ہندو مسلم نفرت کی دھیمی آنچ پر اُبلتا بہار

پنکج پریہ درشی

(بی بی سی ہندی) 

ترجمہ: نازش ہما قاسمی

بہار کے سیتا مڑھی ضلع میں دسہرے کے دھوم دھام کے بعد ۲۰ اکتوبر کو درگا کی ایک مورتی وسرجن کےلیے ایک ایسے علاقے سے لے جائی جانے لگی جہاں سے اسے جانے کی اجازت نہیں تھی کیوں کہ انتظامیہ کے نزدیک وہ علاقہ  انتہائی حساس علاقہ تھا۔

وسرجن جلوس پر پتھرائو کی خبر آئی اور پھر مورتی وسرجن کے لیے دوسرے راستے سے لے جائی گئی؛ لیکن اس کی اطلاع جیسے ہی شہر کے دیگر حصوں میں پھیلی بڑی تعداد میں لوگوں نے اس محلے پر دھاوا بول دیا۔

دونوں طرف سے پتھرائو ہوا، پولس نے معاملے میں دخل اندازی کی، انٹرنیٹ سروس کو بند کردیا گیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے جلد ہی حالات پر قابو پالیا ہے۔

لیکن ان سب کے درمیان لوٹتی بھیڑ نے ۸۰ سالہ ایک بزرگ زینل انصاری کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا یہی نہیں ثبوت مٹانے کےلیے لاش کو جلانے کی کوشش کی گئی۔

پولس کو ادھ جلی لاش برآمد ہوئی، سیتا مڑھی پولس سپرنٹنڈنٹ وکاس برمن نے بی بی سی کو بتایا ’’اس واردات کے بعد شرپسند عناصر نے لکڑی ڈال کر جلانے کی کوشش کی باقی تو تحقیقات میں پتہ چلے گا‘‘۔ پولس نے اس معاملے میں ۳۸ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

یہ ہے آج کا بہار تقریباً تین دہائی قبل ۱۹۸۹ میں بھاگلپور میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا اس فساد میں ۱۱۰۰ سے زائد لوگ مارے گئے تھے لیکن اس کےبعد طویل وقت تک بہار میں اکا دکا جھڑپ کو چھوڑ کر فرقہ وارانہ فساد دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔

جب سےنتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ دوسری بار گٹھ بندھن کرکے ۲۰۱۷ میں سرکار بنائی ہے حالات بدل گئے ہیں۔ اس سال رام نومی کے آس پاس کئی ضلعوں میں تشدد ہوا، انہیں میں سے ایک اورنگ آباد تشدد تھا۔

اس شہر کے نواڈیہہ میں ایک راستہ نعیم محمد کے گھر تک جاتا ہے،ٹوٹے پھوٹے گھر اور خستہ حال کمرے میں بیڈ پر بیٹھے محمد نعیم بات کرتے کرتے پھوٹ پھوٹ کر روپڑتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’بھیک مانگ کر کھارہے ہیں، اور بھیک مانگ کر علاج کرا رہے ہیں‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ان کے شہر نے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا جو اس سال رام نومی کے دوران ہوا۔

بھیڑ مشتعل تھی، غصے میں تھی، نعرے بازی کررہی تھی، ہاتھوں میں تلواریں تھیں، اور آنکھوں میں نفرت۔ پرائیوٹ ایمبولینس چلانے والے نعیم محمد جب کھانے کےلے گھر جارہے تھے تو ایک گولی آکر انہیں لگی۔

ٹھیک ٹھاک زندگی بسر کرنے والے نعیم محمد اب چل پھر نہیں پاتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ ’’ہماری کیا غلطی تھی؟ گولی ہمیں کیوں لگی، ہمارا خاندان کیسے چلے گا؟ ہماری زندگی کیسے کٹے گی؟‘‘۔

اس سال رام نومی کے آس پاس بہار کے کئی ضلعوں میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے اس بات کو سات مہینے ہوچکے ہیں۔اورنگ آباد کے علاوہ نوادہ، بھاگلپور، مونگیر، سیوان، روسڑا اور گیا جیسے شہروں میں تشدد ہوا۔ دکانیں لوٹی گئیں، جلائی گئیں، ان میں سے زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی تھیں، نعرے بازی ہوئی، پاکستان جانے کے نعرے لگے، ٹوپی اتارنے کے نعرے لگے، وندے  ماترم اور جے شری رام کے نعرے لگے، مسلم علاقوں میں ہندوئوں کے مذہبی جلوس پر پتھرائو بھی ہوئے ۔

بہار میں پہلی بار ایسا ہوا، جب ایک ساتھ اتنے ضلعے فرقہ وارانہ تشدد کی بھینٹ چڑھے۔

بہار کے اورنگ آباد میں عیدگاہ کی زمین پر بجرنگ دل کا جھنڈا لگادیاگیا، جلوس کو دوسری جانب موڑنے کی کوشش کی گئی جہاں گھنی مسلم آبادی تھی،اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے، بڑی تعداد میں لوگ تلوار لے کر سڑکوں پر اترے، چن چن کر مسلمانوں کی دکانیں جلائی گئیں۔

اسی طرح نوادہ میں مورتی توڑنے اور پوسٹر پھارنے کے الزام کے ساتھ کشیدگی شروع ہوئی وہیں روسڑا میں مقامی جامع مسجد پر حملہ ہوا اور مسجد پر  بھگوا جھنڈا لہرادیاگیا۔ الزام ہے کہ چیتی درگا وسرجن کے وقت مورتی پر ایک مسلم گھر سے چپل پھینکی گئی پھر پتھرائو توڑ پھوڑ اور آگ زنی ہوئی۔

بھاگلپور میں ’ہندو نئے سال‘ کو لے کرریلی نکلی، ہندو نئے سال پر ریلی نکالنے کا چلن بالکل نیا ہے اس ریلی میں نفرت پھیلانے والے نعرے لگے، نعرے بازی ہوئی اور تلوار لے کر سڑکوں پر نکلے، پتھر بازی ہوئی، دکانوں کو لوٹا، اور کئی دکانوں میں آگ لگا دی گئی۔

ان سبھی علاقوں میں بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل سے جڑے لیڈران اور کارکنان پر سنگین الزامات لگے ہیں۔ اورنگ آباد میں بی جے پی لیڈر انل سنگھ جیل گئے اور رہا ہوئے تو ضلع نائب صدر بنا دئیے گئے۔ نوادا میں تو ممبر پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ پر ہی لوگوں نے بھڑکانے کا الزام عائد کیا ہے حالانکہ وہ ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔ جب فساد بھڑکانے کے الزام میں وشو ہندو پریشد او ربجرنگ دل کے لیڈران کی گرفتاری ہوئی تو گری راج سنگھ ان سے ملنے جیل تک چلے گئے اس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا۔

بھاگلپور میں مرکزی وزیر اشونی چوبے کے بیٹے ارجت چوبے پر الزام ہے کہ انہوں نے اس جلوس کی قیادت کی تھی جو بنا اجازت کے مسلم محلے میں گھسا تھا اور تشدد بھڑک اُٹھا تھا ۔ارجت جیل بھی گئے۔

بھاگلپور کے سماجی کارکن ادے کہتے ہیں کہ ’’ہر جگہ ایک جیسا نمونہ تھا، ا یک ساتھ تلوار لے کر دوڑتے لوگ، ڈی جے پر بجتے نفرت پھیلانے والے گانے اور نئے نئے بہانے سے جلوس نکالنا اور اسے مسلم اکثریتی علاقوں میں لے جانا، ہنومان کا جھنڈا لال سے بھگوا ہوگیا، یہ ہر جگہ ایک جیسا کیسے ہوگیا؟ اس کا مطلب ہے کہ اس کی پلاننگ کی گئی تھی پورے بہارمیں یہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان سبھی جگہوں پر رام نومی اور دیگر جلوسوں میں ڈی جے پر اشتعال انگیز گانے بجائے گئے، جنہیں پوری تیاری کے ساتھ اسٹوڈیو میں ریکارڈ کرایاگیا ہے۔ گانوں کے الفاظ کچھ ایسے ہیں ’’ٹوپی والا بھی سر جھکا کے جے شری رام بولے گا‘‘۔

اُدئے کہتے ہیں ’’رام نومی کی واردات سے ہم لوگوں کو لگا کہ ایک گانا فساد کراسکتا ہے، گیت بھی دنگائی ہوسکتا ہے، اس کی تیاری دو سال سے چل رہی تھی ایسی جذباتی آواز دور دور تک لوگوں تک پہنچتی تھی۔ اس کا استعمال بڑے پیمانے پر رام نومی کے دوران کیاگیا، حملہ آور کے انداز میں جے شری رام کا نعرہ لگایا جاتا تھا‘‘۔

بہار میں رام نومی کے وقت ہوئے تشدد کے بعد ایک آزاد فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیاتھا کمیٹی کا کہنا تھا کہ پورے بہار میں ایک ہی طریقے پر تشدد ہوا، کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں تلوار کی آن لائن خریداری کا ذکر کیا تھا۔

بہار کے ہوم سکریٹری عامر سبحانی کہتے ہیں ’’تلواروں کی آن لائن خریداری کی کوئی جانکاری نہیں ہے، جلوس کو لائسنس دیتے وقت ہم یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ کوئی ڈی جے یا ایسے گانے نہیں بجائے جائیں گے ، فرقہ وارانہ تشدد میں کمی آئی ہے  اور پہلے کے مقابل اب حالات بہتر ہیں‘‘ ۔

لیکن گزشتہ دو برسوں کےد وران بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کی کتنی واراداتیں ہوئی ہیں اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ان کے پاس کوئی تخمینہ نہیں ہے، بی بی سی کے ذریعہ بہار پولس سے اس بابت باربار کوشش کرنے پر اہلکاران نے صرف اتنا ہی کہا کہ حالات پہلے سے اب بہتر ہیں۔

حالانکہ اس سال اپریل میں ’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ جب سے نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ دوبارہ گٹھ بندھن کرکے حکومت بنائی ہے فرقہ وارانہ تشدد کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق ۲۰۱۲ میں بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کی ۵۰ وارداتیں رونما ہوئیں لیکن سال ۲۰۱۷ میں ہندو مسلم ٹکرائو کی ۲۷۰ سے زیادہ وارداتیں رونما ہوئیں۔

جبکہ ۲۰۱۸ کے پہلے تین ماہ میں فرقہ وارانہ تشدد کی ۶۴ وارداتیں بہار میں ہوئی تھیں، رام نومی کے آس پاس بہار کے جن آٹھ ضلعوں میں تشدد ہوا اس میں اورنگ آباد، نوادہ، بھاگلپور، روسڑا، مونگیر، نالندہ، سیوان اور گیا شامل ہیں۔

۲۰۱۹ کا انتخاب قریب آرہا ہے، ایودھیا میں رام مندر کا معاملہ دوبارہ گرمایا جارہا ہے، ایسے میں نوداہ سے ممبر پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ بڑھ چڑھ کر بیان دے رہے ہیں۔ گری راج سنگھ کا تازہ بیان ہے ’’۷۲ سال سے جب سے کورٹ میںمقدمہ گیا ہے، کئی دہائیاں بیت گئیں اور کورٹ فیصلہ نہیں کرپارہا ہے، یہ صبر کی حدود پار کررہا ہے، ہندو خاموش ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے صبر کا امتحان لیاجائے اب ہندوئوں کے صبر کابندھن ٹوٹنے کے قریب آگیا ہے‘‘۔

ساتھی ہی انہوں نے الہ آباد کا نام بدلے جانے کے بعد یہ مشورہ دیا کہ بہار میں بھی مغلوں سے متعلق شہروں کے نام بدلے جانے چاہئیں۔

یہی نہیں بی جے پی لیڈران کے ان اشتعال انگیز بیانات سے وی ایچ پی اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کو حوصلہ مل رہا ہے ان کے ’’حساس ہندو‘‘ کیے جانے کے دعوے تیز ہوتے جارہے ہیں اور ہندوئوں کو مشتعل کرنے کی کوشش صاف نظر آرہی ہے۔

نوادہ میں وی ایچ پی کے لیڈر کیلاش وشوکرما اور بجرنگ دل کے نیتا جتیندر پرتاپ جیتو سے جیل میں ملاقات کرکے گری راج سنگھ نے ہنگامہ کھڑا کردیا تھا اب یہ دونوں جیل سے ضمانت پر چھوٹ چکے ہیں۔ وہ گری سنگھ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، کیلاش وشو کرما کہتے ہیں کہ گری راج سنگھ نے کوئی غلط کام نہیں کیا ۔ لیکن یہ پوچھے جانے پر گری راج سنگھ اگر عوامی لیڈر ہیں تو ان مسلم  متاثرین سے ملنے کیوں نہیں گئے ؟ جن کی دکانیں جلائی گئیں ہیں، اس پر وہ کہتے ہیں کہ ’مسلمان مجرم ہیں‘ اس لیے مجرموں سے نہیں ملناہے۔

وہ صاف کہتے ہیں کہ ہماری تنظیم میں مسلمانوں کےلیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’تنظیم میں مسلمانوں کو نہیں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سوچ الگ ہے، ہماری سوچ الگ ہے، ہم گائے کی پوجا کرتے ہیں اور وہ گئو ہتیا کرتے ہیں۔

سمستی پور کے پاس روسڑامیں آر ایس ایس کا جلوہ ہے، آر ایس ایس میں روسڑا کے ضلع صدر ادھیندر شری ببن کہتے ہیں کہ انہیں تشدد سے پرہیز نہیں، ’’عدم تشدد مذہب ہے ‘ لیکن مذہب کی حفاظت کےلیے ہنسا اس سے بھی بڑا مذہب ہے۔ جب ہم پر حملہ ہوتا ہے تو ہم اپنا دفاع کرتے ہیں۔

پٹنہ شہر میں نوراتری کے دھوم کے درمیان وی ایچ پی کے صوبائی وزیر نند کمار ہم سے اپنے گھر پر ملے، انہیں جمہوریت کی فکر ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’بھارت اکثریتی رہے گا، تبھی جمہوریت رہے گی، بھارت میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے، مسلمان بھی، بھارت کی پہچان رام سے ہے، گنگا سے ہے گیتا سے ہے۔

دراصل ہندی پٹی میں بہار ایک ایسا قلعہ بنا ہوا ہے جسے بی جے پی اپنے بل بوتے پر فتح نہیں کرپائی ہے، بہار ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی اپنا وزیر اعلیٰ نہیں بنا پائی ہے۔

جانکار کہتے ہیں کہ اتر پردیش اسمبلی الیکشن کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے شمشان اور قبرستان کا سوال اُٹھا کر ووٹروں کو اپنی جانب لبھانے کی کوشش کی اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔

پٹننہ میں پی ٹی آئی کے بیوروچیف نچیکیتا نارائن کہتے ہیں ’’بی جے پی بہار میں دوسرے درجے کے کھلاڑی کی فہرست میں ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ وہ دیگر ریاستوں کی طرح یاتو اپنے بل بوتے پر یا سینئر پارٹنر کے طور پر حکومت میں آئے‘‘۔

۱۹۸۹ بھاگلپور فساد اور پھر اس سال رام نومی کے قریب تشدد سے متاثرہ علاقوں میں کام کرچکے سماجی کارکن ادے کہتے ہیں کہ ’’ایسے حالات میں بی جے پی کی ٹاپ لیڈر شپ کی بھی پلاننگ ہوتی ہے، کس مدعے کو چھوڑیں، کس کو پکڑیں، ان سب کی تیاری ہوتی ہے، انہیں علم ہے کہ کب گائے کا مدعا اُٹھانا ہے اور کب مندر کا۔ ایک سال ایک واردات ہوتی ہے تو دوسرے سال دوسری، کبھی ہندو نئے سال کے نام پر تو کبھی رام نومی کے نام پر یہ الگ الگ علامات اور مختلف تاریخوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

مرکزی وزیر اشونی چوبے کے لڑکے اور بھاگلپور فساد میں اہم کردار نبھانے کی وجہ سے گرفتار ہوچکے ارجت چوبے نے بی بی سی کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا ’’بھارت ماں کی جھانکی اس ملک میں نکالنے کی اجازت نہیں ہے تو کہاں ہے؟ اپنے ملک میں ہم وندے ماترم بھی نہیں گا سکتے؟ اس ملک میں رام اور کرشن کی جے کار نہیں کریں گے تو کہاں کریں گے؟ بھارت ماتا کی شبیہ دنیا میں بنے اس کے لیے کوششیں جاری ہیں‘‘۔

ایک اور بات جو وی ایچ پی آر ایس ایس ، بجرنگ دل اور بی جے پی لیڈران میں یکساں ہے وہ ہے ہندو تو کی تعریف، ہندو راشٹر کا تصور اور ملک کے مسلمانوں کو سدھرجانے کی صلاح۔

ارجت چوبے کہتے ہیں کہ ’’ہندو تو زندگی جینے کا طریقہ ہے، ہندو لفظ پر جو سیاست شروع ہوئی وہ افسوسناک ہے، ملک میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے، مسلمان بھی ہندو ہیں، بھارت ماتا کی پوجا کرنا کون مسلمان بولتا ہے کہ غلط بات ہے؟ وندے ماترم قومی گیت بھی ہے اور آئینی بھی ہے۔

بھاگلپور میں آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکے سبودھ وشو کرما کہتے ہیں ’’جینے کا طریقہ ہے ہندو تو، مسلمان اصلاً ہندو ہیں، مسلمانوں کوبتانا پڑے گا، سمجھانا پڑے گا کہ وہ ہندو ہیں۔ ۱۸؍ کروڑ مسلمانوں کو سمندر میں تو نہیں پھینک سکتے ’شک اور ہون‘ ککی طرح اپنے میں سمو سکتے ہیں۔

بھاگلپور سے کانگریس کے ایم ایل اے اجیت شرما واسمبلی الیکشن کے درمیان سرخیوں میں رہے، انہوں نے ارجت چوبے کو شکست دی تھی، طویل وقت سے سیاسی پاری کھیلنے والے اجیت شرما کا کہنا ہے کہ  ’’جب جب بی جے پی کو لگتا ہے کہ اس کے ووٹوں میں کمی آرہی ہے اور جیتنے کی راہیں مسدود ہونے والی ہے تو وہ جان بوجھ کر دونوں فرقوں میں آگ لگانے کی کوشش کرتی ہے‘‘۔

اندھیرا اور خوف عام آدمی میں بھی ہے، لوگوں کو لگتا ہے کہ بہار کے سیاسی گھمسان میں کہیں آنے والے دنوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی دراڑ مزید گہری نہ ہوجائیں۔

نوادا میں نوراتری کے موقع پر مندر وں میں بھاڑی بھیڑ ہے، کئی جگہ اہم شاہراہ کو بند کردیاگیا تھا، مسلم آبادی کے درمیان ایسے ہی ایک مندر کے قریب اپنے گھر میں ہم سے فخرالدین علی احمد ملے۔ ان کی ناراضگی اپنے ممبر پارلیمنٹ گری راج سنگھ سے ہے وہ کہتے ہیں ’’میں گری راج سنگھ سے یہ کہناچاہتا ہوں کہ وہ سبھی لوگوں کے لیڈر ہیں اس لیے مسلم سماج کو اچھوت نہ سمجھیں، مسلم سماج کو بھی لے کر چلا جائے، اس طرح کا ماحول پیدا کیاجارہا ہے کہ مسلم سماج کو درکنار کیاجارہا ہے ، تاکہ فرقہ وارانہ تشدد پھیلے اور ہندو سماج کے ووٹر ان کی جھولی میں آجائیں اور ۲۰۱۹ میں آرام سے  الیکشن میں فتح یاب ہوجائیں‘‘۔

اورنگ آباد کی چلچلاتی دھوپ میں غصے سے لال ایک مسلم نوجوان خالد کہتا ہے ’’یہاں کے لوگوں سے کوئی شکایت نہیں ہے، باہری لوگوں نے آکر یہاں تانڈو کیا ، وہ فساد کرانا چاہتے ہیں، ہندو مسلمانوں میں لڑائی چاہتے ہیں، ووٹ بانٹنا چاہتے ہیں‘‘۔

بھاگلپور کے جوگیندر یادو مسلمانوں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور انہیں افسوس ہے کہ ان سب کے درمیان بے گناہ لوگ پس جاتے ہیں اور ان کے جیسے لوگ روزگار کےلیے ترس جاتے ہیں۔

مہاگٹھ بندھن کو چھوڑ کر این ڈی اے میں شامل نتیش کمار کی مجبوری پر تو چرچا ہے ہی ساتھ ہی اس پر بھی گفتگو ہورہی ہے کہ جب بہار کے کئی ضلع فسادات کی آگ میں جھلس رہے تھے نتیش کمار نے چپی کیوں سادھ رکھی تھی؟

نتیش کمار کی مجبوری او ربی جے پی کی بہار میں بڑھتے امتحان کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کی بڑھتی واردات ریاست کو کس جانب لے جارہی ہیں؟

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اپنی سیکولر ازم کی شبیہ کو بڑے زور شور سے پیش کرتے ہیں، ریاست میں مسلمانوں کو لے کر ان کی کئی اسکیمیں ہیں، جن کا ڈھول وہ گاہے بگاہے پیٹتے رہتے ہیں، لیکن بی جے پی نیتائوں کے بھڑکائو بیانات اور ہندو تنظیموں کی سرگرمی نے انہیں سوچ میں ڈال دیا ہے۔

پٹنہ میں پی ٹی آئی کے بیوروچیف نچیکیتا نارائن کہتے ہیں ’’جب پہلی بار نتیش کمار بی جے پی سے الگ ہوئے، اس وقت نریندر مودی اور امیت شاہ کی جارحانہ قیادت بی جے پی میں ابھری، اس کے بعد یہ بات سامنے آرہی ہے تھی کہ بی جے پی اپنے دم پر اپنی وسعت کے لیے کوشش کرے گی، اس بار بی جے پی نتیش کی زیر نگرانی رہے گی ہی نہیں، وہ اپنا ہندو تو کا ایجنڈا بڑھانے کی کوشش کرے گی۔لیکن نتیش کمار کی مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ اپنی سیکولر ازم شبیہ سے سمجھوتہ نہیں کرناچاہتے اور نہ ہی موجودہ سیاسی صورتحال میں بی جے پی کا دامن چھوڑ نے کی حالت میں ہیں‘‘ ۔

 تونتیش کمار کے سامنے کیا حکمت عملی ہے؟ نچیکیتا نارائن کہتے ہیں ’’نتیش کمار کے لیے یہی چارہ ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ بنے رہیں، ساتھ ہی انتظامیہ یا بیوروکریسی پر جو پکڑ ہے، اس کے بل بوتے پر ایسے فرقہ وارانہ فسادات جہاں تک ممکن ہو قابو پانے کی کوشش کریں۔‘‘

بہار میں فرقہ وارانہ فسادات کے معاملوں میں بڑی تعداد میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ ہندو تنظیموں کے کارکنان اور لیڈران گرفتار کیے گئے ہیں، غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ہندو تنظیموں کے لیڈران اور کارکنان میں پولس اور انتظامیہ سے ناراضگی ہے۔

کیا یہ نتیش کمار کی سختی اور فرقہ وارانہ تشدد پر ان کے رخ کو دکھاتی ہے، جانکار تھوڑا ’ہاں‘ اور تھوڑا ’نا‘ کہتے ہیں۔

نچیکتا نارائن کہتے ہیں ’’بہار کے جن علاقوں میں تشدد ہورہا تھا وہاں کارروائی سے انتظامیہ پیچھے نہیں ہٹی، اس دوران انتظامیہ کے ہاتھ نہیں بندھ گئے تھے، تشدد کے طریقے کو نتیش کمار نے ڈی کوڈ تو کرلیا ہے لیکن وہ دائو کھیل رہے ہیں کہ دیکھتے ہیں کہاں تک چلتا ہے‘‘۔

شاید یہی وجہ ہے کہ نتیش کمار اس مدعے پر بی جے پی کی کبھی کھل کر مخالفت نہیں کرتے، گری راج سنگھ جب تشدد بھڑکانےوالوں سے جیل میں جاکر ملے تو نتیش نے دبے لفظوں میں اعتراض کیا تھا، جب اشونی چوبے کے بیٹے پولس اور ا نتظامیہ سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اس وقت بھی نتیش کمار کی آواز دھیمی ہی تھی۔ لیکن ان کی پارٹی جنتا دل یونائیٹیڈ کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے مدعے پر ان کی پارٹی کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔

پارٹی ترجمان اجے الوک کہتے ہیں ’’فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے، جسے ہم نے کنٹرول کرلیا ہے، اس لیے اس بار دسہرے کے ومقع پر ہم خود ہم فعال تھے، خود وزیر اعلیٰ مانٹیرنگ کررہے تھے، مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ان کے خلاف ہیں، کیوں کہ ہم بی جے پی سے مل کر حکومت چلا رہے ہیں اور ہندو تنظیم یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ان کے خلاف ہیں، نتیش کمار وہی کام کررہے ہیں جو ریاست کے لیے مناسب ہے۔ ‘‘

لیکن روسڑا کی مسجد کے باہر ہم سے ملنے والے ارشاد احمد نتیش کمار کے رویہ سے کافی ناراض ہیں وہ کہتے ہیں ’’انتظامیہ اگر ٹھیک رہتی تو فسادات نہیں ہوتے، نتیش کمار مسلمانوں کو اس لیے بھروسہ دلا رہے ہیں کیو ںکہ مسلمانوں کا ووٹ چاہئے، جب بہار میں ۱۷ سے ۱۸ جگہوں پر فسادات ہوئے تو نتیش کمار کا ایک بھی تبصرہنہیں آیا وہ تو تسلیم ہی نہیں کررہے تھے کہ فسادات ہوئے ہیں‘‘۔

ارشادعالم کی بات اس لیے بھی سچ لگتی ہے کیوں کہ  جنتا دل (یو) کے ترجمان اجے الوک نے بھی یہ ماننے سے انکار کیا ہے کہ بہار میں فرقہ وارانہ تشدد رونما ہوئے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی تھی جسے قابو میں کرلیاگیا۔

بہار بی جے پی کے صدر نتیانند کہتے ہیں ’’مذہب اور عقیدت شخصی ہوتا ہے، وہ پارٹی کی بنیاد نہیں ہوتی ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کسی لیڈر کااس میںکوئی ہاتھ نہیں ہے، معاملہ عدلیہ میں ہے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا‘‘۔

جانکار  یہ بھی مانتے ہیں کہ بدلے حالات میں چونکہ پارٹی اقتدار میں ہے اسلیے وہ کھل کر سامنے نہیں آئیں گے اور اس کا کام بجرنگ دل، وشو ہندو پریشدجیسی تنظیمیں کرتی رہیں گی۔

پی ٹی آئی کے بیوروچیف نچیکیتا نارائن کہتے ہیں ’’بی جے پی اپنے ہندو تو ایجنڈے کو پھیلانے کےلیے ایسا کچھ نہیں کرے گی جس سے سرکار کی بدنامی ہو، تلوار مارنے کےلیے نہیںہے، ڈرانے اور کشیدگی پھیلانے کےلیے ہے۔ مذہبی جلوس کی آڑ میں اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں تاکہ دوسرے فرقے والے ڈر جائیں‘‘۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں اب فرقہ واریت سیاسی کشیدگی پھیلانے تک ہی محدود رہے گی، یہ بڑے پیمانے پر تشدد تک نہیں جائے گی؟ کیوں کہ اس کے بنا کام چل جاتا ہے اور حکومت پر ناکامی کا الزام عائد نہیں ہوتا۔

سماجی کارکن اودے کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ کہتے ہیں ’’یہ لوگ بڑے فسادات نہیں چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی وارداتیں رونما ہو ں جس سے ٹینشن ہو اور ٹینشن کو سماجی بنیاد بنادیاجائے، یہ لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں،اور ان کے اندر نفرت پیدا کرتے ہیں‘‘۔

اس پورے ہنگامے میں ایک اور چونکانے والے حقائق سامنے آئے ہیں اور وہ ہے تشدد میں دلتوں اور پچھڑوں کی حصہ داری، یہ حقائق بھاگلپور میں دیکھنے کو ملا تھا، جہاں بڑیت تعداد میں اس فرقے کے لوگوں کی گرفتاری ہوئی تھی، دراصل آر ایس ایس دلتوں اور پچھڑوں میں بڑی تحریک چلاتی رہی ہیں۔

بھاگلپور میں آر ایس ایس کے لیڈر سبودھ وشوکرما کہتے ہیں ’’دلتوں کے درمیان بھارتی تہذیب کام کرتی ہے، ہم انہیں بتاتے ہیں کہ برہمنوں کی مخالفت مت کرو خود برہمن بن جائو، ویسے بھی بہار میں جب فسادات ہوتے ہیں تو کٹنے مرتے توقبائلی اور پچھڑی ذاتیوں کے ہی لوگ ہیں‘‘۔

سماجی کارکن اودے ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں وہ کہتے ہیں ’’دلت اور پچھڑے کو سماج میں ابھرنے کا موقع ہیں ملتا تو دنگے میں ہی سہی انہیں قیادت سونپی جارہی ہے، ان کی قیادت کو قبول کیا جارہا ہے، انہیں لگتا ہے کہ ان کی لیڈر شپ میں یہ کارروائی ہورہی ہے، جن کو قیادت کرنے کا اسپیس نہیں ملا وہ دنگے میں آگے آرہے ہیں، بھاگلپور میں ۱۹۸۹ میں بھی یہی ہوا تھا اور اس سال رام نومی کے موقع پر پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات میں بھی ایسا ہی ہوا‘‘۔

بہار میں وقفے وقفے سے ہورہے فرقہ وارانہ تشدد اور تیوہاروں کے موقع پر بڑھتی کشیدگی فکر کا موضوع ہے، امید ہے کہ جمہوریت کے سب سے بڑے تیوہارمیں فسادات بھڑکانے کی کوشش کی جائے کیو ںکہ فرقہ وارانہ کشیدگی سے سیاسی کڑھائی گرم ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔