طلاق زندگی ہے : سونم اور راجا رگھوانشی کیس کے تناظر میں

انجینئر شعیب عاصم

ملک میں حال ہی میں ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جس نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سونم رگھوانشی اور راجا رگھوانشی کی کہانی ایک ایسے جوڑے کی ہے جو محبت سے جُڑا، مگر نفرت اور بےاعتمادی کے بوجھ تلے آہستہ آہستہ ٹوٹتا چلا گیا۔ بات اتنی بگڑی کہ آخرکار سونم نے اپنے مبینہ معاشقے کے ساتھ مل کر راجا کو قتل کر دیا۔ اس سانحے نے ایک سوال ہمارے معاشرے کے سامنے لا کھڑا کیا:

"کیا یہ سب بچایا جا سکتا تھا؟”

اسلام نے انسانوں کو ظلم، گھٹن، اور ذہنی اذیت سے نجات دلانے کے لیے ایک نہایت اہم راستہ عطا کیا ہے — طلاق۔

جب میاں بیوی کے درمیان نباہ ممکن نہ رہے، رشتہ اعتماد سے خالی ہو جائے، تو اسلام طلاق کو ایک نعمت کے طور پر پیش کرتا ہے، نہ کہ عیب یا بدنامی کے طور پر۔

مرد کو طلاق دینے کا اور عورت کو خلع لینے کا حق دیا گیا — تاکہ دو زندگیاں برباد ہونے کے بجائے، عزت و وقار کے ساتھ الگ ہو جائیں اور نیا آغاز ممکن ہو۔

افسوس کہ ہمارے سماج نے طلاق کو ایسا لفظ بنا دیا ہے جو بدنامی، شرمندگی، اور معاشرتی طعنوں سے جُڑا ہوا ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے سونم اور راجا جیسے ہزاروں کیسز بےچینی، شک، مارپیٹ، اور آخرکار قتل تک جا پہنچتے ہیں۔

آج ہر طرف ایک ہی آواز ہے:

"کاش سونم نے طلاق لے لی ہوتی، راجا آج زندہ ہوتا۔”

طلاق کا صحیح فہم ہوتا، تو شاید یہ کہانی المیہ نہ بنتی۔

معاشرے میں غیر ازدواجی تعلقات کو روکنے کے لیے اسلامی حل:

1. نکاح کو آسان اور عام بنانا

جب شادی کو رسم و رواج سے آزاد کر کے سادہ اور سنت کے مطابق بنایا جائے گا، تو نوجوان حلال رشتہ اختیار کریں گے، حرام راستوں سے بچیں گے۔

2. میاں بیوی کے درمیان کھلا مکالمہ اور اعتماد

اسلام نے شوہر و بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے — یعنی قریب ترین ساتھی۔ دل کی بات کہنا، سننا اور سمجھنا اس رشتے کی بنیاد ہے۔

3. نگاہ کی حفاظت اور حدود کا شعور

غیر مرد و عورت کے درمیان بےمحابا میل جول، سوشل میڈیا پر غیر ضروری تعلقات — یہ سب زنا کی طرف پہلا قدم ہیں۔ اسلام نے اسی لیے پردہ اور نگاہ کی حفاظت پر زور دیا۔

4. خلع اور طلاق کو قبول کرنا، جب رشتہ زہر بن جائے

زبردستی رشتے کو گھسیٹنے کے بجائے، اگر بات نہ بنے تو باوقار انداز میں علیحدگی اختیار کرنا بہتر ہے۔ طلاق آخری حل ہے، مگر کبھی کبھی ضروری حل بھی ہوتا ہے۔

5. اسلامی تربیت کو خاندانی بنیاد بنانا

بیٹیوں اور بیٹوں کو شروع سے وفاداری، غیرت، حیاء، اور حلال و حرام کا فرق سکھایا جائے۔ گھر سے سچائی اور امانت کی فضا قائم ہو تو معاشرہ خود بہتر ہو جاتا ہے۔

آئیے! سونم اور راجا کا واقعہ صرف ایک خبر نہ بنے، بلکہ ہمیں جھنجھوڑنے والا ایک سبق بن جائے — کہ اسلام نے جو نظامِ زندگی دیا ہے، وہ انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اگر ہم طلاق کو بھی اسی حکمت سے سمجھیں جیسے نکاح کو سمجھا جاتا ہے، تو شاید کئی جانیں بچ سکیں، اور کئی رشتے عزت سے ختم ہو کر ایک نئی زندگی کا دروازہ کھول سکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


جواب دیں