احساس کمتری

سہیل بشیر کار

جہاں احساس برتری(Superiority Complex ) انسان کو غرور میں مبتلا کردیتی ہے، وہیں احساس کمتری انسان کو مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہے۔ ایسا شخص ہمیشہ دوسروں کے تئیں تعصب اور حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تعصب اور حسد کی وجہ سے ایسا انسان دوسروں کا کچھ تو نہیں بگاڑ پاتا البتہ اپنی شخصیت کو برباد کردیتا ہے۔ ایسا انسان شکایتی بن جاتا ہے۔ ہمیشہ دوسروں کے متعلق شکایت کرتا رہتا ہے۔ اس وجہ سے آہستہ آہستہ وہ اپنوں سے کٹ کر رہ جاتا ہے اور تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان کا مقصد وجود ہی یہ تھا کہ وہ یہاں رہ کر بڑے کام انجام دے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب وہ دوسروں کے اشتراک سے عمل کی دنیا میں قدم رکھتا۔ لیکن احساس کمتری میں مبتلا شخص دوسروں کے ساتھ مل کر بڑا کام کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

 اللہ رب العزت نے ہر انسان کو متنوع صلاحیتوں سے نوازا۔ کسی کو قوی جسم، تو کسی کو کمزور جسم، کسی کوچیزوں کی زیادہ سمجھ بوجھ دی، توکسی کو کم، کسی کو تقریری صلاحیت دی، تو کسی کو تحریری صلاحیت، کسی کو تنظیمی صلاحیت، تو کسی کو پڑھانے کی صلاحیت۔ اس تنوع(Diversification) کی وجہ سے ہی کائینات کی خوبصورتی ہے۔ اگر انسان یہ سمجھے کہ مجھے رب العزت نے کوئی صلاحیت کم دی تو دوسری کوئی نہ کوئی صلاحیت زیادہ ضرور دی ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ رب نے جو صلاحیت فرد کو عطا کی وہ اسی صلاحیت میں اور مہارت حاصل کرے۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔

امریکی تجارتی صلاح کار Peter Drucker اپنے ایک مضمون  ” Managing Oneself” میں لکھتے ہیں:

"In identifying oppurtunities for improvement, don’t waste time cultivating skill areas where you have little competence۔ Instead, concentrate on – and build – on your strengths۔”

 اپنی صلاحیتوں کو جاننا، اپنی کمزوریوں سے آگاہ رہنا، آپ میں کس طرح کی اھلیت ہے اس سے واقف ہونا؛ بہت ضروری ہے۔ بقول  پروفیسر Gautam Mukanda:

  "More than anything else, "Know thyselfs”۔ know what your type is۔ ۔۔۔ think about your own personality۔ For instance, if you are a classic entrepreneur you can’t work in an organisation۔”

 ایسے اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا اور ان کو مزید نکھارنا کسی بھی شخص کو احساس کمتری کا شکار نہیں ہونے دے گا۔ بہت سارے ایسے واقعات ہیں کہ اُن افراد نے جن میں بظاہر کم صلاحیتیں تھیں بہت بڑ ے کام کئے ہیں۔

                دوسری بات یہ ہے کہ  رب العزت نے ہر ایک کو الگ الگ مزاج کا بنایا ہے۔ کسی کو نرم مزاج بنایا؛ تو کسی کر تیز مزاج۔ کسی کو سنقی مزاج،  تو کسی کو مرنجان مرنج قسم کا۔ کسی کو کم گو، تو کسی کو باتونی، کسی کو تنہائی پسند، تو کسی کو ملنسار۔ خوبی تو اسی میں ہے کہ انسان دوسروں کی غلطیوں کو نہ دیکھے بلکہ اچھائیوں کو دیکھے۔ دوسروں کو برداشت کرنے کا مادہ ہی انسان کو سماج میں انسانوں کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ کسی بھی اجتماعیت کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کو اس کے مزاج کے مطابق قبول کیا جائے۔ اسطرح ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کی ایک دعا سے احساس کمتری کا علاج بتایا گیا ہے۔ حضور ﷺ اکثر یہ دعا مانگتے تھے:”اے اللہ ! میں پناہ چاہتا ہوں، تیرے ذریعے سے پریشانی اور غم سے، عاجز ہوجانے اور کاہلی سے، بزدلی اور بخل سے قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے دباؤ سے۔ دعا کے آخر میں: ” غلبۃ الرجال“ کے الفاظ احساس کمتری سے نجات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

                احساس کمتری شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑا روڑا ہے۔ اگرچہ ایک طرف خود احساس کمتری کے شکار فرد کو اپنی شخصیت کو پہچاننے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف ہر نگران، ذمہ دار، سربراہ کو ہمیشہ اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ اس کی نگرانی میں کوئی شخص احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ ہر ذمہ دار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماتحت کی صلاحیتوں کو پہچاننے اور انکی صلاحیتوں کی قدر کرے۔ صلاحیتوں کی قدر دانی ہمارے نبی ﷺسے کوئی سیکھے۔ آپ ﷺنے بلال ؓکی آواز کی قدر کی۔ انہیں موذن بنا دیا۔ خالد ؓبن ولید کی شجاعت کی قدر کی اور انہیں ’سیف اللہ‘ کا لقب عطا کیا۔ مختلف صحابیوں کو ان کی شخصیت کے مطابق خوبصورت القاب دئے۔ ہر ذمہ دار کو چاہئے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی صلاحیتوں کو کھوجے اور ان کو ایسا ماحول مہیا کرے جس سے نہ صرف اُن کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی ہو بلکہ ایسی صلاحیتوں کا مثبت اور تعمیری استعمال بھی ممکن ہوپائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔