پونچھ کے سیاحتی مقامات عدم توجہی کا شکار

سرفراز احمد ٹھکر

 (پونچھ)

 ”روے زمین پر کوئی جنت ہے، تو یہیں ہے۔”  شہنشاہِ ہند ‘جہانگیر’ نے جس سرزمین کے لیے یہ بات کہی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ یہی سرزمینِ کشمیر ہے، اس میں شک نہیں کہ واقع ہی دنیا میں جنت کا نظارہ کہیں ہے تو وہ کشمیر کی دھرتی ہے۔ یوں تو کشمیر کا ذرہ ذرہ ہی جنت ارضی کا جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت ہے مگر یہاں ہم اسی جنت ارضی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا ذکر کریں گے جو فطرتی حسن، تہذیب و تمدن، رسم و رواج میں ثانی کشمیر ہے، مگر انتظامیہ کی عدم توجہی، لاپرواہی اور سوتیلے سلوک کی بھٹی میں بری طرح جھلس رہا ہے۔

ہم بات کر رہے ہیں مرکزی زیرِ انتظام جنت بے نظیر جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع ‘پونچھ ‘کی، جو گرمائی دارالحکومت سرینگر سے مغل شاہراہ کے چلتے محض 150 کلومیٹر کی دوری پر اور سرمائی راجدھانی سے 235 کلومیٹر کی دوری پر ایک کٹا پھٹا اور پسماندہ علاقہ ہے، جہاں کے سادہ لوح عوام اپنی بے بسی اور کسمپرسی کے لیے کبھی خود کو اور کبھی اپنی تقدیر کو دوش دیتے ہیں !، جہاں کے سادہ لوح عوام کے اذہان میں ہر وقت بہت سے سوالات ایک ہی جان بپا کرتے ہیں کہ آیا، جن عوامی نمائندوں کو چن کر انہوں نے بار ہا ایوانوں میں بھیجا تاکہ وہ یہاں کے لوگوں کی روداد حکومت تک پہنچائیں، یہاں کے لوگوں کی دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھیں، کیوں ان ہی نمائندوں نے ہمیشہ ان کے ارمانوں کا گلا گھونٹا؟اور ان کی امیدوں کو آہوں اور سسکیوں میں بدل دیا؟۔

سیاسی، تاریخی، جغرافیائی یا پھر قدرتی خوبصورتی کے پیمانے سے دیکھا جائے تو پونچھ اور اس کے قرب و جوار کے بہت سے علاقے قابلِ رشک اور قابلِ دید ہیں، اگر کمی ہے تو انتظامیہ کی عدم توجہی اور بے حسی ہے جو یہاں کی عوام کو کمتری کا احساس دلاتی ہے، یہاں کی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی یادگاروں کو دیکھ کر اور یہاں کی قدرتی خوبصورتی کو جان کر بھی یہاں کی عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ ڈگری کالج پونچھ کی ایک ہونہار طالبہ زاہدہ راجپوت کا کہنا ہے ”بات کالج و یونیورسٹی کی ہو، ریلوے خدمات و ہوائی سفر کی ہو یا پھر پونچھ کو کشمیر کے ساتھ جوڑنے والی تاریخی مغل شاہراہ کی ہو، عوام پیر پنجال اور بالخصوص پونچھ کے ساتھ ہمیشہ ہی سوتیلا سلوک رہا ہے، ہزارہا بار ریلوے خدمات دینے کے وعدے اور سپنے دکھانے کے بعد بھی جموں سے پونچھ محض 235کلو میٹر کے فاصلے کو ریل خدمات سے نہ جوڑ سکنا اور چند کلومیٹر مغل شاہراہ پر ٹنل کی تعمیر لیت و لال سے کام لینا سرکار کی نا اہلی اور جان بوجھ کر یہاں کی عوام کو زدوکوب کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ”

جہاں تک پونچھ کے تاریخی، مذہبی، اور ثقافتی مقامات کا تعلق ہے، یہاں کے بے شمار ایسے مقامات ہیں جو قابلِ دید ہیں، ان میں ہند و پاک کے مابین تجارتی مرکز ‘چکاں دا باغ’، پونچھ قلعہ، شری دشنامی اکھاڑہ، شیو کھوڑی مندر، زیارت چھوٹے شاہ صاحب مینڈھر، گرودوارہ ننگالی صاحب، زیارت سایئں بابا میراں بخش ؒ، زیارت ماء نوری ؒ، منڈی میں ‘بڈھا امرناتھ چٹانی مندر’، سیڑھی میں زیارت قلندر عصر پیر سید اطہر شاہ صاحب ؒ، لورن میں زیارت سائیں الہی بخش ؒ، چکھڑی میں زیارت پیر سید احمد شاہ صاحب پستونی ؒ اور اڑائی میں زیارت پیر سید ہدایت شاہ غازیؒ اور اور زیارت پیر سید بہادر شاہ بخاری ؒقابلِ ذکر ہیں اور بات اگر فطرتی حسن و صحت افزا مقامات کی کی جائے تو فطرتی حسن کی بنیاد پر پونچھ کو چھوٹاکشمیر’ کہا جاتا ہے، شہر خاص اور اس کے گرد و نواح میں اجوٹ، کھڑی، اسلام آباد، ڈنہ شاہستار، نوری چھم، منڈی میں لورن، ساوجیاں اور تاریخی گاوں ‘اڑائی ‘میں ‘راہ والا’، سنکھ، طوطا گلی، ڈنہ گلیاں، ڈھیری، بھاگسر اور خا ص ‘جبی مرگ قابلِ ذکرہیں۔

‘جبی مرگ’ کی قدرتی خوبصورتی کا عالم یہ ہے کہ سڑک کی سہولت نہ ہونے کے باوجود بھی لوگ گھنٹوں پیدل سفر کر کے وہاں پہنچتے ہیں اور وہاں کے فطرتی حسن سر سبز و شاداب میدانوں اور حسین موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی جگہیں ہیں کہ جن پہ اگر حکومت توجہ دے تو انہیں سیاحت کے نقشے پڑ لایا جا سکتا ہے۔ ” پونچھ کی ایک نجی تنظیم کے سربراہ دانش نزیر کا کہنا ہے کہ مرکزی و یو ٹی سرکار نے سرے سے ہی ضلع پونچھ اور اس کے قرب و جوار کی ترقی کو لے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، اگر سرکار یہاں کی ترقی کو لے کر سنجیدہ ہوتی تو صورتحال کچھ اور ہوتی۔ کم سے کم جموں پونچھ ریلوے لائن اور مغل شاہراہ پڑ ٹنل تعمیر کرنے کے اپنے وعدے وفا کرتی تو باقی ہر طرح کی ترقی کے راستے اپنے آپ ہی  ہموار ہو جاتے ”

ایک اور مقامی شہری نیاز احمد نے پونچھ کی لیڈر شپ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اپنے جذبات کچھ یوں بیان کیے ہیں ” بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پیر پنجال اور خاص کر پونچھ کی خستہ حالی میں سرکار کے ساتھ ساتھ یہاں کی مقامی قیادت بھی ذمہ دار ہے، جموں کشمیر سرکار یا دلی سرکار کا کوئی خوش فہمی میں مبتلا کرنے والا یا سبز باغ دکھانے جیسا نعرہ یا یوں کہیے کہ کبھی وفا نہ ہونے والا نعرہ سن کر مثلاً جموں پونچھ ریلوے خدمات کی منظوری، مغل روڈ ٹنل کو منظوری وغیرہ، یہاں کی قیادت انکے جھوٹے وعدے کا شکریہ ادا کرنے کے لیے یا یوں کہیں کے شکریہ ادا کرنے کے بہانے ان تک رسائی حاصل کر کے انکے ساتھ سیلفیاں لینے کو ہی اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں اور پھر بڑے فخرسے سوشل میڈیا اور عوامی ریلیوں میں انکے ساتھ لئی گئی تصاویر کی نمائش کر کے ان لیڈران کے ساتھ اپنی وابستگی کو ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

کیا ہی اچھا تھا کہ محض سیلفی کے شوق میں دلی پہنچنے کے بجائے اگر یہاں کی قیادت اپنی عوام کی جائز مانگوں کو لیے دلی کے جنتر منتر دھرنا دے کر اپنی جائز مانگوں کو سرکار سے منواتی اور صحیح معنوں میں یہاں کی عوام کو راحت دلاتے تو انکی مقبولیت کے اتنے چرچے ہوتے کہ تاریخ کی کتابوں میں ان کے نام لکھے اور پڑھے جاتے۔ ”سماجی کارکن اور پیر پنجال عوامی ڈیولپمنٹ فرنٹ کے چیئرمین محمد فرید ملک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مرکزی اور یوٹی سرکار کو چاہیے کہ وہ اس پسماندہ علاقے پہ خصوصی دھیان دے، خاص کر یہاں کی مقامی قیادت کو چاہیے وہ ماضی کی غلطیاں نہ دہراتے ہوئے صدق دلی سے یہاں کی ترقی کے لیے کمر بستہ ہو جائیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو بھی سیاحت سے روزگار مل سکے اور وہ بھی ملک کی معیشت کو بڑھانے میں اپنا نمایا کردار ادا کر سکیں۔ اگر یہاں کی سیاحت کو فروغ ملتا ہے تو نہ صرف میثیت بلکہ اس سرحدی علاقے میں سماجی طور سے بھی ترقی ممکن ہو سکے گی۔

تبصرے بند ہیں۔