نسوانی عصمتوں کی عفت اور اسلامی تعزیرات

مسعود محبوب خان

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

 اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں 

عورت اللّٰہ تعالیٰ کی خوب صورت تخلیق ہے۔ اسلام مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس کہتا ہے ”تم (مرد) ان کے (عورت) کے لئے لباس ہو اور وہ تمہارے لئے لباس ہیں“۔ نبی کریمﷺ نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا: عورتوں کے معاملہ میں اللّٰہ سے ڈرو تمہارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے“۔ قرآن نے مرد کو عورت پر نگران اور قوام بنا کر ان کی عفت و عصمت کا محافظ بنایا ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت، وقار اور احترام دیا، خاندان کی صورت میں عورت کو تحفظ دیا۔ خاندانی نظام کے ٹوٹنے کی سب سے زیادہ سزا عورت کو ملی ہے، خاندانی نظام مضبوط ہونے کی وجہ سے عورت کا کوئی استحصال نہ کرسکے گا۔

 اسلام وہ مذہب ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کو تحفظ فراہم کیا، صنفی حساسیت کو تعلیم و نصاب کا حصّہ بنایا، صنف نازک کی صحت، تعلیم اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مذہبی تعلیمات کے ذریعہ رہنمائی کی۔ سخت قانون سازی پر عمل درآمد اور جنسی زیادی کے لئے سخت سے سخت سزائیں بنائی گئیں۔ جس کے نتیجہ میں ہم دیکھتے کہ دنیا کے گوشہ میں جہاں قانونِ خداوندی نافذ ہے وہاں اس طرح کے معاملات کا تناسب نہیں کے برابر ہے۔ اس کے برعکس جہاں قانونِ خداوندی نہیں ہے وہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ زیادتی، جنسی تشدد، ریپ اور قتل کے واقعات مسلسل اضافوں کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ میرا جسم میری مرضی اور آزادئ نسواں کے کھوکھلے نعرے درحقیقت صنفِ نازک تک پہنچنے کی اور اس کے استحصال کی ایک بڑی کوشش کا نام ہے۔ عورتوں کے استحصال کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں تو اس بات پہ یقین بڑھ جاتا ہے کہ واقعی آزادی کے نام پر اس نام نہاد مہذب معاشرے نے عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا…. عورت سے گھر کے پاکیزہ ماحول اور چار دیواری کو چھین کر بازاروں میں نیلام کیا، ان کے تقدس کو پامال کیا گیا، عفت و عصمت کو تار تار کیا گیا، مساوات و برابری کے نام پر مشقت کے پہاڑ توڑے گئے،  دو ٹکے کے صابن کے لئے برانڈ بنا کر اسے دنیا کے سامنے برہنہ کیا گیا، مردوں کے شیونگ کریم کے لئے اسے سرِ بازار رسوا بھی کیا گیا…. ؎

آہ! بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار

آزادئ نسواں کے نام پران کی عفت و عصمت اور جنس و مال کے ان بھوکے درندوں نے اسے خوب بیوقوف بنایا جس کے نتیجہ آج معصوم بچیاں بھی ان ہوس کے پجاریوں سے محفوظ نہ رہ سکیں…..  ؎

آزادئ نسواں کہ زمرد کا گلوبند!

عصرِ حاضر میں ظلم و زیادتی کے نتیجے میں عصمت ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے لوگوں کو ایک سوچ و فکر کے ساتھ دنیا کو دوبارہ اسلام کے بنائے گئے قوانین سے متعارف کروانا شروع کیا ہے، اجتماعی زنا بالجبر پر میڈیا کی غیر جانبدارانہ عمل نے بھی عصمت ریزی کے معاملات کو منظر عام پر لایا ہے۔  اور ساتھ ساتھ ملک گیر سطح پر بیدار عوام کی جانب سے احتجاجی مظاہروں نے عصمت دری کے واقعات کو ایک نئی راہ بتاتے ہوئے، درندوں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے مقدمات درج کرانے کی ہمّت مظلوموں کے اندر پیدا کر دی ہے۔ جس کے نتیجے میں حکومت عصمت دری اور جنسی زیادتی کے جرائم کے لئے اپنے تعزیری ضابطہ میں اصلاح کرنے لگی ہے اور سخت سے سخت قانون بنانے کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔ جب کہ اسلام نے صدیوں پہلے اس سنگین جرم و قبیح عمل کے لئے مختلف قوانین و تعزیرات کے ذریعے اس کی بیج کنی کی ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کے نتیجے سے ہی معاشرے میں موجود ناانصافیوں اور ظلم و زیادتی پر قدغن لگایا جاسکتا ہے۔

”اور زنا کے قریب نہ جاؤ۔ بلاشبہ وہ بڑی بے شرمی کا کام اور برا راستہ ہے۔“ (سورہ بنی اسرائیل: 32)

زنا کرنا فحش عمل ہے۔ عورت و مرد کسی کمزور لمحے میں پھسل جائیں تو قرآن اس فطری کمزوری پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور ایسا پردہ کہ اگر کسی نے اچانک ان کو زنا کرتے دیکھ لیا ہو تو اس کو بھی منہ بند رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ مگر کسی کے ساتھ "زنا ” کرنے اور کسی کو "ریپ” کرنے میں فرق ہے۔ دونوں کام عمل کے لحاظ سے ایک جیسے ہیں مگر ایک کام باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے جب کہ دوسرا کام جبر سے ہوتا ہے۔ پس پہلا کام "فحش” ہے یعنی قابل ملامت ہے اور دوسرا کام "منکر” ہے یعنی قابل تعزیر ہے۔

اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو "عصمت ریزی اور اجتماعی عصمت ریزی” زنا کی عام تعریف سے ہٹ کر ایک الگ بلکہ اس سے زیادہ سنگین جرم قرار پاتا ہے۔ کسی مرد یا عورت کو زنا کرنے پر اتنا مجبور کرنا کہ اس مرد یا عورت کو خلاف ورزی کرنے کی صورت میں جان سے مارے جانے کا یقینی خدشہ ہو شرعاً ”زنا بالجبر“ کہلاتا ہے، خواہ یہ جبر خفیہ ہو یا عوامی مقام پر ہو۔ اجتماعی بدکاری و اجتماعی عصمت دری کی صورت میں زنا کے ساتھ مزید کئی جرم و گناہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اوّل یہ کہ بدکاری عملاً دوسرے لوگوں کے سامنے یا ساتھ کی جاتی ہے جس میں تذلیل اور تشہیر کا پہلو کار فرما ہوتا ہے۔ دوّم یہ کہ اگر زنا بالجبر انتقام یا بدلہ یا عصبیت کی بنیاد پر کیا گیا ہو تو، انتقام کے لئے خود ساختہ صورت اختیار کرنا بجائے خود دوسرا جرم ہے۔ پھر اس موقع پر اگر ہتھیار کی موجودگی اور نمائش بھی کی گئی ہو تو تخویف (خوف) اور جبر ایک تیسرا جرم بھی اس کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ چہارم جان سے مارنے کی دھمکی دینا یہ بھی بہت بڑا جرم ہے جسے attempting murder بھی کہا جاتا ہے۔

جب کوئی کسی کے ساتھ بے جرم قتل و زنا کرتاہے تو اس کے پسماندگان کو ایک ایسا صدمہ پہنچتا ہے جسے "ڈپریشن” کہتے ہیں۔ ڈپریشن زدہ آدمی، زندہ ہوتے ہوئے بھی مرا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا اعصابی نظام، اس ظلم کے شاک میں تباہ ہوجاتا ہے اور قوت عمل ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے اعصابی نظام کو اگنائیٹ کرنے (دوبارہ زندہ کرنے) ایک جذباتی چنگاری (Spark)  کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ریاست مقتول کے ساتھ کھڑی ہونے کا عملی ثبوت دیتے ہوئے، قاتل کو اس کے انجام سے دوچار کرتی ہے تو پسماندگان کے پژمردہ اعصاب واپس نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ ” قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے”۔

ایسے قتل پورے معاشرے کے اعصاب کو منجمد اور پژمردہ کردیا کرتے ہیں۔ پوری سوسائٹی ڈپریشن کا شکار ہو کر قوت عمل اور زندگی کی حرارت سے محروم ہونے لگتی ہے۔ پوری سوسائٹی کے اعصاب کو دوبارہ اگنائیٹ کرنے، معاشرے کو ہمہ جہتی تحفظ کا عملی احساس دلانے کے لئے، ایسے قاتلوں کو برسرعام چوک میں لٹکا دینا چاہئے۔

ہمارے ملک میں خواتین کے خلاف چوتھا عام جرم ”زیادتی یا عصمت ریزی“ (Gangrape) ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی 2019ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں 32,033 عصمت دری کے واقعات درج ہوئے، یعنی روزانہ اوسطاً 88.88 واقعات۔ حالانکہ 2018ء سے قدرے کم ہیں، 2018ء میں ریپ کے 33,977 کیس درج کیے یعنی ایک دن میں اوسطاً 93 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 30,165 عصمت دری کا ارتکاب متاثرہ افراد 94.2% مقدمات کے مجرموں کے ذریعے کیاگیا، اسی طرح کی تعداد 2018ء کی بھی ہے۔ ان متاثرین کا حصّہ جو نابالغ یا 18سال سے کم تھے۔ رضا مندی کی قانونی عمر 15.4% رہی، 2018ء میں یہ 27.8% تھی۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ دوسری طرف بھارت میں کم سب بچوں کے ذریعے زیادتی کے واقعات بہت زیادہ رہے ہیں اور 2019ء میں ہر دن 3/ بچوں کو زیادتی، حملہ اور خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

این سی آر بی کے 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق، راجستھان میں سب سے زیادہ بھارتی ریاستوں میں زیادتی کی اطلاع ملی۔ شمالی ہند کے پار ہندی سر زمین والے خطے، جیسے مدھیہ پردیش، اتر پردیش، ہریانہ اور چھتیس گڑھ میں بھی دیگر ریاستوں میں خواتین پر جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پائے جاتے ہیں۔ Metropolitain شہروں میں، قومی دارالحکومت دہلی کا سلسلہ بدستور اضافہ کے ساتھ جاری ہے۔ 2019ء میں زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات 1,253 میں ہوئے ہیں، جب کے جئے پور میں زیادتی کی شرح (فی 1,00,000 آبادی) تھی۔ وادی میں 2018ء میں ریپ کے کم از کم 142 واقعات درج کئے گئے۔ علاوہ ازیں خواتین کی اغواء کاری کے 667 واقعات، ایو ٹیزنگ کے 35 واقعات اور گھریلو تشدد کے 143 واقعات درج کئے گئے۔

رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ملک میں ہر 22/منٹ پر کسی نہ کسی خاتون کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے اور ہر 72/منٹ میں کسی نہ کسی کمسن دوشیزہ ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ ہر 25/منٹ پر چھیڑ خوانی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ ایک جائزہ کے مطابق 92/فیصد وہ عورتیں جو مختلف حلقوں میں نائٹ شفٹ میں کام کرتی ہیں اپنی ڈیوٹی کے درمیان خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ریپ کے واقعات تشویشناک حد تک عام ہیں، اعداد و شمار دیکھ کر لگتا ہے کہ اور ملک کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس طرح کے معاملات اپنی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔اگر ایسے وا قعات کو روکنا ہے تو پھر عبرتناک سزائیں دینی ہوگی، سر عام یا کم سے کم تیز ترین ٹرائیل کے بعد سزائے موت کی سزا۔

سب سے بنیادی اور اصل پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کے تقدس اور ان کے احترام کو گھٹایا جاتا رہا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں خواتین کی عصمتوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور انہیں ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بیوی کی شکل میں ایک احترام دیا گیا ہے اور ہمارا موجودہ نام نہاد مہذب معاشرہ اسی احترام اور اسی تقدس کو پامال ہوتا ہوا دیکھ رہا اور ڈر و خوف کے سایہ میں کسی بھی قسم کی مخالفت سے گریز کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔

جنسی درندگی میں اضافہ کی دوسری وجہ معاشرہ میں جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں غیر معمولی تاخیر ہے۔ گینگ ریپ کے بڑھتے واقعات کی ایک بڑی وجہ بے پردگی اور خواتین کی فیشن زدہ زندگی بھی ہے۔ زیادتی کے بڑھتے واقعات کا ایک سبب مرد و زن کا آزادانہ اختلاط اور تعلیم گاہوں اور عوامی مقامات پر لڑکوں اور لڑکیوں کا بے محابہ میل جول ہے، مخلوط کلچر ہمارے معاشروں کو تباہی کی جانب ڈھکیل رہا ہے۔

  غربت اور سماجی عوامل بھی بچوں اور خواتین میں تشدد کی بڑھتی ہوئی شرح میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم غربت کا تعلق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے اور بنانے والے دونوں سے ہے۔ کئی محققین کے مطابق زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں اور خواتین میں غربت زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے، جب کہ پس ماندہ علاقوں میں ”گینگ ریپ“ کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔

اناؤ، کٹھوعہ، ہاتھرس وغیرہ وغیرہ کے سانحات ہمارے معاشرے میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم اورمذہبی و سماجی اور سیاسی بے حسی کی عکاسی کررہے ہیں۔ آٹھ سالہ ننھی آصفہ کو ملعون اور خبیث اغوا کاروں نے اپنی حیوانیت کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر ڈالا ہے۔ خانہ بدوش بچی کے بہیمانہ اجتماعی جنسی درندگی (Gang-rape) اور اس کے بعد بے دردی سے قتل کی واردات کے بارے میں پولس کی تفتیش سے جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ انتہائی بربریت کا پتہ دیتی ہیں۔ پولس نے فرد جرم میں بتایا ہے کہ یہ ریپ اتفاقیہ نہیں ہے۔ یہ ایک منصوبہ بند جرم کی واردات تھی جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس سے جموں کے مسلمانوں میں دہشت پیدا کی جاسکے۔ ایسا معاشرہ، ایسی تہذیب جہاں کے مذہبی رہنما اقتدار کے نشے میں چور ہوکر یہ کہتے ہوں کہ مسلم عورتوں کو ان کی قبروں سے نکال کر ریپ کرنا چاہئے!!!  جہاں کی مذہبی تنظیمیں مسلم لڑکیوں کے خلاف "ریپ یوگ” مہم چلا کر مسلم بچیوں کے خلاف اغوا، جبریہ ارتداد کے ذریعے مذہبی عصبیت میں چور ہو کر اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرنے کے بعد انہیں بے سہارا چھوڑ دینے کی ترغیب دیتی ہو!!!

 نچلی ذات سے وابستہ ایک لڑکی جسے مبینہ طور پر اونچی ذات کے چار افراد نے مبینہ طور پر گینگ ریپ اور قتل کا نشانہ بنایا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ریپ کا شکار اکثر و بیشتر نچلی ذات کی خواتین ہی کیوں ہوتی ہیں؟ مطالعہ میں ایک بات یہ بھی سمجھ میں آئی ہے کہ عصمت ریزی کے واقعات کے اسباب میں ایک سبب ورن ویوستھا کا طبقاتی نظام یعنی ذات پات پر مبنی نظام بھی ہے۔

 عصمت ریزی کے ذریعے اعلیٰ ذات کے افراد نچلی ذات کے لوگوں پر اپنی طاقت اور بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے ظلم و جبر کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ نچلی ذات کے لوگوں کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اعلیٰ ذات کی خدمات انجام دینا ہی تمہارا دھرم ہے لہذا وہ اعلیٰ ذات کے ماتحت ہی زندگی گذاریں اور اپنی حدوں کو پار نہ کریں اور جو اپنی حدود کو پار کریگا اس کے ساتھ یہی عمل ہوگا۔ اسی لئے عصمت دری کی ویڈیو بنائی جاتی ہیں اور اسے معاشرے میں باعثِ ثواب سمجھ کر پھیلایا بھی جاتاہے۔

سال بھر پہلے کیتھولک چرچ کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ مذہبی پیشواؤں اور پادریوں کی جانب سے راہباؤں (نن) کے ساتھ ریپ کے واقعات میں شدت سے اضافہ ہوا ہے، ان کے امکان کے مطابق یہ واقعات اب بھی جاری ہیں۔

 فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘AFP’ کے مطابق پوپ فرانسس کے اس اعتراف سے ایک مرتبہ پھر تنازع نے جنم لے لیا ہے۔ گذشتہ برس ہی اگست میں نیویارک کی نئی جیوری کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پنسلوینا میں 6 کیتھولک انتظامیہ سے حاصل دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ تقریبا 300 پادریوں نے 1000 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی تشدد و زیادتیاں کیں۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جنسی تشدد اور جنسی زیادتی سے مراد کیاہے، 18 سال سے کم عمر انسان بچہ ہے کوئی بھی بالغ شخص بچے کے پوشیدہ اعضاء کو ہاتھ لگائے، دیکھے، چومے، بچے کی برہنہ ویڈیو بنائے، جنسی زیادتی کرے کہ بالغوں کے اعضاء کو ہاتھ لگائے یہ سب جنسی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ عام طور پر 5 سے 12 سال کی عمر کے درمیان بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

معصوم بچے بھی آخر ان حوس پرستوں کا نشانہ کیسے بنتے ہیں؟ آخر وہ کون سی ذہنی بیماریاں ہیں جو اس طرح کے گھناؤنے عمل کو بڑھاوا دیتی ہیں؟ آخر کیوں درندہ نما انسان سانپ بن کر ان معصوم پھولوں کو ڈس رہے ہیں؟ کیا واقعی معاشرہ اتنا تعفن زدہ ہوگیا ہے معصوم کلیوں کو کئی دنوں تک عبادت گاہوں میں اپنی حوس کا نشانہ بنا کر بے رحمی سے قتل کرکے ان کی لاشوں کو بھی نہیں بخشا جاتا؟ کیسے درندے اور وحشی ہیں یہ لوگ؟

 ان حیوانوں کی بستی میں ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ بچوں کے لئے ہر وہ جگہ غیر محفوظ ہے جہاں وہ تنہا ہوتے ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے تو ان معصوموں کے لئے سب سے غیر محفوظ مقام ان کی اپنی رہائش گاہ بھی ہے۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عزیز و اقارب کے مکان ان کے لئے جنسی زیادتی کا ذریعہ بنتے ہیں، جہاں ان معصوم فرشتہ صفت بچوں کو روندا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عصمت دری کاشکار ہونے والی خواتین میں 6 سال کی بچی سے لے کر 85 سال تک کی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد ہمسایوں اور رشتہ داروں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی ہے۔

 پھر ان نو نہالوں کے لئے غیر محفوظ مقامات میں سے ایک اور جگہ ہوتی جہاں ان نوخیز کلیوں کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے وہ جگہ ہے ہماری تعلیم گاہیں۔ ہماری مخلوظ تعلیم گاہیں بھی ایک بہت سبب ہے بچوں کی عصمت ریزی کا!!! اگر ہم 2010ء سے 2017ء تک کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ہر نیا سال بچوں پر قہر بن کر ٹوٹا ہے۔ جب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے غلیظ درندہ نما انسانوں کو جلد سے جلد ان کے کیفرکردار تک پہنچایا جانا چاہیے، جس کے نتیجے میں دوسرے لوگوں کو یہ مکروہ فعل کرنے کی ہمت کبھی نہ ہوگی۔ قانون اور سزائیں ایسی ہوں جس سے گناہ نہ ہوں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی میں کمی اُسی صورت ہوسکتی ہے جب جرم کے مرتکب افراد کو عبرتناک سزا دی جائے۔

ایسے واقعات مسلسل منظر عام پر آتے رہے اور میڈیا سمیت دوسرے ذرائع لوگوں، خصوصاً والدین کو، احتیاطی تدابیر بھی بتاتے رہتے ہیں، لیکن اس کا اثر ہوتانظر نہیں آتا۔ ہمارے اندر اس رویّے کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں کہ کسی ایک واقعے پر خوب شور مچاتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، پھر خوابِ غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ پر نظر پڑتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہمارا مستقبل، ہمارے بچے کتنے بڑے خطرے سے دوچار ہیں۔ بچوں سے زیادتی، تشدد، ریپ کیسیز میں مسلسل اضافہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

 اہل اقتدار کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون بناکر سخت ترین سزا کا اجرا کرنا ہوگا۔ اس طرح کے واقعات صرف سخت ترین سزا سے ہی روکے جاسکتے ہیں۔ عبرتناک طریقہ سے سرِ عام تعزیرات کا چلن جب تک عام نہیں ہوگا جب تک گناہ گار دندناتے رہیں گے۔ حالیہ احتجاجوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین نعروں اور ہاتھ میں اٹھائے بینرز اور پلے کارڈز کے ذریعے اس کا تقاضہ بھی کررہی ہیں کہ اس عمل کو روکنے کے لئے سخت قانون سازی کی جائے۔ قطع نظر اس سے کہ معاشرے پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ ہاں البتہ مثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔

  زنا، زنا بالجبر، اجتماعی زنا بالجبر اور اس کے بعد بے رحمانہ قتل کی سزا ظالمانہ و وحشیانہ اس وقت لگتی ہے جب بدکردار، بے رحم، ظالم مجرم کی نفسیات سے دیکھا جائے۔ معاشرے کے حوالے سے نہیں۔ قانون کا خوف جرم کے سدّ باب کا واحد ذریعہ ہے۔ جب وہ فطری، اخلاقی احساس، تعلیم و تربیت اور سماج کے دباؤ سے ماورا ہوجائے۔ ان مراحل کے بعد بھی نہ رکے، تو وہ سخت سزا کا مستحق ہے۔ اور ایسے درندوں کو مار کر ہی معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے۔

اللّٰہ ربّ العالمین! دنیائے انسانیت کی اس قبیح گناہ سے حفاظت فرمائے اور اس تعفن زدہ معاشرے کو پاکیزہ معاشرہ بنائے۔ اور ہمیں معاشرے میں اللّٰہ کے قانون کے نفاذ کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)

تبصرے بند ہیں۔