حامد انصاری کی بے باکی: آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے

عبدالعزیز

  نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کی الوداعیہ تقریر کو سن کر سنگھ پریوار کے لوگ نیچے سے لے کر اوپر تک سبھی چراغ پا ہوگئے۔ ایسا پریوار جو اقلیتوں خاص طور سے مسلم اقلیت کا پیدائشی دشمن ہو، کوئی بھی چھوٹا ہو یا بڑا اس حق میں ہمدردی کے دو بول بولے گا تو اقلیت دشمن پریوار کا اعلیٰ سے ادنیٰ تک کو چوٹ لگے گی کیونکہ یہ پریوار مسلم اقلیت کے حق میں ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتا۔ پریوار کے اس وقت کے سب سے بڑے سردار مسٹر نریندر مودی جی نے سب سے پہلے حامد انصاری کی تقریر کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور ان کی ذات اور شخصیت پر حملہ کرتے ہوئے کہاکہ ان کے خاندان کا تعلق کانگریس سے تھا۔ ان کا خاندان جنگ آزادی کے مجاہدین میں شامل تھا۔ وہ مختلف مسلم ملکوں کے سفیر رہ چکے ہیں مگر نائب صدر ہونے کی وجہ سے وہ دس سال تک ایک خاص دائرہ میں رہے لیکن اب وہ آزاد ہوچکے ہیں۔ وہ اب اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔

نریندر مودی کو سب سے پہلے نائب صدر کی تقریر اچھی نہیں لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی ظالم و جابر حکمراں کے سامنے کوئی بھی حق گوئی اور بیباکی سے کام لے گا تو ظالم و جابر حکمراں اسے قطعاً برداشت نہیں کرے گا۔ حامد انصاری  کا قصور صرف اتنا تھا کہ آج مسلم اقلیت پر جو ہندستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گزر رہی ہے اسے انھوں نے سلیقہ اور سنجیدگی سے پیش کیا۔ یہی تو کہا کہ ’’اقلیت کا تحفظ جمہوریت کی پہچان اور علامت ہے۔ آج مسلم اقلیت ملک میں خوفزدگی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ ہجومی تشدد (Lynching) کا چلن عام ہوگیا ہے۔ اندھ بسواس کے مخالفین کا قتل، نام نہاد گھر واپسی کا معاملہ تشویشناک ہے۔ ایسا احساس ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے کی سرکاری افسروں کی صلاحیت بھی الگ الگ سطحوں پر ختم ہورہی ہے‘‘۔

 حامد انصاری کی تقریر ہندستان کی حالت کی تصویر کشی کر رہی تھی جس کی وجہ سے ظالم حکمراں کی پیشانی کا شکن آلود ہونا فطری امر تھا۔ نریندر مودی اور ان کے لوگوں کا اعتراف ہے کہ تحریک آزادی میں شرکت کرنے والے خاندان سے ان کا تعلق ہے اور مودی جی کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان کا وسیع پریوار جسے سنگھ پریوار کہتے ہیں وہ جنگ آزادی میں شامل ہونا تو درکنار وہ برطانوی حکومت کا حاشیہ بردار اور وفادار تھا۔ اس کے باوجود حامد انصاری کی بیباکی اور حق گوئی پسند نہیں آئی۔ مودی کے علاوہ سنگھ پریوار کے دیگر لوگوں نے بھی اپنی خفگی کا اظہار بھونڈے انداز میں کیا ہے۔ سنگھ پریوار کے ایک لیڈر نے کہاہے کہ حامد انصاری کو ہندستان میں رہنے میں خوف معلوم ہورہا ہے یا وہ عدم تحفظ کے شکار ہیں تو جہاں انھیں تحفظ ملے وہاں چلے جائیں ۔ بات سنگھ پریوار والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہندستان کسی بادشاہ، حکمراں کا ملک نہیں ہے اور نہ یہ کسی باپ دادا کی زمین ہے؎

بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین

 یہ ملک کسی ایک فرد یا ایک جماعت یا ایک خاندان کا نہیں ہے بلکہ لاکھوں افراد، ہزاروں خاندان اور سیکڑوں جماعتوں کا ملک ہے۔ جو لوگ حامد انصاری یا کسی بھی فرقہ یا اقلیت کو ملک سے باہر کا راستہ دکھانے کا کام کرتے ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کسی کی جاگیر نہیں ۔ یہاں رہنے والوں میں سے سب کی جاگیر اور وراثت ہے۔ جمہوریت میں حکومتیں بدلتی ہیں ۔ ہر وقت کسی ایک جماعت یا ایک فرد کی حکومت نہیں ہوتی۔ آج بی جے پی کی حکومت ہے کل کانگریس کی حکومت تھی۔ آئندہ کل کسی اور کی حکومت ہوسکتی ہے۔ حکمرانی کا اس قدر نشہ نہیں ہونا چاہئے کہ جس کو جب چاہا جو چاہا کہہ دیا۔ حامد انصاری کے بارے میں یہ کہنا کہ اپنی سبکدوشی کے بعد انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا یہ غلط ہے۔

انھوں نے کئی موقع پر حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔ زیادہ دن نہیں ہوئے ڈیڑھ سال پہلے کل ہند مسلم مجلس مشاورت کی گولڈن جبلی تقریب کے موقع پر بھی حامد انصاری نے کہا تھا کہ اقلیتوں کو حصہ داری ملنا چاہئے۔ مسلمانوں کا نام لے کر کہا تھا کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں ۔ وہ ہر چیز کے حقدار ہیں ۔ ان کو ان کا حق ملنا چاہئے۔ اُس وقت بھی سنگھ پریوار کی طرف سے زبردست نکتہ چینی ہوئی تھی۔ حامد انصاری صاحب نے کوئی پروا نہیں کی۔ شاید لوگوں کو معلوم نہیں ۔ خاص طور سے سنگھ پریوار کو کہ حامد صاحب بیوروکریٹس ضرور تھے مگر وہ سید حامد اور سید شہاب الدین جیسے بیورو کریٹس کی صف کے آدمی تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے کرسی اور گدی کو سچ بات کہنے میں آڑے آنے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے مرتبہ کے لوگ کرسیوں سے بڑے ہوتے ہیں ۔ کرسیوں سے ایسے لوگ نہ صرف بڑے ہوتے ہیں بلکہ ایسے لوگ اپنی ذات اور اپنے مرتبہ سے کرسیوں کی زینت اور وقار کو بڑھا دیتے ہیں ۔ ان کا پیغام دنیا کیلئے وہی ہوتا ہے جسے ٹیپو سلطان نے ہندستان کی زمین پر شہید ہوتے ہوئے دیا تھا ؎

تو رہ نوردِ شوق ہے؟ منزل نہ کر قبول!

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو مہمل نہ کر قبول!

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز!

ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول!

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں !

محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول!

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول!

باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔