مسائل کا علاج الیکشن میں ہونے سے نہیں رہنے سے ہوگا

حفیظ نعمانی

پنجاب میں کیپٹن ہرمیندر سنگھ نے 18؍ مارچ کو اپنی وزارت کی حلف برداری کی تقریب میں سب سے زیادہ زور شراب کی دکانوں پر دیا۔ انھوں نے ا علان کیا کہ ہائی وے سے 500 میٹر کے  اندر شراب کی دکانیں نہیں ہوں گی۔ اس بار پنجاب کے الیکشن میں شراب اہم موضوع تھا۔ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال تو اسے سب سے اہم موضوع بنائے ہوئے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ پنجاب ایک چھوٹی ریاست ہے لیکن اس میں شراب کی کھپت بڑی بڑی ریاستوں سے زیادہ ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں شراب نشہ نہیں ایک مشروب ہے۔ ملک میں شاید ہی کوئی دوسرا صوبہ ایسا ہو جہاں شراب پیتے وقت باپ بیٹے اور پوتے ایک ہی میز پر ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں عام طور پر اسے ا یک بری چیز سمجھا جاتا ہے۔ اور پورے ہندوستان میں اسے عام کرنے کی ذمہ داری بھی پنجابیوں پر ہے۔ اس لیے کہ ملک میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں پنجابی وہ بھی خاص طور پر سکھ نہ ہوں ۔

اترپردیش میں قانون یہ ہے کہ کوئی دکان وہاں نہیں ہوگی جس کے سو میٹر کے اندر مسجد مندر یا اسکول ہوں ۔ اور شاید ہی کوئی دکان ہو جو اس قانون کی پابندی کرتی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر میں دکان ملنا آسان نہیں اور جو مل جاتی ہے اسے لیتے وقت دکان کے مالک کو جو اس کا خیال رہتا ہے کہ پولیس کو اس کا حق دے دیا جائے اور اس حق میں صرف نوٹ ہی نہیں شراب کی بوتلیں بھی ایسے ہی ہوتی ہیں جیسے آم کے باغ کی فصل فروخت کرتے وقت باغ کے مالک طے کرتے ہیں کہ اتنے روپے اور اتنے آم۔ ایسے ہی تھانہ طے کرتا ہے کہ اتنے روپے اور اتنی بوتل شراب۔

وزیر اعلیٰ پہلی بار ایسے بنائے گئے ہیں جو دنیا کو چھوڑ کر ایسی دنیا بنائے ہوئے ہیں جس میں چھل، کپٹ ،جھوٹ ،فریب اور پردہ کے اندر اور باہر فرق نہیں ہوتا۔ اور جس نے دنیا خود چھوڑ دی ہو اس کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں سے کہے کہ برداشت کا کوئی خانہ نہیں ہے۔ ہم نے 1952سے 2017تک ہر وزارت کو بنتے بگڑتے دیکھا ہے۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ سی بی گپتا بنے تو سب کے کان کھڑے ہوگئے۔ صرف اس لیے کہ وہ بار بار وزیر اعلیٰ بنے مگر پان دریبہ کے اندر چھوٹے سے مکان کے اوپر کے دو کمروں کو چھوڑ کر کسی کوٹھی میں نہیں گئے اور جب کملاپتی ترپاٹھی وزیر اعلیٰ بنے تو سب نے اطمینان کی سانس لی کہ بات اگر بگڑی تو لوک پتی بھیا سنبھال لیں گے۔ شری نرائن دت تواری وزیر اعلیٰ بنے تو ہر سرکاری افسر نے ٹھنڈی سانس لی اور جب چودھری چرن سنگھ نے حلف لیا تو بڑے بڑوں کے پتے کانپنے لگے۔

نئے وزیر اعلیٰ یوگی جی نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے کہ لال بتی کلچر ختم کیا جائے گا۔ انھوں نے یہ حکم بھی دیا کہ ہفتہ میں ایک دن ریاستی دفتر میں گذارنا ہوگا۔ یہ بات یا ایسی ہی پابندیاں ہر وزیر اعلیٰ لگاتا ہے لیکن ایسی پابندیاں ہوں یا خود وزیر اعلیٰ کا جنتا دربار، ابتدا میں خوب چلتا ہے، پھر رفتہ رفتہ جنتا دربار میں وزیر اعلیٰ کے بجائے کوئی وزیر آنے لگتا ہے پھر وزیر ریاست اور آخر میں یہ ہونے لگتا ہے کہ آج سب کسی ہنگامہ میں مصروف ہیں اور کل پھر کوئی دوسرا عذر۔

یوگی جی کو اپنے وزارتی پروگراموں کو بھی ایسا ہی بنانا ہوگا جیسا ان کا دھرم کرم پروگرام ہے کہ برس گذر گئے وہ 3؍ بجے اٹھتے ہیں ، اشنان کرکے 4؍ بجے پوجا شروع کردیتے ہیں اور اپنے پالے ہوئے جانوروں کے پاس کب آتے ہیں اور ان کے سامنے اپنے مسائل لے کر آنے والوں سے وہ کتنے بجے ملتے ہیں اور ان کاموں کے علاوہ کیا کام کس وقت کرتے ہیں ؟ اگر انھوں نے خود اس پابندی کو نہیں توڑا تو یقین ہے کہ کسی وزیر کی ہمت بھی نہیں ہوگی۔ ہمارے سماج میں سب سے بے قیمت وقت ہے اور انگریز جن سے ہم نے جمہوریت کا سبق پڑھاہے، ان کے نزدیک  وقت کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس سچے واقعہ سے ملتا ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک انگریز پروفیسر آرنلڈ تھے، اسی زمانہ میں عربی کے پروفیسر علامہ شبلی نعمانی تھے۔

مسٹر آرنلڈ نے علامہ سے کہا کہ آپ مجھے عربی اور فارسی پڑھا دیجئے۔ علامہ نے کہا کہ اس کے بدلہ میں آپ مجھے انگریزی اور فرنچ پڑھا دیں ۔ دونوں میں معاہدہ ہوگیا اور تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پروفیسر آرنلڈ نے خود کہا تھا کہ شام کو میں اتنے بجے آئوں گا اور وہ ہفتوں تک ٹھیک وقت پر بلکہ ایک آدھا منٹ پہلے آجاتے تھے۔ ایک دن ان کو پانچ منٹ کی تاخیر ہوگئی ۔ پروفیسر صاحب آئے اور دیر ہونے کی معذرت کرنے لگے اور اتنی معذرت کی کہ علامہ کو کہنا پڑا کہ کوئی بات نہیں ہے۔ ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ تو پروفیسر آرنلڈ نے کہا کہ مولانا یورپ میں وقت کی عدم پابندی نہ صرف اخلاقی عیب بلکہ قانونی جرم بھی سمجھی جاتی ہے اور وقت کی بربادی کا ہرجہ عدالت کے ذریعہ وصول کیا جاسکتا ہے۔

بات انگریز کی ہو یا کسی مسجد کے ا مام یا مندر کے مہنت کی یا وزیر اعلیٰ کی ہو حلف لینے کے بعد یہ نہ ہونا چاہیے کہ ہر دن ایک فولادی اعلان اور ایک مہینہ کے بعد جس وزیر کا جو جی چاہے وہ کرے اور جس افسر کا جو جی چاہے کرے۔ یوگی جی جس دنیا کے آدمی ہیں اس میں سیر سپاٹے کا نہ وقت ہے نہ مزاج۔ اور شاید انھوں نے برسوں سے امین آباد کو نہ دیکھا ہو۔ ہفتہ دوہفتہ کے بعد فرصت ملے تو وہ وقت نکال کر کالی داس مارگ سے قیصر باغ ہوتے ہوئے امین آباد اور لاٹوش روڈ ہوتے ہوئے واپس چلے جائیں اور جو کچھ دیکھیں اس کا علاج کرانے کے لیے ڈی ایم اور ایس پی کو وقت دے دیں کہ 15 دن میں ایسا کردو کہ وزیر اعلیٰ کی ہی نہیں وزیر اورکسی مریض کی گاڑھی بھی کہیں نہ رکنے پائے۔ ہر شہر کی پولیس نے سڑکوں کو اپنے باپ کی جائیداد سمجھ لیا ہے سو روپے فٹ فی گھنٹہ کے حساب سے وہ کرایہ پر دی جاتی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ گورکھپور میں ایسا نہ ہوتا ہو۔ اگر قانون کی پابندی سرکار اورسرکاری نوکر کریں گے تو ہر کوئی کرے گا۔ نہیں تو وہی ہوگا آنے کے بعد شور اور زلزلہ اور اس کے بعد وہی جو 70برس سے ہورہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔