ایک صالحہ خاتون کوشیخ مقبول احمد سلفی کی چند نصیحتیں

مقبول احمد سلفی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید کہ آپ بخیروعافیت ہوں گے۔

شیخ صاحب مجھے آپ سے ایک اپنا ایک ذاتی سوال پوچھنا ہے جو تھوڑا سا لمبا بھی ہے آپ جب بھی مصروف نہ ہوں تو مجھے تسلی بخش جواب دیجیے گا خواہ آڈیو میں یا ٹیکسٹ میں جیسے آپکو آسان لگے۔

شیخ صاحب!! انسان کیسے ہمیشہ ایمان کی ایک ہی حالت پر رہ سکتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایمان کی حالت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے؟

شیخ صاحب میں جو کچھ بتانے جارہی ہوں اس لئے نہیں کہ میں دکھاوا کرنا چاہ رہی ہوں اللہ تعالی ہم سب کو ریاکاری سے بچائے (آمین) یہ بات اس لئے کہہ رہی ہو کیونکہ شیطان انسان کے دل میں وسوسہ پیدا کرتا ہی رہتا ہے۔

میں پہلے فرائض کے ساتھ نفلی عبادت کا بھی اہتمام کیا کرتی تھی اور قیام اللیل میں بھی انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھی، ہر وقت باوضو رہنا اور ایک ماہ میں ایک قرآن ختم کرنا، سنت موکدہ اور غیر مؤکدہ کا بھی اہتمام کیا کرتی تھی لیکن اب مجھے یہ سب بہت مشکل لگنے لگا ہے۔ یہ سب اللہ کی رحمت سے ہی ممکن ہوا تھا اور بہت دیر تک میری یہی عادت رہی لیکن اب پتہ نہیں کیوں میں یہ سب نہیں کر پارہی ہوں، فرائض کے علاوہ کوئی نفلی عبادت نہیں کر پاتی اور کبھی کبھی تو فرائض یعنی فرض نماز بھی میرا دل چاہتا ہے کہ جلدی سے ختم کر لوں سر چکراتا ہے تو بیٹھ کر ادا کرنے لگ جاتی ہوں یا قیام کو چھوٹا کر دیتی ہوں اور شیخ صاحب میں قرآن کی حافظہ بھی ہوں (الحمدللہ) لیکن قرآن پر بھی مکمل توجہ نہیں دے پارہی، مجھے یہ خوف لاحق ہے کہ اگر میری یہی کیفیت رہی تو مجھے قرآن بھولنا شروع ہوجائے گا۔

اور سب سے اہم بات یہ کی میری اس تبدیلی پر میرا دل بالکل مطمئن نہیں ہے میرا ضمیر ملامت کرتا رہتا ہے مجھے کہ میں یہ ٹھیک نہیں کر رہی،میرا دل کسی نہ کسی خوف کا شکار رہتا ہے۔ جب میں رات کو سونے لگتی ہوں، آنکھیں بند کرتی ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے جیسے ایک فلم چل رہی ہو جس میں چھوٹے چھوٹے نقصان ہوتے نظر آتے ہیں کبھی یوں لگتا ہے جیسے میں کسی بلندی سے نیچے گر رہی ہوں۔ ان سب خیالات کیوجہ سے میں رات کو جلدی سو نہیں پاتی اور جب نیند آجاتی تو تہجد رہ جاتی ہے جس کا مجھے بے حد افسوس ہوتا ہے۔

اور سب سے بڑھ کر موت کا خوف بہت زیادہ رہنے لگا ہے مجھے لگتا ہے کہ کسی دم موت آجائے گی تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گی۔ میں جانتی ہوں کہ موت کی تیاری تو کرنی چاہیے لیکن شیخ صاحب کیا اتنا موت سے ڈرنا کہ انسان ہر وقت پریشان رہنا شروع ہوجائے کہ ابھی کہ ابھی کچھ ہوجائے گا۔

شیخ صاحب میرا گھریلو ماحول مذہبی ہے شادی شدہ نہیں ہوں، میرے والدین اور میرے بہن بھائی بھی دینی سوچ رکھتے ہیں اور توحید پرست ہیں اور جن لوگوں سے میرا ملنا جلنا ہے وہ بھی دین دار ہیں الحمدللہ،،

اور میری گھریلو مصروفیت فی الحال کھانا پکانا اور صفائی ستھرائی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور گھر میں قرآن کی دہرائی کرتی رہتی ہوں اور اس کے علاوہ ہفتہ میں دو دن قرآن کی تفسیر پڑھنے جاتی ہوں اور واٹس ایپ پر کچھ اسلامک گروپس کی نگراں ہوں۔

شیخ صاحب آپ مجھے کیا نصیحت کریں گے کہ میں اس پر عمل کر کے اس کیفیت سے باہر نکل آؤں اور مستقل مزاجی کے ساتھ تمام فرائض اور نوافل ادا کر سکوں۔معذرت چاہتی ہوں کہ میرا سوال زیادہ لمبا ہی ہوگیا میں آپ کے جواب کی منتظر رہوں گی۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فرح یحی  :  تاریخ : 26/ 9/ 2918

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ابھی ابھی آفس سے اپنی رہائش پہ آیا، عشاء کی نماز پڑھنے کے بعدسب سے پہلے آپ کے میسیج کا دوبارہ مطالعہ کیا، حالات کے متعلق غور وفکر کیا۔ آپ کا  دینی وعلمی پس منظر مجھے بیحد پیارا لگا۔ آپ حافظہ قرآن ہیں، بڑی سعادت کی بات ہے۔ ایک عورت کے لئے حافظہ قرآن ہونا ااتنی بڑی زینت ہے کہ وہ زینت سونے چاندی کے زیورات سے بھی میسر نہیں ہوگی۔ الحمدللہ علی ہذہ النعمۃ  العظیمۃ

بلاشبہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے، ایک جگہ کبھی بھی منجمد نہیں رہتا، علماء نے آیات قرآنیہ اور احادیث طیبہ سے معنی اخذکیا ہے کہ طاعات سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اورعصیاں سے کمی واقع ہوتی ہے۔ الحمد للہ آپ کی اپنی زندگی بیحد اچھی رہی ہے، تلاوت قرآن، نمازوں کی پابندی، قیام اللیل، دینی مشاغل، گھر کا دینی ماحول، ، یہ سب چیزیں انسان کے ایمان کوبہت حد تک گھٹنے سے بچاتی ہیں بلکہ اس کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ  زیادتی ایمان کے اسباب ہیں۔

اصل میں کبھی کبھی ہوتا یہ ہے کہ داخلی ماحول ہمارا بہتر ہے مگر زمانہ تو فتنے کا ہے، خارجی ماحول بہتر نہیں ہے۔ تو خارجی ماحول کا کبھی کبھی انسان پر برا اثر پڑ جاتا ہے اسی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اپنے لئے اور اپنی اولاد کےلئے بتوں کی عبادت سے پناہ مانگنے کی دعا کی تھی۔ کس قدر سوچنے کا مقام ہے کہ اللہ کے جلیل القدر بلکہ اولوالعزم پیغمبر بتوں کی عبادت سے اللہ کی پناہ طلب کررہے ہیں، وجہ یہی تھی کہ  ماحول ومعاشرہ  بتوں کی عبادت والا تھا۔

اس وجہ سے انسان کو ہمیشہ اللہ تعالی سے صراط مستقیم پر گامزن رہنے، عمل صالح انجام دینے، فتنہ وفساد سے بچنےاور ایمان ویقین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق ودعا کرتے رہناچاہئے۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ نبی ﷺنے بڑے بڑے نازک موڑ پہ رب سے دعائیں کی ہیں مثلا جنگ بدر کے موقع پر مسلمان کی تعداد کم تھی اگرمسلمان  ہار جاتے تو اسلام کو بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس قدر اسلام اور مسلمانوں کے لئے سخت خطرہ تھا آپﷺ نے رب العالمین سے دعائیں کیں اور اللہ تعالی  دعا کو شرف قبولیت سے نوازکرمسلمانوں کوفتح نصیب فرمائی۔

دعا کے علاوہ اپنے ماحول کو بہتر سے بہتر بنائیں، اپنے داخلی ماحول کو خارجی ماحول سے متاثر نہ ہونے دیں، اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ گندے ماحول میں جایا ہی نہ کریں، گندے لوگوں سے ملنا یا انہیں گھر بلانا چھوڑ دیں۔ ویسے یہ آج کے وقت میں بہت مشکل کام ہے مگر ایمان وعمل  کی حفاظت کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم بڑے آزمائش کے دور میں جی رہے ہیں، آزمائش میں کامیابی قربانی کا مطالبہ کرتی ہے۔

ایک طریقہ دعا کا اختیار کیا جائے جس میں اپنی پریشانیوں سے نجات مانگی ہے اور ساتھ ہی عملی طور پر ماحول کے برے اثرات پیدا کرنے والے امور سے بچا جائے۔ اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اپنی صحبت اچھی بنائیں۔ جیسے ماحول کا اثر ہوتا ہے ویسے ہی صحبت کا بھی اثر ہوتا ہے۔ صحابہ کرام مجلس بناکر بیٹھا کرتے اور اللہ کے ذکر سے ایمان میں زیادتی پیدا کرتے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ صحابہ سے فرماتے ہیں :

"اجلسوا بنا نؤمنُ ساعةً، يعني نذكرَ اللهَ تعالى”

ترجمہ: ہمارے پاس بیٹھوتاکہ ہم کچھ ساعت ایمان تازہ کریں یعنی اللہ تعالی کا ذکر کریں۔

اسے شیخ البانی نے شیخین کی شرط پر کہا ہے۔ (الایمان لابن ابی شیبہ : 105)

اس سے دو بات معلوم ہوئیں، ایک تو یہ کہ نیکوکاروں کی صحبت اختیار کرنی چاہئے، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو وعظ ونصیحت ہوجاتی ہے، ایک کی نیکی دوسرے کو متاثر کرتی ہے اور ایک کی برائی پہ دوسرے کو ٹوکنے کا موقع ملتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں کثرت سے ذکر الہی کرنا چاہئے، اللہ کا ذکر زبان کی حفاظت، دل کی پاکیزگی، ایمان میں زیادتی اور قلبی سکون کا باعث ہے۔

آپ نے ایک مسئلہ یہ بھی بیان کیا کہ عبادت تو کرتی ہیں مگر اب پہلے جیسے دل نہیں لگتا ہے، یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ اس پر توجہ اور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔میری نظر میں عبادت میں دل نہ لگنے میں تین اہم اسباب ہوسکتے ہیں۔

ایک سبب تو ماحول ہوسکتا ہے خواہ داخلی ہو یا خارجی، چونکہ داخلی ماحول اچھا ہے تو خارجی ماحول کا کہیں  نہ کہیں سے اثر پیدا ہورہا ہوگا، اسے محسوس کرکے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اوپر بھی یہ بات ذکر کی گئی ہے۔

دوسرا سبب شیطان ہوسکتا ہے کیونکہ یہ انسان کے ساتھ ہمہ وقت لگا رہتا ہے، وہ بھلا کب چاہے گا کہ کوئی اللہ کی عبادت کرے، اس لئے دلوں میں وسوسہ ڈالنا، برائی کا خیال پیدا کرنا، عبادت سے بھٹکانا رات ودن اس کا کام ہے۔ ایک صحابی نے نبی ﷺ سے نماز میں وسوسہ پیدا ہونے کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے نماز سے قبل خنزب شیطان(نماز میں وسوسہ ڈالنے والا) سے اللہ کی پناہ مانگنے کی نصیحت کی۔

اس لئے شیطان کے شر سے پناہ مانگی جائے، ذکر الہی اور فرائض ونوافل کے ذریعہ اسے مایوس کیا جائے اور اپنے اوپر غالب ہونے سے روکا جائے۔

تیسرا سبب دنیا وی کوئی شدید فکر یا حاجت درپیش ہوسکتی ہے جس کا خیال ذہن ودل پر اثراندازکرگیا ہو، ہر وقت وہ خیال آتا ہو، نماز میں، سونے میں، بیٹھے بیٹھے یا جلوت وخلوت میں  ہمیشہ۔ اس پریشانی سے جب تک چھٹکارا نہ مل جائے عبادت میں خشوع وخضوع محال ہوجاتی ہے بلکہ کسی کام میں دل نہیں لگتا ہے۔اس وجہ سے  اپنی اس حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کریں  جس کی فکر کھائے جارہی ہےمثلا شادی کی رکاوٹ، گھریلو پریشانی،قرض،یا دنیاوی کوئی مقصد ہو جو جائز ہو تو اسے پورا کرلیں پھر سوچ وفکر دور ہوجائے گی، کام میں من لگے گا اور پھر سے عبادت میں لذت محسوس ہوگی۔

اللہ تعالی نے آپ کو حافظہ قرآن بنایا ہے، اس کی برکت نہ صرف آپ تک محدود ہوگی بلکہ پورے گھروالوں کے لئے ہوگی اور اس برکت سے گھر کے باہر کی عورتوں کو بھی فیض پہنچاسکتی ہیں۔ جس کے پاس قرآن ہے اس کے پاس مکمل کامیابی ہے۔ آپ اپنے حفظ کو پکا رکھنے کے لئے صبح وشام تلاوت کیا کریں اور اپنا ایک روٹین بنائیں اس کے حساب سے قرآن کو ترجمہ وتفسیر کے ساتھ پڑھا کریں۔ جو پڑھیں اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینے کی نیت سے پڑھیں۔ آپ کے واسطے ماشاء اللہ تلاوت کے لئے تو کوئی دقت نہیں ہوگی، کھانا بناتے وقت، کام کرتے وقت اور سوتے وقت جب چاہیں آپ علی الترتیب زبانی قرآن پڑھا کریں۔ اس سے بہتر کار خیر اور کیا ہوگا؟ گھر میں ممکن ہوتو قرآن کی چند آیات کی تلاوت مع ترجمہ وتفسیر گھر والوں کوبھی  سنائیں خواہ ہفتہ یا دوہفتہ میں ہو، یا اپنی ہمجولیوں کے درمیان ایک قرآنی پروگرام رکھا کریں۔ اس سے آپ کے اندر دین کا شوق مزید بڑھے گا، عبادت کی بے رغبتی ختم ہوگی، خیالات و وساوس ختم یا کم ضرور ہوں گے اور عمل کی طرف پیش قدمی کا بہتر جذبہ پیدا ہوگا۔ اس نیکی کی برکت سے دل کی بے چینی، بے خوابی، برے خواب اور گھبراہٹ سب رفتہ رفتہ دور ہوتے چلے جائیں گے۔

صبح وشام کے اذکار اور فرض نمازوں کے بعد کے اذکار تو بالکل نہ چھوڑیں، اس کے بے شمار فوائد اپنی آنکھوں سے نظر آئیں گے اور اگر آپ سوشل میڈیا پہ زیادہ وقت صرف کرتی ہیں تو اس عادت کو چھوڑ دیں، یہ عادت  واجبات وفرائض میں مخل اور وقت کے ضیاع کے ساتھ بہت سارے کاموں پر غفلت کا اثر چھوڑتی ہے۔ محض ایک آدھ گھنٹے ہی استعمال کیا کریں وہ بھی صرف اور صرف دینی نقطہ نظر سے۔ اس کا وقت بھی متعین کرلیں کہ مجھے صرف فلاں وقت میں ہی چند منٹوں کے لئے  سوشل میڈیا کااستعمال کرنا ہے۔ اگر زیادہ وقت دیں گی تو ہمیشہ اسی طرف دھیان رہے گااور کام کاج میں حتی کہ عبادت میں مخل ثابت ہوگا۔

آخر میں نبی کریم ﷺ کی بہت ہی قیمتی نصیحت بیان کرتا ہوں، اگر اس پہ ہم چلنے لگیں تو زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں رہیں گی، غم سے نجات ملے گی، بیماریوں کا مداوا ہوگا، قربت الہی نصیب ہوگی، اللہ تعالی  کے یہاں بھی عزت ملے گی اور لوگوں میں بھی ہماری تکریم ہوگی۔ فرمان نبوی ہے :

اتَّقِ اللَّهِ حيثُ ما كنتَ، وأتبعِ السَّيِّئةَ الحسنةَ تمحُها، وخالقِ النَّاسَ بخلقٍ حسنٍ(صحيح الترمذي:1987)

ترجمہ: تو جہاں کہیں بھی رہو اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، برائی کے بعد نیکی کرلیا کرو، نیکی برائی کو مٹادے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔

اس حدیث پاک میں نبی ﷺ نے لوگوں کو تین باتوں کی نصیحت فرمائی ہے۔

پہلی بات اللہ سے ڈرنے کی نصیحت فرمائی، یہ خوف الہی کل کائنات ہے۔ جس کو جلوت وخلوت میں اللہ کا ڈر نصیب ہوگیا اس کی دنیا اور آخرت سنور گئی۔ خوف الہی ہی تقوی ہے جو انسان کو رب کی بندگی اور عمل صالح پر ابھارتا ہے، برائی سے بھی روکتا ہے۔ اپنے اعمال کاجائزہ لیں، حقوق وفرائض میں جہاں کوتاہی ہوئی اس کی تلافی توبہ سے کریں اگر اللہ سے متعلق ہیں  اور تصفیہ سے کریں اگر بندوں سے متعلق ہیں۔

دوسری بات برائی کرنے کے بعد نیکی کرنے کی ترغیب دی۔ بنی آدم خطا کا پتلا ہے، جب جب ہم سے غلطی ہوجائے، اس پہ شرمندہ ہوں، رب کی طرف التفات کریں، اس سے معافی طلب کریں اور برائی کے بدلے ایک اچھائی کرلیں، وہ اچھائی ہماری برائی کو ختم کرڈالے گی۔

تیسری بات انسانوں سے اچھے برتاؤں کی تعلیم دی۔ ہم جس سماج میں رہتے ہیں سب ایک دوسرے کا احترام کریں، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں، کسی کا دل دکھاکر آپ بھی کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ مظلوم کی آہ ظالم کی خوشیاں تباہ کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سب کے ساتھ اخلاق ومحبت سے پیش آنے کی نصیحت فرمائی۔

یہ تینوں باتیں اپنے لئے عملی زیور بنالیں، اس زیور سے اپنے روحانی حسن وجمال کو نکھاریں، جب آپ کا باطن پاکیزہ ہوگا تو ظاہر پر بھی اس کی پاکیزگی کا اثر پڑے گا۔

اللہ تعالی سے آپ کے لئے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو جلوت وخلوت میں تقوی اختیار کرنے کی توفیق دے، ایمان کو کمزور کرنے والے اعمال سے بچائے، عبادت میں خشوع وخضوع پیدا کردے،تسلسل کے ساتھ عمل صالح کی توفیق دے، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق دے، بندوں کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی سعادت بخشے۔ دلوں کو طہارت، نظرکو پاکیزگی اور جسم و روح کوقوت ایمانی اور حرارت اسلامی سے نواز دے۔ آپ کو پہلے سے بہتر اپنی بندگی اور اپنا ذکرکرنا نصیب کرے، جب تک باحیات رکھے ایمان وعمل پر رکھے اور خاتمہ الخیر نصیب فرمائے۔ آمین

1 تبصرہ
  1. موحد الرحمن الجامعي کہتے ہیں

    بہت ہی عمدہ نصیحتوں پرمشتمل اور دینی شعور جگانے والی تحریر ہے۔
    اللہ تعالیٰ شیخ کے جان و مال اور ایمان وآبرو کی حفاظت فرمائے آمین

تبصرے بند ہیں۔