مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اللہ کے تقاضے

ابوالکلام انصاری

(اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول، ہگلی، مغربی بنگال، ہندوستان)

   حضرت محمدؐ ہمارے نبی ہے۔ اللہ کے رسول ہے۔ ان کی نبوت قیامت تک کے لئے ہے۔ یہ آخری نبی ہے۔ ان کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔ ان کی پیدائش 570 ء میں شہر مکّہ میں ہوئی۔ جو قمری کلینڈر کے مطابق ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ ربیع الاول کے 12 تاریخ کو آپؐ کی ولادت حضرت آمنہؓ کے بطن سے ہوا۔ آپؐ کے والد محترم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب تھے۔ آپؐ مکہ کے قبیلہ قریش کے بنو ہاشم گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اللہ نے آپؐ کو 40 سال کی عمر میں نبوت کے اعزاز سے نوازا اور آپ ؐ کو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ سے سرفراز کیا۔ یہ کلمہ مسلمانوں کی زندگی کی بنیاد ہے۔ مسلمانوں کی پہچان ہے۔ ایمان کی جڑ ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی اس میں مضمبر ہے۔ جہنم و قبر کے عذاب سے نجات اور جنّت کے حصولیابی کا ضامن ہے۔ یہ کلمہ دو حصّوں پر مشتمل ہے۔

۱)  لا الہ الا اللہ  ۲)  محمد الرسول اللہ 

آج کا ہمارا موضوع محمد رسول اللہ ہے۔ یعنی کلمے کا یہ جز ہم مسلمانوں کی زندگی سے کیا تقاضا کرتا ہے۔ اس جز مخصوص کے ذریعے ایک مسلمان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ اسکا سیدھا سادہ جواب ہے اتباع رسول اور مشابہت رسول۔

۱)   اتباع رسولؐ:

یعنی اتباع سنّت رسولؐ۔ آپ ؐ کے ایک ایک سنّت پر عمل کرنا کلمہ کے اس جز کا اہم تقاضا ہے۔ محمد الرسول اللہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم آپؐ کے ایک سنّت یعنی طریقوں کو سیکھے اور اس کو اپنی زندگی میں شامل کریں۔ آپؐ کے سنّت (طریقہ) میں سو فیصد کا میابی ہے۔ اس کا کامل یقین ہمارے دل میں ہو اور اس یقین کا جھلک ہمارے اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہو۔ زبان سے اقرار کے ساتھ ساتھ دل سے اس تصدیق کا اظہار ہو۔ دل سے جب کوئی چیز تصدیق ہوتی ہے تو وہ عمل میں ضرور بالضرور ظاہر ہوتی ہے۔ فرض اور سنّت کا موازنہ کر کے اس کو چھوڑ نہ دیا جائے۔ جیسا کہ آج کے بہت سے مسلمانوں کے زبان سے یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ ”یہ سنّت ہی تو ہے، فرض تو نہیں۔ فرض کا معنی ہوتا ہے کہ کرنا بالکل ضروری ہے۔ سنّت میں تو ایسی بات نہیں ہوتی ہے کرنا بالکل ضروری ہے۔“

یہ آج کے چند مسلمانوں کے زبان سے نکلا ہوا جملہ ہے۔ حالانکہ کلمہ طیبہ کے رو سے اگر دیکھا جائے تو کلمہ کے دونوں جز لا الہ الا اللہ اور محمد الرسول اللہ پر یکسا زور دینے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں ایک ساتھ ہے۔ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہے۔ ایک کے بغیر دوسرا  ادھورا ہے۔ جس کوناقص دین بھی کہا جاتا ہے۔ کامیابی کامل دین میں رکھا گیا ہے۔  ناقص دین میں کوئی کامیابی نہیں ہے۔ ناقص دین میں دونوں جہان میں نا کامیابی ہے۔ اللہ نے ہمارے نبیؐ پر دین اسلام کو مکمل کر دیا اور اس سے راضی ہو گئے۔ اب جس کے زندگی کے اندر کامل دین ہوگا وہ دونوں جہان میں فلاح پائے گا اور جس کی زندگی کے اندر ناقص دین ہوگا وہ دونوں جہان میں ناکام و نا مراد ہوگا۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم کلمہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پر کامل طور پر عمل پیرا ہو۔

آپؐ جب اس دار فانی سے کوچ کر رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ جس کے زندگی کے اندر دو چیزیں پائی جائے گی وہ کامیاب ہوگا۔ اور وہ چیزیں یہ ہے: قران شریف اور میری سنّت۔ جو ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھے گا وہ کامیاب ہوگا۔ قران شریف میں اللہ کا کلام یعنی احکامات درج ہے اور ان احکامات کو کس طریقے سے پورا کرنا ہے وہ ہمارے نبیؐ نے بہ حسن خوبی ہم کو سیکھایا۔ اسطرح قران شریف اور سنت رسولؐ لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کو مضبوطی سے تھام کر دوسرے کو نظر انداز کر کے زندگی گزار نا ہمارے لئے نقصاندہ ہی نقصاندہ ہے۔

ہمارے نبیؐ قیامت تک کے لئے نبیؐ ہے۔ ان کی نبوت قیامت تک کے لئے ہے۔ ان کی نبوت دنیا کے ہر گوشے، ہر قوم کے لئے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے سنّت مخصوص وقت کے لئے یا مخصوص خطے کے لئے، مخصوص زمانے کے لئے ہے۔ بلکہ ان کے سبھی سنّت ہر زمانے کے لئے، دنیا کے ہر خطے کے لئے اور ہر قوم کے لئے کامیابی کے ضامن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام کے ابتدائی ادوار کے لئے تو ٹھیک تھے آج کے زمانے کے لئے مناسب نہیں ہے۔  بلکہ نبیؐ کے سنّت ہر زمانے کے لئے مناسب ہے اور کامیابی کے ضامن ہے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک قلعہ فتح کر نے میں صحابہؓ کو دشواری ہو رہی تھی۔ صحابہؓ نے مشورہ کیا اور غور کرنے پر معلوم ہوا کہ ان سے مسواک کی سنّت چھوٹ رہی ہے۔ فوراً صبح ہوتے ہیں سبھی صحابہ مسواک کرنے لگے۔ دشمن فوج انکا یہ عمل دیکھ کر گھبرا گئی کہ یہ مسلمانوں کو کیا ہو گیا سبھی کے سبھی مسواک کرنے لگے ضرور کوئی اہم بات ہے اور ان دشمنان اسلام پر مسلمانوں کا ایسا رعب اللہ نے ڈالا کہ وہ اپنا شکست تسلیم کر لئے اور قلعہ فتح ہو گیا۔ ایسے بہت سے واقعات اسلامی تواریخ میں ملتے ہیں۔

ان سب تاریخی واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نبیؐ کی سنّت کے اتباع میں اللہ نے مسلمانوں کے لئے عزّت، بلندی، سرفرازی اور کامیابی رکھی ہے۔ آج امّت مسلمہ اپنے ان اوصاف سے محروم ہو کر دنیا کی رسوائی اور کل کے اخروی رسوائی کے حق دار بنی ہوئی ہے۔ آج مسلمان جو جو سنّت رسول سے دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں یو یو ذلت، رسوائی، ناکامی و نامرادی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اللہ نے مومنوں کے لئے عزّت، سرفرازی و سر بلندی، کامیابی و نصرت کا وعدہ کر رکھا ہے اور سنّت رسول کو چھوڑ کر کوئی صحیح مومن بن ہی نہیں سکتا ہے۔

ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ”مومن وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ کی یاد آجائے“۔ اب بھلا بتائیے کہ اگر ہم اتباع رسول سے محروم رہے نگے تو بھلا کیسے کوئی ہمیں دیکھ کر مطیع رسول سمجھے گا یا اس کو کیسے اللہ کی یاد آئے گی۔ جبکہ آج ہمارا وضع قطع، شکل وصورت، لباس تہذیب و تمدن ہر چیز میں ملاوٹ ہو چکی ہے۔ خالص اسلام پیش کرنے سے ہم قاصر ہے۔ تو کیسے ہمارے ہم عصر دیگر اقوام کے افراد ہم سے سبق حاصل کرینگے اور کیسے وہ ہماری عزّت کرینگے اور کیسے ہم دنیا کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کو ہم اسلام سے متاثر کر سکیں گے۔

اتباع رسولؐ پر زور دیتے ہوئے اللہ تعالٰی قران شریف میں فرماتا ہے کہ:

”کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کریگا اور تمہارے گناہ معاف کردیگا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔“   (سورہ آلِ عمران:  ۱۳)

کتنی بڑی اور خوشی کی بات ہے کہ محبوبؐ کی اتباع میں خالق کی محبت ہے۔ اللہ ہم سے محبت اتباع رسولؐ کے بنا پر کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور مزید یہ کہ ہمارے گناہوں کی معافی کا وعدہ فرمیا ہے۔ اور یہ ذہن نشین رہے کہ جنّت گناہوں سے نجات کے بعد ہی نصیب ہوگی۔ اگر ہم اتباع رسولؐ میں کوتاہی برتے نگے تو ٹھیک اسکا الٹا معاملہ بھی ہمارے ساتھ پیش آئیگا۔ اللہ ہم سے نفرت کریگا۔ اگر احکم الحاکمین،  خالق کائنات ہم سے نفرت کرے تو بھلا کون ہمیں دنیا و آخرت میں کامیاب کریگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اتباع رسول ؐ میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ کریں۔ زندگی کا کیا بھروسہ آج ہے کل نہیں۔ اور ہمارے پیارے نبیؐ نے چالاک انسان اسی کو بتا یا ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کر لے۔

۲)  مشابہت رسول:

  ہمارے نبیؐ کا قول مبارک ہے کہ:

عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہوگا۔“ (سنن ابی داؤد:  حدیث نمبر ۱۳۰۴)

اپنے وضع قطع میں کسی دوسرے کا اتباع کرنا، کسی دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا ہمار نبیؐ کے مطابق بہت ہی غلط ہے۔ قیامت میں ایسے لوگوں کا حشر ان کے ہی ساتھ ہوگا جن کا انہوں نے مشابہت کر رکھا ہے۔ یہ مسلمانوں کے لئے بہت سخت و عید ہے۔ اسی لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ اپنے شکل و صورت، حلیہ، لباس اور معاشرت و معاملات گویا کہ زندگی کے ہر میدان میں غیروں (کفارو مشرکین) کے مشابہت سے اجتناب برتا جائے۔  اور نبیؐ کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے اپنے دنیا و آخرت کو سنورنے کی کوشش کی جائے۔ جیسا کہ پہلے بھی ایک حدیث مبارکہ کا ذکر کیا گیا کہ ”مومن وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ کی یاد آجائے“۔ تو حدیث مبارکہ کے روشنی میں اپنے حلیہ و شکل و صورت کا نبیؐ کا حلیہ و شکل و صورت میں ڈھالا جائے۔ نبیؐ کی وضع قطع اختیار کی جائے تا کہ کروڑوں کی بھیڑ میں بھی اگر ایک مسلمان ہو تو اسے دور سے دیکھ کر ہی پہچان لیا جائے کہ وہ اللہ والا ہے۔ آج دنیا میں نبیؐ کا مشا بہت و وضع قطع اختیار کیا جائیگا تو یہی چیز کل قیامت میں دیکھ کر ہمارے نبیؐ پہچان لینگے کہ یہ ہمارا عاشق ہے۔ یہ ہمارا امتی ہے اور پھر ہمارا حشر آپؐ کے ساتھ اور صلحاء کے ساتھ ہوگا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اتباع رسولؐ اور مشابہت رسول ؐ کے ساتھ اس دارفانی سے رخصت کرے۔ آمین۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

(علامہ اقبال)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔