پروفیسر فؤاد سزگین: عصر حاضر کا عظیم ترین اسلامی اسکالر

 ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

پروفیسرسزگین (پیدائش بیتلیس، ترکی، ۲۴ اکتوبر ۱۹۲۴، وفات استنبول ۳۰ جون ۲۰۱۸) بلا مبالغہ موجودہ زمانے کے سب سے بڑے اسلامی اسکالر تھے۔ ان کا مرتبہ وہی ہے جو ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا ہے، لیکن بر صغیر میں وہ معروف نہیں ہیں کیونکہ وہ جرمن زبان میں لکھتے تھے جو کہ ایک بہت ترقی یافتہ زبان ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ تاریخ التراث العربی (عربی ورثے کی تاریخ) ہے جو درحقیقت جرمن محقق کارل بروکلمان کی اسی نام سے کتاب کی تکمیل ہے جو ۱۸۹۸۔ ۱۹۰۲ کے دوران شائع ہوئی تھی۔ چونکہ اس زمانے میں مشرق کے اکثر کتبخانوں کی فہرستیں تیار نہیں تھیں اور اگر رجسٹر موجود بھی تھے تو وہ چھپے نہیں تھے، اس لئے بروکلمان کی کتاب میں بہت کمیاں رہ گئی تھیں۔

فؤاد سزگین نے جرمنی سے ۱۹۵۴ میں بخاری کے مصادر پر پی ایچ ڈی کیا۔  یہ  تھیسیس بعد میں ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوا۔ اسی سال وہ استنبول یونیورسٹی میں استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۰ کے فوجی انقلاب کے بعد ۱۴۶ پروفیسروں کو ترکی یونیورسیٹیوں سے نظریاتی بنیاد پر نکالاگیا، ان میں فؤاد سزگین بھی شامل تھے۔ اس کے بعد وہ جرمنی چلے گئے جہاں وہ فرانکفورٹ یونیورسٹی میں استاد ہوگئے۔ ۱۹۶۵ میں انھوں نے جابر بن حیان کے بارے میں ایک اور ڈاکٹریٹ حاصل کی جس کے بعد ان کو پروفیسر کا درجہ دیا گیا۔ پروفیسر فؤاد سزگین بہت سی زبانیں جانتے تھے جن میں عربی، انگریزی، جرمن کے ساتھ عبرانی، سریانی اور لاتینی زبانیں شامل تھیں۔

پروفیسر سزگین کی کتاب درحقیقت عربی زبان میں لکھے گئے تمام علمی ذخیرے کی تدوین ہے اور ہر کتاب کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ چھپ گئی ہے یا نہیں اور اگرمخطوطہ ہے تو کن کن کتب خانوں میں موجود ہے۔ یہ وہی کام ہے جس کی ابتداء ابن الندیم   (وفات ۴۳۸  ہجری )  نے الفہرست کے نام سے کی تھی لیکن اب یہ کام پچھلی دوصدیوں سے مغرب کے لوگ ہی انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر سزگین بھی مغرب میں رہنے کی وجہ سے ہی اس کام کو کر پائے ورنہ ان کو تو اپنے ہی ملک میں ٹیچر کے عہدے سے برخاست کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ جرمنی چلے گئے تھے۔ اس کتاب کی ابتداء پروفیسر سزگین نے ۱۹۴۷ میں کی تھی لیکن اس کی پہلی جلد ۱۹۶۷ میں شائع ہوپائی۔ وفات کے وقت پروفیسر سزگین اس کی اٹھارویں جلد پر کام کر رہے تھے۔ انسانی علمی وتہذیبی تاریخ پر اس سے بڑی کتاب ابتک مدون نہیں کی گئی ہے۔ اس میں عربی زبان میں لکھے جانے والے تمام ورثے کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں قرآن پاک، تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علم کلام، عربی شاعری، طب، صیدلہ، بیطرہ، علم حیوان، کیمیاء، زراعت، علم نباتات، ریاضیات، علم فلک، نجوم، عربی زبان، جغرافیا، نقشے اور عربی مخطوطات کے ذخیرے وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ ہو چکا ہے۔

پروفیسر فؤاد سزگین نے ۱۹۸۲ میں جرمنی کی گوئٹے یونیورسٹی میں انسٹیٹیوت برائے عربی واسلامی تاریخ کی بنیاد ڈالی۔ اسی انسٹیٹیوٹ میں انھوں نے اگلے سال ایک میوزیم ک قائم کیا جس میں اسلامی دور میں استعمال ہونے والے آٹھ سو (۸۰۰) سائنٹیفک آلات اور مشینوں کے اصل کے مطابق نمونے بنواکر رکھے۔ اسی طرح کا میوزیم انھوں نے استنبول میں ۲۰۰۸ میں قائم کیا جس کا افتتاح رجب طیب اردوان نے کیا جو اس وقت وزیر اعظم تھے۔ ۲۰۱۰ میں انھوں نے استنبول میں اسلامی وعربی تاریخ کا ٹرسٹ قائم کیا۔ ان سب کوششوں سے انھوں نے ثابت کیا کہ موجودہ علوم وفنون کے اصل موجد درحقیقت عرب اور مسلمان تھے۔

اپنے ایک مشہور لکچر میں انھوں نے ثابت کیا ہے کولمبس سے بہت پہلے عربوں نے امریکا کا اکتشاف کیا تھا۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اٹھارویں صدی عیسوی کے اوائل تک دنیا کے تمام نقشے مسلمانوں کے بنائے ہوئے نقشوں کی نقل تھے۔ ان کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ خود مسلمان آج نہیں جانتے کی ان کے آباء واجداد نے کیا کارنامے مختلف علوم وفنوں میں کئے۔ انھوں نے بتایا کہ خلیفہ المامون نے تقریبا ستر (۷۰) جغرافیا کے عالموں کو پوری دنیا کے اکتشاف کے لئے بھیجا۔ کئی سال تک گھوڑوں، اونٹوں، ہاتھیوں اور پانی کے جہازوں پر گھوم کر ان لوگوں نے ساری دنیا کے بارے میں معلومات اکٹھا کیں اور نقشے بنائے۔

پروفیسر سزگین کہتے تھے: ’’ مجھے اس بات سے خوشی نہیں ہوگی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں عربوں اور مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دئے ہیں ہم ان پر آج محض فخر کریں۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ آج کے مسلمان سمجھیں کہ کیسے وہ لوگ، جو صرف اپنی انگلیوں پر گنتی کرنا جانتے تھے، اتنی زیادہ ترقی کرسکے۔ ہم کو ان سے اور دوسری قوموں سے بہت کچھ سیکھنا ہے تاکہ ہم میں خود اعتمادی پیدا ہو اور ہم اپنے مشکلات پر قابوپاسکیں۔ ہم کو ان علماء سے سبق حاصل کرنا چاہئے جو بہت مشکل حالات میں علم حاصل کرتے تھے۔ انھوں نے ہم سے کہیں زیادہ لکھا اور وہ زندگی میں ہم سے کہیں زیادہ خوش تھے‘‘۔

جرمن حکومت نے پروفیسر سزگین کے ذاتی کتبخانے کو جرمن قوم کا اثاثہ قراردے کر قومیالیا تھا اور انھیں اس کو جرمنی سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن انہیں اس کے بدلے خاطرخواہ مالی معاوضہ بھی دیا۔ ترکی منتقل ہونے کے بعد پروفیسر سزگین نے اپنا کتبخانہ دوبارہ بنایا اور اب ترکی حکومت اس لائبریری کے لئے استنبول میں ایک خاص بلڈنگ بنانے جارہی ہے۔

پروفیسر فؤاد سزگین نے، جو درحقیقت ترکی النسل تھے، جرمنی میں رہ کر وہاں اور دوسرے مغربی ممالک کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔  ان کے کارناموں کے لئے ان کو مغرب اور عالم عرب میں سراہا گیا جسمیں شاہ فیصل ایوارڈ بھی شامل ہے۔  ۱۹۷۹ میں یہ انعام سب سے پہلے پروفیسر فؤاد سزگین کو دیا گیا۔ ترکی حکومت نے سال ۲۰۱۹ کو فؤاد سزگین کا سال قرار دیا ہے جس کے دوران ان کے بارے میں مختلف کانفرنسیں اور پروگرام منعقد ہونگے۔ ان کے جنازے میں صدر جمہوریہ رجب اردوان کے ساتھ حکومت کے بڑے ذمے دار موجود تھے۔ اللہ پاک ان کو جزائے خیر دے اور ہماری امت کو توفیق دے کہ جس راستے پروفیسر فؤاد سزگین اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ چلے، ان پر ہمارے کچھ نوجوان سکالر بھی چلیں اور صرف عہدوں کی دوڑ میں نہ لگے رہیں۔

تبصرے بند ہیں۔