مروجہ تصور دین اور قرآنی تصور دین میں فرق

سہیل بشیر کار

جب جب قرآن سمجھ کر پڑھتا ہوں عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے، سوچتا ہوں کہ کیا یہ اُسی دین کی کتاب ہے جس دین کے سے ہم آئے روز متعارف کرائے جاتے ہیں؟ جس اسلام سے ہم واقف ہیں؟ حالانکہ وہ اسلام جس کی تصویر قرآن پاک کھینچتا ہے دونوں کے درمیان مشرق و مغرب کا بُعد محسوس ہوتا ہے۔ قرآن کے تصور دین  کی ترجیحات یکسر مختلف ہیں، مروجہ تصورِ دین سے۔ ہم نے جن امورات کو دین کے ‘اہم مسائل’ کا درجہ دیا ہوا ہے، قرآن میں ان کا اول تو ذکر ہی نہیں یا اگر ذکر ہے بھی تو ضمناً۔ قرآن کریم کے نزدیک جو چیز اہم ہے ہمارے تصور دین میں غیر اہم،  قرآن کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ ہم آج کس دین کی تبلیغ کررہے ہیں۔ اصل دین تو کچھ اور ہی ہے۔  نزولِ قرآن کی ابتدا ‘اقرا’ سے ہوئی۔ پہلی آیت پر غور کیا تو معلوم ہوا اللہ نے پڑھنے کا حکم دیا۔ کیا پڑھنا ہے اس کی کوئی تحدید نہیں۔  قرآن کے عالم کہتے ہیں کہ پڑھو جو کائنات میں ہے۔ کائنات کا مطالعہ کرو۔ کائنات کی ہر چیز کا مطالعہ کرو۔ تبھی تو بار بار غور و فکر کرنے پر زور ہے۔ عقل والوں سے خطاب ہے۔ عقل کو ایڈرس بھی کیا جاتا ہے۔

 افسوس کہ ہم نا ہی کائنات کے مطالعہ میں صحیح ہیں نا ہی ہم قرآن کا صحیح سے مطالعہ کر پاتے ہیں۔ ہم نے تو وحی کو عقل کے مد مقابل کھڑا کیا۔ اور عقل پر قفل چڑھائے ہوئے ہیں۔  قرآن کا تقاضا تھا کہ  انفس پر غور ہو، آفاق پر غور ہو، اور اسی غور و فکر کے نتیجے میں اپنے عقیدہ اور ایمان کو مستحکم اور مضبوط کرتے. لیکن افسوس رائج تصور دین میں اس کی کوئی اہمیت نہیں. انفس و آفاق پر غور کرنا ہمیں سائنس کا مضمون لگتا ہے، جسے "دنیاوی علم” کے کھاتے میں ڈال کر دین سے الگ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ قرآن میں عقائد اور غور و فکر کا مربوط تعلق ملتا ہے۔ لیکن عملاً ہم نے اس تعلق کو کب کا خیرباد کہا ہے۔ اب ذرا قرآن کی معاشرت تو دیکھیں۔ وہاں حقوق کے تحفظ کی بات ہوتی ہے۔ والدین کے حقوق، زوجین کے حقوق،اقرباء کے حقوق،  کمزوروں کے حقوق وغیرہ وغیرہ۔ قرآن نے منکر اور معروف کو واضح کرکے بتایا ہے۔ قرآن میں  بغض، حسد، کینہ ،جھوٹ، بد دیانتی، وعدہ خلافی کبیرہ گناہ گردانے گئے ہیں۔ وہاں غیبت، چغل خوری، ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرنا، الزام تراشی، بہتان کی سخت مزمت کی گئی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ قرآنی منکرات اب گناہ تصور ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ مذموم اقدار ہمارے سماج میں نارملائزڈ رویہ بن چکے ہیں۔ الزام تراشیاں، غیبت، نامناسب القابات تو منبروں سے بھی اب ہم سنتے ہیں۔ اس حمام میں کیا رہبر کیا عوام سب ننگے نظر آتے ہیں۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کے مقابلے کے لئے وسائل کی کھوج اور پھر وسائل کا منصوبہ بند طریقے سے استعمال کیسے ہوتا ہے۔ آپ سورہ کہف میں واقعہ ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج پڑھیں، یا قصہ یوسف پڑھیں، یا مختلف جنگوں میں اللہ کا تجزیاتی تبصرہ پڑھیں۔

 ہمارے یہاں سب کچھ بے ہنگم سا معاملہ ہے۔ اسی بے ہنگم رویہ کا کمال ہے کہ ہم جتنا منزل کے قریب جانے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی منزل سے خود کو دور پاتے ہیں۔ اور آج یہ دوری بےبسی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کاش ہمارا مطالعہ قرآن صحیح ہوتا اور کاش قرآنی فہم کے مطابق ہمارا عمل ہوتا. قرآن حکیم معاشی اصول دیتا ہے. تجارت کو ‘فضل’ بھی کہا گیا ہے۔ سود کی سخت ممانعت قرآن میں کی گئی ہے۔ سود کھانے والے کے خلاف اللہ اور رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ تجارت، سود اور انفاق کا بہترین انداز سے قرآن میں بیان ہوا ہے اور ان کا ایک خاص فریم میں ذکر ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارا عمل اسی فریم کے مطابق ہوتا لیکن افسوس ہمارا عمل برعکس ہے۔ شاید ہم ایک طرح سے احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ ہمیں یوں لگتا ہے کہ سود کے بغیر تجارت ممکن نہیں۔ اور انفاق کا درجہ ثانوی ہے۔ کاش کہ ہماری تحقیق اس پایہ کی ہوتی کہ اس فریم کو ہم صحیح سے سمجھ بھی پاتے اور اپنے عمل کو اسی اداراجاتی تحقیقی فریم کے مطابق بھی ڈھالتے۔  شاید ہمارے قرآنی عمل کو تب ایک برتری کا احساس بھی مل جاتا۔ قرآن نے جس تاکید کے ساتھ سود کی مخالفت کی ہے اسی تاکید کے ساتھ بلکہ بار بار انفاق پر زور دیا ہے۔ ہم لیکن اس انفاق کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتے۔ ہم تو ابھی تک زکواۃ کی فرضیت کو نہیں سمجھ پائے ہیں۔ ہمیں زکواۃ اور عمومی صدقے میں ابھی بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا۔  جو اس فرق کو سمجھ چکے ہیں وہ بھی زکواۃ کی ادائیگی میں تساہل سے کام لیتے ہیں۔ میں اپنے کئی قریبی لوگوں کو جانتا ہوں۔ صحیح فھم ہونے کے باوجود ان کا زکواۃ کے تئیں عملی رویہ بے انتہا کمزور ہے۔ دوسری بات انفاق کا ایک خوبصورت ترجیحاتی نظام ہم قرآن میں دیکھتے ہیں۔ ایک طرف سماج کے کمزور اور پسماندہ لوگوں کا لحاظ رکھا گیا ہے تو دوسری طرف سماجی قوت کے جو زرائع ہیں ان کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ ہمارا رویہ ہے کہ تھوڈی سی رقم خرچ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انفاق کا حق ادا ہو گیا۔ اور کچھ لوگ خرچ اگر کریں بھی تو ان کے نزدیک خرچ کے صحیح مد واضح نہیں۔ ہمارے سماج میں اعلیٰ تحقیقی اور تعلیمی ادارے ہوتے تو ہماری قوت کا ایک مقام ہوتا، ہماری کوئی حیثیت ہوتی۔ لیکن ان اداروں کے قیام کے لئے نہ تو ہمارے پاس کوئی سرمایہ ہے اور نا ہی کوئی منصوبہ۔  سیاسی، سماجی ، اور معاشی قوتوں کا پیدا کرنا اور پھر ان کا استحکام مذکورہ فریم اور  صحیح ترجیحاتی نظام کا تقاضا بھی ہے اور نتیجہ بھی۔ معاشی اور کاروباری اصول کے طور ہم قرآن میں عدل و قسط کو مرکزی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ ناپ تول میں کمی، دھوکہ ، باطل طریقے سے کمائی، رشوت ان سبھی گندے کاموں کی سخت مزمت ہوئی ہے قرآن میں۔ افسوس کہ ہمارا عمل ہمیں برعکس ہی دکھتا ہے۔ شاید اپنی بے بس صورتحال کی ایک وجہ یہی قول و فعل کا تضاد ہے۔ یہ تضاد اگر عوام میں ہی پایا جاتا تو شاید اتنی سنگینی نا ہوتی۔ لیکن ہمارے ہاں عوام نمبری اور خواص دس نمبری ہیں ۔ خواص سے میری مراد ان لوگوں سے ہے جو دین کا حلیہ اختیار کرتے ہیں۔ ‘مذہبی لباس’ پہن کر ہی وہ تضاد کا مجسمہ بنتے ہیں۔ صاحب دعوت دین کے مشن پر ہوتا ہے لیکن اپنی نوکری کا کوئی پتہ نہیں۔ کئی دیندار ایسے بھی دیکھے جو حج کرکے لوٹ بھی آتے ہیں لیکن اپنے سروس ریکارڑ میں leave کی  کوئی اینٹری درج کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔

 مذہبی جماعتوں، تنظیموں سے وابستہ افراد کو غبن کرتے دیکھا گیا۔ رشوت میں لت پت دیکھا گیا۔ اسی تضاد نے شاید گناہوں کو نارمل عمل بنا دیا ہے اود گندگی کو معمول کا رویہ۔ ہم بعض اوقات خود کو دھوکہ بھی دیتے ہیں کہ صاحب چلو نماز تو پڑھتے ہیں، دینی تنظیموں سے وابستہ ہوکر کچھ تو اچھا کام کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ نماز ایک شعوری عبادت ہے اور اس عبادت کے نتیجے میں اگر ہمارا اخلاق سنورتا نہیں تو جان لیں ہماری نماز محض ایک عادت ہے۔ ہم نماز پڑھیں،تنظیموں اور اداروں سے وابستہ ہوکر دین کا کام بھی کریں لیکن خود زکواۃ ادا نہ کریں تو جان لیں ہمارے اس عمل کا وبال ہمارے اجتماعی کام پر پڑ سکتا ہے۔ قرآنی تصور دین میں خواتین کا ایک فعال رول ہم دیکھتے ہیں۔  وہاں موسیٰ علیہ السلام کی ماں اور بہن ، شعیب علیہ السلام کی بیٹی، ملکہ سبا کے رول کی ستائش کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں خواتین اور ان کے مسائل پر بے شمار آیات ہیں لیکن ہمارے مروجہ تصور نے خواتین کو ناقص پرزہ بنا کے رکھا ہے، وہ زندگی کا تتمہ ہیں۔ ہمارے ہاں اس کی زندگی  میں سوائے شوہر اور بچوں کی پرورش کے کوئی کام نہیں. قرآن پاک میں معاشرتی احکامات کے لیے تفصیلی تذکرہ ہے، نماز جیسی اہم ترین عبادت کے جزئیات بیان نہیں کئے گئے ہیں اس کے برعکس معاشرتی احکام کی چھوٹی چھوٹی باریکیاں تک بیان کی گئی ہیں، قرآن حکیم گھروں میں گھسنے تک کا طریقہ بتاتا ہے، قرآن حکیم میں نکاح اور طلاق کے باریک سے باریک نقطے بھی بیان کیے گئے ہیں لیکن  مروجہ تصور دین میں ان کی کوئی اہمیت نہیں۔

 قرآن میں ہم آدم و ابلیس کا واقعہ پڑھتے ہیں تو زندگی کا مقصد اور اپنی تخلیق کا فلسفہ سجھتے ہیں۔ واقعہ موسیٰ کو پڑھتے ہیں تو ظلم کے خلاف جدوجہد سیکھتے ہیں۔ قصے یوسف کو پڑھتے ہیں تو انفرادی کردار اور سیاسی حکمت عملیاں سیکھتے ہیں۔ مسٔلہ یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھتے ہی نہیں۔ پڑھتے ہیں تو سجمھتے نہیں۔ سمجھا بھی کبھی تو روح قرآن کو سمجھ نہیں پاتے۔ بس کلامی بحث کے لئے اپنے فہم قرآن کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد ہے کہ ہم قرآنی تصور دین کو اپنا تصور دین بنائیں۔ اپنے عمل کو اسی تصور کے سانچے میں ڈھال دیں۔ قرآن کے روح کو سمجھیں۔ قرآن کے ساتھ حقیقی تعلق استوار کریں۔ اس زندہ کتاب کو اپنی زندگی کی روشنی بنادے. جب ہم  کہتے کہ قرآن کریم سے عروج ملے گا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے پڑھنے سے ملے گا، بلکہ ہمیں اپنے معاشرے کو قرآنی معاشرہ بنانا ہوگا، یہ ہدایت کی کتاب ہے، ہدایت سے مراد guide book ہے ،اس کے اصولوں کو ہمیں دین سمجھنا ہوگا، اس کے بعد اس پر عمل کرنا ہوگا تبھی اللہ کی رحمت آسکتی ہے اور ہمیں اپنا مقام مل سکتا ہے.

تبصرے بند ہیں۔