خواتین کے لیے مساجد کے دروازے کھولیے!

سہیل بشیر کار

مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ’مسلم پرسنل لا بورڈ‘ نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ درج کیا ہے جس کو بعد میں پریس میں جاری بھی کیا گیا۔ مزکورہ حلف نامے میں اور باتوں کے علاوہ مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ جب کوئی نئی مسجد تعمیر کریں تو اس میں خواتین کے لیے الگ سے گنجائش رکھیں، مسلم پرسنل لا بورڈ میں ہندوستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کی نمائندگی ہے۔ ایسے میں یہ اپیل خوش آئند ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا ہے:

’’بورڈ اسلامی نصوص کے لحاظ سے اپنی رائے سے مطابقت رکھتا ہے کہ مسلم خواتین کے مساجد میں داخل ہونے اور نماز یا با جماعت نماز پڑھنے پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تاہم ایک ہی صف میں مرد و خواتین کے اختلاط کو اسلام کے متعین اصول کے مطابق ممانعت ہے۔ اگر گنجائش ہو تو مسجد انتظامیہ عورتوں کے لئے علیحد وانتظام کرے۔ بورڈ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ درخواست گزار کی طرف سے مکہ میں حجر اسود کے اردگر و طواف کی حالیہ پٹیشن میں نماز کے استدلال پر جو مثال پیش کی گئی ہے وہ نماز کی ادائیگی کے حوالے سے گمراہ کن ہے۔ مکہ مکرمہ میں بھی خانہ کعبہ کے اطراف کی تمام مساجد میں مردوزن کو اختلاط کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ ہندوستان میں موجودہ مساجد میں دستیاب سہولت پر منحصر ہے، اگر موجود و عمارت جگہ ایسے انتظامات کی اجازت دیتی ہے تو انتظامی کمیٹیاں خواتین کے لیے الگ الگ جگہ میں بنانے کے لیے آزاد ہیں۔ حلف نامے میں بیان کردہ اس موقف کے علاوہ بورڈ مسلم کمیونٹی سے بھی اپیل کرتا ہے کہ جہاں بھی نئی مساجد تعمیر کی جائیں وہاں خواتین کے لیے مناسب جگہ بنانے کے اس مسئلے کو ذہن میں رکھا جائے۔‘‘

 اس سے پہلے مسلمانوں کے ایک قد آور عالم دین اور لیڈر ارشد مدنی کا یہ بیان آیا:” مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ کسی بھی مسجد میں خواتین کا داخلہ ممنوع نہیں ہے، شرط ہے کہ وہ پردے میں ہوں۔ ان کیلئے الگ گوشہ قائم کیا جائے۔ جہاں الگ گوشہ نہیں ہے، وہ مسجد میں کہیں کنارے نماز ادا کر سکتی ہیں۔ ” یہ بیان ایک طرف خوش آئند ہے لیکن کاش یہ بیانات ہم نے کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں دیے ہوتے۔

امت مسلمہ کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے ایسے میں اس آدھی آبادی کو مسجد جیسے اہم ادارے سے دور رکھنا انتہائی غیر دانشمندی ہی نہیں بلکہ ظلم عظیم ہے۔ بدقسمتی سے برصغیر میں علماء کرام کے موقف کے نتیجے میں خواتین کے لیے مساجد کے دروازے بند کئے گئے ہے۔ جو لوگ خواتین کو مساجد میں پردہ کے حدود میں آنے کی دعوت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خواتین مساجد میں اپنی سرگرمیاں شرعی حدود کے تحت ادا کریں ؛ انہیں مطعون کیا جاتا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم نے بارہمولہ؛ کشمیر کی مختلف مساجد میں خواتین کے پروگرامات تب منعقد   کیے جب کہ مردوں کی اکثریت مساجد میں نہیں آتے تھے؛ تو یہاں پر بہت فتوی بازی کی گئی۔ ہم مقررین کو مسجد کی دوسری منزل میں بٹھاتے وہ Lcd  کے ذریعہ خواتین کو وعظ و نصیحت کرتے تھے۔ حیرت اس وقت ہوئی جب وسیع النظر و ذی شعور افراد نے بھی خواتین کو مساجد میں آنے سے منع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خواتین کس طرح مساجد میں اچھی خاصی تعداد میں شرکت کرتی تھیں ؛ اس کا ثبوت مسلم شریف کی حدیث میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں خواتین کی کئی صفیں مسجد نبوی میں نماز ادا کرتیں۔ مولانا الیاس نعمانی لکھتے ہیں :’’خیال رہے کہ یہ صفیں خاصی لمبی ہوتی تھیں، اس لیے کہ مسجد نبوی کی اولین تعمیر کے وقت ہی مسجد کی چوڑائی تیس میٹر تھی، اور غزوہ خیبر کے بعد جب مسجد کی توسیع ہوئی تو مسجد کی چوڑائی پچاس میٹر ہوگئی۔ایک میٹر میں بسہولت دو خواتین نماز کے لئے کھڑی ہوتیں، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نماز باجماعت میں خواتین کی کتنی تعداد شریک ہوتی تھی۔‘‘(مساجد میں خواتین کی آمد؛ الیاس نعمانی صفحہ 9)

مصنف مزید لکھتے ہیں کہ یہ جو مشہور کیا گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں خواتین پر پابندی لگائی گئی؛ اس کی کوئی حقیقت نہیں لکھتے ہیں : "جس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر  پر حملہ کیا گیا اس وقت ان کی اہلیہ مسجد میں ہی نماز ادا کر رہی تھیں۔ مسند احمد کی صحیح حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حیات طیبہ میں جو آخری نماز مسجد نبوی میں ادا فرمائی تھی، جس میں ان پر جان لیوا حملہ ہوا تھا؛ اس نماز میں بھی ان کی اہلیہ مسجد میں موجود تھیں۔ ظاہر ہے اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں خواتین کی مسجد آمد پر پابندی لگا دی ہوتی تو ان کی آخری باجماعت نماز میں ان کی اہلیہ مسجد میں کیسے موجود ہوتیں۔ ‘‘(صفحہ : 11)

البتہ دین اسلام نے خواتین کو مساجد میں آنے پر مجبور نہیں کیا ہے تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے  کہ اگر خواتین کی مسجد حاضری ضروری نہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ خواتین مسجد آئیں، اس سلسلے میں الیاس نعمانی جواب دیتے ہیں :’’اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسجد صرف عبادت گاہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہترین تعلیم گاہ، تربیت کدہ اور دعوتی مرکز ہے، اس میں نہ آنا اصلاح، تعلیم وتربیت کے بے بدل نظام سے محرومی ہے، ہمارے آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی مسجدیں اپنا یہ کردار ادا کرتی ہیں، آپ کو مسجد میں جتنے حضرات نماز کے پابند نظر آتے ہیں ان سے دریافت کیجیے کہ نماز اور دیگر دینی احکام کی پابندی کا یہ ذوق ان کے اندر کہاں سے پیدا ہوا؟ دین داری کا یہ رجحان ان کے اندر کیسے پنپا؟ اکثریت کا جواب آپ کو مسجد کے اس کردار کا پتہ دے گا، وہ مسجد کے ماحول اور اس میں ہونے والے بیانات کا تذکرہ کریں گے۔‘‘(صفحہ:22)

 اسلام وہ دین ہے جس نے خواتین کو زندگی کے ہر شعبہ میں سرگرم کیا۔ قرن اول میں زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین کی چلت پھرت تھی لیکن بعد میں فقہ کے نام پر خواتین پر طرح طرح کی سختیاں کی گئیں اور مساجد کے دروازے خواتین کے لیے بند کیے گئے۔ اب جبکہ خواتین حصولِ تعلیم و ملازمت کے سلسلے میں باہر نکل رہی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے لیے مساجد کے دروازے بھی کھول دیے جائیں۔ یہ تو اب عملی ضرورت بن گئی ہے کیونکہ مساجد میں ان کے لیے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نمازیں قضا ہو جاتی ہیں۔ نماز اور خطبہ جمعہ سے انہیں محروم رکھنا بڑا ظلم ہے۔ ایسے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اپیل کہ مساجد میں خواتین کے لیے الگ گوشہ رکھا جائے؛  خوش آئند بات ہے۔ امید ہے اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

ایسا ہی رویہ بہت مسائل کے ساتھ روا رکھا گیا؛ جس سے بہت سے لوگوں کو دین اسلام پر اعتراض کرنے کا موقع ملا۔ کبھی کبھی دین اسلام کا مذاق بنانے کا کچھ لوگوں کو موقع ملتا ہے جیسا کہ عمرانہ کیس میں ہوا ہاں وہاں بھی فقہی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایسا فیصلہ سنایا گیا جو نہ عقل کو اپیل کرتا تھا نہ کہ فطرت کو، و قتا فوقتاً امت مسلمہ کے خیر خواہ حضرات کی طرف سے علماء کرام کو اپیل کی گئی کہ وہ فقہ پر نظرثانی کریں اور شریعت میں جس جس چیز کی گنجائش ہے اس کو اپنائے لیکن ان مخلص آوازوں پر غور و فکر نہیں ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ حکومت نے ان باتوں پر قانون سازی کی اور تین طلاق، حج بغیر محرم پر قانون سازی کی گئی، کیا یہ ضروری ہے کہ جن احکام پر شریعت میں گنجائش ہے ان پر حکومت قانون سازی کریں؟ اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ ہم خود ہی اجتہاد سے کام لے۔ ابھی بھی خواتین کے بہت سے مسائل ہیں جیسے وراثت کے احکام، خلع کے مسائل جن پر ہمیں خود ہی غور کرنا چاہیے اس سے پہلے کوئی اور مسلمانوں کا ’نجات دہندہ’ بن کر آجائے۔

رابطہ : 9906653927

2 تبصرے
  1. MUHAMMED madni کہتے ہیں

    Aap ka anazriya ghalat hai ….braye karam ahadees aor usul e hadees ka mutala kare’n phir aise mazameen par qalm utahye’n

  2. Waqar ahmad کہتے ہیں

    حضول علیہِ السلام کے دنیا سے جانے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمایا۔ حضرت عمر کا مسجد سے عورتوں کو روکنے میں مصلحت یہ تھی کہ اپنے زمانے کے شر کو محسوس کیا اگر اجازت باقی رکھی جائے تو فتنے کا قوی امکان ہے یہ اس وقت کی بات تھی لیکن آج اس ہزار ہا درجے زمانہ بےحیائی اور ارتداد کے اس کٹھن مرحلہ میں زندگی گزار رہا ہے اس دور میں مسجد میں داخلہ کسی بھی صورت صحیح نہیں اور نہ ہی اس سے دین کا کوئی فائدہ لہٰذا اس طرح کی منصوبہ بندی نہ کریں جس سے مزید فتنے جنم لے

تبصرے بند ہیں۔