رشتوں کے انتخاب میں والدین کی مرضی کی شرعی حیثیت

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

  اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کونہ تومکمل بااختیاربنایاہے اورناہی مجبورمحض؛ بل کہ کچھ اختیاربھی دے رکھاہے اورکچھ مجبوربھی بنارکھاہے؛ تا کہ اس دنیا میں اسے آزمایاجاسکے، پھراس آزمائش کے لئے اس کے اندردوطرح کی صفات بھی ودیعت کی ہیں، جن میں سے ایک کوہم ’’صفت ِملکوتیت‘‘ کہتے ہیں، جب کہ دوسرے کو ’’صفت ِ بہیمیت‘‘ کہتے ہیں، پھران دوصفات کی تکمیل کے لئے مکمل طورپررہنمائی بھی کی ہے۔

 صفت بہیمیت کی تکمیل کے لئے جس جائزراستہ کی طرف رہنمائی کی گئی ہے، اسے ’’نکاح‘‘ کہاجاتاہے، پھرنکاح سے پہلے مخطوبہ(جس سے نکاح کاارادہ ہے)کوایک نظردیکھ لینے کوبہترقراردیاگیاہے؛ تاکہ رشتۂ نکاح کے اندرپائیداری پیداہوسکے۔

پہلے زمانہ میں نکاح کارشتہ عموماًماں باپ کی پسندسے ہی ہواکرتاتھا؛ لیکن آج کل لڑکے اورلڑکیاں اپنی پسندکے رشتے کرناچاہتے ہیں ؛ چنانچہ اس کے لئے بعض اوقات وہ والدین کی مرضی اوران کے مشورہ کوبالکل ہی نظراندازکردیتے ہیں، جب کہ بعض دفعہ والدین بچوں کے لئے ایسے رشتوں کاانتخاب کرتے ہیں، جوخودان کے انتخاب کے بالکل ہی برخلاف ہوتے ہیں، اب سوال یہ کہ کیاشرعاً نکاح کے معاملہ میں لڑکوں اورلڑکیوں کوان کے والدین کی مرضی قبول کرناواجب ہے؟ اگروہ ایسانہ کریں توکیاگناہ گارہوں گے؟نیز اس سلسلہ میں صحیح رویہ کیاہے؟

   سب سے پہلے اس سلسلہ میں دو باتوں کومنقح کرناضروری ہے:

۱-  والدین کی مرضی اورمشورہ کی حیثیت کیاہے؟

 ۲-  لڑکے اورلڑکی مرضی کی حیثیت کیاہے؟

 پہلی بات کے سلسلہ میں جب ہم جستجوکرتے ہیں توقرآن وحدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہی کہ عمومی حالت میں والدین کی اطاعت ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما٭وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرا۔(الإسراء: ۲۳-۲۴)

 اور تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کیساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا، اور ان سے بات ادب سے کرنا ٭ اور عجز و نیاز سے اُن کے آگے جھکے رہو اور اُن کے حق میں دعا کروکہ اے اللہ! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے )پرورش کیا ہے تو بھی اُن ( کے حال )پر رحمت فرما۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کوواجب قراردیاہے اورحسنِ سلوک کاسب سے اعلی درجہ اطاعت ہے، اسی طرح دوسری جگہ ارشادہے:

وَإِن جَاہَدَاکَ عَلی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفاً وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔ (لقمان: ۱۵)

اور اگر وہ تیرے در پے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو اُن کا کہا نہ ماننا ہاں دنیا (کے کاموں ) میں اُن کااچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اُس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے تو جو کام تم کرتے رہے ہو میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا۔

  یہاں شرک کی باتوں میں اطاعت کرنے کی ممانعت آئی ہوئی ہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ غیرشرک کی باتوں میں اطاعت ہونی چاہئے اورجب اطاعت کریں گے توان کی مرضی کے موافق عمل ہوگا، جومطلوب ہے، نیز اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے:

رضی الرب فی رضی الوالد، وسخط الرب فی سخط الوالد۔ (سنن الترمذی، ماجاء من الفضل فی رضا الوالدین، حدیث نمبر: ۱۸۹۹)

والد کی رضامندی میں رب کی رضامندی ہے اوروالد کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے۔

محمدبن اسماعیل صنعانیؒ اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں :

الحدیث دلیل علی وجوب إرضاء الولد لوالدیہ وتحریم إسخاطہما، فإن الأول فیہ مرضاۃ اللہ، والثانی فیہ سخطہ، فیقدم رضاہماعلی فعل مایجب علیہ من فروض الکفایۃ۔ (سبل السلام، باب البروالصلۃ: ۴؍۱۶۴)

حدیث بچہ کے والدین کوراضی کرنے کے وجوب اوران کوناراض کرنے کی حرمت پردلیل ہے کہ اول میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے اورثانی میں اس کی ناراضگی، لہٰذا ان کی رضامندی کواس فعل پرمقدم کیاجائے گا، جوفروض کفایہ میں سے اس(ولد) پرواجب ہے۔

معلوم یہ ہواکہ فرض کفایہ(جیسے: عام حالت میں جہاد وغیرہ) کے مقابلہ میں والدین رضامندی واجب ہی ہوگی، اسی لئے غیرمعینہ جہادمیں نکلنے سے افضل والدین کی خدمت کوقراردیاگیاہے؛ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپﷺ سے جہاد میں جانے کے لئے اجازت مانگی توآپﷺ نے پوچھا:أحی والداک؟(کیاتمہارے والدین زندہ ہیں ؟) جواب دیا: ہاں ! توآپﷺ نے فرمایا: ففیہمافجاہد(انہی میں رہ کرجہادکرو)۔ (بخاری، باب الجہاد بإذ الأبوین، حدیث نمبر: ۳۰۰۴)

علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں :

(لأن طاعتہما فرض عین)أی: والجہاد لم یتعین، فکان مراعاۃ فرض العین أولیٰ کمافی التجنیس۔ (ردالمحتار، مطلب طاعۃ الوالدین فرض عین: ۴؍۱۲۵)

کیوں کہ والدین کی اطاعت فرض عین ہے، یعنی ابھی جہادکی تعیین نہیں ہوئی ہے، بس فرض عین کی رعایت اولیٰ ہے، جیساکہ ’تجنیس‘ میں ہے۔

 البتہ خاص حالت میں ان کی اطاعت کوضروری قرارنہیں دیاگیاہے، جیسے:

  ۱-  ایسے امورمیں اطاعت ضروری نہیں، جن میں اللہ کے حق کی پامالی ہوتی ہو، اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے:

لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ اللہ عزوجل۔ (مسندأحمدعن علیؓ، حدیث نمبر: ۱۰۹۵)

اللہ عزوجل کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔

 ۲-  ایسے معاملات میں بھی اطاعت ضروری نہیں، جن کے ترک کی وجہ سے بندہ کونقصان ہو، مشہورمالکی فقیہ علی سعیدی عدویؒ لکھتے ہیں :

وکذالایجب طاعتہمافیماکان فی ترکہ ضرر، مثل أن یأمراہ بترک معیشۃ، أو صناعۃ۔ (حاشیۃ العدوی لعلی السعیدی العدوی: ۲؍۵۵۴)

اسی طرح ان چیزوں میں اطاعت واجب نہیں، جن کے ترک میں ضررہو، جیسے: وہ معیشت یاصناعت کے ترک کاحکم دیں۔

 جہاں تک دوسری بات(لڑکے اورلڑکی مرضی کی حیثیت کیاہے؟)کاتعلق ہے تو شریعت نے نکاح کے معاملہ میں ان کی رضامندی کومعتبر مانا ہے؛ چنانچہ حدیث میں ہے:

الثیب أحق بنفسہا من ولیہا، والبکر یستأذنہاأبوہافی نفسہا، وإذنہاصماتہا۔ (مسلم، باب استئذان الثیب…حدیث نمبر: ۱۴۲۱)

ثیپ(شوہردیدہ) اپنے نفس کااپنے ولی سے زیادہ حق دارہے اورباکرہ سے اس کے نفس کے بارے میں اس کے والد اجازت لیں گے اوراس کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔

 معلوم ہوا کہ شریعت نے لڑکے اورلڑکی دونوں کی رضامندی کومعتبرماناہے، علامہ ابن بطال ؒ ابن حبیب ؒکے حوالہ سے لکھتے ہیں :

قد ساوی رسول اللہ ﷺبین البکروالثیب فی مشاورتہما فی أنفسہما، ولم یفرق إلافی الجواب بالرضا، فإنہ جعل جواب البکربالرضافی صماتہا لاستحیائہا …، ولم یلزم رسول اللہ ﷺ الثیب الرضا بالصمات؛ حتی تتکلم بالرضالمفارقتہافی الحیاء حال البکرلماتقدم من نکاحہا۔ (شرح صحیح البخاری، باب لاینکح الأب وغیرہ البکر، ولا الثیب ؛إلابرضاہا:۷؍۲۵۳)

رسول اللہ ﷺ نے باکرہ وثیبہ کے مابین ان کی ذات کے سلسلہ میں مشورہ کرنے میں برابر ی کوقائم رکھا ہے اورصرف رضامندی کے جواب میں تفریق کی ہے، اس طورپرکہ حیاء کی وجہ سے باکرہ کی رضامندی اس کے سکوت میں قراردیا، جب کہ ثیبہ کی رضامندی سکوت میں لازم نہیں کیا؛ یہاں تک کہ وہ رضامندی کوالفاظ میں ظاہرکرے کہ اس کی حیاء میں شوہردیدہ ہونے کی وجہ سے باکرہ کے حیاء سے فرق ہے۔

 علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں :

(ولاتجبربکربالغۃ علی النکاح) أی: لاینفذ عقدالولی علیہابغیررضاہاعندنا۔ (البحرالرائق، باب الأولیاء والأکفاء: ۳؍۱۱۸)

(باکرہ بالغہ کونکاح پرمجبورنہیں کیاجاسکتا)یعنی اس کی رضامندی کے بغیرولی کاکیاہواعقدنافذ نہ ہوگا۔

 اورجب بالغہ کی رضامندی ضروری ہے توبالغ کی رضامندی توبدرجۂ اولیٰ ضروری قرارپائے گی، بہرحال! خلاصہ یہ کہ عمومی حالت میں والدین کی رضامندی بھی ضروری ہے اورنکاح کے باب میں لڑکے اورلڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہے۔

 جہاں تک اس سوال کی بات کہ کیاشرعاً نکاح کے معاملہ میں لڑکوں اورلڑکیوں کوان کے والدین کی مرضی قبول کرناواجب ہے یانہیں ؟ تواس سلسلہ میں مسئلہ کی دوصورتیں ہیں :

 ۱-  نکاح کایہ معاملہ بلوغ سے پہلے پیش آئے۔

  ۲-  نکاح کایہ معاملہ بلوغ کے بعد پیش آئے۔

  پہلی صورت میں والدین کی رضامندی قبول کرنا(ولایت ِاجبارکودیکھتے ہوئے)واجب ہے، علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں :

(وللولی إنکاح الصغیروالصغیرۃ)جبراً(ولوثیباً…ولزم النکاح، ولوبغبن فاحش)بنقص مہرہا وزیادۃ مہرہ(أو) زوجہا(بغیرکفء إن کان الولی… أباأوجداً…لم یعرف منہماسوء الاختیار)مجانۃ وفسقاً۔ (الدرالمختار، باب الولی: ۳؍۶۵)

ولی کے لئے صغیراورصغیرہ کاجبری نکاح کرانادرست ہے، اگرچہ کہ وہ ثیبہ ہو، اورنکاح لازم ہوجائے گا، گرچہ مہرمیں کمی یازیادتی کرکے غبن فاحش کے ساتھ ہو،یاصغیرہ کی شادی غیرکفومیں کرائے، اگرولی باپ یاداداہو اورفسق وفحش کے اعتبارسے معروف بسوء الاختیارنہ ہو۔

 البتہ اس کے لئے ایک بات کاخیال رکھاجائے کہ والدین کی رضامندی قبول کرنااسی وقت واجب ہے، جب کہ ان کی طرف سے سوء اختیارظاہرنہ ہو، ورنہ یہ نکاح درست نہ ہوگا اوران کی رضامندی کوماننا بھی واجب نہ ہوگا، علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں :

وإن عرف لایصح النکاح اتفاقاً۔ (الدرالمختار، باب الولی: ۳؍۶۶)

اگرسوء اختیارمعروف ہوتوبالاتفاق نکاح نہ ہوگا۔

 جہاں تک دوسری صورت کاتعلق ہے توچوں کہ بچے بالغ اوربااختیارہوچکے ہیں ؛ اس لئے والدین رضامندی قبول کرناواجب تونہیں ؛ لیکن ان کی اطاعت کے احکام اورہرمعاملہ میں مراعات کودیکھتے ہوئے مستحب ضرورہے، ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

 رہی بات تیسری مسئلہ (اگروہ ایسانہ کریں توکیاگناہ گارہوں گے؟) کی تومذکورہ تنقیحی باتوں سے سمجھاجاسکتاہے کہ پہلی صورت میں گناہ گار ہوں گے، جب کہ دوسری صورت میں گناہ گارنہیں ہوں گے؛ کیوں کہ گناہ گاراس وقت ہوتا، جب وہ نافرمان ہوتااوریہ نافرمانی نہیں ہے، علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :

لیس لأحد من الأبوین أن یلزم الولدبنکاح من لایرید، وأنہ إذاامتنع لایکون عاقا، وإذالم یکن لأحد أن یلزمہ بأکل ماینفر عنہ مع قدرتہ علی أکل ماتشتہیہ نفسہ، کان النکاح کذلک وأولیٰ؛ فإن أکل المکروہ مرارۃ ساعۃ، وعشرۃ المکروہ من الزوجین علی طول یؤذی صاحبہ کذلک، ولایمکن فراقہ۔ (مجموع الفتاوی: ۳۲؍۳۰)

والدین میں سے کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ لڑکے پرایسے سے نکاح کولازم کرے، جسے وہ پسندنہیں کرتا، اوراگرلڑکاایساکرنے سے رک جائے تووہ نافرمان نہیں کہلائے گا، جب کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ کسی کو من پسندچیز کھانے پرقدرت رکھنے کے باوجودایسی چیز کے کھانے پرمجبورکرے، جواسے پسندنہیں تو نکاح بھی اسی طرح؛ بل کہ اس کازیادہ حق دارہے کہ (اس پرمجبورنہ کیاجائے)؛ کیوں کہ ناپسندیدہ چیز کھانے کی کڑواہٹ تھوڑی دیرکے لئے ہوتی ہے، جب کہ زوجین کی ناپسندیدہ زندگی دیرپاہونے کی وجہ سے اسی طرح تکلیف دہ ہوگی اوراس سے فرقت ممکن نہیں ہوگی۔

  اب ان مذکورہ وضاحتوں کی روشنی میں صحیح رویہ یہ ہے کہ والدین تجربہ کارہوتے ہیں اورعموماً رشتوں کے انتخاب میں اپنانفع نہیں دیکھتے؛ اس لئے لڑکے اورلڑکیوں کوان کی پسندپرراضی ہوناچاہئے اورعموماً ہوتابھی ایساہی ہے؛ لیکن اس کامطلب ہرگز یہ نہیں کہ والدین ہرحال میں اپنی مرضی ان پرتھوپیں، یہ بالکل شریعت کے مزاج اوراس کے حکم کے خلاف ہے، اپنے رشتے پرانھیں اڑنانہیں چاہئے، اگرلڑکے یالڑکی کوان کی طرف سے طے کردہ رشتہ پسندہوتوٹھیک، ورنہ دباؤ نہیں ڈالناچاہئے۔

اسی طرح لڑکے یالڑکی کوبھی چاہئے کہ اپنی پسندکی شادی میں پہلے والدین کوراضی کریں، ان کی رضامندی کے بغیرقدم نہ اٹھائیں اوروالدین کوبھی چاہئے کہ بچوں کی پسند کونظر انداز نہ کریں، دیکھ لیں اگرمناسب ہے توضروران کی پسند پرصاد کریں، یہی صحیح رویہ ہے، جس میں دونوں طرف کاخیال رکھاجائے۔

تبصرے بند ہیں۔