حکیم محمد سعید کی سچی کہانی

ادریس احمد

حکیم محمد سعید دو سال چھ ماہ کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا بڑے بھائی 13سال کے تھے۔والدہ محترمہ رابعہ بیگم ’’ہمدرد‘‘ کے لیے کام کرتی تھیں ادویات کی تیاری میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے بچوں کو سنبھالا اور ہمدرد دواخانہ کو عبدالحمید کے ذریعہ احسن طریقہ سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ رابعہ بیگم ایک سچی اور دین دار خاتون تھیں۔ بقول حکیم سعید جب رات سونے کے لے جاتے تو والدہ کو عبادت کرتے ہوئے دیکھتے اور جب بہت سویرے اُٹھتے تو بھی وہ قرآن شریف پڑھ رہی ہوتی تھیں۔ حکیم سعید صاحب کی تربیت میں رابعہ بیگم کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس کے بعد حکیم عبدالحمید صاحب کا۔ ان کی تمام زندگی والدہ محترمہ کی آخری نصیحت کے تحت گزری۔

حکیم سعید صاحب کہتے ہیں’’ان کو سب سے پریشانی یہ تھی کہ میں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میری والدہ کو اس رائے سے اِتفاق نہ تھا۔ مَیں والدہ ماجدہ سے گزارش کرتا تھا کہ فکری طور پر ہندو قیادت میں زندگی نہیں گزار سکتا۔ پاکستان جا کر اسلام کے لیے کام کروں گا۔

والدہ کی شدید بیماری کی اطلاع مجھے اٹلی میں مِلی فوراً دہلی پہنچنے پر آخری باتیں کیں۔ ٭اپنی صحت کا خیال رکھنا تاکہ خدمت کی راہ میں کوئی رخنہ نہ آئے۔ ٭زندگی بھر کسی سے انتقام نہ لینا۔ انتقام کے جذبات صحت اور عقل دونوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔ ٭لوگوں کو برائی کرنے دینا۔ تم برائی کرنے والوں سے اچھائی کرنا۔ ٭خدمت کر کے غرور نہ کرنا۔ اظہار نہ کرنا۔ ٭غربت راز میں رہے تو اچھا ہے۔ شکایت نہ کرنا نہ کرنے دینا۔ ٭علم کی باگ ڈور ہمیشہ سنبھالے رکھنا۔ عالم کو بزرگ مانتے رہنا۔ ٭تم دونوں بھائی عظیم ہو، عظیم رہنا۔ حکیم سعید صاحب کی تمام زندگی ان ہی انمول نصیحت کے ساتھ گزری۔ اس کے بعد ان کی شخصیت کو نکھارنے اور بڑا انسان بنانے میں ان کے بڑے بھائی عبدالحمید صاحب کا بڑا کردار ہے۔

میں 2006ء میں بھارت گیا۔ حکیم عبدالحمید مرحوم کی آخری آرام گاہ پرگیا، فاتحہ پڑھی۔ نگاہ میں وہاں ان کے بارے میں ان کی باتیں لکھی ہوئی پائیں۔

میرے ہوش میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سورج نکل رہا ہو اور میں سو رہا ہوں۔ خدا نے ہمیں کچھ دینے کے لیے بھیجا ہے لینے کے لیے نہیں۔ خطابات اور اعزازات نہ معلوم کیوں میرے رُوح کے منافی رہے ہیں۔ ا نہوں نے مرحومہ والدہ ماجدہ کے اِتنے احسانات کیے ہیں کہ میں ان کا شمار نہیں کر سکتا۔ ان کا سب سے بڑا احسان بلکہ دِین تو یہ ہے کہ انہوں نے آدھی انسانیت کا احترام توقیر و محبت ایسی عطا کی ہے کہ ان کی صنف کی فرد کی بہ حرمتی تو کیا مجھے تو یہ بھی یاد نہیں آ رہا ہے کہ میں نے کسی خاتون یا کسی بچی سے کبھی تلخی یا ترشی سے بات کی ہو۔ تصوف میری گٹھی میں نہ جانے کہاں سے پڑ گیا وہ بھی قیل و قال میں نہیں عمل میں ظاہر ہوتا رہا۔ 1922ء سے سر میں درد نہیں ہوا۔ بس اتفاقاً بھاری پن محسوس ہوتا ہے، ذرا آرام سے دُور ہو جاتا ہے۔ 1922ء میں پندرہ دِن آشوبِ چشم کی شکایت رہی۔ اس کے بعد آنکھ کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔

بڑے بھائی حکیم عبدالحمید ہیں۔ 1935ء میں حکیم محمد سعید صاحب کو آمادہ کیا کہ وہ خاندان کی روایت کے مطابق ’’طب‘‘ کی مکمل تعلیم حاصل کریں۔ ’’طب‘‘ ہی ان کی زندگی ہے حکیم صاحب جو صحافی بننا چاہتے تھے۔ ’’طب‘‘ کی دُنیا سے وابسطہ ہو گئے۔ 1940ء میں ’’طب‘‘ میں ڈگری حاصل کی۔ دِن کو وہ ہمدرددواخانہ میں دوا سازی کے علاوہ مختلف شعبوں میں کام کرتے اور شام کو ’’مطب‘‘ فرماتے۔

1940ء ہی قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ وہ قیامِ پاکستان کی تحریک سے منسلک ہو گئے۔ یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ پاکستان بنتے ہی ہندوستان چھوڑ دیں گے اور اپنی دِلی خواہش کے تحت ایک ایسے ملک میں جا کر اسلام اور آدمیت کی خدمت کریں گے جو نام کے اعتبار سے پاک اور عین اپنے عقائد کے مطابق ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی سہولت ہو گی۔ ان کے دِل میں تعلیم عام کرنے کی بھی خواہش تھی اور ’’عالم‘‘ کی بڑی عزت بھی تھی۔

صحت کے میدان میں انقلابی کام کرنے کی بھی وہ گنجائش دیکھ رہے تھے۔ وہ اس یقین سے آئے کہ پاکستان میں ان کی ضرورت ہے۔ قیاس یہ بھی ہے کہ حکیم محمد سعید ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے اور اُن کے دِل میں بہت کچھ کرنے کا جذبہ تھا وہ ہندوستان میں موجود تمام سہولتوں کے باوجود ان کے آزادی سے کام کرنے کے لیے کم تھا۔وہ مکمل آزاد رہ کر اپنے فیصلہ خود کرنا چاہتے تھے۔

حکیم سعید صاحب کے پاکستان جانے کے فیصلہ سے نہ بھائی خوش تھا نہ ماں راضی تھیں۔ تمام زندگی بڑے بھائی اور ماں کو نہ نہ کی تھی۔ لیکن اب ہر طرف آنسو تھے نہ آنسو تھمتے نہ ارادہ بدلا۔ ایک موقعہ پر جب بڑے حکیم صاحب استاد کے ساتھ پاکستان جانے سے منع کر رہے تھے اور حکیم صاحب صرف چپ تھے تو استادنے کہا حکیم سعید اس وقت ضدی ہو گیا ہے آپ کی بات نہیں سمجھ رہا ہے اِسے جانے دو۔ تین چار ماہ بعد جب یہ برباد ہو کر آئے گا اس کے بعد آپ کی بات توجہ سے سنے گا اور سمجھے گا۔ بس جانے دو۔۔۔

میں جب والدہ سے جدا ہو کر پاکستان جانے لگا تو فرمایا:’’سعید! میں تم کواپنی نشانی کیا دوں۔ لو یہ میری چادر! اور لو یہ میرا تکیہ۔ بس تم ان دونوں کو اپنے پاس رکھنا۔ ہاں سعید بیٹے! تم مجھ سے جدا ہو رہے ہو۔ مگر دہلی آتے جاتے رہنا میرا دِل تم کو ڈھونڈتا رہے گا۔ اِتنا کہہ کر وہ خوب روئیں! میں بھی خوب رویا۔‘‘(’’سچی کہانی‘‘ فروری، حکیم محمدسعیدشہید)

9جنوری 1948ء کو حکیم محمد سعید پاکستان آ گئے اس لیے آ گئے کہ وہ پاکستان کو دُنیا کی سب سے بڑی مسلم طاقت بنا دینا چاہتے تھے۔

وہ پاکستانی خالی ہاتھ آئے تھے جائیداد اور دولت سب کا سب بھائی کو دے آئے تھے۔ان کی زندگی اُجاڑ تھی۔ یہ بھی ہوا کہ ’’مطب‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہ ملی اور نہ صفت کے لیے میدان۔ دو وقت کے لیے پیسے نہ تھے۔ بڑی سخت زندگی تھی۔ بڑی کشمکش تھی۔ وہ صبح اپنے گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں سوچا کرتے کہ کیا کروں۔ ڈنشاء صاحب کے ذریعہ 10 x 10کا کمرہ مِل گیا تھا۔ اسے دفتر بنا لیا۔

کاغذ پر انہوں نے اپنے ہاتھ سے کاغذ پر ہمدرد دواخانہ لکھا ہمدرد کا بورڈ بنایا۔ ساڑھے بارہ روپے کا فرنیچر کرایہ پر لے آئے۔ حکیم محمد سعید صاحب پاکستان خالی ہاتھ آ گئے پتہ یہ چلتا ہے کہ ان کے پاس ایک ڈھائی لاکھ روپے کا ڈرافٹ تھا۔ نیشنل بنک دہلی میں ان کا ذاتی اکاؤنٹ تھا لیکن اس میں کیا ہے انھیں معلوم نہ تھا۔ وہ ڈھائی لاکھ کے اس ڈرافٹ سے صنعت دواسازی شروع کرنے کا اِرادہ رکھتے تھے لیکن دہلی سے یہ خبر آئی کہ وہاں بڑے بھائی صاحب کو انکم ٹیکس کے محکمہ نے بہت پریشان کیا ہے اور کہتے ہیں تم پاکستان جاؤ گے وہ پوری رقم انھوں نے دہلی بھجوا دی۔

حکیم صاحب ڈھائی لاکھ بھیجنے کے بعد یہ پتہ کرنے کے لیے بنک گئے کہ رقم بھجوا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا وہ چلی گئی لیکن ساتھ میں یہ پوچھا کہ آپ کا نام H. M. Saeedہے۔ آپ کے نام نیشنل بنک آف انڈیا سے رقم اس ہدایت کے ساتھ آئی ہے کہ یہ رقم اگر پاکستان میں نہیں چاہیے تو دہلی واپس کر دو۔ میں نے کہا یہ جتنی رقم ہے اسی وقت مجھے دے دو۔ یہ 72ہزار تھے۔ سبحان اللہ اِن کاکام بن گیا۔

ایک چادر اور ایک تکیہ حکیم شہید کی والدہ نے انھیں دی تھی۔ حکیم صاحب کی اہلیہ بیگم محترمہ نعمت بیگم کو ایک دِن خیال آیا کہ ذرا تکیہ ٹھیک کر دیں۔ حکیم صاحب بیگم کو محترمہ کہتے تھے۔ 36سال وہ ان کے ساتھ رہیں۔ ہمیشہ انہوں نے ہاں کہی ایک بار بھی نہیں نہ کہا۔ حکیم صاحب کہتے ہیں۔ محترمہ ایک مثالی خاتون تھیں۔ کوئی تکلیف نہ پہنچائی۔ بہنوں نے اچھا سلوک روا رکھا۔ کسی فقیر کو خالی ہاتھ نہ جانے دیا۔انہوں نے پیٹ کاٹ کاٹ کر دوسروں کو اناج اور سامان پہنچایا۔

محترمہ نے تکیہ اُدھیڑا تاکہ خلاف کو دھو لیں، پھر روٹی کو ہاتھ سے ڈھنکا۔ اس ڈھنکنے میں ان کو محسوس ہوا کہ اندر کچھ ہے۔ تکیہ کھولا تو اندر نوٹ رکھے تھے۔ روپے گنے گئے تو پورے 25ہزار تھے۔ یہ میری والدہ محترمہ نے مجھے تحفہ دیا تھا۔ حکیم صاحب کا دِل باغ باغ ہو گیا اور ہمدرد کا کام باقاعدہ شروع ہو گیا۔ آج کروڑ روپیہ کی کچھ عزت نہیں اس وقت شادشاد ہی کوئی لکھ پتی ہوتا تھا۔ جس صدقِ دِل اور خلوص کے ساتھ حکیم صاحب نے کام کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے وہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور صوبہ سرحدیں کے لیے دوکان در دوکان گئے۔ ’’ہمدرد‘‘ کی ادویات کو عام لوگوں تک پہنچایا اور ’’مطب‘‘ بھی کرتے رہے۔

1953ء میں وہ اس جگہ پہنچ گئے، جہاں انہوں نے ہمدرد کو وقف کر دیا۔ اُن کاایک کمال اور خوبی انسان کی پرکھ تھی وہ اپنے کام کرنے والوں کو ’’کارکن‘‘ کہا کرتے تھے۔ جب بنیادی بات طے کر دیتے تھے تو پھرکسی کے کام میں مداخلت نہ کرتے تھے۔ وہ نہ خود تھکتے تھے، نہ ان کے رفقاء کام چلتا رہا۔ کوئی مانے گا کہ حکیم صاحب اپنے کارکنوں سے بہت محبت کرتے تھے سب سے ملتے تھے اور چھوٹے اور ضرورت مندوں پر ان کی زیادہ نظر تھی وہ ان کی تعلیم کی طرف بہت متوجہ تھے۔

بہت کارکنوں کے تعلیمی اخراجات انہوں نے اپنی ذات سے اُٹھائے اور ان کی قابلیت کا سبب بننے۔ وہ لوگوں کی ضروری حاجتوں کی طرف بھی دھیان رکھتے تھے اور مدد کرتے رہتے تھے۔ ادارہ ابھی بعض سہولتوں کا متحمل نہیں تھا پھر بھی سب کے کمروں میں پنکھے ضرور تھے۔ گیلری میں پنکھا نہ تھا قاصد سخت گری اور حبش کی وجیہ سے پاگل ہو رہا تھا۔ اس کو یہ سمجھ آئی کہ بالٹی میں ٹھنڈا پانی ڈال کر کپڑوں سمیت بدن کو تر کر لے اتفاق سے حکیم صاحب کا گزر ہوا پوچھا میاں یہ کیا حالت تم نے بنائی ہے۔ اس نے زیادہ اچھے لفظ استعمال نہ کیے اور کہا خود تو ٹھنڈی جگہ جا کر بیٹھ جاؤ گے۔ ذرا میرے ساتھ بیٹھو تو اندازہ ہو۔

حکیم صاحب نے سب سے پہلا کام یہ کیا تمام ایسی جگہوں پر پنکھے لگوا دیئے اور Cross Ventilationکا بھی انتظام بہتر کرایا۔ وہ کارکنوں کے ساتھ پکنک پہ بھی جاتے تھے اور کبڈی کے میچ میں حصہ لیتے تھے۔ وہ غریب کارکنوں کی غمی اور خوشی میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے اور حسبِ توفیق مدد بھی کرتے تھے۔ ’’ہمدرد‘‘ پاؤں پیدل چل رہا تھا۔ بڑے اداروں میں ابھی شمار نہ تھا کہ 1963ء میں حکیم یحییٰ جنرل منیجر ہمدرد کا انتقال ہو گیا۔ 1963ء سے 1964ء تک اب ایڈمنسٹریٹر کے تحت کام کرتا رہا۔

معاملات کو حکیم صاحب نے بھانپا۔ 1964ء میں ہمدرد فاؤنڈیشن قائم کی۔ ’’ہمدرد‘‘ کے پورے نظآم کو جدید خطوط پر آراستہ کرنے کے لیے وہ بڑے حکیم صاحب کے ساتھ ڈاکٹر حافظ الیاس مرحوم کے پاس گئے۔ وہ حیدرآباد کے بڑے معالجوں میں تھے اور ’’ہمدرد‘‘ کا کام بھی ان کے زیرنگرانی تھا۔

بات چیت جو بھی ہوئی ہو ڈاکٹر حافظ محمد الیاس ’’ہمدرد‘‘ میں جنرل منیجر کے طور پر آ گئے۔ ڈاکٹر حافظ محمد الیاس کے ساتھ یہ بات بھی طے ہوئی ک پروڈکشن، مارکیٹنگ، خریداری ادویات شعبہ نشرواشاعت غرض تمام کاموں کے وہ براہِ راست جوابدہ ہوں گے۔ کام کرنے والے باصلاحیت اور ہمدرد دوست کارکن اچھی مراعات کے ساتھ رکھے جائیںگے۔ پیکنگ کے معیار کو یکسر بدل دیا جائے گا۔ ایک نئی تبدیلی نئی سوچ کے ساتھ کام شروع ہوا۔ ٹریڈ میں معید صاحب آ گئے۔ انفارمیشن میں محترم خالد لطیف، اکاؤنٹس میں حافظ عتیق الرحمن، ہومن ریورسز کے لیے نیا آدمی، پیکنگ ڈیپارٹمنٹ کا نیا اور جدید انتظام اور ڈسٹری بیوشن کا نیا نظام۔ کچھوے کی رفتار سے چلنے والا ادارہ بہت جلد پاکستان کے بڑے اداروں میں شامل ہونے لگا۔

جس نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ ان تمام لوگوں نے شب و روز کام کیا حکیم صاحب خوش اوررہتے وہ اپنے فلاحی کاموں، یونانی علاج کی ترقی، تعلیم کے جو طلب کرتے ادارہ ’’ہمدرد‘‘ ان کو ہمدرد فاؤنڈیشن کے ذریعے فراہم کر دیتا۔ خود حکیم محمد سعید صاحب کا کام مختلف زاویوں سے جاری اور ساری تھا۔ ہمدرد،صحت اور ہمدرد نونہال وہ باقاعدگی سے پیش کرتے رہے۔ ’’مطب‘‘ وہ کراچی، لاہور،پشاور اور پنڈی بھی مہینہ بھی ایک بار عبادت کا درجہ دیتے ہوئے کرتے رہے، جس میں کراچی کا ’’مطب‘‘ علیحدہ تھا۔ اس ’’مطب‘‘ کو اوّلیت حاصل تھی۔

’’مطب‘‘ کے دوران نہ وہ کسی سے ملتے تھے اور نہ ہی کسی تقریب میں جانا قبول کرتے تھے۔ جب گورنر بنے اس میں بھی ’’باقاعدگی‘‘ سے مطب کیا۔ حکیم صاحب بیماریوں کا علاج کرتے وقت ان کے پتہ نوٹ کرنے کی ہدایت دے رکھی تھی۔ زیادہ بیمار افراد اگر دو ماہ تک نہیں آتا تھا تو اس کے گھر جا کر خیریت طلب کرتے۔ سچی کہانی میں جو حکیم صاحب نونہالوں کے لیے 1992ء جنوری تا دسمبر جنوری تک ہے آپ پڑھیں تو حیران ہو جائیں گے کہ تہجد کے وقت اُٹھ کر تسبیح، نفلوں اور سپارے پڑھنے کے بعد وہ مستقل اپنے مریضوں کی شفا کے لیے دُعا کرتے تھے۔

کتنی جگہوں پر وہ مریضوں کی غربت کے احساس سے بہت دُکھی نظڑ آتے ہیں۔ دُکھ سے ان کی آنکھ میں آنسو بھی آئے ہیں۔ یہ اتنا بڑا کام تھا کہ ’’مطب‘‘ کے ذریعہ بلواسطہ طور پر ’’ہمدرد‘‘ کی بڑی خدمت ہوتی رہی۔ اچھی رفتار سے ’’ہمدرد‘‘ ترقی کرتا گیا اب حکیم صاحب نے مدینہ الحکمہ خواب دیکھا اور الحمدللہ وہ خواب ان کی زندگی میں بہت حد تک پورا ہوا۔

حکیم محمد سعید صاحب’’ہمدرد‘‘ کے تمام تشریحی کوشش میں پیش پیش تھے۔ حکیم صاحب نے ادویات کے اشتہار کی نئی روایت ڈالی جب کہ کوئی اس طرف متوجہ نہ تھا۔’’جنگ‘‘ اخبار میں میرشکیل الرحمن سے دہلی کے تعلق سے انہوں نے ایڈوانس دے کر اشتہار دیئے۔ جب کسی کو خیال نہ تھا ’’رُوح افزا‘‘ پر بڑے شاعروں نے اشعار کہے۔ کتابچہ کی صورت میں چھپے۔ بچوں کے لیے ایک ہزار کتابیں شائع کیں۔ شام ’’ہمدرد‘‘ کا آغاز انہوں نے اپنی کوٹھی سے کیا۔یہ ترقی کر کے بڑے ہوٹلوں میں پہنچی اورپاکستان کی علمی ادبی سرگرمیوں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ اسی طرح بزمِ نونہال بہت نظم و ضبط کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ تشہیر کی ایک میٹنگ میں ’’مستورین‘‘ کے بارے میں تبادلہ خیال ہورہا تھا ایک پنچ لائن یہ پیش کی گئی۔

’’گردشِ ایام میں مفید، سب رائے دے رہے تھے حکیم صاحب نے جمیل صدیقی ڈائریکٹر ٹریڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ان سے پوچھو ہمارے ’’ادیب صاحب‘‘ سے۔ جمیل صدیقی نے کہا اس میں خرابی تو بظاہر کوئی نہیں ہے البتہ ڈر یہ ہے کہ اسے مرد انہ استعمال کرنے لگیں۔ حکیم صاحب نے کہا ادیب صاحب ٹھیک کہتے ہیں کچھ اور سوچتے ہیں۔ جمیل صدیقی صاحب کا بڑا تعلق حکیم صاحب سے اور ان کے رفقاء سے رہا ہے کہتے ہیں کہ حکیم صاحب ہمیشہ ایک شگفتہ موڈ میں رہتے تھے کبھی بھی انھوں نے حکیم صاحب کو کسی کے ساتھ تلخی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ جب کبھی آتے جاتے ملاقات ہو جاتی تو کہتے اور بھئی لڑکے کیا حال ہے ان کی شہادت کے بعد ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔

جمیل صدیقی صاحب ہی بتاتے ہیں کہ بہت بڑا ہونے کے بعد بھی ان کا غریبوں کا خیال کم نہیں ہوا وہ اُسی تواتر سے اچانک اورنگی اور کورنگی تک اپنے مریضوں کو دیکھنے چلے جاتے تھے وہ کارکنوں کی محفلوں میں محبت سے شرکت فرماتے تھے۔ اس میں بھی عار نہ تھی کہ کسی پتلی گلی میں گئے ہیں اور فرش پر چٹائی ہے۔ گرمی، حبس، برسات، شدیدسردی ان کے لباس کو تبدیل نہ کر سکتی تھی۔ وہ شیروانی کے ’’ہک‘‘ کو بھی بند کر رکھتے تھے تاکہ سمارٹ اور الرٹ رہیں۔ فلیٹس ہوٹل بھی شامل ہمدرد ختم ہوئی ہے بڑے بڑے لوگ ہیں محوِگفتگو ہیں ایک غریب حکیم صاحب پاس آتا چلا جاتا ہے پھر آتا چلا جاتا ہے۔ دراصل وہ کچھ کہنا چاہتا ہے حکیم صاحب اب لوگوں کو چھوڑ کر اس کے پاس جاتے ہیں۔ یہ انسان دوستی اور غرباء پروری ہے۔ ماں نے مرتے وقت کہا سعید غریب کا خیال رکھنا۔

حکیم سعید صاحب کو یہ بھی باقاعدہ خیال آتا تھا کہ دوسری لائن آف ڈیفنس ان کی زندگی میں ہی بن جائے تو یہ بڑا کام کو یہاں تک وہ لے کے آئے ہیں اوّل سنبھال لے اور دوئم آئندہ کے کام خوش اسلوبی سے چلتے رہیں یہ نہ ہو کہ ان کے انتقال کے بعد بتائیں ہمارے مرنے کے بعد کیا ہو گا پولاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا سعدیہ راشد صاحبہ کوانہوں نے اچھی تربیت کے ساتھ ’’پکا‘‘ کر لیا تھا تمام کاموں سے ان کی آگاہی کرا دی تھی ہر اہم میٹنگ اور بیرونِ ملک کے نمائندہ دوروں میں وہ ان کے ساتھ تھیں۔ پھر ڈاکٹر حافظ محمد الیاس صاحب کی رہنمائی انہیں میسر تھی۔ قدرت کی طرف سے ایک یہ اچھا کام ہوا کہ ڈاکٹر نویدالظفر فارمیسی میں امریکہ سے تعلیم حاصل کر کے آئے اور 1985ء میں ’’ہمدرد‘‘ کوڈائریکٹر پلاننگ پھرڈائریکٹر پروڈکشن بنے۔

D.M.Dکے عہدہ پر تھے کہ ڈاکٹر نویدالظفر صاحب کے والدِمحترم کا انتقال ہوا۔ بڑے حکیم صاحب دہلی سے آ چکے تھے۔ ڈاکٹر نویدالظفر کی تعلیمی استبداد، 8سال کا اِن کا ’’ہمدرد‘‘ کا تجربہ، بے پناہ صلاحیت دونوں بھائیوں کی نگاہ میں تھی۔ وہ 6!اپریل 1993سے منیجنگ ڈائریکٹر کے لیے منتخب ہو گئے۔

حکیم صاحب کو کام کے انسان کی کمال کی پرکھ تھی۔ ان کی نگاہ میں کام کا آدمی آ جاتا تھا تو وہ اس سے ’’لپٹ‘‘ جاتے تھے۔ مسعود احمد برکاتی کہتے ہیں کہ جب یہ دیکھتے تھے کہ کسی آدمی میں بوئے وفا ہے اور کچھ صلاحیت بھی ہے تو وہ اس کی خامیوں کے ساتھ قبول کر لیتے تھے۔

حکیم صاحب آدمی کو کام کا آدمی بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ جو آدمی کام نہ کرتا تھا وہ چاہیے کتنا عزیز کیوں نہ ہو ان کو عزیز نہ ہو سکتا تھا۔ سچ ہے مسعود احمد برکاتی صاحب نے بعض اُلجھنوں کے باوجود حکیم کے ساتھ بڑا کام کیا۔ رفیع الزماں زبیری کہتے ہیں1988ء ریٹائر ہونے کے بعد کراچی آیا۔ حکیم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ حکیم صاحب کہنے لگے کہاں ہیں؟ کیا ارادہ ہے؟سوچا نہیں۔زنگ لگ جائے گا۔ کہنے لگے بچوں کے لیے ادب کے کام کر رہا ہوں ساتھ آ جایئے۔ میں نے کہا میرے لیے میدان نیا ہے۔ سب ہو گیا اور میں ان کے ساتھ آ گیا۔ زبیری صاحب نے دِل سے کام کیا اور ایک ذخیرہ نونہالِ ادب کا میسر آیا زبیری صاحب نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات پر حیران ہوتے تھے کہ حکیم صاحب کتنی یکسوئی سے اپنی تحریریں صاف اور واضع طور پر فراہم کرتے تھے ان کی تحریر سلسلہ وار ہوتی تھی اور کوئی کاٹ چھانٹ کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

حکیم عبدالمنان لکھتے ہیں’’میں اپنے بزرگ کے ہمراہ مطب آرام باغ پہنچا۔ حکیم صاحب نے مجھے گوشۂ چشم سے دیکھا اور بغیر کی تمہیدو تعارف کے فرمایا کہ آپ ہمدرد آنا چاہتے ہیں تو آ جایئے، یہاں آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں سے واپسی ادارے کی روایت کے خلاف ہے۔ مختلف حیثیتوں میں ’’ہمدرد‘‘ کے ساتھ پیوستہ رہ کر آج ’’ہمدرد یونیورسٹی‘‘کے ڈین فیکلٹی آف ایسٹرین میڈیسن ہیں۔

سب کا تفصیل سے ذِکر ممکن نہیں لیکن جتنے لوگ حکیم صاحب سے ملنے آئے وہ ’’ہمدرد‘‘ کے لیے نیک فال ثابت ہوئے۔ حکیم سعید صاحب کے بارے میں احمدندیم قاسمی نے اپنے مضمون پوری دُنیا کا بڑا انسان میں لکھا۔ انہوں نے مدینتہ الحکمہ کے نام سے تہذیب و ثقافت اور علم وفن کا پورا شہر بسا دیا۔

حکیم صاحب نے 75غیرملکی کانفرنسوں میں شرکت فرمائی۔35سال ’’شام ہمدرد‘‘ کا سلسلہ جاری رہا۔امریکہ، کینیڈا، روس، چین، کوریا، برطانیہ، فرانس، سری لنکا اور دوسرے ممالک کا نہ صرف دورہ کیے بلکہ عمدہ ’’سفرنامہ‘‘ پیش کیے۔ طب کے بارے میں بعض بااثر لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کے سلسلے میں انہوں نے بڑا کام کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اطباء، ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کا اتحاد قائم ہوا۔ بچوں کے ساتھ ان کو بے پناہ لگاؤ تھا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ان کے یہ کمالات غیرذہنی اور غیرانسانی لگتے ہیں۔ البتہ یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ’’سپرہیومن‘‘ کی صفات سے نواز رکھا تھا۔

حکیم سعید شہید کی بیٹی سعدیہ راشد کہتی ہیں حکیم صاحب نے کبھی بٹھا کر مجھے کوئی کام کرنے یا نہ کرنے تلقین نہیں کی میں گھر میں ان سے ڈرتی رہتی تھی اور سانس بھی آہستہ لیتی تھی کہ کہیں لکھنے پڑھنے کے کام میں مشغول حکیم صاحب ڈسٹرب نہ ہوں۔ خود مجھے خیال تھا کہ مجھ سے ایسا کوئی ناپسندیدہ کام نہ ہو جائے کہ خاندان میں سبکی کا باعث بنے۔ حکیم محمد سعید صاحب جب 1988ء کو فیصل آباد ’’شام ہمدرد‘‘ تذکار حکمت کی مجلسوں کے لیے تشریف لائے اور ’’مطب‘‘ بھی ہونا تھا تو میرا حال سچ مانیے ایک دیوانے کا سا ہو گیا تھا۔

دوست احباب یہ کہتے کہ تم آخر اِتنے پریشان کیوں ہر حکیم صاحب ہی تو آ رہے ہیں۔ مَیں خوف زدہ تھا کہ میں ان تمام تقاریب کے اہتمام میں وہ اعلیٰ انتظام کرپاؤں گا کہ نہیں جو حکیم صاحب کا خاصہ ہے میں نے بارہا ان کو قریب سے دیکھا تھا اور اس بات کا مجھے یقین تھا کہ وہ پری فکیشن کے قائل تھے۔ ان کی نگاہ سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔

وہ تمام اجلاس بروقت شروع کرنے کے قائل تھے اور ہر مجلس میں وقت پر پہنچنا لازمی تھا۔پہلا مریض ساڑھے پانچ بجے دیکھ لیتے تھے، جس شگفتہ مزاج سے وہ پہلا مریض دیکھتے تھے شام تک وہ ہی موڈ برقرار رکھتے۔ حکیم صاحب دونوں دِن روزے سے تھے جب دورے سے واپس گئے خط لکھا اور پس اگر تم اتنی محنت نہ کرتے تو میں بہت ساری لوگوں کی خدمت سے محروم رہ جاتا۔

حکیم صاحب کی نگاہ ہر چیز پہ تھی کہنے لگے یہ کیسے ممکن ہے کہ تم میرے ساتھ ہو اور ہاتھ کی گھڑی نہ ہو فوراً حاصل کرو۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں نے دو دورے سری لنکا کے کیے ایک بار پچاس دِن بھی سری لنکا میں رہا آپ کی کتاب سعید سیاح سری لنکا میں پڑھی تو سچ ہے یہ جانا کہ سری لنکا میں دراصل ہے کیا کیا۔

میں نے کہا محترم آپ ان تمام کاموں کے لیے کیسے وقت نکالتے ہیں۔ ہزاروں خطوں کا جواب آپ دیں۔ شادی غمی میں آپ شریک ہوں۔ ہمدرد کی میٹنگوں کی صدارت آپ کریں۔ شام ہمدرد اور بزمِ نونہال آپ موجود۔ کتابیں آپ کی آئے چلی جاتی ہیں۔ 1992ء میں سچی کہانی کے عنوان سے آپ نے نونہالوں کے لیے 200صفحات پر مشتمل کیا خوب کتابیں پیش کیں۔ لگاتار ’’مطلب‘‘ کرنا اور کانفرنسوں میں شرکت کرنا یہ سب کیسے ممکن ہوتا ہے۔ کہنے لگے نیند کو مختصر کر کے اوسطاً چار گھنٹہ کی کردو اور زندگی معمولات کے مطابق گزارو، سب ممکن ہو جائے گا۔

آج کل دو سوال لوگ اکثر کرتے ہیں۔ حکیم صاحب کے قاتلوں کا کیا بنا، مَیں ان سے کہتا ہوں کیا بننا ہے اوروں کا کیا بنا جو حکیم صاحب کے قاتل کا پتہ چلے گا۔ یہ خوب ملک ہے یہاں نئی پوشاک بدلنے میں ہے قاتل مصروف تعزیت کے لیے مقتول کے گھر جانا ہے

دوسرا سوال حکیم محمد سعید صاحب کی شہادت سے لوگ اب تک کرتے چلے آ رہے ہیں کہ کب’’ہمدرد‘‘ ختم ہو جائے گا۔ ایسے بدشگونی کے الفاظ بہت سے حلقوں سے سننے کو ملے اور اب بھی بعض ڈائی ہارٹ حضرات نہ معلوم کیوں کچھ مطمئن نہیں ہیں۔ حکیم محمد سعید صاحب نے اپنی زندگی میں آگے کے لے تیار کر دی تھی محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ چیئرمین ہمدرد نے بڑے احسن طریقہ سے تمام ان کاموں کو سنبھالا ہے جو حکیم صاحب انجام دیا کرتے تھے۔ ادارے کی خوش قسمتی یہ ہے کہ حکیم محمدسعید صاحب کے شاگرد ڈاکٹر نویدالظفر ہیں اور بڑی عمدگی سے ہمدرد ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اچھائی یہ ہے کہ جو کام حکیم صاحب اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے ان کو اوّلیت حاصل ہے اور وہ اُسی باقاعدگی سے ہو رہے ہیں۔

سب سے بڑا دھچکہ حکیم محمد سعید صاحب کی وفات سے ’’ہمدرد مطب‘‘ کو پہنچا۔ ان جیسا یا ان کے قریب کوئی نہ تھاپھر بھی ’’ہمدردمطب‘‘ کے حکماء کے ذریعہ کراچی، حیدرآباد،ملتان، سکھر، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور بھی ہمدرد کے مطب میں نہایت نیک دِلی سے کام ہو رہا ہے۔ ایک نئی سخت غریب مریضوں کے علاج معالجہ قبلہ حکیم صاحب اپنی زندگی بھی شروع کرا دی تھی۔جس وقت حکیم صاحب کی شہادت ہوئی گزشتہ دس سالوں میں اس سمت میں خدمت کے دائرے کو محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ اور جناب نویدالظفر نے بہت بڑھا دیا ہے اور ہمدرد کے شفاخانے پورے پاکستان میں مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں۔

حکیم صاحب کی حیات بھی اگر تین موبائل ڈسپنسریاں تھیں تو اب الحمدللہ پندرہ ہیں ان دواخانوں سے 26,01,915مریضوں کی خدمت کی گئی ہے۔ دوائیں مفت دی گئی ہیں۔ ٭شہادت کے بعد حکیم صاحب کے متعین کیے ہوئے توسیع کا کام جاری ہے۔ فیکلٹی آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، فیکلٹی آف انفارمیشن، فیکلٹی آف لیگل اسٹڈیز، فیکلٹی آف فارمیسی کا قیام حکیم محمد سعید شہید کے بعد عمل میں آیا۔ ٭فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن کی نئی بڑی عمارت تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ٭ایسٹرن میڈیسن کے زہراہتمام 50بستروں پر مشتمل ہسپتال قائم کیا گیا ہے۔ اسی ہسپتال میں امراضِ چشم سے متعلق LRBTکی خدمت حاصل کی گئی ہے۔ ٭اسلام آباد میں کالج اور یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک بڑی زمین حاصل کی گئی ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید نے نو جنوری انیس سو بیس کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ دو برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔
    لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ زمانے کا شعور ہوا تھا تو سر میں کئی پہاڑ سر کرنے کا سودا سمایا۔ طب و حکمت میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بھائی کیساتھ ملکر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ہمدرد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
    پھر یوں ہوا کہ ہمدرد کا نام تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا۔ سعید پہلے صحافی بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لئے اس سے وابستہ ہوئے۔
    پاکستان بننے تک ہمدرد ایشیا میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا تھا۔
    تقسیم کے بعد جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوئی تو سعید نے تمام کاروبار، عیش وآرام اور دولت چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیااور نو جنوری انیس سو اڑتالیس کو کراچی آگئے۔
    شہزادہ سدارتھ کی طرح وہ سب کچھ خیرباد کہہ کر جب کراچی آئے تو دہلی میں پیکارڈ کار پر سفر کرنے والے محمد سعید نے اپنے ساتھ لائی ہوئی روح افزا اور گرائپ واٹر کی شیشیاں بیچنے کے لئے شہر کا چپہ چپہ چھان مارا، یہاں تک کہ ان کے جوتوں میں سوراخ ہوگئے۔
    پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کراپنے کام کا آغاز کیا۔ پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی جس نے ہمدرد فاونڈیشن کی راہ ہموار کی اور حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمتِ کے لیے باقاعدہ وقف کردیا۔ طبِ یونانی کا فروغ اور اسے درست مقام دلوانا حکیم محمد سعید کی زندگی کا اہم مشن رہا۔
    گورنر سندھ بننے کے بعد بھی پاکستان بھر میں اپنے مریضوں کو باقاعدہ دیکھتے اور ان کا مفت علاج کرتے رہے۔ اسی طرح ضیاالحق کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی ، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ سرکاری گاڑی نہیں لی اور نہ ہی رہائش یہاں تک کہ وہ غیر ملکی زرِ مبادلہ جو انہیں سرکاری خرچ کے لئے ملا تھا وہ بھی قومی خزانے کو واپس کردیا۔
    محترمہ فاطمہ جناح نے چودہ اگست انیس سو اٹھاون میں ہمدرد کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا جس سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔
    حکیم محمد سعید بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی ان کے دیوانے ٹھہرے۔ یہاں تک کہ پشاور کا ایک بچہ والدین کی ڈانٹ پر گھر سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ میں کراچی میں حکیم سعید کے پاس جارہا ہوں۔ قولِ سعید ہے کہ بچوں کو عظیم بنادو، پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا۔
    انہوں نے بچوں کی تربیت کے لئے رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا اور بزمِ نونہال کے ہزاروں پروگرامز کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کا سامان کیا۔ ساتھ ہی ہمدرد نونہال ادب کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کتابیں شائع کیں ۔ سچی ڈائری کے عنوان سے بچوں کے لئے کتابیں شائع کرکے اپنی زندگی کے دن رات بیان کردئے۔
    گزرتے وقت کے ساتھ ہی حکیم محمد سعید کے دل میں علم و حکمت کے فروغ کی تڑپ بڑھتی رہی اوروہ جنون میں بدل گئی-
    کراچی میں مدینتہ الحکمت نامی منصوبہ بھی اسی دیوانگی کا نتیجہ ہے جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے ایک بہت بڑی لائبریری، یونیورسٹی ، کالجز، اسکول اور دیگر اہم ادارے قائم ہیں۔ سائنس و ثقافت اورعلم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے جس کے عزم وعمل نے ریگستان کو ایک علمی نخلستان میں بدل دیا۔
    بزمِ ہمدرد نونہال، ہمدر د شوریٰ، شامِ ہمدرد اور ہمدرد نونہال اسمبلی جیسے ماہانہ پروگراموں میں ممتاز عالموں ، علمائے سائنس ، ادیبوں اور دانشوروں کو مدعو کرکے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے فکری نظریات کو عام آدمی تک بھی پہنچایا۔
    حکیم محمد سعید نے دنیا بھر کا سفر کیا اور لاتعداد اہل علم کو اپنا دوست بنایا ۔ وہ ہرسال دنیا بھر میں تقریباً دس ہزار افراد کو عیدین اورنئے سال کے کارڈ بھجوایا کرتے تھے۔ جواہر لعل نہرو، سرمحمد ظفراللہ خان،ایان اسٹیفن، شاہ حسین، جوزف نیدھم، ڈاکٹر اکبر ایس احمد، سید حسن نصر، فاطمہ جناح اور دیگر ہزاروں شخصیات ان کے مداحوں میں شامل تھے۔
    ممتاز قلمکار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔
    میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ ہمدرد یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو۔ اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیار ی کیلئے کمر بستہ ہوں۔
    ان کی یہ خواہش تو زندگی میں پوری ہوئی لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد ہیں۔
    سترہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کی ایک صبح کا ماجرہ ہے، جب سپیدہ سحر پوری طرح نمودار بھی نہیں ہوا تھا۔ حکیم محمد سعید اپنی سفید گاڑی میں اپنے آرام باغ میں واقع اپنے مطب پہنچے۔ گاڑی سے اترے اوراپنی ٹوپی اپنے ایک معاون کے ہاتھ میں دی اور مطب کی طرف بڑھنے لگے ۔
    اسی دوران نیم اندھیرے میں آتشیں ہتھیاروں نے شعلے اُگلے اور کئی گولیاں حکیم سعید کے جسم میں پیوست ہوگئیں۔ پھر دنیا نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھاکہ لاکھوں لوگوں کا علاج کرنے والے مسیحا کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی

تبصرے بند ہیں۔