عبدالعزیز
ملک میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں اور دلتوں پر آئے دن خونیں واقعات رونما ہورہے ہیں جو رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔ کسی نہ کسی شہر یا قریہ میں جبر و ظلم کا واقعہ ہر دوسرے تیسرے دن ہوجاتا ہے۔ اس سے ملک بھر میں خوف و ہراس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت یا قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جنگل راج ہے اور راج کو چلانے والے رام راج کا نام لے رہے ہیں ۔ یہی لوگ لالو پرساد کے راج کو ’جنگل راج‘ کہتے تھے مگر آج جو جنگل راج ملک میں ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
اب تک اخبارات، ٹی وی نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جو واقعات منظر عام پر آئے ہیں ان کی تعداد 124 ہے۔ 28 مسلمان قتل کئے گئے ہیں ۔ 100 سے زائد زخمی ہیں ۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ 2عورتوں کی عصمت دری ہوئی۔ دلتوں پر 26 حملے ہوئے ہیں ۔ 5 کا قتل ہوا ہے۔ 74زخمی ہیں ۔
تنظیم ’’انڈیا اسپینڈ‘‘ کی سروے رپورٹ کے مطابق 86 فیصد مہلوکین دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے مسلمان تھے۔ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 90 فیصد واقعات بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ہوئے ہیں ۔ یہ وہ واقعات ہیں جو کسی طرح سے منظر عام پر آگئے ہیں ۔ لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے مگر ایسے بہت سے واقعات ہیں جن کی خبر میڈیا یا سوشل میڈا میں آنے سے رہ گئی ہے وہ یا تو دبا دی گئی ہے یا مظلوموں کو ڈر اور خوف دلاکر ان کی آواز بند کر دی گئی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے ’’ناٹ ان مائی نیم‘‘ (Not in my Name) کا ملک گیر احتجاج کیا ہے وہ سب قابل تحسین و ستائش کے مستحق ہیں ۔ اس میں انفرادی حیثیت سے کچھ مسلمانوں نے یقینا شرکت کی لیکن مسلمانوں کی بڑی جماعتوں کی طرف سے جو Response ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہوئی۔ کسی بڑی یا ملک گیر مسلم جماعت نے نہ مذکورہ احتجاج میں اپیل کی کہ اس کے لوگ بڑی تعداد میں شرکت کریں اور نہ سرکلر جاری کیا۔ یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دلت نوجوانوں کا خون گرم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ مزاحمت کر رہے ہیں اور مزاحمت کی وجہ سے واردات میں کمی ہے اور قتل ہونے سے بھی کچھ لوگ بچے ہیں ۔ مسلم نوجوان جھنجلاہٹ اور گھبراہٹ کے شکار ہیں ۔ اگر ان کا بھی خون دلت نوجوانوں کی طرح گرم ہوگیا تو معاملہ بگڑ سکتا ہے اور سنگھ پریوار جو خانہ جنگی چاہ رہا ہے وہ بھی ہوسکتا ہے۔ تریپورہ کے گورنر تتھا گت رائے نے جو ترنمول کانگریس کے سوگت رائے کے بھائی ہیں کہا ہے کہ ’’ملک میں ہندو مسلم کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک کہ خانہ جنگی شروع نہ ہوجائے‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سنگھ پریوار والے ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔ مسلم لیڈران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ وہ اپنے حجروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں ۔ وہ امت مسلمہ کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں ۔ ایسے میں اگر مسلم نوجوان کچھ کرنے پر مجبور ہوئے تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ ملک میں جو قانون رائج ہے اس میں ہر شخص کو اپنی عزت و آبرو بچانے کا حق ہے۔ وہ ظالموں کے ہاتھ پکڑ سکتا ہے، جتنی اس کے اندر صلاحیت ہے۔ اسے کوئی قانون یا ظالموں کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور نہیں کرتا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ جو بھی تھوڑی بہت قانون کی حکمرانی ہے اس کی مدد سے ظالموں اور قاتلوں کو سزا دلوانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
آخری بات یہ ہے کہ مسلمان ملک کے صاف ذہن برادرانِ وطن کے ساتھ ہر ایسی مہم یا احتجاج میں کھل کر حصہ لیں جو جبر و ظلم کے خلاف ہو۔
’’ناٹ ان مائی نیم‘‘ کے احتجاج کے بعد مودی جی کا جو منہ کھلا وہ بھی ایسا لگا جیسے گئو رکشکوں یا قاتلوں کی خوشامد کر رہے ہیں کہ ان کا عمل قابل قبول نہیں کیونکہ گاندھی جی کو ایسا عمل پسند نہیں تھا۔ نریندر مودی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سب انہی کے اپنے لوگ ہیں جو قتل و خون میں ملوث ہیں ۔ خود مودی جی ایسے لوگوں کو شاباشی دے چکے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے گلے میں ہار پہنا چکے ہیں جو مظفر نگر کے مسلمانوں کے قاتل اور خونی تھے۔ مودی جی نے نہ صرف ایسے لوگوں کو ایم پی اور ایم ایل اے کا ٹکٹ دیا بلکہ اپنی وزارت میں شامل کیا ہے۔ یوگی جیسے دشمن اقلیت کو ملک کی سب سے بڑی ریاست کا وزیر اعلیٰ کی گدی پر بٹھایاہے۔ آخر ایسے شخص سے کیا امید کی جاسکتی ہے جو رام کے نام پر ملک میں راونوں کی تعداد بڑھا رہا ہے اور انھیں کھلی چھوٹ دے رہا ہے اور ان کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔