ماہ نامہ ’زندگی نو‘ جنوری 2023

سہیل بشیر کار

ماہ نامہ ’زندگی نو‘ ایک بار پھر اپنی آن بان سے شائع ہوا ہے۔ نئے سال کے پہلے شمارہ (جنوری 2023) میں حسب سابقہ بہترین مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔ اشارات میں ڈاکٹر محی الدین غازی نے اسلامی معاشرہ کی دس نمایاں علامتیں بیان کیے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں:

’’مسلم معاشرہ مسلمان افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اسلامی معاشرہ اسلامی اقدار سے تشکیل پاتا ہے۔مسلم معاشرہ ایک صورت حال ہے جب کہ اسلامی معاشرہ معیار مطلوب ہے۔ انفرادی سطح پر ہرمسلمان اس معیار مطلوب تک پہنچنے کی کوشش کرے جہاں وہ مومنانہ اوصاف سے آراستہ ہو جائے، اسی طرح مسلم معاشرے کے تمام افراد مل جل کر اپنے معاشرے کو اس معیار مطلوب تک پہنچانے کی کوشش کریں جہاں مسلم معاشرہ اسلامی معاشرہ بن جائے۔‘‘ (صفحہ 5)

جماعت اسلامی ہند کو تشکیل پائے 75 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اس مناسبت سے جماعت اسلامی ہند نے خوبصورت تحریکی یادوں کو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں تحریکی بزرگ صلاح الدین شبیر صاحب نے چند خوبصورت تصویروں سے قارئین کو روشناس کیا ہے۔ مصنف نے تحریک اسلامی کے چند افراد کے درد کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے

حال ہی میں عظیم دانشور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا انتقال ہوا، ان کی کتاب ’اسلام کا نظریہ ملکیت‘ سے ایک مضمون ’ذرائع پیدوار کی ملکیت اور اسلام‘ شامل اشاعت ہے۔ اس میں موصوف نے اسلامی نقطہ نظر سے اجتماعی ملکیت کے خلاف چند اہم دلائل پیش کیے ہیں۔

ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب گزشتہ چند ماہ سے خواتین کے عملی پہلو پر خوبصورت مضامین تحریر میں لارہے ہیں۔ اس ماہ انہوں نے دین پسند عورتوں کو سمجھایا ہے کہ اسلام پسند عورتوں کو زیب نہیں دیتا کہ دین کی نصرت میں وہ پیچھے رہے، غازی صاحب نے اسلامی تاریخ سے خوبصورت مثالیں پیش کی ہے کہ کس طرح خواتین دین کی نصرت کے لیے آگے آگے تھی۔ ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں :”شام کی سرزمین پر مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان پے درپے معرکے ہو رہے تھے۔ ایک معرکے میں کچھ مسلمان خواتین قیدی بنائی گئیں۔ ان میں حضرت خولہ بنت ازور  بھی تھیں۔ انھوں نے عورتوں کے درمیان ایک جوش سے بھر پور تقریر کی، ان کے اندر کی حمیت و غیرت کو بھڑ کایا۔ ان سے کہا: کیا تم اپنے لیے یہ پسند کرو گی کہ ان رومیوں کی باندیاں بن جاؤ؟ تمھارے بچے ان کے غلام بنیں۔ تمھاری شجاعت اور جواں مردی کہاں ہے جس کا چرچا عرب کے قبیلوں میں ہوتا ہے؟ کیا تم اپنی بہادری سے ہاتھ دھوچکی ہو؟ میں سمجھتی ہوں ہمارے لیے قتل ہو جانا غلامی کی ان بیڑیوں میں زندہ رہنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اس پر حضرت عفرہ نے کہا: خولہ تمھاری بات درست ہے، ہماری بہادری اور جنگی مہارت پر دنیا گواہ ہے۔ لیکن کیا کریں، یہ تو تلوار کے جوہر دکھانے کا وقت تھا، مگر دشمن نے بے خبری میں ہم پر حملہ کر دیا اور اب ہتھیار کے بغیر تو ہم بھیڑ بکریوں کی طرح ہیں۔ اس پر خولہ نے پھر دہاڑ کر کہا: غیور قوم کی بیٹیو! کیا تم اس کے لیے راضی ہو جاؤ گی کہ ان بد بختوں کی ناجائز اولادیں تمھارے پیٹ میں پلیں۔ کیا موت اس سے بہتر نہیں ہے ؟؟عفرہ نے کہا: اللہ کی قسم تم جس چیز کی طرف بلا رہی ہو وہ اس چیز سے کہیں زیادہ ہمیں محبوب ہے جو ہمیں پیش آنے والی ہے۔ پھر سب نے خیموں کے بانس ہاتھ میں لیے۔ ایک بانس خولہ نے اپنے کندھے پر رکھا، ان کے پیچھے حضرت عفرہ ، حضرت مسلمہ ،حضرت روعہ، اور حضرت سلمہ وغیرہ تھیں۔ خولہ کی قیادت میں سب عورتوں نے یکبار گی رومیوں پر دھاوا بول دیا اور پوری قوت کے ساتھ جنگ کی۔ اتنے میں مسلمانوں کا ایک دستہ بھی ان کی مدد کو آپہنچا اور وہ اللہ کی مدد سے سرخ رو ہو کر وہاں سے نکل آئیں۔” (فتوح الشام؛ صفحہ 44)

بٹ کوئن وغیرہ نام سے کرپٹو کرنسی کا خوب چرچا ہے۔ اس سلسلے میں مسلمان فکر مند رہتے ہیں کہ شریعت کا موقف کیا ہے ماہر مالیات ڈاکٹر وقار انور نے شمارہ میں شامل مضمون ’کرپٹو کرنسی اسم بامسمی نہیں ہے‘ پر روشنی ڈالی ہے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی کی حیثیت زر کی نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک اثاثہ کی ہے۔

شمارہ میں سید تنویر احمد نے ’اخلاق کو شخصیت میں شامل کرنے کا آئیڈیا‘ پہلی قسط کے عنوان سے ایک بہترین مضمون لکھا ہے۔ موصوف کا ماننا ہے کہ اخلاق کی تعلیم نے ابھی تک وہ اہمیت حاصل نہیں کی جو ہونی چاہیے، ساتھ ہی ملت اسلامیہ میں جو اسکول چل رہے ہیں ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ملی اسکولوں سے فارغ افراد کے ہاں کوئی نمایاں فرق نظر نہیں آرہا ہے۔ موصوف کا ماننا ہے کہ اقدار اور کردار سازی میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہمیں اقدار اور اخلاق میں فرق محسوس کرنا چاہیے، مزید لکھتے ہیں: "ہمارے تعلیمی نصاب اور تعلیمی نظام میں اقدار پڑھا دینے ہی کو کردار سازی سمجھ لیا جاتا ہے۔ آج ملت کے کئی تعلیمی ادارے اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے طلبہ میں وہ کردار پیدا نہیں کر سکے جس کا عزم انھوں نے ادارہ قائم کرتے وقت کیا تھا۔ کردار سازی کے موضوع پر بالخصوص امریکہ میں کئی مطالعات (studies) ہوئے ہیں۔ ان مطالعات کا نچوڑ یہ ہے کہ کردار کا حصول صرف اقدار کے پڑھانے سے ممکن نہیں ہے بلکہ کردار سازی کا ایک عمل ہونا چاہیے اور اس عمل کا نام internalization‏ رکھا گیا ہے یعنی اقدار کو طلبہ کے اندر جذب کرانا۔ جذب کرانے internalization کا یہ عمل تزکیہ کا اہم پہلو ہے۔ تزکیہ نفس جب کہا جاتا ہے تو مقصود یہ ہوتا ہے کہ انسانی نفس اپنے خالق کی مرضی سے آشنا زندگی گزارے اور اپنے نفس کو احکام الہی کا پابند بنائے اور نفس کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ خدائی نظام بندگی میں سرور حاصل کرے۔ جذب اخلاق کے اس عمل کی مختلف شکلیں دنیا نے دیکھی ہیں۔ اسی کام کے لیے انبیائے کرام کی بعثت ہوا کرتی تھی۔ آج کے اس دور میں اساتذہ و معلمین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ کردار سازی کے اس عمل کو بالکل اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔” (صفحہ 66)ساتھ ہی انہوں نے بچوں میں کردار سازی یا اخلاق کی تعلیم کا خاکہ بھی پیش کیا ہے۔

عزیری ڈاکٹر سلمان مکرم نے کچھ عرصہ سے مختصر مگر جامع اور عملی پہلو پر بہترین مضامین کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس شمارہ میں انہوں نے کامیاب زندگی کا صحیح تصور کے عنوان سے بہترین مضمون لکھا ہے۔ مضمون میں انہوں نے قرآن کریم اور احادیث سے بہترین مثالیں پیش کی ہے، معروف سائنس داں ڈاکٹر محمد رضوان نے گزشتہ چند سال سے اردو میں سائنس کے حوالے سے نہایت ہی عمدہ مضامین لکھے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے وہ LGBTQ پر لکھ رہے ہیں۔ اس ماہ اس سلسلے کی پانچویں قسط رسالہ میں شامل ہے۔

برادر عرفان وحید صاحب ہمیں ڈاکٹر جیفری لینگ کے ایماں افروز سفر سے متعارف کرا رہے ہیں۔ اس شمارہ میں اس کی بیسویں قسط ہے جس میں موضوع احادیث پر خوبصورت بحث کی گئی ہے۔ ام مسفرہ کھوت بچوں کے حوالے سے بہترین اور عملی مضامین لکھ رہی ہیں۔ اس بار انہوں نے جسمانی سزا کے بنا بہتر تربیت ہوسکتی کے عنوان سے بہترین مضمون لکھا ہے، موصوفہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ جدید تحقیق سے خوب استفادہ کرتی ہے، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے تین اہم مسائل 1۔ مسجد میں cctv کیمرہ لگوانا 2۔ پوتوں اور پوتیوں کی وراثت اور 3۔ قرآن مجید میں آیتوں کی تعداد پر فقہی رہنمائی کی ہے۔ رسالہ میں اس بار برادر سید سعادت اللہ حیسنی صاحب کے اشارات اور برادر ایس امین الحسن کے مضمون کی کمی محسوس ہوئی۔

رابطہ :9906653927

تبصرے بند ہیں۔