کانگریس میں قیادت کا بحران کب ختم ہوگا؟

عادل فراز

ہندوستان کی قدیم قومی سیاسی جماعت کا نام کانگریس ہے۔ اس جماعت نے ملک کے ترقیاتی ڈھانچہ کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیاہے، اس میں کوئی شک و تردد نہیں ! جہدو جہد آزادی میں بھی کانگریس کے خدمات اظہر من الشمس ہیں اور انہیں ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جواہر لال نہرو اسی جدوجہد کے نتیجے میں ملک کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ کانگریس نے ہمیشہ ملک کو اعلیٰ قیادت کے بہترین اور کامیاب چہرے دیے ہیں جن میں مہاتما گاندھی، گوپا کرشن گوکھلے، مدن موہین مالویہ، لالہ لاجپت رائے، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، سروجنی نائیڈو،جواہر لال نہرو،راجندر پرساد،اندرا گاندھی، شنکر دیال شرما،راجیو گاندھی،اورایسے ہی دیگر اہم نام شامل ہیں۔ ہندوستان کا موجودہ ترقیاتی ڈھانچہ بھی کانگریسی پالیسیوں کا مرہون منت ہے جبکہ موجودہ مقتدر سیاسی جماعت بی جے پی کے پاس آج بھی ملک کی ترقی کے لیے کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی اپنی کرشماتی قیادت کی بنیاد پر اقتدار میں ہے اور کانگریس قیادت کے بحران کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کانگریس جیسی قومی جماعت کے پاس کوئی ایسا کرشماتی لیڈر نہیں ہے جو ملک کی سیاست میں انقلاب برپا کرسکے۔ اس کا نقصان یہ ہورہاہے کہ کانگریس کے اندر سے ہی بغاوت کی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور کارکنان پارٹی کی موجودہ قیادت سے مطمئن نہیں ہیں۔ زمینی سطح پر بھی کانگریس اپنا وجود کھو چکی ہے اور اس کے پاس بی جے پی کی طرح مضبوط رضاکارانہ کیڈر نہیں ہے۔

کانگریس کی موجودہ ابتر صورتحال کی ذمہ داری کسی ایک کے سر نہیں منڈھی جاسکتی۔ قیادت کے اس بحران کا طویل سیاسی پس منظر ہے جس پر نظر ڈالے بغیر اس بحران سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔ مشکل یہ ہے کہ آج بھی کانگریسی لیڈران خود احتسابی کے بجائے ایک دوسرے کو اس بحران کا ذمہ دار ٹہرارہے ہیں۔ خواہ وہ غلام نبی آزاد ہوں یا پھر کپل سبل جیسے قدآور لیڈر ہوں، ہر کوئی موجودہ لیڈر شپ کو کانگریس کے زوال کا سبب بتلا رہاہے۔ جبکہ کانگریس کے زوال کے اسباب و وجوہات اندراگاندھی کی ناقص پالیسیوں اور ان کے بعد راجیو گاندھی کی کمزور سیاسی منصوبہ گیری میں چھپا ہواہے۔ اندرا گاندھی کی آمرانہ سیاست اور ’ون مین آرمی ‘ والی ذہنیت نے کانگریس کو تباہ کردیا تھا۔ اندرا گاندھی نے کانگریس کے زمینی کیڈر کو بھی ختم کردیا تھا تاکہ کوئی نوجوان لیڈر ان کے سامنے کھڑا ہونے کی جرأت نہ کرسکے۔ اندرا گاندھی کی مثال برگد کی درخت کی طرح تھی جس کے سائے میں چھوٹے موٹے پودے پنپ نہیں سکتے تھے۔ ان کے بعد راجیو گاندھی نےمیدان سیاست میں قدم رکھا۔ راجیو گاندھی قومی سیاست سے بے بہرہ تھے۔ ان کی ناقص پالیسیوں اور کمزور سیاست نے کانگریس کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے زمانے میں ہی بی جے پی اور آرایس ایس نے عوام کے درمیان مقبولیت پیدا کی اور اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کانگریس نے نوجوانوں کے درمیان اپنی مقبولیت کھودی ہے۔ اس کی اہم وجہ کسی ایسے نوجوان قائد کا نہ ہونا ہے جو ان کے درمیان رہ کر جدوجہد کرسکے۔ راہل گاندھی یقیناََ نوجوانوں کے درمیان دیگر کانگریسی لیڈران کے بالمقابل زیادہ مقبول ہیں مگر وہ بھی نوجوان کارکنان کے درمیان جاکر کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو کانگریس سے منسلک کرنے کے لیے ’انڈین یوتھ کانگریس‘ کو منظم کیا تھا مگر آج اس کی صورتحال بھی ابتر ہے۔ ’یوتھ کانگریس‘ میں الیکشن کی روایت کو فروغ دیکر انہوں نے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارلی۔ کیونکہ راہل گاندھی اگر کسی ایک نوجوان لیڈر کی حمایت کرتے ہیں تو دوسرا نوجوان لیڈر ان کا مخالف ہوجاتاہے۔ ’یوتھ کانگریس ‘ نے پارٹی کو فائدہ کے بجائے نقصان پہونچایاہے اور عوام کے درمیان بھی اس ونگ کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ جس طرح دیگر پارٹیوں سے منسلک نوجوان زمینی سطح پر جدوجہد کرتے ہیں ’یوتھ کانگریس‘ اس جدوجہد سے بھی محروم ہے۔

اترپردیش جیسی بڑی ریاست میں کانگریس کے پاس نوجوان کارکنان اور رضاکاروں کی کمی ہے۔ ان کے پاس ’ڈور ٹو ڈور‘ جاکر کمپئین کرنے والی ٹیم موجود نہیں ہے۔ جو لیڈران فعال ہیں وہ بھی صرف اپنی ساکھ بچانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں جبکہ انہیں پارٹی کی ساکھ سے اتنی دلچسپی نہیں ہے۔ مثال کے طورپر کانگریس نے عمران مسعود کومغربی اترپردیش میں اپنا نوجوان چہرہ بناکر میدان میں اتارنے کی کوشش کی، جبکہ عمران مسعود کی شناخت ضلع سہارنپور کے باہر نہیں ہے۔ یعنی عوامی سطح پر عمران مسعود مقبول نہیں ہیں بلکہ وہ سہارنپور اسمبلی حلقے کے باہر پارٹی کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتے۔ ۔ حال یہ ہے کہ جب سے قاضی خاندان نے کانگریس کا دامن تھاماہے وہ خود بھی سیاسی طورپر کمزور پڑگئے ہیں۔ فی الوقت یہ صورتحال ہے کہ مغربی اترپردیش میں سیاسی ہوا بدل رہی ہے۔ عوام بی جے پی کی ناقص پالیسیوں کے خلاف کمربستہ ہے اور سماج وادی پارٹی تیزی سے ابھررہی ہے مگر کانگریس کا کہیں اتا پتا نہیں ہے۔ اگرقومی جماعت اترپردیش جیسی بڑی ریاست میں اپنا سیاسی وقار بحال نہیں کرسکتی تو اسے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اترپردیش میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں مگر کانگریس کہیں جدوجہد کرتی نظر نہیں آتی، یہ حیرت ناک ہے۔

قیادت کے بحران کا رونا رونے کے بجائے کانگریس کو چاہیے کہ اپنا نیا سیاسی کیڈر تیار کرے تاکہ نوجوان نسل کانگریس سے منسلک ہوسکے۔ اس وقت کانگریس سے زیادہ مضبوط کیڈر سماجوادی پارٹی کے پاس موجود ہے کیونکہ اکھلیش یادو نوجوانوں کے درمیان بیحد مقبول ہیں اوروہ ان کے ساتھ زمینی سطح پر کام بھی کرتے ہیں۔ اس کے باالمقابل کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نوجوانوں کے درمیان اپنی مقبولیت کھورہے ہیں کیونکہ ان کی عمر تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور سیاسی حیثیت کم ہورہی ہے۔ کانگریسی قدآور لیڈان بھی راہل گاندھی کو مضبوط کرنے کے بجائے انہیں کمزور کرنے میں مصروف رہتے ہیں، اس لیے کانگریس ایک مضبوط قیادت سے محروم ہوتی نظرآرہی ہے۔ کانگریسی لیڈران آج بھی اخباروں میں کالم لکھ کر اپنے سیاسی مؤقف کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کے لیڈران عوام کے درمیان جاکر اپنی بات رکھ رہے ہیں۔ راہل گاندھی بھی دیگر جماعتوں کی طرح زمین پر جدوجہد کو ترجیح دیتے ہیں مگر بزرگ کانگریسی لیڈران کی زمینی جدوجہد میں سانسیں پھولنے لگتی ہیں اس لیے وہ صرف قلمی جدوجہد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ انہیں شاید علم نہیں ہے کہ ہندوستان کی موجودہ سیاست کا رخ بدلنے کے لیے عوام کے درمیان جانا بیحد ضروری ہے جس طرح بی جے پی اور آرایس ایس عوام کے درمیان جاکر اپنا سیاسی مؤقف رکھ رہی ہیں۔ ہمارے سامنے تازہ مثال ممتا بنرجی کی ہے جنہوں نے ڈرائنگ روم اور ’اخباری کالم ‘ کی سیاست کو اہمیت نہیں دی بلکہ بی جے پی کو اسی کی زبان میں جواب دیا۔ نتیجہ یہ ہواکہ آج ممتا بنرجی بنگال کے اقتدار کی بازیابی میں کامیاب ہوچکی ہیں مگر کانگریس ہر ریاست میں اپنا سیاسی وقار کھوتی نظر آرہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریس بی جے پی اور آرایس ایس کی طرح اپنا زمینی کیڈر مضبوط کرے اور عوام کے درمیان جاکر نئے رہنما تلاش کرے جو کانگریس کے بے جان جسم میں روح پھونک سکیں۔ اس طرح موروثی سیاست کا خاتمہ بھی ہوگا اور نئے لوگ کانگریس میں شامل ہوکر ملک کی سیاست کادھارا بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔