عصری تناظر میں قدیم ہندوستانی عورت کی حیثیت

عادل فراز

معاصر عہد میں عورت کے حقوق اور آزادی کے بارے میں اسلامی نظام کو مورد طعن و تشنیع قرار دیاجاتاہے، جبکہ معترضین ابھی تک اسلامی قانون کی بنیادوں، اس کی روح، آفاقی پہلوئوں اور اس کی صحیح تشریحات سے لاعلم ہیں۔ اس کے باوجود حجاب، میراث، تعدد ازدواج اور دیگر مسائل میں خواتین کے حقوق کا بہانہ بناکر اسلامی قانون کو ناقص اور عورت مخالف قرار دیاجاتاہے۔ جبکہ ہندوستان کے قدیم اور موجودہ سماج میں بھی عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل نہیں رہے ہیں۔ عالمی نظام کے تحت ہندوستان کا معاشرہ بھی مرد اساس معاشرہ تھا۔ اس امتیاز کے ساتھ کہ ویدی دور اور اس کے بعد کے عہد میں عورت کو فقط آلۂ تلذذ سمجھا گیا۔ قدیم مقدس کتابوں میں عورت کے تئیں احترام کا جذبہ تو نظر آتاہے لیکن اس کے سماجی حقوق پر کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا۔ بلکہ بعض مقامات پر تو اس کی تحقیر اور تذلیل کی گئی ہے۔ اگر کسی جگہ پر اس کی تکریم کا عندیہ ملتابھی ہے تو اس میں قانون سازوں کے مفادات کا اشارہ ملتاہے۔ جس طرح معاصر عہد میں ماڈرن ازم، مساوات، آزادی اور مختلف نظریات کے نام پر عورت کافکری اور جسمانی استحصال جاری ہےاسی طرح قدیم عہد میں بھی اس کے واضح اشارے ملتے ہیں۔

دھرم شاستروں میں عورت کی تکریم کا متضاد فلسفہ ملتاہے۔ کہیں اس کو دیوی اور قابل پرستش قرار دیاگیاہے تو کہیں اس کو ناپاک اور مرد کے مقابلے میں حقیر تصور کیا گیاہے۔ عورت کی تکریم کے سلسلے میں منوؔ سمرتی میں اس طرح مذکور ہے:’’جہاں عورت کی تکریم کی جاتی ہے وہاں دیوتائوں کی برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن جہاں ان کا احترام نہیں ہوتا وہاں تمام امور بے نتیجہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ‘‘(منوسمرتی باب ۳۔ ۵۶)اس کے برعکس دوسرے مقام پر منو’ؔ عورتوں کو مردوں کی گمراہی کا ذریعہ قرار دیتاہے۔ ‘‘(منوسمرتی باب ۲۔ ۲۱۳)دھرم شاستروں کے مطابق عورت کبھی آزاد اور خود مختارزندگی نہیں گذار سکتی، کیونکہ وہ فطری طورپر کمزور واقع ہوئی ہے اس لئے اسے زندگی بھر کسی نا کسی کی نگرانی اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ بچپن میں باپ کی، جوانی میں شوہر کی اور بڑھاپے میں بیٹوں کی۔ (منوسمرتی باب نہم۔ ۳)اس طرح منوؔ نے عورت کی آزادی، خودمختاری اور تانیثی تحریک کے علم برداروں کے فکری فلسفے کو ہی مسترد کردیا۔ اس کے نزدیک عورت اپنے تحفظ میںدوسروں کی نیاز مند رہتی ہے۔ ان کے فطری مزاج کی بنیاد پر مرد کو اس کی نگرانی کرنی چاہیے۔

موجودہ عہد میں بعض متعصب مفکرین اسلامی دستور حیات کو ناقص اور فرسودہ قرار دیتے ہیں۔ خاص طورپر میراث میں عورت کے حصے، مرد کے مقابلے میں اس کی گواہی اور حجاب کے مسئلے پر وہ اسلامی قانون کو فرسودہ اور حقوق نسواں کا مخالف قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے یہاں دھرم شاستروں میں عورت کو بھی تقریباً اسی تناظر میں پیش کیا گیاہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔ دھرم شاستروں کے مطابق عورتیں چونکہ متلون مزاج کی حامل ہوتی ہیں اس لئے انہیں گواہ کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ منوؔ تو بیوہ عورتوں کے عقد ثانی اور نیوگ(صلۂ رحم کی شادی) کا سخت مخالف ہے۔ اس کے برخلاف ناردؔ دونوں کو شادی کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ بھی دھرم شاستروں کا ایک متضاد فلسفہ ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ سنگھ منوؔ اور نادرؔ میں کس کے دھر م شاستر کو زیادہ اہمیت دیتاہے۔ رہی عورت کی میراث کی بات تو منوؔ نے واضح طورپر نہیں بتایا کہ بیوہ اپنے شوہر کے مال سے کس قدر حصہ پانے کی مستحق ہے۔ (منوسمرتی باب نہم۔ ۲۱۷)منوؔ کے برخلاف دیگر دھرم شاستروں میں عورت کی میراث کا ذکر ملتاہے جیسے یاگیہؔ اور عمکیہؔ کے یہاں عورت کی میراث پر واضح دستور موجود ہے۔

شادی سے متعلق دھرم شاستروں میں تفصیلی مباحث ملتے ہیں۔ منوؔ نے شادی کے احکامات اور اصول وضوابط کو بہت تفصیل اور تشریح کے ساتھ بیان کیاہے۔ منوسمرتی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ہندوئوں میں تعدد ازدواج کی رسم صدیوں پہلے سے موجود ہے۔ ویدی عہد اور اس کے بعد کے تمام ادوار میں متعدد شادیوں کا ذکر ملتاہے۔ البتہ اس قانون میں طبقاتی تقسیم اور کم ترذاتوں سے تعصب اور منافرت کا جذبہ موجود ہے۔ مثال کے طورپر منوؔ کہتاہے :’’انتہائی مشکلات اور آلام کے دنوں میں بھی کوئی ایسا واقعہ کسی کہانی میں نہیں ملتاکہ کوئی شودر عورت کسی براہمن یا کھشتری کی پہلی بیوی رہی ہو۔ ‘‘( منوباب ۳۔ ۱۴)دوسرے مقام پرمنوؔ کہتاہے : واضح ہو کہ ایک شودر کی بیوی ایک شودر ہی ہوسکتی ہے۔ جبکہ ایک ویش کی بیویوں میں سے ایک اس کی ہم مرتبہ اور دوسری ویش یا شودر ہوسکتی ہے۔ کشھتری کی (بیویوں میں سے) سے ایک اس کی ہم مرتبہ اور دوسری ویش یا شودر ہوسکتی ہے۔ جبکہ برہمن کی( بیویوں سے)ایک اس کی ہم ذات اور باقی کھشتری، ویش اور شودر ہوسکتی ہے۔ ‘‘(منو باب۳۔ ۱۳)ایک دوسرے مقام پر تو برہمن، کھشتریوں اور ویش کو متعدد شادیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن برتری کا حق ان کی ہم ذات اور ہم مرتبہ بیویوں کو دیا گیاہے۔ (ملاحظہ ہو:منوسمرتی باب نہم۔ ۸۵)

عورت کی مظلومیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے مقدس رسومات میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ ویدی دور اور اس کے بعد کے تمام ادوار میں یہ رسم عام تھی۔ ویدی دور میں عورت کو ناپاک سمجھا جاتا تھااور قربانی جیسی مقدس رسومات میں اس کی شرکت ممنوع تھی۔ یہی نہیں بلکہ مقدس کتابوں کی تلاوت بھی اس کے لئے جائز نہیں تھی۔ منوؔ کے قانون کے مطابق’’جو شخص دیوتائوں اور پتروں کے چڑھاوے میں اپنی (شودر) بیوی کی مدد لیتاہے اسکی (بھینٹ اور نذر) قبول نہیں ہوتی اور وہ سورگ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ‘‘(منوباب ۳۔ ۱۸)آریائی عہد میں شودروں سے شادی بلکہ ناجائز تعلقات کو بھی نفرت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ شودر اپنے نام سے کسی جائداد کے مالک بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ بعض عورتیں ویدی دور میں علم و ادب کی بلند ترین منزلوں پر فائز ہوچکی تھیں لیکن اس بنیاد پر ان کی مذہبی و سماجی حیثیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ ویدی دور میں بھی عورت نہ تو اپنے باپ کی جائداد میں میراث کی حقدار تھی اور نہ اپنی کسی ذاتی جائداد کی مالک ہوسکتی تھی۔ اس کی تمام تر آمدنی اور املاک شوہر یا باپ کے حصے میں شمار کی جاتی تھی۔ (قدیم ہندوستان کی تاریخ۔ رما شنکر ترپاٹھی۔ ص۷۶)

اسلامی قانون پر یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ اسلام نے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی اجازت دی ہے۔ جبکہ اسلام میں لڑکی کے بالغ ہونے کی عمر لڑکے سن بلوغ سے مختلف ہے۔ اگر ہم سن بلوغ کو مد نظر نہ رکھیں تو لڑکیاں بلوغ کے بعد بھی کم عمر ہی معلوم ہوتی ہیں۔ دھرم شاستروں میں بھی کم عمر لڑکیوں کی شادی کا قانون موجود ہے۔ منوؔ کے مطابق:’’خواہ بیٹی ابھی (مناسب) عمر کو نہ پہونچی ہوباپ کو چاہیے کہ ممتاز، وجیہ اور ہم مرتبہ رشتہ آنے کی صورت میں اسے قبول کرلے۔ لیکن مناسب خوبیوں سے تہی شخص کے ساتھ شادی سے بہتر ہے کہ لڑکی عمر کو پہونچ جانے کے بعد بھی موت تک گھر بیٹھی رہے۔ ‘‘(منو باب نہم۔ ۸۸۔ ۸۹)منو سمرتی میں اعلیٰ ذاتوں کے یہاں کم ذات خواتین کے ارحام سے جنمے بچوں کو دوغلا اور مکروہ سمجھا گیاہے۔ اس سے زیادہ نفرت اور تقسیم کا نظام اور کیا ہوگا۔ اس کے باوجود بغیر صحیح تفہیم کے اسلامی قانون پر انگشت نمائی کرنا ایساہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے گریبان میں نہ جھانک کر دوسروں کے گریبان میں جھانکتا پھرے۔

بہتر ہوگاکہ ہم ایک دوسرے کے دستور حیات کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے۔ بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینے کے لئے مخلصانہ جدوجہد ہو اور بین الادیان نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایک دوسرے کی مقدس کتابوں اور مذہبی قانون پر طعن و تشنیع کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس کے لئے علماء اور دانشور موجود ہیں جو اس راہ میں افہام و تفہیم کی راہیں روشن کرسکتے ہیں۔ اس لئے اختلافی اور نزاعی مسائل کے بجائے مشترکات پر گفتگو ہونی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔