یہ دراصل ہندو راشٹر کا منظر نامہ ہے

ڈاکٹر عابد الرحمن

ایک کمزور اور بے بس عورت کے مجرمین آزاد کردئے گئے۔ یہ مجرم اپنے آپ کو بے گناہ قرار دے رہے ہیں لیکن ان کا جرم قانون کے عمل اور عدلیہ کی چھان پھٹک میں ثابت ہو ا تھا۔ اس معاملے کی تحقیقات سی بی آئی نے کی تھی اور اسے بھی یہ معاملہ سرکار کی طرف سے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے حکم کے ذریعہ سونپا گیا تھا، سی بی آ ئی نے اپنی تحقیق میں یہ پایا تھا کہ ملزمین کو بچانے کے لئے مقتولین کے پوسٹ مارٹم بہت گھٹیا طریقے سے کئے گئے تھے پوسٹ مارٹم کے بعد مقتولین کے سر تن جدا کردئے گئے تھے تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے ( news18.com 17 August 22)۔ یعنی ان مجرمین کو بچانے کا کام انتہائی منصوبہ بند طریقے سے کیا جارہا تھا۔ اگر سپریم کورٹ اس معاملے کو گجرات سے باہر ٹرانسفر نہ کرواتی تو شاید یہ لوگ جیل جانے سے بھی بچ جاتے۔ اور اب جس طرح ان کو وقت سے پہلے رہا کیا گیا ہے اور بی جے پی کی حواری تنظیموں کے ذریعہ گل پوشی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا جارہا ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے جیسے ان کو بچا نہ پانے کی خفت مٹائی جا رہی ہے۔

۱۴ سال جیل میں گزار چکے سزا یافتہ قیدیوں کی معافی کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم گھناؤنے اور جنسی زیادتی کے جرائم کے مرتکبین ساتھ ایسا نہیں ہو نا چاہئے اور اس وقت تو باکل نہیں ہونا چاہئے جب یہ جرائم فسادات جیسے معاملوں میں کسی ٹارگیٹیڈ کمیونٹی یا گروپ کو ایک خاص مقصد کے تحت نشانہ بنانے کے لئے کئے جائیں۔ قانون کی عملداری اپنی جگہ ہے لیکن قانون کے استعمال میں کسی واقعہ کا پس منظر و پیش منظر بھی دیکھا جانا چاہئے۔ حالانکہ قیدیوں کی معافی اور قبل از وقت رہائی کے متعلق رہنما خطوط موجود ہیں۔ خود گجرات حکومت نے۲۰۱۴ میں قیدیوں کی معافی اور رہائی کی اپنی ۱۹۹۲ کی پالسی بدلاؤ کر عصمت دری اور قتل کے مجرموں کی رہائی کو روکا ہے اور حال ہی میں آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر قیدیوں کی معافی اوررہائی کے لئے ریاستوں کو جاری وزارت داخلہ کی گائڈ لائنس میں بھی ان جرائم کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس معاملے پر۱۹۹۲ کی پالسی کے تحت غور کرنے کا حکم دیا تھا کہ جب یہ جرم ہوا تھا یہی پالسی روبہ ء عمل تھی۔ تو کیا آزادی کے امرت مہوتسو پر قیدیوں کو معاف کرنے کی وزارت داخلہ کی گائڈ لائنس اس سال سے پہلے کے جرائم پر لاگو نہیں ہوگی؟

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا گجرات حکومت کا فیصلہ ہے کہ قیدیوں کی معافی اور قبل از وقت رہائی کے اختیارات ریاستوں کے پاس ہیں لیکن اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جن معاملات کی جانچ مرکزی ایجنسیاں کرتی ہیں ان میں ریاستوں کے یہ اختیارات مرکزی سرکار سے مشاورت اور اس کے اتفاق سے مشروط ہیں۔ اور اس معاملہ کی جانچ سی بی آئی نے اور مقدمہ کی سنوائی سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جو کچھ گجرات سرکار نے کیا مودی جی کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی کیا۔ کیونکہ بی جے پی دراصل مودی پی ہے۔ حال ہی میں بی جے پی میں کی گئی تنظیمی تقرریوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی میں لگام صرف اور صرف مودی جی کے پاس ہے ان کی مرضی کے بغیر یہاں پتہ بھی نہیں ہل سکتا، بی جے پی کے سینئر اور سنگھی لیڈران اور خود سنگھ بھی ان کے سامنے پانی بھرتا نظر آتا ہے۔ اور ویسے بھی جس وقت یہ جرم سرزد ہوا تھا اس وقت مودی جی ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، یہ معاملہ جب گجرات کی عدالت میں تھا تو اس وقت گواہوں کو نقصان پہنچائے جانے اور شواہد سے چھیڑ چھاڑ کئے جانے کے خدشات ظاہر کئے گئے تھے جن کو قبول کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسے گجرات سے باہر ممبئی کی ایک عدالت میں ٹرانسفر کرنے کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ یہ اس بات کے بھی منافی ہے جوناری سمان کے ضمن میں مودی جی نے آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران کہی اور خاص بات یہ کہ جس وقت مودی جی یہ کہہ رہے تھے اسی وقت خود انہی کی پارٹی کی سرکار نے ناری کو اپمانت کرنے والوں کو قبل از وقت رہا کر خود ہی ناری اپمان کا ارتکاب کیا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے دراصل یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ مودی جی نے ناری سمان اور ناری شکتی کے متعلق جو کچھ کہا مسلم عورتیں اس گنتی میں نہیں آتیں۔ اور پوری عوام بھی یہ پیغام سمجھ چکی ہے کہ نربھیا کیس میں دہلی کی بنیادیں ہلا ڈالنے والی بھیڑ کی طرف سے اس معاملے میں کوئی معمولی ہل چل بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اسی سپریم کورٹ کے نام پر ہوا جس نے اس کیس کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ جب اس ضمن میں واضح رہنما خطوط موجود ہیں تو سپریم کورٹ نے ریاستی سرکار کو یہ ہدایت کیسے دی یہ بھی ایک اہم سوال ہے جو معزز سپریم کورٹ سے دست بستہ پوچھا جانا چاہئے اور وہ سارے رہنما خطوط بھی اس کے گوش گزار کئے جانے چاہئے جو اس فیصلے میں حائل نظر آتے ہیں۔ ویسے اس طرح کے معاملات میں سب سے پہلا اور اہم سوال تو یہی ہونا چاہئے کہ کسی کے مجرمین کو معاف کرنے کا اختیار اس کے علاوہ کوئی اور یا حکومت کیسے استعمال کرسکتی ہے؟

یہ سب دراصل اس بات کا منظر نامہ ہے کہ ہندو راشٹر میں مسلمانوں کی حالت کیا ہوگی۔اب ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس منظر نامے میں جکڑے نہ جا سکیں اس کے لئے جدو جہد کریں اور یہ جدو جہد ہمیں خود اپنے بل پر ہی کرنی پڑے گی کوئی سیاسی پارٹی مین اسٹریم سماجی جماعت یا کوئی انا ہزارے ہماری لڑائی لڑنا تو چھوڑئے ہمارے ساتھ آنے کا یا کسی بھی طرح  ہمیں سپورٹ کرنے کا رسک نہیں لیں گے کیونکہ اب ہندوتوا یا ہندوراشٹر ہی ملکی سیاست کا نظریہ ہو چکا ہے اور ہر پارٹی اسی کی سیاست کرنے لگی یا یہی سیاست کرنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ اب بی جے پی مخالف پارٹیاں کسی نظریاتی عدم اتفاق کی بنیاد پر اس کی مخالفت نہیں کررہی ہیں بلکہ صرف اقتدار کے حصول  کے لئے ہی اس کی مخالف ہیں اس کے نظریات یا جس طرح کی سیاست اور سماجیت کا رجحان یہ آگے بڑھارہی ہے اس کی مخالف نہیں ہیں۔ اگر کانگریس نے شیوسینا سے اتحاد کیا تھا تو اس لئے نہیں کہ شیو سینا نے اپنے سخت گیر یا بی جے پی کے ہندوتوا سے توبہ کرلی تھی، اسی طرح اب نتیش کمار نے بی جے پی سے اس لئے ناطہ نہیں توڑ لیا کہ وہ اس کے سیاسی اور سماجی نظریات سے متفق نہیں اور آر جے ڈی نے ایک مرتبہ دھوکا کھا نے کے بعد بھی نتیش سے دوبارہ ہاتھ اس لئے نہیں ملایا کہ بی جے پی کو چھوڑ کر اب وہ ’سیکولر‘ہو گئے ہیں۔ یعنی سیاسی طور پرسب ایک ہیں کوئی ہمارا دوست نہیں ہے سب اپنی اپنی بازی جیتنے کے چکر میں ہمیں پٹوانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اب ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اپنی راہ متعین کرنی ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔