جمہوریت اور عدلیہ کو سنگین خطرہ لاحق ہے

عبدالعزیز

 یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نریندر مودی کے راج میں ملک کو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے کیونکہ جمہوریت اور عدلیہ پر خطرہ منڈلانے لگا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت سب سے بڑی عدالت کے انتظامی امور میں چیف جسٹس کی طرف سے بے ضابطگیوں کے خلاف عوامی عدالت میں چار سب سے سینئر (Most Senior) ججوں جے چلمیشور، جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس کورین جوزف نے آواز بلند کی۔ مسٹر گگوئی کا جسٹس دیپک مشرا کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا بننے کی باری ہے۔ اس کے باوجود حق گوئی اور بیباکی کا برملا اظہار کیا جس کیلئے وہ ملک و قوم کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ انھوں نے پریس کانفرنس سے گزشتہ روز(12دسمبر) خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم لوگ یہ بتاکر کہ سپریم کورٹ میں کیا کچھ ہورہا ہے قوم و ملک کے سامنے اپنا قرض اتار رہے ہیں ۔

اگر ایسا نہیں کرتے تو ہماری ضمیر فروشی اور مجرمانہ حرکت کے مترادف ہوتا۔ جسٹس چلمیشور نے کہاکہ آج کسی قوم کی تاریخ میں غیر معمولی قدم ہے۔ یہ کوئی خوشی اور مسرت کی بات نہیں کہ ہم لوگ پریس کانفرنس بلانے پر مجبور ہوئے ہیں ۔جسٹس کورین جوزف نے فرمایا کہ عدالت عظمیٰ کے ذریعہ کچھ ایسے فیصلے ہوئے جو خامیوں اور کوتاہیوں سے پر تھے، جس کی وجہ سے عدالتی نظام میں خلل واقع ہورہا ہے۔ جسٹس مدن بی لوکر نے کہاکہ چیف جسٹس نے من مانے طور پر اپنی ترجیحات کے پیش نظر چند مقدمات کی شنوائی کیلئے ججوں کی بنچ تشکیل کی جو ان کی خواہش کے مطابق فیصلے دے سکیں ۔ سینئر ججوں کو نظر انداز کرکے جونیئر ججوں سے کام لیا گیا تاکہ وہ چوں چرا نہ کرسکیں ۔ ان کے سُر میں سر ملا سکیں ۔

  جسٹس دیپک مشرا کا ریکارڈ پہلے ہی اچھا نہیں تھا۔ سہراب الدین انکاؤنٹر جس میں امیت شاہ ملزم تھے جسٹس مشرا نے انھیں بری کردیا تھا۔ اس طرح آدھار اور بابری مسجد کے مقدمات میں حال فی الحال انھوں نے جو بنچ کی تشکیل کی ہے وہ سینئر ججوں کو نظر انداز کرکے جونیئر ججوں پر مشتمل بنچ کی تشکیل کی ہے۔ جسٹس مشرا نے سنیما ہال میں قومی گیت پر کھڑے ہونے کو لازمی قرار دیا تھا جسے بعد میں modify (ترمیم) کیا گیا۔ نریندر مودی نے ججوں کی ایک کانفرنس میں اپنے اقتدار کے ابتدائی سال میں کہا تھا کہ حکومت اور ججوں میں خوشگوار تعلقات کی ضرورت ہے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جج حکومت کے اشارتے کو سمجھا کریں اور حکومت کی پالیسیوں کے مطابق فیصلے دیں ۔ جسٹس مشرا غالباً حکومت کی باتوں کو نظر انداز کرنا یا اس کے خلاف قدم اٹھانا غلط سمجھتے ہیں۔

  ہمارے ملک میں ججوں کی ایک بڑی تعداد بعض وجوہ سے اسی لائن پر سوچتی اور کام کرنا پسند کرتی ہے۔ مذکورہ ان چار ججوں نے دیگر ججوں کے حوصلے اور جرأت کو بڑھانے کی کوشش کی ہے جو ملک کیلئے اور خاص طور سے عدالتی نظام کیلئے اچھا شگون ہے۔ جمہوریت کے چار ستونوں میں سے یہی ایک ستون ہے جو کسی طرح غنیمت تھا مگر اس کا حال بھی اب برا معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اگر یہ ستون بھی گرگیا تو پھر جمہوریت کی بقا محال ہے۔ چاروں ججوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جمہوریت اور عدلیہ کو خطرہ لاحق ہے، لہٰذا وہ ملک کو باخبر کرنا چاہتے ہیں ۔ اب ملک کے عوام و خواص کو سوچنا اور سمجھنا ہے۔

  ابھی تک چیف جسٹس نے نہ تو پریس کانفرنس میں اٹھائی گئی باتوں پر اپنا رد عمل ظاہر کیا اور نہ اس خط کا جواب دیا جو پریس کانفرنس میں تقسیم کیا گیا اور دوماہ پہلے لکھا گیا۔ کانفرنس میں شریک ججوں نے یہ بھی کہاکہ چیف جسٹس سے ملاقات کرکے ان لوگوں نے شکایات کیں اور مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی مگر ان کی کوششیں رائیگاں گئیں جس کی وجہ سے ان سب کو عوام کے روبرو آنا پڑا۔ انتظامیہ پورے طور پر وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہے۔ مقننہ میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے جس کی وجہ سے وہ بھی بے اثر ہوتا جارہا ہے۔ میڈیا حکومت کی حاشیہ بردار ہوچکی ہے۔ عدلیہ میں کچھ جان تھی اس کی جان بھی نکالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ضرورت ہے کہ جو لوگ بھی جس ادارے میں ہیں اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ ادارے کی سلامتی اور اس کا وقار خطرے میں ہے تو ان کو آواز اٹھانا چاہئے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ چار ہیں یا ایک ہیں ۔

 حق گوئی کا اثر ہمیشہ پڑتا ہے کیونکہ جھوٹ ہمیشہ جھوٹ ہوتا ہے۔ اس کو ہر طرف سے خطرہ لگا رہتا ہے۔ وہ ایک اندھیرے کی طرح ہے جسے روشنی کی ہر کرن سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی نہ آواز اٹھائے تو اکیلئے اور تنہا آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ حق و انصاف کی بات کرنے سے قاصر ہوتے ہیں وہ مردہ دل ہوجاتے ہیں ۔ ان کا جینا اور مرنا بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے لیکن جو ہر حال میں بغیر کسی خوف و خطر کے آواز اٹھاتے ہیں انہی سے یہ دنیا باقی ہے اور اس وقت تک باقی رہے گی جب تک حق و انصاف کی ایک آواز بھی کسی کی زبان سے نکلتی رہے گی۔ کسی نے سچ کہا ہے : حق حق ہوتا ہے، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا اور روشنی کی ایک کرن بھی بحر ظلمات پر بھاری ہوتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔