عمل کا قرآنی تصور

 سہیل بشیر کار

 ہمارے معاشرے کا غالب طبقہ چند مخصوص چیزوں کو ہی عمل گردانتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص باعمل مسلمان ہے؛ تو ذہن میں اس شخص کا ظاہری خدوخال آجاتا ہے حالانکہ عمل کا تعلق ان تعلیمات سے ہے جن کا حکم قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں دیا گیا ہے۔ قرآن میں جن چیزوں کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہی اصل میں بڑے اعمال ہیں اور جن چیزوں کو کرنے سے منع کیا گیا ہے وہی کبیرہ گناہ ہیں۔ مگر ہم نے قرآن کو کتابِ ہدایت کے بجائے کتاب  ثواب بنادیا ہے، جس کی وجہ سے قرآن کی تعلیمات کو ہم ’عمل‘ سمجھتے ہی نہیں۔ قرآن کریم میں واضح حکم ہے کہ غیبت، عیب جوئی اور تجسس نہ کیا کرو۔ جھوٹ نہ بولو۔ ظاہر ہے یہ کبیرہ گناہ ہے۔ جھوٹ بولنے پر قرآن و احادیث میں بھی سخت وعید آئی ہے۔ قرآن میں سورہ آل عمران آیت 161 میں کہا گیا ہے: "لعنت ہے اللہ کی اُن پر جو کہ جھوٹے ہیں۔” جھوٹ منافقین کی صفت بتائی گئی ہے، hypocrisy یا منافقت بدترین صفت ہے۔ بخاری  شریف میں درج ایک حدیث میں جن چار خصلتوں کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں سے ایک جھوٹ بولنا بھی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو گناہ سمجھتے ہی نہیں ہے، قرآن کریم کا واضح حکم ہے جب تم لین دین کرو تو لکھ لیا کرو۔ (البقرہ) قرض دینے اور لینے کے وقت لکھنا عمل ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ عمل ہے ہی نہیں بلکہ عیب تصور کرتے ہیں۔ قرآن میں کہا گیا کہ وراثت کی تقسیم اس طرح کیا کرو (البقرہ؛ النساء) لیکن ہم عملی طور پر خواتین کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔ سماجی بندشوں کے نتیجے میں خواتین وراثت میں ملی ہوئی چیزیں لیتے ہی نہیں معاف کرتی ہے۔ ظاہر ہے ایسا کرنا صرف سماجی مجبوری کے تحت ہوتا ہے بقول برادر محی الدین غازی صاحب :’’ آج تک کسی بھائی نے اپنا ترکہ بہن کے حق میں معاف نہیں کیا۔‘‘ قانون وراثت کے بیان کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

’’یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدیں ہیں، (اِن کا لحاظ کرو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، اُنھیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی ٹھہرائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنھیں وہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔‘‘

اسی طرح قرآن کریم میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو امت مسلمہ کی اکثریت سوچتی ہی نہیں اس وجہ سے ہم لینے والی قوم بن گئے ہیں۔ قران کریم کے نزدیک کبیرہ گناہ سود کھانا اور دینا ہے، اللہ اور اس کے رسول نے اعلان جنگ کیا ہے سود خور کے لیے، فرمایا گیا:  ” پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ ” (سورہ البقررہ آیت 279) لیکن اگر کسی کو ڈاڑھی تھوڑی کم ہے ہم اس کو بے عمل سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی لین دین کرنے والے کو ہم بے عمل نہیں سمجھتے۔ اتنا ہی نہیں سود خور کے بارے میں احادیث میں سخت وعید ہے؛ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: سود میں ستر گناہ ہیں، سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے، جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔”(سنن ابن ماجہ) ہم معمولی معمولی ضرویات کے لیے بھی سود لیتے ہیں۔ قرآن کریم نے نماز، روزہ، زکواۃ کی باریک تفصیلات نہیں دی ہے حالانکہ یہ اسلام کی بنیادیں ہے۔ اس کے برعکس دین اسلام نے معاشرتی زندگی گزارنے کے باریک نکات بیان کیے ہیں۔ اولاد والدین کے ساتھ کیسے رہے، بیوی شوہر کے ساتھ کیسے رہے، میاں بیوی اپنی زندگی کیسے گزارے۔ جو لوگ پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب کی وعید سنائی گئی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اب بھی بیٹیوں کو وراثت میں شامل نہیں کیا جاتا، قرآن کریم کا واضح حکم ہے کہ جو حدود اور تعزیرات بتائے گیے ہیں وہ دین ہے لیکن ہمارے نزدیک حدود اور تعزیر کو عمل سمجھا ہی نہیں جاتا۔

قرآن کہتا ہے آپس میں مشورہ کیا کرو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم گھریلو معاملات یا اجتماعی معاملات میں مشورہ کرنے کو عمل سمجھتے ہیں؟ ظاہر ہے ہم اس کو عمل تصور نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ قرآن کا واضح حکم ہے اور قرآن کا ہر حکم عمل ہے۔

تہمت لگانا اب ہمارے نزدیک بے عملی ہے ہی نہیں، بڑے بڑے دین دار بھی دوسروں پر طرح طرح کی تہمتیں لگاتے ہیں۔ قران کریم کی سورہ نور میں کہا گیا ہے :”جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ ” (آیت 34) اسی طرح تجسّس کی ممانعت کی گئی ہے لیکن ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا تجسّس کرنا گناہ ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اے وہ لوگو! جو زبانوں سے توایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کوایذاء مت دو، اور نہ ان کے عیوب کو تلاش کرو کیونکہ جواپنے مسلمان بھائی کاعیب تلاش کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کاعیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اُسے رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانہ میں ہو۔ "آج  سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کے عیوب ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی اسکرین شاٹ لینا عام سی بات بن گئی ہے۔ غیبت کرنا؛ چغل خوری اب نارمل بن چکا ہے۔ حالانکہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ عیب جوئی؛ چغل خوری نہ کرو۔ (الھمزہ)

رشوت کا کلچر عام ہو گیا ہے۔ کہیں کہیں تو پہلی صف کے نمازی بھی اس میں ملوث ہو گئے ہیں حالانکہ قرآن کا حکم تھا کہ ایک دوسرے کے مال باطل طریقہ سے مت کھاؤ۔ (البقرہ) جوں ہی جموں سرینگر قومی شاہراہ بند ہوتی ہے تو بہت سے باصلواۃ افراد بھی اس دوران اپنے مال کی قیمت بڑھاتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کو ہم گناہ سمجھتے ہی نہیں۔ عمل ہمارے نزدیک بس ظاہر کا نام ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عمل وہ ہے جو قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے اور اس کا دائرہ عمل پوری زندگی پر محیط ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم قرآن کو بطور کتاب ہدایت پڑھیں نہ کہ بطور تبرک۔

1 تبصرہ
  1. Swalehwakeel کہتے ہیں

    Masha Allah bahut umda allah ham sabko samjh de aur bahter aml ki taufeeq bhi

تبصرے بند ہیں۔