جینے کی راہ: تصادم نہیں ہم آہنگی کی راہ چنیں

مسعود جاوید

دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی ملک قوم اور فرد کے  حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ جو ذہین قوم اور افراد اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں وہ بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرنے کے لیے پہلے سے تیار رہتے ہیں اسی لئے ناسازگار حالات ان کے لئے ناگہانی نہیں ہوتے اور انہیں بہت زیادہ صدمہ نہیں پہنچتا۔ وہ ان سے نمٹنے کے لیے جو طریقہ کار ڈھونڈ کر رکھے ہوتے ہیں ان کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دور اندیش کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حالات کے سپرد نہیں کرتے بلکہ ان حالات کے بیچ سے اپنے لئے راستہ نکال لیتے ہیں۔

جذباتی نعرے اور جوشیلی تقریریں عوام میں وقتی ہیجان پیدا کرسکتی ہے مگر اس ہیجان میں پائداری نہیں ہوتی سوڈا واٹر کی بوتل کهلی اور گیس غائب ۔۔۔ جلسے جلوس ختم اور عوام کے جذبات سرد۔  مثبت تعمیری کام کرنے کے لئے نعروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حالات کے تحت دشمن عناصر کو اپنی اسٹریٹجی سے پست کرنے کی ضرورت ہے ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لینے کی ضرورت ہے۔  حالات کا تقاضہ اگر یہ ہو کہ ہم اسلام اور مسلم امہ کا راگ نہ الاپیں تو نہیں الاپیں گے۔ لیکن جو لوگ میری اس سوچ کے مخالف ہیں اور بزدلی کا طعنہ دینے والے ہیں ان کو اسلام کی سربلندی اسی میں نظر آتی ہے۔ وہ راگ الاپیں گے اور فائدہ کی جگہ نقصان پہنچائیں گے۔ پوری دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص، اسلام اور مسلمان کا ذکر ایک مخصوص طبقہ کو بہت ناگوار گزرتا ہے۔ اور جب ایسا ہے تو دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ اسی درمیان اپنے لئے خوشگوار جینے کی راہ ڈھونڈیں۔

1- ایک عرصہ سے کوشش کی جا رہی ہے کہ ہندوستان میں اسلامی بینک قائم کئے جائیں بات سرکاری دفاتر سے گزر کر فائنل لائسنس اتھارٹی RBI تک پہنچی اس مہم کے ذمہ دار اعلیٰ جناب عبدالرقیب صاحب نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ریزرو بینک کے گورنر بهی بہت حد قائل ہو گئے تھے کہ اس طرح کی بینکنگ نظام ہندوستان کی غریب عوام کے لئے مفید ہے لیکن نام اور اسلامی نظریہ کی حساسیت کی وجہ سے معاملہ اٹک گیا اور مزید یہ کہ سبرامنیم سوامی نے عدالت میں اسے چیلنج کردیا۔ میں نے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ آپ اسے اسلامی بینک کا نام دیں ؟

آپ کسی نام سے بلاسودی بینک شروع کریں اور غریبوں کو راحت پہنچائیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ امت کو اس ام الخبائث سے بچائیں۔ نام میں کیا رکھا ہے۔  ماضی قریب کی تاریخ اٹها کر دیکھیں شوکت اسلام کانفرنس پاکستان میں اور” غلبۂ اسلام بہر صورت ہمارا نصب العین ہے اور ہر جگہ لکھا جائے گا” جیسا سخت موقف کا حاصل کیا ہے سوائے چند روپہلی سکوں سے جیب بهرنے یا چمپیئن اسلام بننے کے۔ نتیجہ کیا ہوا پوری دنیا کی نظر میں ایسا اعلان کرنے والوں اور نعرہ لگانے والوں پر دہشتگردی یا متشدد جماعت  کی مہر ثبت کردی گئی۔ اب وہ لوگ غلبہ اسلام کیا چهوٹی چهوٹی خدمات بهی کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ "اخوان”، مصر میں "باغی” اس لئے مطعون، "حماس ” فلسطین میں  "دہشتگرد” اور دوسری جماعتیں الجزائر اور تونس میں اسی طرح  "رفاح”  ترکی میں۔  جب ترکی میں نجم الدین اربکان کی پارٹی نے غلبہ اسلام کا نعرہ لگایا تو فوج نے تختہ پلٹ دیا اور نائب وزیراعظم اربکان اور انکے ساتھیوں کو جیل میں ڈال دیا۔ترکی کے موجودہ صدر اردگان بهی جیل بهیجے گئے وہاں انہوں اس پیچیدہ مسئلہ کا حل ڈھونڈا کہ اسلام کا کام ہو مگر دینی کام کے نام پر نہیں سیاسی، معاشی، ترقیاتی، فرد کی آزادی، جمہوریت اور سیکولرازم کے نام پر-  اس طرح بتدریج وہ اسلام کا کام کر ریے ہیں مگر اسلام کا ڈھنڈورا پیٹے بغیر۔

2- ہندوستان میں اس وقت عام لوگ اور بالخصوص پسماندہ طبقات مسلمان اور دلت بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں اس لئے وقت کا تقاضہ ہے کہ اسٹریٹجی کے تحت ان حالات سے نمٹا جائے۔  اسلام، مسلمان، یا پاکستان جیسے شوشوں پر اپنا جذباتی رد عمل کا اظہار نہ کریں۔  کسی مسئلہ کو ہندو مسلم کا ایشو بنا کر اٹهانے کی بجائے ایسی اسٹریٹجی اپنائی جائے کہ سانپ بهی مر جائے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے۔

اگر اس طرح کے مسائل کو  انسانی حقوق اور دستور ہند کی پامالی کا مسئلہ بناکر سڑک پر لایا جائے  تو ایک بڑی تعداد غیر متعصب ہندوؤں کا بهی ہمارے ساته ہوگا اور اس ملک کی حساسیت کو دیکهتے ہوئے اور مختلف علاقوں کے سماجی اور معاشی حالات کا ذاتی مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس ملک میں سیاست ہو یا تجارت غیر مسلموں کو ساتھ لے کر چلنے میں بڑی آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں خواہ پولیس کی زیادتی ہو یا غنڈہ عناصر کی جانب سے خواتین کو چھیڑنے کا مسئلہ ہو اگر آپ کے شانہ بشانہ غیر مسلم ہیں تو ان کا نظریہ بدل جاتا ہے۔ ۔۔۔ دیدہ میں پانی ہوتا ہے وہ روکتا ہے کہ اپنے دوست یا پارٹنر یا ان کے جاننے والوں کے ساتھ برا سلوک کیسے کریں۔

1 تبصرہ
  1. Masud Javed کہتے ہیں

    مسعود جاوید
    ایک اشکال کا جواب :
    1- جہاں تک آسام کی بات ہے وہاں بھی مولانا بدرالدين اجمل صاحب نے پہلے زمینی کام کیا صحت اور تعلیم کے مراکز قائم کئے جن میں بلا تفریق مذہب سب مستفید ہوتے ہیں.
    2- انہوں نے اپنی پارٹی کا نام مسلم مجلس یا اتحاد المسلمین نہیں رکھا.بلکہ ایک عام نام نہ ہندو نہ مسلمان بلکہ AIUDF یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ رکھا جس کے امیدوار غیر مسلم بهی ہوتے ہیں
    3- غیر مسلموں کے ساتھ الائنس کیا اور بہترین اسٹریٹجی کے تحت کہ تم اپنی اکثریت کے علاقے میں ہمارے مسلم امیدوار کو ووٹ کراؤ اور ہم اپنی اکثریت والے علاقوں میں تمہارے امیدوار کو ووٹ کرائیں گے.
    مجهے یاد ہے ایک بار ٹائم اور نیوزویک کی طرح ایک میگزین عربوں کے پیسے سے لندن سے نکالی گئی تهی. اس کے پروموشن کے لیے اس کے ایڈیٹر فتحی عثمان جو پہلے نیوزویک میں کام کرتے تھے انڈیا آئے . تعارف کے بعد دوران گفتگو میں نے سوال کیا کہ جب دنیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی رویٹر یہودی کا ہے لیکن کسی کو پتہ نہیں جب تک تحقیق نہ کرے ٹائم اور نیوزویک یہودی اور مسیحی کے ہیں لیکن نام سے پتہ نہیں چلتا تو آپ نے اپنی انگریزی میگزین کا نام ” العربيه ” کیوں رکھا. اب اسے کوئی بهی شخص جو غیر جانبدار خبر کا متلاشی ہے ہاتھ نہیں لگائے گا.
    اس لئے ہمیں اس علامتی فخر اور شان و شوکت کی دنیا سے نکلنا ہوگا. میٹروپولیٹن کلچر میں سرینڈر نہیں ایڈجسٹ کرنا ہوگا اپنی شناخت تہذیب اور دین کی سلامتی کے ساتھ درمیان کا راستہ نکالنا ہوگا ایک ایسا راستہ جس میں حتی الامکان ہم آہنگی ہو تصادم نہیں.

تبصرے بند ہیں۔