طلاق آرڈیننس، ہند پاک تلخی اور رافیل معاملہ

سید منصورآغا

جی ہاں بظاہر یہ تینوں الگ الگ موضوعات ہیں، مگردرحقیقت ان تینوں کے درمیان ایک سیاسی تعلق ہے۔ رافیل سودے کی خبریں آتی رہی ہیں، اسلئے یہاں تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔ مختصر یہ کہ ہندستانی فضائیہ کو ایک مدت سے جدید جنگی جہازوں کی ضرورت تھی۔ اس کے پاس پرانے جہاز ہیں۔ ان کی ٹکنالوجی پرانی ہے۔بہت سے جہازتربیتی اڑانوں کے دوران تباہ ہو گئے۔ اس لئے تعداد بھی کم ہوگئی۔ نئے جہازوں کیلئے کئی متبادل تھے۔ روس سے، امریکا سے یا یورپ سے خریدے جاسکتے تھے۔ مگرفوجی ماہرین اورعہدیداروں کے طویل مشورے اورعالمی ٹنڈر میں بہترٹکنالوجی اورکم قیمت کی وجہ سے رافیل بازی مارلے گیا۔ چنانچہ 31جنوری 2012کویوپی اے سرکار نے اعلان کیا کہ فرانس کے بنے ہوئے دوانجن والے کثیرمقصدی رافیل جہاز خریدے جائیں گے۔ یہ جہاز فرانسیسی کمپنی ’ڈیزالٹ ایوی ایشن ‘ تیار کرتی ہے۔ بہت سے آلات دیگرکمپنیوں سے بن کرآتے ہیں۔ اس وقت یہ طے پایا کہ ہندستان 18 جہاز توبنے بنائے خریدے گااور108جہاز ڈیزالٹ کمپنی کے لائسنس پر بنگلور میں سرکاری جہاز ساز کارخانہ ’ ہندستان ایروناٹکس لمٹیڈ‘ (HAL) میں اسمبل (تیار) ہونگے۔ ان کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے۔ ضروری ٹکنالوجی اوراہم آلات فرانسیسی کمپنی فراہم کریگی۔ 2014 میں قیمت فی جہاز 715 کروڑ روپیہ (120 ملین ڈالر) طے ہوئی۔ چالیس سال تک ٹکنالوجی اور ضروری مرمت وغیرہ اس قیمت میں شامل تھی۔ ہندستان چاہتا تھا ہند میں جو جہاز فرانسیسی کمپنی کی نگرانی میں تیار ہوں ان کی وارنٹی کمپنی لے۔ اس پرآمادگی میں تاخیرہوئی اوریوپی اے سرکار کے دور میں سودا فائنل نہیں ہوسکا۔

نئی سرکارآئی اوراس نے طویل مدتی مذاکرات میں طے سودے کو یہ کہہ کرمنسوخکردیا کہ دو انجن والے یہ جہاز بہت مہنگے ہیں۔اس کے کچھ دن بعد خبرآئی کہ وزیراعظم خود سودے میں دخل دیں گے۔ اپریل 2015میں وہ فرانس گئے اوراناًفاناً نیاسوداطے کردیا کہ صرف پوری طرح تیار 36جہاز خریدے جائیں گے۔ہندستان میں 108جہازوں کی تیاری کی شق غائب ہوگئی۔ اب جو قیمت طے ہوئی وہ 1600کروڑ روپیہ فی جہاز ہے، جبکہ سابقہ قیمت اس سے آدھے سے بھی کم 715 کروڑ تھی۔ سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ پہلے انکارکیوں ہوا اورپھر اقرارکیسے ہو گیا؟قیمت بھی دوگنی سے زیادہ ہوگئی۔ یہ بات نئی ’افسیٹ شق‘ سے بہترطورپر سمجھ میں آجاتی ہے جس کے مطابقکل قیمت خرید کا 50 فیصد جہاز سازکمپنی ہندستان میں لگائے گی۔ اس شق کے تحت ہاتھوں ہاتھ ڈیزالٹ کمپنی کا معاہدہ انل امنبانی کی کمپنی سے کرا دیا گیا جو اس کیلئے پوری طرح سے لیس ہوکر مودی جی کے دورے کے وقت فرانس میں موجود تھے۔وزیردفاع سیتھارمن کیمطابق سودے براہ راست بات چیت سے ہوا۔ اس میں کوئی بچولیا نہیں تھا۔ جب آپ 715کے بجائے 1600 کروڑ فی جہاز دینے پر آمادہ ہوگئے توبچولئے کی کیا درکار رہ گئی؟

اب جو خبریں آرہی ہیں ان سے صاف ہوگیا ہے کہ اس کیلئے صرف انل انبانی کی کمپنی کا نام تجویز ہوا اوروہ بھی سرکار کی طرف سے۔ اس طرح HALکو کاٹ کرامبانی کو 30ہزارکروڑروپیہ کاسرمایہ براستہ ڈیزالٹ فراہم کردیا گیا۔ باخبرذرائع کا کہنا ہے کہ امبانی کیکمپنی کو طیارہ سازی کے فیلڈ میں کام کوئی تجربہ نہیں۔ جبکہ سرکاری طیارہ ساز کمپنی HAL، جسے باہر کردیا گیا، 1940 سے جہاز سازی کی صنعت میں ہے۔ سابق معاہدے پرعمل ہوتا تو اس کمپنی کی موجودہ صلاحیت میں اضافہ ہوتا۔ ملک میں نئی ٹکنالوجی آتی۔ بہت سی چھوٹی انجنیرنگ کمپنیوں کو کام ملتا اور ہزاروں نوجوان روزگارپاتے۔ مودی سرکارپرالزام ہے کہ اس نے ان امکانات کوختم کرکے ایک پرائیوٹ کمپنی کا فائدہ کرادیا جو پہلے ہی قرض میں ڈوبی ہوئی ہے۔سابق معاہدے کے مطابق ہندستانی فضائیہ کو 126جہاز ملتے۔ اب صرف 36ملیں گے جس سے فضائیہ کی ضرورت پوری نہیں ہوگی۔

راہل کا اعتراض:

راہل گاندھی نے تحریک عدم اعتماد کے دوران 21جولائی 2018کو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا تووزیردفاع محترمہ سیتھارمن نے ایک کاغذ لہراکرکہہ دیا کہ قیمت معاہدے کی روسے راز کی بات ہے جس کو ظاہرنہیں کیا جاسکتا۔ مگرفرانس کے سابق صدر ہولانڈے نے، جن کے دور میں معاہدہ ہوا کہا کہ رازداری کی شق میں صرف ٹکنالوجی شامل ہے۔انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ امبانی کی کمپنی کا نام مودی سرکار کی طرف سے پیش ہوا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا گیا۔ یہ جہاز کیونکہ پرائیویٹ کمپنی بناتی ہے اس لئے امبانی کی کمپنی کا معاہدہ اسی سے ہوا۔ فرانس سرکار کا یہ کہنا بجا ہے کہ معاہدہ ایک کمپنی کا دوسری کمپنی سے ہوا۔ لیکن اس نے یہ تردید نہیں کی کہ امبانی کا نام مودی سرکار نیپیش نہیں کیا اورمعاہدہ آنا فاناً کیسے ہوگیا؟ سرکارکا کہنا ہے اس میں کوئی بچولیا نہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ جس قیمت کو طے کرنے میں دونوں سرکاروں کو سالوں پسینے آتے رہے وہ ایک دم کیسے طے ہوگئی اورفی جہاز قیمت دوگنی سے بھی زیادہ کیوں ہوگئی اوراس سے سرکاری جہاز ساز کمپنی HAL کو الگ کرکے انل انبانی کی نجی کمپنی کو بھاری فائدہ پہنچانے کا کیا راز ہے؟

جانچ سے فرار:

کانگریس نے 24ستمبربروزپیرسنٹرل وجیلنس کمیشن سے رجوع کیا ہے جو ایک اعلیٰ اختیاراتی قانونی ادارہ ہے۔ اس کا کام ہی سرکاری محکموں میں کرپشن کی جانچ کرنا ہے۔ اسی دن مسٹرشردیادو نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) بٹھاکر اس سودے کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ مگر سرکارکسی بھی طرح کی جانچکیلئے آمادہ نہیں۔دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اگر ممبران پارلیمنٹ کے کمیٹی کے سامنے یا سی وی سی کے سامنے فائلیں آئیں تواس سے ایک دفاعی معاملہ سے ہمارے ’دشمن‘ مطلع ہوجائیں گے۔یہ دلیل ایک قانونی ادارے (سی وی سی) اورسینئر ممبران پارلیمنٹ پر بے اعتمادی کا اظہارہے۔ کیاصرف بھاجپا ہی وطن کے مفادات کی محافظ ہے اورباقی سب دشمنوں کے ایجنٹ ہیں؟ ہم اس سوچ کومستردکرتے ہیں۔ اگرسچائی سرکار کے ساتھ ہے تواس کے خود بڑھ کرسی وی سی کو متعلقہ فائلیں سونپ دینی چاہئیں۔ جے پی سی کی تشکیل لوک سبھا اسپیکراورراجیہ سبھا کے چیرمین کرتے ہیں۔کیا مودی سرکارکو ان کی صوابدید پر بھی بھروسہ نہیں؟ جب کوئی بات اس طرح چھپائی جاتی ہے اوراس کی وضاحت کے بجائے سوال کرنے والوں پر دائیں بائیں کے الزام لگائے جاتے ہیں شک اوربڑھ جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار اس سودے میں بری طرح پھنس گئی ہے اوراس کیلئے راہ فرارآسان نہیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں اسمبلی چناؤ سرپرہیں، اس لئے اس نے سوال کرنے والوں کو ملک دشمن قراردینے کا ہتھ کنڈااستعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ کہا جانے لگا ہے کہ کانگریس سابق فرانسیسی صدرہولانڈے کے ساتھ مل کر مودی سرکار اورہندستان کے دفاعی مفاد کے خلاف یہ مہم چلارہے ہیں۔جس وقت یہ معاہدہ ہوامسٹرہولانڈے فرانس کے صدر تھے۔ اورمودی سرکار نے ان کو یوم جمہوریہ کا خصوصی مہمان بنایا تھا۔ دوسرا ہتھ کنڈاپرانا پاکستان کے ملوث ہونے کا ہاتھ لگ گیا ہے۔سمجھا جاسکتا ہے کہ جیسے جیسے چناؤ قریب آئیں گے ان الزامات کی شدت اوربڑھے گی اورعوام کو ورغلایا جائے گا۔

عمران خان کی تجویز:

گزشتہ جمعرات (20ستمبر) پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی اس تجویز پرمودی سرکارمتفق ہوگئی تھی کہ وزیرخارجہ سشما سوراج اورپاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان نیویارک میں ملاقات ہوگی۔ مگر دوسرے ہی دنفیصلہ بدل دیا۔ سبب سرحد پر ایک فوجی کی ہلاکت کواورکشمیر میں مارے گئے برہان وانی کے اعزازمیں جاری ڈاک ٹکٹ کو بتایا۔ پاکستان نے نشاندہی کی ہے کہ فوجی کی ہلاکت مذاکرات کیلئے آمادگی سے دودن پہلے (منگل 18 ستمبر) کو ہوئی تھی جبکہ وانی کے ڈاک ٹکٹ موجودہ سرکارکے برسر اقتدارآنے سے پہلے 24جولائی کوجاری ہوئے تھے۔پاکستان نے ان دلائل کو مستردکرتے ہوئے کہہ دیا کہ اقرارکے فوراً بعدانکار اور مذکرات سے فرار دراصل داخلی سیاست کی بدولت ہے۔ پاکستان کے ایک وزیر نے تو، جن کا کوئی تعلق امورخارجہ سے نہیں، یہاں تک کہہ دیا کہ مودی سرکارکیونکہ رافیل معاملے میں عوامی جوابدہی سے بچنا چاہتی ہے، اس لئے توجہ ہٹانے کیلئے مذکرات سے انکارکردیا۔پاکستانی وزیرکا یہ بیان سفارتی نقطۂ نظر نامناسب ہے۔ ان کے اس غیرذمہ دارانہ بیان کو اچک کربھاجپا نے کانگریس پر پاکستان سے ہم قدمی کا الزام کاسیاسی کھیل شروع کردیا۔ افسوس کہ حکمراں پارٹی قومی مفادات پر پارٹی کے انتخابی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔

پاکستان کے ساتھ اس تازہ چپلقش سے سکھ بھائیوں کو بھی تکلیف ہوگی۔ پاکستان سکھ زائرین کو کرتارپورتک، جہاں سکھوں کا مقدس ترین گرودوارا دربار صاحب ہے، جو بابا گرونانک کادم آخر تک مسکن تھا،باباگورونانک کی 550ویں سالگرہ تقریب میں شرکت کے خواہش مند سکھ زائرین کو بغیر ویزا سفر کی سہولت دینے کوآمادہ تھا۔ یہ گرودوارہ ہندستان کی سرحد سے صرف چارمیل ہے۔ پاکستان وہاں تک خاص گلیارہ فراہم کرنے پربھیتیار تھا۔ جس پرمودی سرکارخاموش ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا امکان بھی تھا کہ نئی سرکار افغانستان کیلئے راہداری کھول دے۔ مگرمودی سرکار نے اس کوبھی نظرانداز کردیا۔

طلاق آرڈیننس:

طلاق سے متعلق جو بل سرکار نے تما م اعتراضات کو رد کرتے ہوئے لوک سبھا میں منظور کرا لیا تھا، اس کو راجیہ سبھا میں پیش کرنے سے پہلے بعض ترمیمات کا اعلان کیا گیا۔ ان ترمیمات کے ساتھ یہ بل راجیہ سبھا میں گزشتہ اجلاس کے دوران پیش ہونا تھا، مگرسرکارآخری دن تک ٹلاتی رہی۔ اجلاس کا آخری دن جمعہ کو تھا، جوضابطہ میں پرائیویٹ کام کاج کا دن ہوتا ہے۔ چنانچہ ترمیم شدہ بل پیش نہیں ہوسکا۔ اگرنیت درست تھی توچندروز پہلے پیش کیاجاتا اور اس پر بحث کرائی جاتی۔ اپوزیشن اپنے اس موقف پرقائم رہا کہ بل میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اس کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ چنانچہ طے ہوا کہ اب اگلے اجلاس میں پیش ہوگا۔ لیکن ایک ماہ بعد جب رافیل کا شور بلند ہوا،اچانک اس کا خیال آگیا۔ایک ایسا بل جو لوک سبھا میں منظور اورراجیہ سبھا میں زیرغور ہے، آرڈی نینس کی صورت میں لے آیا گیا۔ یہ پارلیمانی جمہوریت کی قدروں کے خلاف ہے۔ اس پر پرنٹ میڈیا میں توتنقید ہوئی مگرٹی وی چینلس کی وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سواب بھی ہے۔ اس کے خلاف کیرالہ کی ایک تنظیم نے سپریم کورٹ میں کیس دائرکردیا ہے کہ یہ آرڈیننس آئین کی خلاف ورزی ہے۔

تین طلاقپرسپریم کورٹ کے فیصلے کا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت کئی مسلم تنظیموں نے خیرمقدم کیا تھا اوراس طریقۂ طلاق کے خلاف عوامی بیداری مہم بھی چلائی گئی۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مسلم سماج میں طلاق کو ہرگزاچھا نہیں سمجھاجاتا۔ تین طلاق کو تواوربھی زیادہ براسمجھا جاتا ہے۔ پھریہ سارے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں۔ طلاق کے اس ناپسندیدہ طریقے کو روکنے کیلئے برابرکوششیں جاری ہیں۔ ظاہر ہے کہ سماج میں کوئی اصلاح قانون بن جانے سے ایک دن میں نہیں ہوجاتی۔اس میں مدت لگتی ہے۔ چھوت چھات کے خلاف کوئی سترسال پہلے قانون بنا تھامگرآج بھی جاری ہے۔ یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بعد بھی تین طلاق کے کیس ہورہے ہیں، اس لئے آرڈیننس لانا پڑاقطعی غلط دلیل ہے۔ دراصل اس کامحرک بھی رافیل سے توجہ ہٹانا ہے۔ورنہ اگرمسلم خواتین کا ایسا ہی درد ہوتا تو2002کی ماری ہزاروں مسلم خواتین کا بھی درد ہوتا۔ ہماری ان ہندوبہنوں کی فکربھی ہوتی جن کوبغیرطلاق چھوڑدیا گیا ہے یا بیوہ ہونے پرآشرموں میں دھکیل دیا گیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔