہ نصیب ہو اور اللہ کی زمین پر اللہ کی کبریائی بیان کی جائے۔ اللہ اکبر  اللہ اکبر   لا الہ الا اللہ   واللہ اکبر   اللہ اکبر   وللہ الحمد!

تبصرے بند ہیں۔