رومن اردو کی خطرناکی اور ہماری ذمہ داری

فاروق عبد اللہ ندویؔ

(دوحہ قطر)

 رومن اردو سے مراد انگریزی حروف کے ذریعہ اپنی بات کا اظہار کرنا ہے جیسے : آپ کا نام کیا ہے “رومن اردو میں لکھتےہیں ”aap ka nam kiya he “، اگر سرسری طور پر دیکھا جائے تو اس میں کوئی ایسی قباحت نہیں جس سے کسی کا ایمان متزلزل ہو جائے یا وہ دین ِاسلام سے خارج ہو جائے ، تاہم اس سے پیداہونے والے خطرات سے چشم پوشی کرنا او راس کے مضر اثرات سے غفلت برتنا مسلمانانِ برّصغیر کے لئے خاص طور سے بالکل روا نہیں۔

 اگر ہم رومن اردو کی خطرناکی کو جاننا چاہتے ہیں تو تاریخ ِترکی کا مطالعہ بے حد ضروری ہے ، پہلےترکی زبان بھی عربی رسم الخط یعنی عربی حروفِ تہجی میں لکھی جاتی تھی لیکن سیکولر ذہنیت کا حامل کمال اتاترک نے اسے عربی کے بجائے انگلش رسم الخط میں لکھنے کی پابندی لگا دی اور ترکی کو انگریزی الفابٹ کے ساتھ لکھنا ضروری قرار دے دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ ترک قوم دھیرے دھیرے دوسری اسلامی کتابیں تو کجا قرآن مجیدبھی پڑھنے سے قاصرتھی ۔

اس حقیقت کا کوئی منکر نہیں کہ مسلمانانِ برِّ صغیر اور اردو داں طبقے کے لئے علمی،ادبی، ثقافتی، اوراسلامی تعلیمات کا بڑا ذخیرہ جتنی اردو زبان میں میسّر ہے شایدنہیں بلکہ یقیناً کسی اور زبان میں نہیں، اگر اردو اور اردو رسم الخط سے لاپرواہی برتی گئی اور رومن اردو اسی طرح فروغ پاتا رہا تو اندیشہ ہے کہ آنی والی نئی نسلوں کو اسلامی ورثہ سے محروم نہ ہونا پڑے اور علوم ِقرآن وحدیث کے عظیم سرمائے سے ان کا رشتہ کٹ نہ جائے، کسی نے دور اندیشی پر مبنی اپنی صحیح فکر کا اظہار کرتے ہو ئےکہا ہے کہ” جس قوم کی بلندی کو زوال پر لانا ہو اور اس کے شاندار ماضی سے اس قوم کا رشتہ توڑنا ہو تو اس قوم کا رسم الخط بدل دو۔ “

انتہائی افسوس ہے کہ آج امّتِ مسلمہ خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتی ہوں ، کسی مذہب کے پیروکار ہوں ہر گزرتے دن اپنے رسم الخط کو فراموش کرتی جارہی ہے ، یہ صدمہ اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب بعض فضلائے مدارس بھی جن کا اوڑھنا بچھونا اردو ہے ، جو خالص اردو ماحول میں پروان چڑھتے ہیں، جن کی تعلیم از اول تاآخر صرف عربی ، اردو رسم الخط میں ہوئی ہے وہ بھی آپس میں پیغام رسانی اور ابلاغ و ترسیل کے لئے قصداً یا بے خیالی میں رومن اردو (دشمن ِ اردو )کا بکثرت استعمال کرتے نظر آہے ہیں۔

آج ہم جس ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہماری ملی تشخصات کو مٹانے کوئی کسرنہیں چھوڑی جاتی،ہماری تہذیب و تمدن پر دن رات یلغار ہو رہے ہیں، اسلام اور دینی آثار کو حرف غلط کی طرح مٹانے اور ہٹانے کی مسلسل سرکاری و غیر سرکاری سطح پر انتھک کوشٍشیں ہو رہی ہیں، فرقہ پرستی کا چیلنج در پیش ہے ، ایسے میں ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ آپسی اتحاد واتفاق کی رسی کو مضبوط کریں۔

 واضح رہے کہ اردو اور اردو رسم الخط امّت کی ناچاقی ختم کرنے اور ایک دوسرے کو جوڑنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اردو رسم الخط میں لکھنا ایک عظیم قومی خدمت اور اردو دوستی کا ٹھوس ثبوت بھی ہے۔

آج ہمیں اردو زبان کی بقاء وتحفظ کے لئے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا، خود کو ہوشیار ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں رومن اردو کی خطرناکی اور اس کے نقصانات کو آشکارا کرنا ہوگا ، بالخصوص دینی مدارس اور اسلامی ادارے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ وہ اردو رسم الخط کی افادیت و اہمیت پربھرپور توجہ دیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ رومن اردو کو سب سے زیادہ عروج سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مثلاً واٹساپ،فیسبوک،ٹوئٹر،میسنجر،انسٹاگرام وغیرہ سے حاصل ہوا،ضرورت ہے کہ تمام واٹساپ گروپ پرایڈمن حضرات کے ذریعہ اس ”محبوب قاتل“ کا بائیکاٹ کیا جائے اور اردو رسم الخط کے تحفّظ کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں ، چھوٹے چھوٹے مضامین کے ذریعے اس کے مضر اثرات کو اجاگر کیا جائے تاکہ اس بلوئےعام کا خاتمہ ہوسکے اگر ایسا ہوا تبھی ہم اپنی ذمہ داری ادا کرپائیں گے اور اردو کے بیش بہا سرمائے کا تحفظ ہوسکے گا، اب چاہیں تو رومن اردو کو خیر باد کہہ دیں یا پھراپنے محفوظ سرمائے کو، فیصلہ ہمارے آپ کے ہاتھ میں ہے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔