شہریت ترمیم بل میں مسلم پناہ گزین کیوں نہیں؟

 رویش کمار

مترجم: محمد اسعد فلاحی

وسودھیو کٹمبکم والے بھارت میں خوش آمدید۔ پوری دنیا کو’ کٹمب‘ یعنی خاندان ماننے والے بھارت کی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش ہوا ہے۔ جس بھارت کے تمام مذاہب کو ماننے والے لوگوں نے دنیا کے کئی ممالک میں اپنی مرضی سے شہریت لی ہے، اسی بھارت میں ایک بل پیش ہوا ہے۔ جنہیں ہم ’نان ریزیڈنٹ انڈین‘کہتے ہیں، انہیں بھی یہ جاننا چاہئے کہ شہریت ترمیم بل کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش یعنی صرف تین پڑوسی ممالک سے تشدد کے شکار ہندو، عیسائی، پارسی، جین، سکھ اور بودھ کو شہریت دی جائے گی۔ اس میں ایک مذہب کے ماننے والے شامل نہیں ہیں، وہ ہیں مسلمان۔ اس بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ یہ آئین کی اصل روح یعنی سیکو لرزم کے خلاف ہے۔ کیوں کہ بھارت کا آئین مذہب، ذات اور جنس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرے گا۔ امت شاہ کہتے ہیں کہ یہ کسی کے خلاف نہیں ہے۔ کتاب کا خلاصہ پڑھ لینے سے نہ تو آپ کو پوری کتاب سمجھ آتی ہے اور نہ ہی آدھی کتاب پڑھنے والا ’وشو گرو‘ تو چھوڑیے ’گاؤں گرو‘ ہو سکتا ہے۔ بھارت کے پڑوس میں صرف پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش نہیں ہیں۔ نیپال، سری لنکا اور میانمار بھی ہیں۔ جو بل لایا گیا ہے، اگر اس کی بنیاد صرف تشدد ہے تو صرف ایک مذہب پر خاموشی کیوں ہے۔ ا گر صرف مذہب ہی بنیاد ہے تو پھرمظلومیت کا سہارا کیوں لیا جا رہا ہے۔

        مارچ 2018 میں نیویارک ٹائمز میں Dan Arnold اور Alicia Turner کا شائع شدہ مضمون پڑھ سکتے ہیں۔ بھارت کے دو پڑوسی ملک میانمار اور سری لنکا ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ بدھ مت تنظیمیں اپنے مذہب کی کتاب کی طرح امن اور تحمل کے علم بردار ہی ہوں گے۔ میانمار میں بدھ مت تنظیموں پر تشدد ہوا ہے لیکن بدھ مت لاماؤں نے روہنگیا مسلمانوں پر بھی ظلم ڈھائے ہیں۔ بدھ مت شناخت سے منسلک سیاست نے یہاں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ سری لنکا دیکھ لیجیے۔ یہاں بھی بدھ مت قوم پرستی متشدد رہی ہے۔ جس کا شکار تامل ہندو رہے ہیں۔ بدھ مت قوم پرستی کے شکار مسلمان بھی ہیں۔ امت شاہ نے جو بل پیش کیا ہے اس میں صرف تین ممالک شامل ہیں اور ان تین ممالک کے مظلومین میں بدھ مت کا بھی نام ہے۔ لیکن پڑوس میں جہاں بدھ مت کے تشدد کا شکار مسلمان اور تامل ہو رہے ہیں، ان کی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں شیعوں کے ساتھ کتنا تشدد ہوا ہے۔ کتنے ہی شیعہ ڈاکٹروں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ احمدیہ کمیونٹی کے لوگ بھی تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ ہندو بھی ہوئے ہیں۔ لیکن بھارت تشدد کو صرف ایک مذہب کی نگاہ سے دیکھے گا۔ شیعوں کے تشدد کی طرف نہیں دیکھے گا۔ احمدیوں کے تشدد کی طرف نہیں دیکھے گا۔

        دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے جس کے کھاتے میں دوسرے مذہب پر تشدد کا قرض نہیں لکھا ہے، لیکن اگر یہ قرض کسی بھی طرح سے چکایا جانے لگا تو زمین پر لاشوں کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ مذہبی بنیاد پر تشدد ایک حقیقت ہے۔ تبھی سمجھانے والوں نے کہا ہے کہ تمام مذاہب ایک ہیں۔ ان کا مقصد ایک ہے۔ یہ بھی سوچنا چاہئے کہ بھارت میں جن تین ممالک کے چھ مذہبوں کے لیے شہریت کا قانون بن رہا ہے، یہ قانون ان ممالک میں ان  مذاہب کے ماننے والوں کی حیثیت مضبوط کرے گا یا کم زور کرے گا؟ کیا اس قانون سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حالت مضبوط ہوتی ہے؟ اس قانون کے بعد انہیں ان دو ممالک میں کس طرح دیکھا جائے گا؟ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر بھارت اتنا ہی فکر مند ہے اور آپ انٹرنیٹ سرچ کریں کہ گذشتہ پانچ سال میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور وزیر اعظم مودی کی کتنی بار ملاقات ہوئی ہے، کیا ایک بار بھی بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر تشدد کی بات کی ہے؟ کبھی نہیں۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے جو بل پیش کیا ہے اسے ضرور پڑھیں لیکن پہلے سوامی وویکانند کے اس بیان کو ضرور سنیں۔ 11 ستمبر 1893 کو شکاگو میں وویکانند نے کہا تھا:’’مجھے اس مذہب کا حصہ ہونے پر فخر ہے جس نے دنیا کو رواداری اور عالمگیر مقبولیت کا سبق پڑھایا ہے۔ ہم نہ صرف عالمگیر رواداری میں یقین کرتے ہیں بلکہ ہم تمام مذاہب کو قبول کرتے ہیں۔ مجھے فخر ہے میں ایک ایسے ملک سے آتا ہوں جس نے اس زمین کے تمام ممالک کے تمام مذہبوں کے ستائے گئے پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے۔‘‘

        وویکانند آج ہوتے تو کیا فخر کرتے اس بھارت پر جس نے تمام ممالک اور تمام مذاہب کے ستائے ہوئے پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ ہی بتا سکتے ہیں کہ وویکانند کیا سوچتے، یا آج کی سیاست کا کوئی بھروسہ نہیں، سہولت کے لیے وویکانند کو بھی مسترد کر دیا جاتا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے شہریت ترمیم بل پیش کر دیا۔ یہ بل ایک بار اور لوک سبھا میں پاس ہو چکا تھا مگر لوک سبھا انتخابات میں شمال مشرق میں ہوئی مخالفت کی وجہ سے راجیہ سبھا میں لیپس ہونے دیا۔ اب نئی شکل میں یہ بل پیش ہوا ہے۔

        امت شاہ نے بتایا کہ افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے۔ دنیا کے قریباً 50 سے زائد ممالک ہیں جن کا آئین خدا اور اللہ سے شروع ہوتا ہے۔ آئین ساز اسمبلی میں بحث ہوئی کہ خدا کے سے آئین شروع ہو گا۔ ایچ وی کامتھ پیشکش لے آئے تو اس کی مخالفت ہوئی۔ ووٹنگ ہو ئی تو خدا ہار گئے۔ امت شاہ نے کہا کہ کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر دیا۔ امت شاہ کو پتہ ہے کہ تقسیم کو لے کر عوام میں طرح طرح کی تصورات ہیں۔ کوئی نہ کوئی رائے ہے۔ خود سے پوچھیے کہ تقسیم کے بارے میں جاننے کے لیے کتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ نیتاؤں کو معلوم ہے کہ کوئی آئین ساز اسمبلی میں ہوئی بحث کو بھی نہیں پڑھے گا۔ یہ بحث ہندو مسلم نیشنل سلبیس کا کوہِ نور ہے۔ زیادہ تر لوگ اس کے دائرے میں ہی سمٹے رہ جائیں گے۔ امت شاہ سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر بھارت کو تقسیم کیا تو پھر کانگریس نے آئین ساز اسمبلی میں مذہب کی بنیاد پر بھارت بنانے پر زور کیوں نہیں دیا۔ اگر مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوتا تو آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ہندو راشٹر کے تصور کی کیوں مخالفت کی تھی۔ کیوں کہا تھا کہ’اگر ہندو راج ایک حقیقت بن گیا تو کوئی شک نہیں کہ وہ ملک کے ساتھ سب سے بڑا المیہ ہو گا۔ ہندو خواہ کچھ بھی کہیں، ہندوازم آزادی، برابری اور بھائی چارے کے خلاف ہے۔ اس بنیاد پر یہ جمہوریت کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ ہر حال میں ہندو راج کو روکا جانا چاہیے۔‘

        سب نے اپنی سہولت کے صفحے چُن لیے تھے اور ظلم اور تشدد کو ثابت کرنے میں لگے تھے۔ تاریخ کے صفحات کا خطرناک استعمال ہوا۔ ارکانِ پارلمان نے مایوس کیا۔ مرضی ہوئی تو تقسیم کے لیے گاندھی کو مجرم ٹھہرا دیا، مرضی ہوئی تو کانگریس کو مجرم ٹھہرا دیا۔ ہم تاریخ سے سبق سیکھ رہے ہیں یا مستقبل کی فکر چھوڑ کر تاریخ کا بدلہ لے رہے ہیں۔ شیوسینا کے سانسد ونایک بی راوت نے سوال کیا کہ اس بل میں افغانستان کی فکر ہے، سری لنکا کے تمِلوں کی کیوں نہیں ہے۔ پوچھا کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے کتنے لوگ بھارت آئے ہیں ؟ اس کا کبھی ٹھیک سے پتہ نہیں چلا۔ 16 نومبر 2016 کو راجیہ سبھا میں حکومت نے کہا تھا کہ دو کروڑ بنگلہ دیشی درانداز ہیں۔ لیکن جب این آرسی کی فہرست بنی تو 19 لاکھ لوگ ہی فہرست سے باہر نکلے۔ اس میں بھی 14 لاکھ ہندو اس بل کے بعد بھارت کے شہری بن جائیں گے۔ ظاہر ہے سیاست نے اعداد و شمار کا ہوّا کھڑا کیا۔ اب این آرسی سارے ملک میں نافذ ہونے کی بات کہی جارہی ہے۔

        امت شاہ نے جس ریجنیبل کلاسیفکیکشن کا ذکر کیا وہ کیا ہے، کیوں اس کی بنیاد پر اس بل کی آئینی حیثیت کی مخالفت ہو رہی ہے۔ کیوں مخالفت کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 14 کی روح کی خلاف ورزی ہے جو مذہب ذات اور جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے سے روکتا ہے۔

        کانگریسی ممبر پارلیمنٹ منیش تیواری نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ بھارت بین الاقوامی معاہدوں سے عہد بستہ ہے کہ وہ ہر طرح کے پناہ گزینوں کو قبول کرے گا۔ کانگریس نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ منیش تیواری نے کہا کہ یہ بل آئین کی اصل روح کی خلاف ہے۔ اس سے آئین کا بنیادی کردار بدلا جارہا ہے جو 1973 کے کیشوانند بھارتی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔ یہ بل مذہب کی بنیاد پر شہریت کی وضاحت کرتا ہے۔ منیش تیواری نے امت شاہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا تھا۔ دو قومی نظریہ سب سے پہلے 1935 ء میں ہندو مہاسبھا کے سیشن میں ساورکر نے رکھی تھی۔

        وائی ایس آر کانگریس نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے فرقوں کے پناہ گزینوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ ڈی ایم کے سانسد دیاندھی مارن کا بھی نظریہ ہندی ریاستوں میں ہو رہی بحث سے الگ رہا۔ کسی کو دھیان نہیں آیا کہ دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو کسی بھی مذہب کے کسی بھی خدا کو نہیں مانتے ہیں۔ بھارت میں سب سے بڑے آئکن شہید بھگت سنگھ ہیں۔ ‘میں ملحد کیوں ہوں ‘؟ آپ پڑھ سکتے ہیں۔ ڈی ایم کے سانسد دیاندھی مارن نے ملحد کا سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بل میں عیسائی دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ اچانک اتنا پیار کہاں سے آیا۔ آپ مغربی ممالک کے خوف سے اقلیت کو مسلمانوں اور عیسائیوں میں بانٹ رہے ہیں۔ تاکہ آپ مغربی ممالک سے الگ تھلگ نہ پڑ جائیں۔ مارن نے یہ بھی کہا کہ جو خدا کو نہیں مانتے ہیں، ان کے بارے میں اس بل میں کچھ نہیں ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو کسی مذہب کے کسی خدا کو نہیں مانتے ہیں۔ بھارت میں ان کے سب سے بڑے آئکن بھگت سنگھ ہیں۔

اس بل کی بحث کے کئی جغرافیائی صوبے ہیں۔ ہندی بولنے والے علاقوں میں یہ مختلف طریقے سے دیکھا جا رہا ہے۔ جنوب سے آنے والے غیر بی جے پی اور غیر کانگریس پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ کا نظریہ مختلف ہے۔ لیکن شمال مشرق کی ریاستوں میں جاکر بل کی بحث مکمل طور بدل جاتی ہے۔ آسام اس بل کی دفعات کو لے کر سراپا  احتجاج بنا ہوا  ہے۔ وہاں کے مقامی باشندے( انڈیجنیس کمیونٹی) سڑکوں پر ہیں۔ بہت سی تنظیمیں اس میں حصہ لے رہی ہیں۔

        آسام کی شاید ہی کوئی ایسی اہم یونیورسٹی ہو گی جہاں اس بل کی مخالفت میں احتجاج نہ ہوئے ہوں۔ نیشنل میڈیا کے کیمروں سے دور ان مظاہروں کی ویڈیو واٹس اپ کے ان باکس میں گھومتی رہی ہیں۔ گواہاٹی یونیورسٹی، کاٹن یونیورسٹی، ڈبروگڑھ یونیورسٹی، تیج پور یونیورسٹی، ایگری کلچر یونیورسٹی سے لے کر کوکراجھار کے مرکزی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں شدید احتجاج ہوا ہے۔ طالب علموں کے ساتھ ساتھ پروفیسر بھی اس احتجاج میں شامل ہیں۔ دن میں مظاہرے کر رہے ہیں، راتوں کو مشعل جلوس لے کر چل رہے ہیں۔ آسام کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے زبان سپریم ہے۔ مذہب نہیں ہے۔ دراندازوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے خلاف ہیں۔ یہ بِل ہندو دراندازوں کو شہریت دینے کے لیے ہے۔ جبکہ 80 کی دہائی کا آسام آ ندولن دراندازوں کے خلاف تھا، دراندازوں کے مذہب کے خلاف نہیں۔ آسام تحریک اپنی زبان اور ثقافت کی شناخت کے لیے ہوئی تھی، جس کے لیے 885 لوگوں نے شہادت دی تھی۔ لہٰذا شہریت ترمیم بل کی مخالفت میں آسام میں جگہ جگہ ریلیاں ہو رہی ہیں۔ آسام کے لوگوں کی بے چینی اس بات سے بھی بڑھی کہ نیشنل میڈیا نے اس بل کے خلاف ہو رہی کارکردگی کو نظر انداز کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے بھی انہیں درانداز کہا۔ یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کوئی تشدد کا مارا در انداز ہے۔ اب کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہندو درانداز ہیں اور مظلوم بن کر آئے ہیں۔ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ یہ کس بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ آسام کے ہندو یعنی بنگالی در انداز ہراساں ہوکر ہی آئے ہیں۔ در انداز نہیں کی ہے۔

        آرٹیکل 370 جب ہٹا تو کہا گیا کہ ایک ملک ایک قانون ہے۔ لیکن کیا شہریت ترمیم بل ایک ملک ایک قانون کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔ جواب ہے نہیں اترتا ہے۔ جس شمال مشرق کو ذہن میں رکھ لایا گیا ہے وہیں پر یہ بل یکساں طور پر نافذ نہیں ہو رہا ہے۔ کسی ریاست میں نافذ نہیں ہو گا تو کسی ریاست میں کس حصے میں نافذ نہیں ہو گا۔

        اس بل کا اثر پاکستان سے آئے ان ہندوؤں پر بھی پڑے گا جو برسوں سے حق اور سہولت کی غیر موجودگی میں زندگی گزار رہے تھے۔ ان میں سے بہت پریشان ہوئے ہیں اور بغیر حقوق اور سہولت کے طویل وقت سے راجستھان کے کئی حصوں میں رہتے آرہے تھے۔ دوسری جگہوں میں بھی رہتے ہیں۔ لیکن آسام پہنچ کر پورا معاملہ بھارت کی رواداری اور سخاوت کا امتحان لینے لگتا ہے۔ وہ عالمی گرو کم، چھڑی گھمانے والا اسکول کا ماسٹر زیادہ لگنے لگتا ہے۔ آج آسام میں ہی وہاں کے بنگلا بھاشی بیگانے ہو گئے ہوں گے۔ انہیں حق مل رہا ہے مگر وہ جشن نہیں منا رہے ہیں۔ شہریت کی سیاست انہیں آگے بھی کبھی بنگالی ہندو تو کبھی بنگلہ دیشی در انداز کہتی رہے گی۔ یہ لوگ بنگلہ دیش کے وقت بھارت آئے۔ اس کے پہلے بھی آئے۔ وہ بھارت کا شاندار لمحہ تھا۔ یہی اس مسئلے کی پیچیدگی اور حساسیت ہے۔ کاش کوئی ہوتا جو آسام میں دونوں سے آنکھیں ملاکر اور دونوں کو گلے لگا کر باتیں کرتا۔ آج وہاں کے مقامی اپنی لسانی شناخت کو لے کر فکر مند ہیں۔ بنگالی اپنی لسانی شناخت کو لے کر سہمے ہوں گے۔

        بحث میں بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان مذہب کی دیوار بڑی دکھائی جا رہی ہے مگر زبان کی اس زمین کو نہیں دکھایا جا رہا ہے جو مذہب سے کہیں زیادہ ہری بھری ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے قومی ترانے کا شاعر ایک ہی ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور۔ سوچیے اصل باشندے اور بنگلابھاشیوں کے درمیان وہ مسلمان کہاں کھڑے ہوں گے، جنہیں ڈٹینشن سینٹر کا ڈر ستا رہا ہوگا۔ وہ کس بھارت کی طرف دیکھیں جس کی سیاست صرف انھیں در انداز پہنچانتی ہے، ان کی آنکھوں میں کتنا خوف ہوگا۔ ان میں سے ایک تو کارگل کے یودھا تھے، مگر در انداز کا لیول لگ گیا۔ آسام اس بحث سے باہر ہے۔ بی جے پی کے 9 ایم پی ہیں آسام سے، ایک بھی رکنِ پارلیمنٹ نے نہیں بولا۔ آسام سے پہلے رکنِ پالیمان تھے کانگریس کے گورَو گوگئی جنہوں نے بولا مگر بہت بعد میں۔ گورَو نے بل کی مخالفت کی۔ منی پور، میزورم تریپورہ اور ناگالینڈ سے کسی ممبر پارلیمنٹ نے اس بحث میں حصہ نہیں لیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ساری بحث پر شمالی بھارت کی سیاست کا غلبہ ہے۔ وہ جو سوچے گی، وہ جو کہے گی باقی بھارت کو وہی ماننا ہوگا؟ تو پھر آپ کرتارپور جاکر دیکھئے۔ جہاں سے ہوتے ہوئے پنجاب کے سکھ دربار صاحب کے درشن کرنے جا رہے ہیں۔ اس لیے اکالی رکنِ پارلیمنٹ سکھبیر بادل نے کہا کہ مسلموں کو اس بِل میں جوڑیے۔ اویسی نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے جناح کو نہیں مانا، مولانا آزاد کو مانا۔ آئین بنانے والوں کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

        گاندھی نے کہا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ نہیں نکال سکتے۔ وشو گرو کا خواب واقعی ہوتا تو بھارت سب کی بات کرتا۔ سب کے لیے بولتا۔

٭٭٭

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔