مولانا ابوالکلام آزاد: ایک حقیقی قائد

مرزا عادل بیگ

(پوسد)

امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی پیدائش 11 نومبر 1888 کو مکہ شہر میں ہوئی تھی۔ ایک دیدہ ور عالم اور مدیر سیاست دان تھے۔ وہ اپنے فہم و فراست، ذہانت و فطانت اور دیگر کئ غیر معمولی صلاحیتوں کے اعتبار سے منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ اور وہ ہندوستانی تاریخ میں اپنی علمی، ذہنی اور سیاسی بصیرت کے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی زندگیاں گزاری تھیں۔ جہاں انھوں نے ایک طرف مسلمانوں کو ترجمان  القرآن کے ذریعہ قرآن سے قریب کرنے کی کوشش کی تھی تو وہاں دوسری طرف سیاست کے میدان میں قائدانہ رول ادا کرکے مسلمانوں کو مشکل مراحل میں بہترین رہنمائی فراہم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک حصّہ جیل میں گزارا ۔ جس کی وجہ سے ان کی معشیت کی حالت انتہائی ابتر اور صعوبت کی شکار ہوگئی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد جنھوں نے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے کے لیے انتہائی محنت اور قربانیاں دی ہیں اس کی نظیر کہی نہیں ملتی۔ وہ ملت کو متحد کرنے پر اور دوسرے مذاہیب کو ساتھ لے کر چلنے پر زور دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے انھیں ایک قومی قائد سے ملکی قائد سمجھا جاتا رہا۔ وہ ہندو اور مسلم کو اس ملک کی دو آنکھ سے تشبہح دیا کرتے تھے۔ ان کی تقاریر انتہائی باضابطہ اور آسان فہیم زبان میں ہوا کرتی تھی۔ مولانا کی تقریر سننے کے لیے عوام کا جم و غفیر امڈ پڑتا تھا۔ اس انقلابی شخص کے بارے میں لکھنے کی میری شدید خواہش تھی۔ جو آج پوری ہورہی ہیں۔ ویسے مولانا کے بارے میں لکھنے کا ارادہ میں نے پچھلے سال کیا تھا۔ مگر وقت کی نزاکت اور صیح وقت کے تعین کے اعتبار سے آج سعادت نصیب ہوئی ہے۔ آج مولانا کے یوم ولادت کے موقع سے بہت سے لوگ ان کی فوٹو، بینر،اشعار وغیرہ لکھ کر واٹس اپ اور فیس بک پر اپلوڈ کرے گے۔ ہوسکتا ہے کچھ سیاسی حضرات ان کی فوٹو کے ساتھ اپنی فوٹو ڈال کر خود کا اشتہار کرلے۔ خود نمائی کا سلسلہ یوں ہی دن بھر چلتا رہے گا۔ اصل چیز جس چیز کے لیے مولانا نے محنت کی ہیں اس سے سارے کے سارے بینر، سارے فوٹو، سارے قائدین اور سارے سیاسی لیڈران اور ساری سیاسی پارٹیاں خالی نظر آتی ہیں۔ جس طرح مولانا ملت کے ملک کے مسائل آسانی سے حل کرتے تھے۔ جس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہی آج یہ سیاسی قائدین،لیڈران ملت کے لیے مسلہؑ بنے ہوۓ ہیں۔ مولانا  کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا۔ بہت کچھ مجھ جیسے  ادنیٰ  درجہ کے طالب علم کے ذریعے لکھا جارہا ہے۔ کئی کتابیں،کئی مضامین اور کئ مولانا کی کتابوں سے بہت کچھ سمجھنے اور بہت کچھ لکھنے پر دل مجبور ہورہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو دنیا سے رخصت ہوۓ 64 سال گزرگۓ ہے۔ مگر ان کی تصانیف ترجمان القرآن، غبار خاطر،آخری لمحات اور دیگر کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہیں کہ  یہ تصانیف ابھی لکھی گی ہوں۔ اور مولانا ابھی دین کی اور ملک کی خدمت میں معمور ہوں۔ آج ہم مولانا کی زندگی کے کچھ اہم پہلو پر روشنی ڈالے گے جس پر غور و خوص کرنا بہت ضروری ہیں۔

 اصل یہ کہ مولانا آزاد کی زندگی فقیرانہ زندگی تھی اور انھوں نے زندگی کا ایک طویل حصہ تنگ دستی کی حالت میں گزارا تھا۔ اور ان کی اس تنگ دستی کا حال یہ تھا کہ انھوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں نے کئی بار چاہا کہ میں اپنی بہنوں کے گھر جاوں مگر جیب خالی رہنے کی وجہ سے یہ خیال دامن گیر رہتا تھا کہ اگر میں ان کے ہاں گیا تو میرے بھانجے اور بھانجیاں سوال کریں گی کہ ماموں جان آۓ ہیں اور ضرور ہمارے لیے تحائف لاۓ ہونگے۔ اس لیے اسی خدشہ کی وجہ سے میں نے اپنی بہنوں کے گھروں کا رخ کھبی نہیں کیا۔ مولانا آزاد ایک ملنسار انسان تھے۔ باوجود یہ کہ وہ بہت مالدار باپ کے بیٹے تھے ۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انتہائی کرب و صعوبت میں گزارا تھا۔ مگر وہ دوسروں کی مدد کرانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔ اصل میں وہ ایک عملی انسان تھے۔ جیل ہوں یا گھر جب بھی ان کے پاس کوئی سائل آتا تو ضرور اس کے لیے بے چین ہوجاتے اور اس کے لیے مدد کرنے یا کرانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک غریب شخص قندھار سے ان سے رانچی میں نظر بندی کے دوران ملنے آیا اور وہ ان سے قرآن کے بعض مقامات کو سمجھنا چاہتا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر "ترجمان القرآن "کا انتساب اسی گمنام شخص کے نام کردیا۔ موقع کی مناسبت سے ان کی تفسیر کے پہلے صفحہ پر موجود اس انتساب کی  پوری عبارت یہاں نقل کی جاتی ہے۔

 "غالباًدسمبر1918 کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کوئی شخص پیچھے آرہا ہے۔ مڑ کے دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا۔ آپ مجھ سے کچھ کہناچاہتے ہیں؟

ہاں، جناب میں بہت دور سے آیا ہوں۔

کہاں سے ؟
سرحد پار سے ۔
یہاں کب پہنچے؟

آج شام کو پہنچا، میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا،  وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گۓ۔ انھوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرہ سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔

افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟
اس لیے کے آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک حرف پڑھا ہے۔

 یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرااور پھر یکایک واپس چلا گیا، وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا، میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا۔ اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے ۔ اس نے یقیناً واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔ مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ شخص زندہ ہے یا نہیں۔ لیکن میرے حافظہ نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو، میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔ (ترجمان القرآن،جلد 1،صحفہ 1)

 رانچی میں نظر بندی کے دوران اس واقعہ کے مطابق جو شخص قندھار سے پیدل چل کر مولانا آذاد سے ملنے آیا تھا اور جس کا نام آزاد کو یاد نہیں رہا تھا تو بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ شخص افغانستان کے مولوی معین الدین محمد قندھاریؒ تھے۔ لیکن جب یہ بات مولانا کو بتائی گی اور یہ بھی بتایا گیا کہ اب وہ زندہ نہیں ہیں۔ تو ان کے نام کی صراحت بے طلب ہوکر رہا گی۔ مولانا کی شدید خوایش تھی ان سے ایک مرتبہ ملاقات کی جاسکے۔
پاکستان کے مشہور سوانخ نگار جناب محمد اسحاق بھٹی صاحب (1925۔ 2015)نے کئی سوانحی خاکوں کو لکھا ہے۔ جن میں ان کا ایک مجموعہ "بزم ارجمندان”کے نام سے ہندو پاک میں اب تک کئی ایڈیشنوں کے ساتھ منظر عام پر آچکا ہے۔ چنانچہ اس مجموعہ میں پہلا مضمون مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں ہے۔ جو تقریباً 120 صحفات پر پھیلا ہوا ہے۔ پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مجموعہ میں مصنف نے مولانا آزاد کے بارے میں بتایا ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی اور خیر خواہی ہر آن ان کے سامنے رہتی تھی۔ بلکہ یہی ان کا پیمانہ فکر اور مقصد حیات تھا۔ اور آگے پھر یہ نصحت آموز واقعہ بھی لکھا۔

1962 کے اپریل میں حضرت الاستاد مولانا عطاء اللہ مرحوم دہلی گۓ۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دن وہ مولانا کے مزار پر گۓ۔ وہاں ایک صاحب نہایت عقیدت سے کھڑے دعا کررہے تھے۔ میں نے ان کا نام اور پتہ پوچھا تو بتایا کہ وہ نئی دہلی کہ مسجد کے خطیب ہیں۔ مولانا آزاد اس مسجد میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ کھبی کھبی نماز فجر میں بھی تشریف لاتے تھے۔ ایک دن انھوں نے مولانا سے عرض کیا حضرت کسی دن قرآن مجید کی کسی آیت کا درس ارشاد فرمادیا کریں۔ تو ہم لوگوں کو آپ سے مستفیذ ہونے کا موقع ملتا رہے۔ فرمایا اب ہمارا نہیں،  آپ لوگوں کا زمانہ ہے۔ یہ کہہ کر تشریف لے گے۔ ان خطیب کے حوالے سے مولانا عطاءاللہ مرحوم و مغفور نے بتایا کہ ایک بوڑھی عورت سفید برقعے میں مولانا کے مزار پر آیا کرتی تھی۔ اور دیر تک یہاں بیٹھی دعا کرتی رہتی ہے۔ مولانا نے بتایا اتنے میں اتفاقً وہ عورت آگئ۔ خطیب نے کہا، یہ ہے وہ عورت، خطیب صاحب نے بتایا کہ اس عورت سے ایک دن پوچھا، آپ کی مولانا سے کوئی عزیز داری ہے۔ آپ کو اکثر یہاں بیٹھے اور دعا کرتے دیکھا گیا ہے؟

اس نے کہا کوئی عزیز داری نہیں، جب دہلی میں قتل و غارت گیری کا سلسلہ شروع ہوا تو بے شمار لوگ مولانا کی کوٹھی پر آگۓ تھے اور کوٹھی ایک کیمپ کی شکل اختیار کرگئ تھی۔ ان کے خرچ و اخراجات مولانا ادا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہوتے گۓتو سب لوگ چلے گۓ۔ اور سائبان اکھڑ گۓ۔ میں اکیلی وہاں رہے گئی۔ ایک دن مولانا نے مجھ سے پوچھا۔

بہن، آپ کون ہیں؟اپنے گھر کیوں نہیں چلی جاتیں؟

میں نے عرض کیا، جناب میں دہلی کے فلاں علاقے کی رہنے والی ہوں۔ میرے گھر پر شرنارتھیوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ اور میرے دو بیٹے اس ہنگامے میں مرچکے ہیں۔ اب میرا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا۔ اس لیے یہاں بیٹھی ہوں۔ مولانا نے کوشش کرکے مجھے ایک مکان دلادیا اور میں وہاں چلی گئ۔ میرا پتہ انھوں نے ڈائری میں لکھ دیا تھااور ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو مولانا میرے کھانے پینے کا سامان اور کچھ روپیے بھجوادیتے تھے۔ میں اس کے لیے ان کے وہاں کھبی نہیں گئ۔ مولانا کے انتقال کے بعد مجھے پریشانی ہوئی اور سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ایک شخص آیا اور مجھے وہی کچھ دیں گیا جو مولانا دیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا تم کون ہو اور کس نے بھیجا ہے؟ اس نے بتایا کہ مولانا بہت لوگوں کی اس طرح مدد کرتے تھے۔ اور ان کے نام اور پتے ان کی ڈائری میں لکھے ہوے تھے۔ ان کی وفات سے پہلے مولانا نے یہ ذمہ داری کسی قریبی شخص کو سونپ کر وعدہ لے کر اس دنیا سے رخصتی لی۔ لہذا مولانا کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ شروع رہا۔ مولانا ابولکلام آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم بنے اور ملک کے تعلیمی نظام کو ترتیب دی۔ وہی یو۔ جی ۔ سی،اے ۔ آی۔ سی ۔ ٹی،ٹیکنیکل تعلیمی ادارے، ایمس،اور بایو ۔ ٹیکنیلوجی،فن تعلیم،فن موسیقی، وغیرہ کورسیس کی ابتداء مولانا کی صدارت میں پیش ہوئی۔ مولانا ابوالکام آزاد کی زندگی ایک عملی زندگی تھی ۔ جس پر جتنی روشنی ڈالی جائگی اتنی وسعت اور معلومات حاصل ہوگئ۔ مولانا 22 فروری 1958 کو اس دار فانی سے کوچ کرگۓ۔ اور پچھے ملت کے لیے ایک مثالی زندگی چھوڑ گے۔ جو ہمارے اور آپ کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس شعر کے ساتھ میں اپنی بات یہاں ختم کرتا ہوں۔

بجھ گیا اے زندگی تیرا چراغ علم و فن
غرق زحمت ہوگی علم وادب کا انجمن
یوں چلا کہ باد خزاں کا ایک جھونکا سا فطن
رہیے گیا مرجھا کے تہذ یب و تمدن کا چمن
اب چمن اس فضاء میں اے دل کھل نہ پاۓ گا
ابوالکام آزاد کا ثانی اب اس دنیا میں نہ مل پاۓ گا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔