رافیل کیس کھلنے سے پہلے چیف جسٹس پر گھناؤنا حملہ

سید منصورآغا

یہ بات عرصے سے کہی اورمحسوس کی جارہی ہے کہ اہم اداروں کے پرکترکربے اثربنایا جارہا ہے۔ ان کی اہم رپورٹوں کو دبایا جارہا ہے۔ گزشتہ جنوری میں سپریم کورٹ کے چار سینئرججوں نے پریس کانفرنس کرکے قوم کو خبردارکیا تھا کہعدلیہ بھی دباؤ میں ہے۔ سپریم کورٹ کی خودمختاریخطرے میں ہے۔

عدالتی اورسول افسرشاہی کومتاثرکرنے کے لیے دوحربے مشہورتھے۔ بطورسزاترقی میں رکاوٹ، جیسا جسٹس جگموہن لال سنہا کے ساتھ ہوا ۔یا ترقی اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اعلیٰ ادارے کی رکنیت یا چیرمینی بطورانعام۔حالیہ دنوں میں اس کی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں۔ہرچند کہ جج صاحبان عام طور سے قانون کے مطابق فیصلے کرتے اورقناعت سے کام لیتے تھے۔ مگراس دورمیں نوٹوں کی کشش بڑی قاتل ہے۔ اب اس سے بھی گھٹیا ’جنسی الزام ‘ کا حربہ آگیا، جوحال ہی میں ’می ٹو‘ کے نام سے تمام تر غلاظتوں کے ساتھ میڈیا پر چھایا رہا۔کئی معمر خواتین یہ اعلان کرتی نہیں شرمائیں کہ دہائیوں قبل فلا ں شخص نے ان سے جنسی بھوک مٹائی تھی ۔ اس کی زد میں ایک مرکزی وزیر بھی آگئے جو صرف نام سے ہی غیرہندوتھے مگربے آبروکیے گیے۔کمال یہ ہے ان کا استعفیٰ آتے ہی یہ طوفان تھم گیا۔

کام کی جگہوں پر خواتین کے ساتھ ’زیادتی‘ یا ’جنسی تفریق‘ اور ’جنسی استحصال‘ کی سبھی شکائتیں نہ سچ ہوتی ہیں نہ جھوٹ ۔ ہم نے بچپن میں وہ زمانہ دیکھا ہے جب ہندوخواتین جسم سے چادرلپیٹ کر گھروں سے نکلتی تھیں۔معمراوربزرگ خواتین بھی یہ گوارہ نہیں کرتی تھیں کہ ان کے بیٹے یا پوتے کی عمر جیسا کوئی غیرمرد گھر میں چارپائی پر ان کے ساتھ بیٹھ جائے ۔ اب صورت حال کیا ہے؟بتانے کی ضرورت نہیں۔ایک نظرڈالو اورتمام خدوخال دیکھ لو۔

عورت ذات تو دیومالائی کہانیوں میں بھی خباثتوں کی زد میں رہی ہیں۔ کسی کا اغوا اور ریپ ہوا ، کسی کا چیرہرن۔ موجودہ زمانہ میں جب کہ ہرطرف جنسی ترغیبات کا طوفان ہے، اگرکوئی مرد کسی غیرخاتون پر بری نظرڈالے توعجب نہیں۔ رپورٹیں یہاں تک ہیں کہ اپنا کام نکلوانے کے لیے پیشہ ورعورتوں کو ہی نہیں اپنے گھرکی دوشیزاؤں کوپیش کردیا جاتا ہے۔

جنسی پیش قدمی کی کچھ شکائتیں بروقت ہوتی ہیں۔ کوئی مجنوں کسی خاتون کے ساتھ بدنیتی سے پیش دستی کرتا ہے اور وہ اسی دم جوابی اقدام کرتی ہے۔ہمارا تجربہ ہے کہ جو شکایت بر وقت کی جاتی ہے، اس میں سچائی سامنے آجاتی ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوا کہ کسی خاتون کا کوئی مطالبہ پورا نہیں ہوا یا کوئی کام اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوا اوروہ اپنی کوتاہی کوسمجھے بغیراس کا ٹھیکرا افسر کے سرپھوڑدیتی ہے، اس پرمذہبی تعصب ، ذات پات اورآخری درجہ میں عورت ذات پر زیادتی کا الزام لگادیتی ہے۔ اس لیے غلط ہمیشہ مرد کا ہی نہیں ہوتا۔اگرکچھ مرد بدنیت ہیں تو عورتیں بھی عصمت باختہ نکل آتی ہیں۔

لیکن ’می ٹو ‘کا جب ریلا چلا اورمیڈیا کو ہندستان میں جنسی اباحیت کو ہوا دینے کاموقع ملا توبعض خواتین نے گڑے مردے بھی اکھاڑڈالے جن کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں۔ ہندستان کی قدیم سماجی قدروں اورچند دہائیوں قبل تک کے معاشرتی ماحول کے پس منظر میں ’ویمن ایمپاورمنٹ‘ کا یہ ایڈیشن اپنے پہلو میں بے غیرتی کا جو شعلہ لیے ہویے اٹھا،اس کی تائید وہی کرسکتا ہے جس کی آنکھوں پرمغربی بے حیائی کا پردہ پڑا ہے۔ بے غیرتی کے اس سیلاب کا نمایاں کردار یہ ہے کہ حیا اورغیرت کی اوڑھنی کو اتار دو اور جنسی رشتوں کی پاکیزگی کو پامال کردو۔شادی کسی سے کرو ، بچوں کا ’بایولوجیکل فادر‘ کوئی اور ہو اوراسکا اعلان کربھی کردو۔ بدکاری پہلے بھی ہوتی تھی ۔ طوائفیں شہر کے کسی مخصوص حصے میں اپنے کوٹھے سجاتی تھیں مگرجدید تہذیب کے مغربی ایڈیشن نے عورت ذات کے وقاراوراحترام کو پامال کر دیا اورجنسی ہوس مٹانے کی تدابیر کوارزاں کردیا ۔ ہمیں اس طوفان میں کہاں پناہ لینی چاہئے، کس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اس کا فیصلہ خود کرلیجئے۔

چیف جسٹس پرالزام:ابھی چندروز قبل19 اپریل کو ایک 35سالہ خاتون نے الزام لگایا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا نے 10اکتوبراور11کتوبر2018کو اپنی رہائش گاہ کے آفس میں اس کی طرف جنسی پیش قدمی کی تھی اوراس کو نامناسب طورسے چھوا تھا۔ یہ الزام اس نے 82 صفحات کے بیان حلفی میں لگایا ہے جو سپریم کورٹ کے تمام 22ججوں کو بھیجا گیا ہے۔یہ خاتون مئی 2014میں سپریم کورٹ کے دفتر میں بھرتی کی گئیں حالانکہ اس وقت بھی ان کے خلاف پولیس میں کیس درج تھا۔ بعد میں بغیر اطلاع غیر حاضر رہنے اوراپنی سیٹ تبدیل کرانے کے لیے متعقلہ افسرا ن سے الجھنے کے معاملے میں انکواری میں حاضر نہ ہونے کے سبب 21دسمبر 2018کو معطل اوربعد میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ سپریم کورٹ انتظامیہ کے چیف سیکریٹری کے مطابق شکایت کنندہ مختصروقفہ کے لیے چیف جسٹس کے گھرکے دفترپر متعین رہیں جہاں 5 6- دیگرافراد ہوتے ہیں۔ اس کے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ براہ راست چیف جسٹس سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ شکایت کنندہ کا شوہراوربہنوئی دہلی پولیس میں ہیڈ کانسٹبل ہیں، دونوں اس وقت معطل ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ اگرکوئی نازیبا حرکت ہوئی تھی تواس کی شکایت چھ ماہ بعد کیوں کررہی ہے؟ بروقت کیوں نہیں کی؟اپنے خلاف انکواری میں وہ حاضرکیوں نہیں ہوئی؟ اگروجہ بیماری تھی توبروقت اطلاع کیوں نہیں دی؟ اوراب اچانک اس کو یہ اقدام کرنے کی طاقت کہاں سے آگئی؟بقول منو لاصفا لکھنوی

چرخ کو کب ہے سلیقہ یہ ستم گاری کا

کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں

سپریم کورٹ کے ایک ایڈوکیٹ اُجول بینس نے بتایا ہے کہ چند روز قبل ان کو آفرملی تھی کہ چیف جسٹس کے خلاف رسوائی کا کیس اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ان کو ڈیرھ کروڑ تک کی آفر کی گئی۔ ایڈوکیٹ بینس آسارام کیس سے مشہورہوئے جس میں انہوں نے متاثرہ لڑکی کی پیروی کی تھی۔ ان کا کہناہے کہ ان کو اس آفر میں ’وسیع سازش‘ محسوس ہوئی اس لیے اس کو منظورنہیں کیا۔ظاہر ہے اتنی بڑی رقم شکایت کنندہ توخرچ نہیں کرسکتی۔ اس کی پشت پر کوئی اورضرور ہے اورعجب نہیں اس کو کچھ لیا دیا بھی ہو۔

بارکونسل آف انڈیا نے اتفاق رائے سے چیف جسٹس پر الزامات کو ’جھوٹ اورسازش کے تحت تراشے ہوئے‘ قراردیا ہے۔جو شخص نوجوانی سے عدالت میں جج ہے وہعمر کے اس مرحلے میں ایک کس طرح بدنیت ہوجائے گا؟ چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے بھی ان الزامات کو’’بڑی طاقت کا حصہ ‘‘ قرار دیا ہے جس کا مقصد’’عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنا اورچیف جسٹس کے آفس کو تعطل کے حوالے کرنا ہے۔‘ چیف جسٹس کا یہ کہنا اس لیے سمجھ میں آتا ہے گزشتہ پانچ سال سے ایک ایک کرکے کئی اداروں کو تباہ کردیا گیا اورسپریم کورٹ بھی زد میں رہا ہے۔ خیال رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی والی ایک بنچ نے حال ہی میں رافیل کیس میں اپنے ہی آرڈر کی نظرثانی کا حکم سنایا ہے۔ سابق فیصلہ میں سرکار کو کلین چٹ دی گئی تھی ۔ لیکن سرکار نے سودے کی دستاویز کے بعض حصے چھپالیے تھے جو میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آگئے ۔ سرکار لاکھ چاہتی رہی کہ ان چھپائے ہوئے حقائق کو کیس میں ثبوت کے طورقبول نہ کیا جائے کیونکہ بقول سرکار یہ غیرقانونی طورسے وزارت دفاع سے چرائیگئے ہیں۔لیکن سپریم کورٹ نے یہ دلیل مستردکردی۔ اب اس معاملہ کی سماعت ہونے والی ہے۔

یہ معاملہ بڑااہم ہے۔ اس میں اگرکوئی فیصلہ مخالفانہ آتا ہے تو سنگھ پریوارکا کیا دھراسارا خاک میں مل جائیگا۔ اُس کو مودی جی کی توپرواہ نہیں ہوگی، جیسے آسارام اورگرمیت کی نہیں ہوئی۔ لیکن اس کے لیے یہ سنکٹ بڑا بھیانک ہوجائیگا۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ معاملہ کو طول دینے کے لیے کچھ وکیل صاحبان ہی نہیں، راجیہ سبھا کے ایک سینئر افسرکا بھی بیان ایسا ہی آیا ہے جس سے سازش کا شک اورگہرا ہوتا ہے۔ خاص طور سے نہ تومودی جی نے اس پر زبان کھولی ہے اورنہ وزیرقانون روی شنکر پرساد نے۔ البتہ مسٹرارن جیٹلی کا بیان آیا ہے جو کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے تین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی جانچ کے لیے مقرر کردی ہے۔امید ہے کہ اس میں یہ جانچ بھی ہوگی کہ جس عورت کے خلاف پہلے ہی ایف آئی آر درج تھی اس کو سپریم کورٹ میں نوکری کیسیملی۔خبرہے اس ہیراپھیری میں اس کے بہنوئی کا ہاتھ ہے جس نے پولیس انکواری کے دوران ایف آئی آر کو چھپالیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔