ترکیہ کا زلزلہ، ہندوستانی مدد اور دونوں ملکوں کے تعلقات کا مستقبل

ڈاکٹر آصف نواز

ترکی اور بھارت کے درمیان وسطی ایشیا سے لے کر مغربی ایشیا اور افریقہ تک مشترکہ مفادات ہیں۔  (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

6/ فروری کی صبح ترکیہ اور سیریا میں آئے تباہ کن زلزلے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس زلزلے میں سب سے زیادہ تباہی ترکیہ میں دیکھنے کو ملی جہاں عمارتیں اور بعض آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ یہ تحریر لکھے جانے تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف ترکیہ میں مرنے والوں کی تعداد  کم از کم 43,556  ہو چکی ہے اور 108,068 افراد  زخمی ہوئے ہیں۔ اور کم از کم ایک کروڑ  35 لاکھ افراد اس کی زد میں آ ئے ہیں جبکہ ۴۰ لاکھ عمارتوں کے متاثر ہونے کی خبر ہے اور تقریباً 345,000 اپارٹمنٹس تباہ ہوئے۔ مختلف ممالک اور تنظیموں نے زلزلے کے فورا بعد بچاوٗ اور امداد کے کاموں کے سلسلے میں متحرک ہوگئ تھیں۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق کم از کم 105 ممالک اور 16 بین الاقوامی تنظیموں نے زلزلے کے متاثرین کے لیے امداد کا اعلان کیا۔ گیارہ سے زائد ممالک نے ملبے تلے متاثرین کو تلاش کرنے کے لیے سرچ اینڈ ریسکیو کتوں کے ساتھ اپنی امدادی ٹیمیں ترکیہ ارسال کیں۔ ٓافت کی اس گھڑی میں انسانی بنیادوں پر  مشرق و مغرب کے سبھی ممالک نے ترکیہ میں زلزلہ زدگان کی راحت رسانی کے لئے جو کچھ کیا ہے اورجو کچھ ابھی تک کر رہے ہیں وہ قابل اطمینان ہی نہیں انتہائی قابل ستائش ہے۔

چھٹا ہندوستانی طیارہ زلزلہ متاثرین کی امداد کے ساتھ ترکی کے لیے روانہ ہوتے ہوئیے۔ (تصویر: وزارت خارجہ، ٹیوٹر)

اس موقع پر ہمارے ملک ہندوستان نے جس تیزی سے ترکیہ کی مدد کے لئے اقدام کیا وہ انتہائی قابل تعریف اور وزیر اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کو اعتبار فراہم کرنے والا اور عرب واسلامی دنیا میں ہندوستان کی اچھی شبیہ کا ضامن ہے۔

 پہلا اور شدید 7.8 میگاواٹ کا زلزلہ  ہندوستانی وقت کے مطابق 6 فروری کو پونے سات بجے  ترکیہ میں ٓایا۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اس دن صبح سے اس اندوہناک حادثے پر اپنی نظر بنائے ہوئے تھے۔ پہلے سوا گیارہ بجے ترکیہ کے صدر اردغان کے ٹویٹ کے جواب میں  وزیراعظم نے اس حادثے پر اپنی غمزدگی کا اظہار کیا۔ اور پھر اس کے بعد انہوں نے بارہ بجے بینگلور میں انڈیا انرجی ویک نامی پروگرام میں خطاب کی  شروعات ہی تر کیہ میں آئے زلزلے پر اپنے غم کے اظہار کے ساتھ کی، مگر جیسے جیسے زلزلے کی خبر آتی گئی اور یہ اندازہ ہوا کہ یہ کتنا بڑا سانحہ ہے تو وزیر اعظم نے پھر ایک بار تقریبا سوا تین بجے اس پر اپنے گہرے دکھ کا کا اظہار کیا اور دفتر وزارت خارجہ کو متحرک کر دیا کہ وہ زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں تلاش، بچاوٗ اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے۔ شام ہوتے ہوتے وزیر مملکت برائے وزارت خارجہ وی مرلی دھرن نے دہلی میں ترکیہ کے سفارتخانہ جاکر  ترکی سفیر سے ملاقات کی اورزلزلے سے ہونے والی تباہی پر اظہار تعزیت کیا۔ ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم مودی کی جانب سے ہمدردی اور انسانیت پر مبنی حمایت کا پیغام بھی پہنچایا۔ اس موقع پر وزیر موصوف نے ترکیہ کی مدد کے لیے امدادی سامان کے ساتھ ساتھ NDRF اور طبی ٹیموں کو بھیجنےکے سلسلے میں ہندوستان کی آمادگی اور  تیاری کا بھی ذکر کیا۔ ہندوستانی حکومت کے اس جذبہ خیر سگالی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہندوستان میں ترکی کے سفیر فرات سنیل نے 6 فروری کی رات میں ہی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ لفظ”دوست” ترکی اور ہندی دونوں زبانوں میں مشترک ہے… اور ہمارے ہاں ایک ترکی کہاوت ہے: "دوست کارا گندے بیلی اولور” ( ضرورت کے وقت کام آنے والا دوست ہی  دراصل دوست ہوتا ہے)۔ چنانچہ وزیر اعظم مودی کی ہدایت کے مطابق کہ ترکی میں متاثرہ لوگوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے، ہندوستان نے ترکی میں تلاش اور بچاؤ (SAR) کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ طبی امداد کا جو سلسلے شروع کیا اس کا نام بھی "آپریشن دوست” رکھ دیا۔

وزیر مملکت برائے وزارت خارجہ وی مرلی دھرن زلزلے سے ہونے والی تباہی پر اظہار تعزیت کے لیے ترکی کے سفارت خانہ جا کر ترک سفارت کار سے ملاقات کرتے ہوئیے۔ (تصویر: وزارت خارجہ، ٹیوٹر)

 ترک سفارت کار فرات سنیل کے حوالے سے ہندوستان ٹائمس نے بیان کیاہے کہ ہندوستان ترکیہ کی مدد کے لئے سب سے پہلے پہنچنے والے ممالک میں سے تھا اور 6 فروری 2023 کی شام کو ہی ترکی کے متاثرہ علاقوں میں  امدادی کارروائیوں کے لیے این ڈی آر ایف کے دستے بھیج دیئے گیے تھے۔ ہندوستانی ٹیم اپنےفضائیہ کے سی۔ 17 ساخت کے فوجی ائر کرافٹ پر این ڈی آر ایف کے 47 اہلکاروں، 3 سینئر افسران، اور خصوصی طور پر تربیت یافتہ کتوں کے دستے کے ساتھ امدادی کوششوں کے لیے درکار طبی سامان، ڈرلنگ مشینیں اور دیگر ضروری سامان لیکر  ترکی کے شہر آدانا پہونچی۔ اس کے بعد 7 فروری کو ہندوستانی فضائیہ نے مزید دو C-17 طیارے ترکی بھیجے۔ ان دو پروازوں میں امدادی سامان، ایک موبائل ہسپتال اور اضافی خصوصی سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں شامل تھیں۔ این ڈی آر ایف کے اہلکاروں کے ساتھ، آگرہ میں واقع آرمی فیلڈ ہسپتال نے  89 افراد پر مشتمل طبی عملے کو بھی ان کے ساتھ روانہ کیا۔ 12 فروری 2023 تک، ہندوستان نے کل سات C-17 طیارے ترکی بھیج کر امدادی کام میں حصہ لیا۔ آپریشن دوست کے تحت ترکیہ بھیجے گئے سبھی این ڈی آر ایف کے اہلکار اور ہندوستانی فوج کے ڈاکٹرس ترکیہ میں اپنےفرائض انجام دیکر 20 فروری کو ملک واپس آچکے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی آپریشن دوست کا حصہ بنے انسانی امداد اور آفات سے نمٹنے کے عملے کے ساتھ ان کی واپسی پر بات چیت کرتے ہوئے۔ (تصویر: وزارت خارجہ، ٹیوٹر)

 "آپریشن دوست "کے تحت بھیجی گئی سبھی ٹیموں نے اپنی ان تھک محنت اور جذبہ ھمدردی سے نہ صرف ترک عوام کا دل جیت لیا بلکہ ترکیہ کے سلسلے میں ہندوستان کی  خارجہ سیاست میں نئی شروعات کردی۔ حکومتی سطح پر جہاں یہ پروازیں سامان راحت لے کر ترکیہ پہنچیں، وہیں  قومی سطح پر ہندوستانی عوام نے بھی دل کھول کر اپنا مختلف النوع تعاون ہندوستان میں موجود سفارت خانے کے ذریعہ  ترکیہ پہنچانے کی کوشش کی۔

ہندوستان اور ترکیہ کے تہذیبی، ثقافتی،تجارتی اور سیاسی تعلقات کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ ہندوستان میں قطب الدین ایبک کے ذریعہ بنوائی گئی تاریخی عمارت قطب مینار ترکی فن تعمیر کا بہترین شاہ کارہے جبکہ بیسویں صدی کی ابتدا میں جب ترکی میں خلافت کا خاتمہ ہوا تو ہندوستان میں خلافت تحریک چلی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان برطانوی سامراج سے آزادی کی جد و جہد کر رہا تھا۔ تاریخ میں اسے "خلافت موومینٹ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسکی صدارت بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی کی۔ اس کے باوجود ہندوستان اور ترکیہ موجودہ سیاسی و سفارتی اصطلاح میں ‘ گہرے دوست ‘ نیہں تھے۔ اس کے برخلاف پاکستان اور ترکیہ کے سیاسی اور سفارتی تعلقات دونوں کے مسلم مملکتیں ہونے کے سبب انتہائی گہرے اور مضبوط تھے۔ ترکیہ پاکستان کے ان ممالک کی فہرت میں شامل ہے جو بغیر ویزا پاکستان کا سفر کرسکتے ہیں اور دونوں ملکوں کے شہری دوہری شہریت اور دونوں ملکوں کا پاسپورٹ رکھ سکتے ہیں۔ 1947 میں تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے وقت ترکیہ پاکستان کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے والا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی تائید کرنے والا پہلا ملک تھا۔ تشکیل پاکستان کے محض چند ماہ بعد ہی دسمبر 1947 میں پاکستانی رہنما محمد علی جناح نے اپنےترکیہ کے دورہ کے دوران ترکیہ کے "گلوریس ” ماضی کی ستائش کرتے ہوئے پاکستان کو ترکی ماڈل بنانے کے عہد کے ساتھ  گہرے سیاسی، ثقافتی اورتجارتی تعلقات کی بنیاد رکھی تھی اور یہ دوستی پاکستانی مارشل لا ایڈ منستریٹر پرویز مشرف کے دور مین خوب پھلی پھولی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پرویز مشرف کا بچپن ترکیہ میں گزرا تھا جہاں ان کے والد پاکستانی سفارت کار کی حیثیت سے طویل مدت رہے اور مشرف اچھی ٹرکش زبان بول سکتے تھے نیز اپنے آرمی چیف ہونے کے دور میں انہوں نے ترکیہ کے ساتھ مضبوط دفاعی تعلقات بھی قائم کئے تھے۔

ہندوستان اور ترکیہ کے درمیان اچھے تعلقات قائم نہ ہو پانے کی بنیادی وجہ ترکیہ کا  پاکستانی خیمے سے مضبوط تعلق اور مختلف اشوز پر پاکستان کے سپورٹ میں کھڑا ہونا تھا۔ ترکیہ موجودہ وقت میں پاکستان کا دوسرے نمبر کا اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اس نے گزشتہ سالوں میں پاکستان آرمی کے 1500 جوانوں کو ٹریننگ بھی فراہم کی تھی۔ اسی طرح کشمیر کے مسئلہ پر ترکیہ پاکستان کا سپورٹ کرنے وال ملک رہا ہے۔ گزشتہ دنوں کشمیر کے سلسلے میں دستورہند میں موجود دفعہ 370 کے خاتمے پر بھی ترکیہ نے ہندوستان کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے  پاکستان کے سپورٹ میں بیانات دئے تھے، جبکہ 2016 میں میں ترکیہ نے کشمیر کے اشو پر دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی بھی پیش کش کی تھی جسے ہندوستان کی جانب سے، ظاہر ہے، رد کردیا گیا تھا۔

اب جبکہ ہندوستان نے حکومتی اور عوامی، دونوں سطحوں پر، مصیبت کے اس وقت میں ترکیہ کی جانب ہمدردی اور تعاون کا ہاتھ بڑھا یا ہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ہندوستان اور ترکیہ کے درمیان نئے اور اچھے تعلقات کا دور شروع ہوگا، دونون ملکوں کے درمیان مختلف النوع تعلقات کو تقویت ملے گی اور اس بات کے امکانات یقینا بڑھ جائیں گے کہ اختلافات کم ہوکر قربتوں میں اضافہ ہو اور کئی چیزوں میں باہمی تفاھم اور تعاون کی فضا پروان چڑھے۔ موجودہ نریند مودی حکومت کی اس پالیسی نے دشمن کے دوست کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر” ایک طرف تو انسانی ہمدردی کا فریضہ انجام دیا ہے، تو دوسری طرف مخالفت اور دشمن کی دشمنی کی دھار کو کند کرنے کی کامیاب اسٹریٹجی اپنائی ہے۔

ترکی کے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں آپریشن دوست کے تحت، بھارتی فوج نے میں ایک فیلڈ ہسپتال قائم کیا تھا۔ اس فیلڈ ہسپتال میں ایک ترک خاتون ہندوستانی فوج کے ایک افسر کو گلے لگاتے ہوئے۔ (تصویر: بھارتی فوج/ ٹیوٹر )

ترکیہ کی حکومت، اور اس سے آگے بڑھ کر وہاں کے عوام نے جس طرح ہندوستان کی ستائش کی ہے اور ممنونیت کا اظہار کیا ہے، اس سے یقینا دونون ملکون کے درمیان اعتماد اورہم آہنگی کی فضا قائم ہوگی۔ ترکیہ کے عوام کی جانب سے ہندوستانی ریسکیو مشن کو ملنے والا پیار اور ہندوستانی ریسکیو مشن کی خواتین کے سروں کو بوسہ دیتی وہاں کی خواتین کی تصویریں باہمی محبت اور اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور بتاتی ہیں کہ ترکیہ کے عوام کے دلوں میں ہندوستان نے محبت کا بیج بودیا ہے جو دیر یا سویر ثمر بار ہوکر رہےگا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلے چند سالوں میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے ترکی کی خارجہ پالیسیوں کے ڈیزائن اور فریم ورک میں ایک نئی سمت بندی (reorientation) کا مشاہدہ کیا ہے۔ اور مزید یہ کہ مشرق وسطی کے خطے میں اور اس کے باہر جن ممالک سے ترکیہ کا رشتہ کافی عرصہ سے کشمکش اور مخاصمت پر منبی تھا، ان کے تئیں بھی ترکیہ کی خارجہ پالیسیوں میں ایک عملی اور حقیقت پسندانہ سوچ نظر آتی ہے۔ چاہے وہ ترکی اسرائیلی تعلقات ہوں یا ترکی مصری، ترکی سعودی یا ترکی اماراتی تعلقات، یہ سب پچھلے دس سالوں میں اور بالخصوص عرب بہارکے بعد کافی خراب ہو چکے تھے، جس کو ترکیہ کی اردغان سرکار نے پچھلے دو سالوں میں از سرنو استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان ممالک کے تئیں ترکیہ کے رویہ میں اس تبدیلی کی بہت سے وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں ترکیہ کی خستہ حال معیشت اورلیرا کی گرتی قدر  سب سے اہم مانی جاتی ہے  جو اس سلسلے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

 آج کی قومی ریاستوں کے لیے ان کا قومی مفاد اور بقا سب سے زیادہ اہمیت رکھتاہے۔ ترکیہ کی قیادت کو دیر لگی لیکن انہیں جلد احساس ہو گیا کہ خطے کے جن ممالک اور جماعتوں کی وجہ سے وہ اپنے تعلقات ان ممالک سے  خراب کر بیٹھے ہیں، وہ ترکیہ کے مسائل حل نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو دن بدن ترکیہ کے لیے بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ترکیہ نے حقیقت پسندانہ اپروچ کے ساتھ عملی اقدام کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو ان ممالک کے ساتھ ازسر نو  ترتیب دے کر نئے سرے سے استوار کیا اور مذہبی حساسیت اور جذباتیت بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی علاقائی خارجہ پالیسیوں کوصرف اپنے قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر از سر نو مرتب کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی  کی معیشت پھرسے مستحکم ہونے لگی اور اسکی کرنسی مضبوط ہونے لگی۔ ایسا ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان اور پاکستان سے اپنے تعلقات کے باب میں ترکیہ  اسی حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ آگے بڑھےاور معاشی اعتبار سے ایک غیر مستحکم پاکستان، جو  اکثر دنیا کے  سامنے ہاتھ پھیلانے کو مجبور رہتا ہے، کے مقابلے میں  ہندوستان کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھے جو نہ صرف دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تخمینہ کے مطابق سال 2022-2023 میں  دنیا کی سب سے زیادہ  تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہوگا۔

ای میل : draasifnawaz@gmail.com

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔