ماضی سے سبق اور مستقبل کی منصوبہ بندی

محمد صالح انصاری

قرآن میں جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے زندگی گزارنے کے طریقے بتائے وہیں دوسری طرف نبیوں کے قصوں اور واقعیات کے ذریعہ سے ہمیں متنبہ کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کے آگے کا راستہ ہمارے ماضی سے جڑا ہوا ہے۔ جہاں سے ہمیں سبق حاصل کر، آنے والے آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے، اُن کا ڈٹ کر مقابلہ اور صبر کرنے کا حوصلا ملتا ہے۔

انگریزی کیلنڈر کا نیا سال شروع ہو رہا ہے ایک طرف جہاں دنیا بھر کے لوگ الگ الگ طریقہ سے اس سال کا استقبال کریں گے۔ کیوں نہ ہم اس آنے والے وقت کو غنیمت جان کر اُس کو بہتر بنائیں۔ اپنی زندگی میں الگ الگ رنگ بھرنے کے خواب دیکھ لیں۔ آنے والے وقت کو اس خواب کے مکمل کرنے میں صرف کریں۔ اس سے ہماری ایک اچھی تیاری  ہو جائےگی اور وقت کا بہترین استعمال بھی۔

اگر آپ طالب علم ہیں تو آپ کے لیے اور بھی بہتر مواقع ہیں۔ آج ہی بیٹھ کر ایک ڈائری بنا لیں اور یاد کریں کی گزشتہ سال کا کیا کام بچا ہوا ہے۔ کون سا خواب ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آنے والے وقت میں اور کیا خواب پورے کرنے ہیں۔ کتنی کتابیں پڑھ لی ہیں اور ابھی کتنے بچے ہوئے ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ اسلامیات اور سماجیات وغیرہ کے تعلق سے اور کتنی کتابیں پڑھنی ہیں تاکہ ان سب موضوعات سے اچھی شناسائی ہو جائے۔

ایک اور کام یہ کی ان سب کے ساتھ قرآن اور اسلام سے ہمارا رستہ کتنا بہتر ہے اس پر بھی سوچ لیں۔ کم سے کم سال بھر میں مکمل قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی منصوبہ بندی کرلیں۔ ساتھ ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات مبارکہ کو ایک بار مکمل پڑھیں اور اگر پڑھ لیا ہے تو سیرتﷺ کے کسی ایک حصہ پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اج کے ترقی یافتہ دور میں جب لاکھوں کی دوریاں منٹوں میں طے ہو رہی ہیں۔ مختلف باطل نظریات کا سمندر یونیورسٹی اور کالجز میں گوتے کھا رہے ہیں۔ تب ہماری زمہ داری ہے کہ ہم کتابوں کا مطالعہ کر اسلامی نظریات کے ذریعہ الحاد اور فرقہ پرست طاقتوں کا جواب دیں۔ سامنے آکر علمی اور فکری طور پر ان کا مقابلہ کریں۔ دنیا کے سامنے مغربیت، عریانیت، نکل مکانی اور کھوکھلی جمہوریت سے دور بہتر اسلامی نظریہ فکر کا نمونہ پیش کریں۔

اجتماعیت ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ سماجی مسائل سے ہر کوئی دو چار ہوتا ہے۔ ہماری کوشش رہنی چاہیے کی آنے والے سال میں ہم سماج کی برائیوں کے خاتمے کے لیے اجتماعی طور پر کسی تنظیم، تحریک یا ادارے کے ساتھ مل کر لوگوں کو آگاہ کریں گے۔ اس سے دور کیسے رہا جائے اس کے لیے لوگوں کو فکرمند کریں گے۔

دنیا آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے گزشتہ سال ہمارے ملک میں کیء آزمائشوں نے ایک ساتھ ہمارے سامنے منہ کھولا۔ کچھ میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی، تو کچھ کی لڑائی ابھی تک جاری ہے۔ ہماری کوشش ہوگی ہم ایسے مسائل کو پہچانیں اور ان مسائل کا مل کر حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ زیادہ تر مسائل کم علمی یہ نا سمجھی میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے ایسے مسائل کے حل کے لیے کتابوں کے ذریعہ، گفت و شنید کے ذریعہ یا سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں گے۔

 طالب علم ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اگر ہم طالب علم اس بات کو سمجھ کر آج اپنے بہتر مستقبل کے لیے کوشش کریں گے۔ اپنا وقت اپنے اور ملک کے خواب کو مکمل کرنے کے لیے استعمال کریں گے تو انشاء اللہ آنے والا وقت ہمارا ہوگا۔ ہمارا ملک ترقی کے راستے پر ہوگا اور دنیا کی رہبری کے میدان میں پیش پیش ہوگا۔

سوشل میڈیا کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں۔ اس لیے طالب علم کو اس کے فائدے اور نقصان کا علم ہونا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کا سکرول اور ریل (reel) آپ کی زندگی کی گاڑی کو روک دیتی ہے اس کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی آئندہ سال ہم سوشل میڈیا سے کم بلکہ کتابوں اور فطرت سے دوستی زیادہ کریں گے۔ جس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوگا اور ہماری صحت بھی بہتر ہوگی۔

خود کشی آج کے معاشرے اور خاص کر طالب علم کے بیچ بہُت بڑی بیماری بن رہی ہے۔ آئے دن ہمارے سامنے خبریں آتی ہیں۔ ہمیں اس سے خود کو اور اپنے ساتھیوں کو بچانا ہے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلنا ہے اور مشکل وقت میں ساتھیوں کے مدد کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ خود کشی کی پہچان جو ماہرین نے بتائی وہ یہ ہے کہ طالب علم اکیلا رہنے لگتا ہے، پریشان ہوتا ہے، ساتھیوں سے کم بات کرتا ہے۔ ہمیں اپنے ساتھیوں کی فکر کرنی ہوگی اور اگر کسی ساتھی کے متعلق اس طرح سے محسوس ہوگا تو اس سے بات کر اُس کی پریشانی کو حکمت سے سلجھانے کی کوشش کریں گے۔

آنے والا وقت ہمارے لیے بہت قیمتی ہے۔ یہ ہماری زندگی کا رخ اور ہمارے ملک کا مستقبل متعین کرے گا۔ اس لیے ہمیں پوری ایمانداری اور زمہ داری کے ساتھ ماضی سے سبق لے کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ انشاء اللہ ہم سب مل کر آنے والے وقت میں سماج کی تشکیل نو کے لیے پورے عزم حوصلے اور ہمت کے ساتھ کام کریں گے۔ بہتر اسلامی اقدار پر مبنی سماج کی تشکیل کر ہر مظلوم بےبس بے سہارا کو اُسکا حق دلانے کا کام کریں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔