رب سے جڑنے کا سفر

سہیل بشیر کار

ام ہریرہ کی 303 صفحات پر مشتمل کتاب  فاطمہ کی  ایمان افروز کہانی ہے۔ فاطمہ ایک امیر گھرانے کی لڑکی ہے۔ ایسا گھرانہ جہاں بس ظاہری اور رسمی اسلام تھا کہ دل کیا تو نماز پڑھی نہ کیا تو چھوڑ دیا۔ جہاں اگر کسی کا انتقال ہوا ہو تو تین چار دن قرآن پڑھا پھر وہی ریشمی غلافوں میں اونچی شیلف پر رکھ دیا جاتا۔ فاطمہ خود چنچل اور ضدی قسم کی لڑکی ہے۔ اس کی ملاقات کالج میں قرۃ العین سے ہوتی ہے جو ہمیشہ پردہ میں ہوتی ہے۔ اس کا تعلق  ایک average فیملی سے ہوتا ہے۔ وہ ہر کلاس کے فرد سے سلیقہ سے ملتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں حیا دور سے دکھائی دیتا ہے۔ پردہ کی وجہ سے اس کے اکثر کلاس فیلو اس کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن اللہ کی یہ بندی کبھی احساس کمتری کا شکار  نہیں ہوتی۔ فاطمہ کو تجسس ہوتا ہے کہ آخر قرۃ العین میں اس قدر سکون کیسے ہے؟ وہ دیکھتی ہے کہ صبر حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس قرآن پاک کا نسخہ موجود ہے۔ وہ اس کو بطور گائیڈ بک استعمال کرتی رہتی ہے۔ فاطمہ کے لیے قرآن تو محض ثواب کی کتاب تھی لیکن اس کتاب کی چند آیات کا ترجمہ ہی اس کی دنیا بدل دیتا ہے، کالج میں اس کا ایک بوائے فرینڈ سفیان ہوتا ہے؛ فاطمہ آہستہ آہستہ اس کے ساتھ تعلق ختم کرتی ہے لیکن جوں ہی سفیان یہ محسوس کرتا ہے تو وہ اس کی تصویروں کو ایڈٹ کرکے اس کو بدنام کرنا شروع کرتا ہے۔

اس واقعے کے بعد فاطمہ کا رب سے جڑنے کا  سفر  شروع ہوتا ہے۔ اس کے افراد خانہ حتی کہ اس کے والدین بھی اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور فاطمہ کے لیے کالج کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ اس سارے سفر میں اگر اس کا کوئی ساتھ دیتا ہے تو وہ قرۃ العین ہے۔ مصنفہ نے اس رشتہ کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے:

’’کتنے پیارے اور انمول ہوتے ہیں نا ایسے لوگ جن کا آپ سے کوئی خون کا رشتہ نہیں ہوتا مگر وہ آپ کے کچھ کہے بغیر، آپ کے چہرے کے بدلتے رنگ سے اپ کی  آنکھوں میں ٹھہری نمی سے، آپ کی مسکراہٹ میں چھپے پھیکے پن سے آپ کے دل کی ہے حالت پہچان لیتے ہیں۔ یہ محبت ہی تو ہوتی ہے نا جو دل کو دل سے جوڑ دیتی ہے کہ سامنے والے سے نکلنے والی لہریں آپ کو بتا دیتی ہیں کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے۔ فاطمہ خوش قسمت تھی کہ اللہ نے اسے اپنی اتنی پیاری بندی دی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اسے اللہ پر بہت پیار آیا کہ بن مانگے اسے قرت جیسی دوست دی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے اور اس کے گال پر  پھسل گئے۔ ‘‘(صفحہ 40)

اس کے بعد فاطمہ کسی طرح اپنے افراد خانہ کو مائل کرتی ہے کہ وہ اسے مدرسہ میں داخل کرائے۔ یہاں مصنفہ نے کالج اور مدرسہ کے ماحول میں فرق کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے، فاطمہ جوں ہی پردہ کرنا شروع کرتی ہے تو ایک طوفان برپا ہوتا ہے۔ گھر کا ہر فرد اس سے نالاں تھا لیکن فاطمہ چونکہ رب کے راستے پر چل رہی ہوتی ہے اس کو قدم قدم پر اللہ رب العزت قران کریم کی آیات سے گائیڈ کرتا رہتا ہے اور اس طرح وہ ہر طعنہ برداشت کرتی ہے، اس دوران ان کے بھائی کی شادی ہونے والی ہے لیکن یہاں سب کو پرابلم فاطمہ کے پردہ سے ہے لیکن فاطمہ نے بھی اللہ کا راستہ چُن لیا تجھا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنی ماں کو بھی اس کے لیے تیار کرتی ہے۔فاطمہ جوں جوں اسلام کی تعلیمات سے آگاہ ہوتی ہے ویسے ویسے اس کے اندر حلم، بردباری آتی ہے اور وہ اپنے کردار اور باتوں سے لوگوں کے دل جیتتی ہے۔

لیکن اب اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ فاطمہ اب بیمار رہنے لگی اور جب اس کی تشخیص ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ کا لیور خراب ہے، اس دوران قرۃ العین کی شادی ایک دین دار لڑکے سے طے پاتی ہے۔ یہاں مصنفہ نے دکھایا ہے کہ جب شادی دو دینداروں کے درمیان ہوتی ہے تو لائف کس قدر پرسکون ہو جاتی ہے، فاطمہ کو علاج معالجہ کے لیے اس کے والدین کینیڈا لے جاتے ہیں، دوران علاج معالجہ فاطمہ کس طرح صبر کرتی ہے کہ ہر ایک متاثر ہوتا ہے، فاطمہ کی سرجری ہو جاتی ہے۔ اب 21 دن اس کو ریسٹ کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران وہ غیر مسلموں کے لیے ایک خوبصورت پمفلٹ لکھتی ہیں اور طبیعت تھوڑی بہتر ہونے کے بعد اس پملٹ کو چھاپ کر غیر مسلموں میں تقسیم کرنا شروع کرتی ہے لیکن اچانک فاطمہ کی طبیعت دوبارہ بگڑ جاتی ہے، وہ درد سے گزر جاتی ہے لیکن اللہ کی یہ بندی ہر غم سہہ جاتی ہے بالآخر اس کی موت واقعہ ہوجاتی ہے، لیکن اس دوران وہ اپنے نقوش چھوڑ دیتی ہے۔ مصنفہ خوبصورت بات لکھتی ہیں کہ رب سے جڑنے کے سفر کا آغاز بظاہر کتنا ہی کھٹن اور اذیت ناک کیوں نہ ہو مگر اختتام بہت حسین ہوا کرتا ہے! رب سے جڑنے کے اس حسین سفر کی حسین ترین منزل؛ رب سے ملاقات ہی ہوتی ہے، اس حال میں ملاقات۔۔۔۔ کہ بندہ بھی راضی۔۔۔۔ اور رب بھی راضی۔ مصنفہ یہ دکھانے میں کامیاب رہی ہے کہ فاطمہ کا رب سے جڑنے کا سفر ایسا تھا کہ وہ اللہ سے راضی اور بظاہر رب بھی اس سے راضی تھے۔

دیکھنے میں یہ عام کہانی لگتی ہے لیکن اس کہانی میں مصنفہ نے بہترین باتیں لکھی ہیں جس کو پڑھ کر قاری کو سکون قلب ملتا ہے۔ حقیقی سکون، کہانی پڑھتے پڑھتے مصنفہ بڑی پیاری باتیں سکھاتی ہے، ہم سب ہدایت کے طالب ہوتے ہیں لکھتی ہیں: ’’فاطمہ تمہیں پتہ ہے یہ ہدایت واحد ایسی چیز ہے جس کے لیے جب تک تم تڑپ نہیں دکھاؤ گی وہ نہیں ملے گی۔ تم اللہ کے آگے سجدوں میں گڑ گڑاؤ کہ اللہ مجھے ہدایت دے دیں، مجھے اپنی محبت کے لیے چن لیں۔ اللہ کو دکھاؤ اپنی تڑپ۔ ‘‘(صفحہ 8)

اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق کے حوالے سے لکھتی ہیں:” فاطمہ دیکھو نماز فرض ہے، یہ بالکل ہماری روح کی ضرورت ہے مگر صرف نماز پڑھنا کافی نہیں ہے۔ تم خود بتاؤ ہم سارا دن صرف کھانا کھا ئیں، پانی نہ پئیں۔ کیا اس سے ہماری ضرورت پوری ہو گی ؟ فاطمہ نے نفی میں سر ہلایا  بالکل اسی طرح ہمارے لیے نماز کے ساتھ اور بھی کام بہت ضروری ہیں جو ہماری روح کی ضرورت پوری کریں گے۔ نماز میں تم اللہ سے سرگوشی کرتی ہو مگر کیا تمہیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تم سے کیا چاہ رہے ہیں؟فاطمہ نے پھر سے اداسی کے ساتھ سر نفی میں ہلا دیا، یہی وجہ ہے۔ کوئی بھی تعلق تب تک فائدہ مند نہیں جب تک یک طرفہ ہو۔ تمہیں اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے تو سب سے پہلے خود پر کام کرنا ہوگا۔“(صفحہ 21)

سکون دل کا تعلق نظروں کی پاکیزگی کے ساتھ ہے؛؛ لکھتی ہیں :’’اسی لیے کہ ہمارے دل کا سکون ہمارے اختیار میں رہے۔ دل اللہ کے ہاتھ میں ضرور ہیں مگر اس معاملے میں ہم اتنے بے بس بھی نہیں ہیں۔ نظروں کی حفاظت سب سے پہلا عمل ہے جس سے انسان یا تو دل کا سکون بچا سکتا ہے یا اسے برباد کر سکتا ہے۔ اس لیے پہلے تو اس بات کو مائنڈ سے نکالو کہ تمہارا خود پر کوئی اختیار نہیں ہے۔“(صفحہ 28)

حقیقی سکون کیسے ملتا ہے مصنفہ لکھتی ہیں: ’’وہ اکثر لیٹے لیٹے اللہ کے متعلق سوچ کر آنسو بہانے لگتی۔ انسان جب باہر کی دنیا سے بے زار ہو کر تھک جاتا ہے نا پھر اس کی روح اسے اپنے خالق کی طرف کھینچتی ہے، تب اندر ایک بے چینی سی لگ جاتی ہے کہ انسان کسی طرح اس رب کے قریب ہو جائے۔ پھر اسے کہیں اور سکون نہیں ملتا۔ مگر بہت سے لوگ خود کو اس دھوکے کی دنیا سے بے زار نہیں ہونے دیتے۔ ہر وقت خود کو انٹرٹینمنٹ میں مشغول رکھتے ہیں۔ ایک سے نکلے تو دوسرے میں بس ہر چیز میں شغل اور بس شغل کبھی شاپنگ، کبھی پارٹیز، کبھی پلنکس، تو کبھی انٹرنیٹ پر آوارہ گردی، غرض شیطان نے ڈھیروں رستے بجھا دیئے انسان کو کہ بس کسی طرح وہ اپنے اندر کی آواز سے، روح کی بے چینی سے غافل ہو کر اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے اور اب تو ایسا ہی ہو رہا تھا کہ انسان چلتی پھرتی لاش بن چکا تھا، جس جسم کو مٹی میں مل جانا تھا اسے سنوار نے بنانے میں لگا تھا اور جس روح نے رب کے پاس جانا تھا وہ خواہ کتنی ہی گندی ہو، اس کی پروا نہیں تھی۔ ‘‘(صفحہ 45)

رب العزت سے جڑنے کے سفر میں جو چیز مانع ہوتی ہے وہ ہے تکبر مصنفہ لکھتی ہیں:” ہاں!یہ تکبر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے نا اسی لیے انسان اندر سے جلاۓ رکھتا ہے۔ تکبر کرنے والا کبھی پر سکون نہیں ہوسکتا:”اسی طرح حسد کینہ بغض وغیرہ رب سے جڑنے کی راہ میں مانع ہوتے ہیں مصنفہ ان چیزوں کا علاج یوں بیان کرتی ہے: ’’اسے یاد آیا کہ تفسیر کی میڈم فریال نے ان جذبات کا علاج بتایا تھا۔ حسد کا علاج اپنی نعمتوں پر نظر، اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا۔ غصے کا علاج فورا پانی پینا یا وضو کرنا۔ اور تکبر ! اپنی اوقات پر غور کرنا، آغاز اور انجام مٹی سے مٹی تک۔ وہ دوبارہ آیات کی طرف متوجہ ہوئی۔‘‘(صفحہ 77)

مصنفہ ہر چیز میں مثبت دیکھنا سکھاتی ہے لکھتی ہیں:’’ تمہیں پتہ ہے جب میں پاکستان کے ان جوانوں کو دیکھتا ہوں نا مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے۔ اللہ نے ان میں بہت پوٹیشنل، بہت خیر رکھی ہے۔ دیکھو جو انسان کسی دوسرے انسان ( نا محرم) کی محبت میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہے، حتی کہ جان دینے کی حد تک جا سکتا ہے۔ مال کی محبت میں خود کو دن رات تھکا سکتا ہے، اولاد کی محبت میں راتیں جاگ سکتا ہے۔ سوچو اگر اس کے دل میں اللہ کی محبت آجائے، جنت کو پانے کا شوق لگ جائے، جہنم سے بچنے کا خوف لگ جائے، تو کیوں نہ وہ اپنی زندگی اپنے رب کے نام کرے گا؟ وہ اس کی محبت میں خود کو تھکانے، راتوں کو جگانے حتی کہ جان دینے تک کو تیار ہو جائے گا۔ بس ان کو ڈائریکشن دینے کی ضرورت ہے۔“(صفحہ 104)

حدیث پر کیسے عمل کیا جاتا ہے مصنفہ نے کتاب میں سمجھایا ہے۔ کئی جگہوں پر حدیث بہت خوبصورتی سے سمجھاتی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت رکھو۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو۔ چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد رُوئے زمین والے بھی اس کو مقبول (محبوب) سمجھتے ہیں۔ “( صحیح بخاری۔ 3209) اس حدیث کا عملی پہلو وہ دلنشین پیرائے میں بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں :’’اس انسان سے بڑھ کر کون خوش قسمت ہوگا جس سے آسمان کے فرشتے محبت کرتے ہوں؟ تم جانتی ہو آسمان میں کتنے فرشتے ہیں؟‘‘

بینش نے نفی میں سر ہلایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

بیشک جو میں دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے اور جو میں سنتا ہوں وہ تم نہیں سن سکتے۔ (سنو!) آسمان چر چراتا ہے اور اسے چر چرانا ہی زیب دیتا ہے، کیونکہ وہاں چار انگلیوں کے بقدر بھی جگہ خالی نہیں ہے، ہر جگہ فرشتے سجدہ ریز ہیں۔ ” (مسند احمد 10258)

وہ جیسے آسمان کو تصور میں لاتے ہوئے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کا فرمان سنارہی تھی۔

کیا واقعی؟”

ہاں نا! یہاں سو دو سو لوگ ہمیں جانے لگیں، ہمیں فخر ہونے لگتا ہے۔ ایک بندہ ہمیں محبت کرنے لگے تو ہم اس پر فدا ہونے لگتے ہیں۔ سوچو! اگر وہاں اللہ کی مخلوق ہمیں جانتی ہو؟ پوری کائنات کا رب ہم سے محبت کرنے لگے تو یہی اصل خوش قسمتی ہے۔”وہ چمکتی آنکھوں سے مسکرائی۔تو فاطمہ ؟ اللہ کی محبت کیسے ملتی ہے؟” (صفحہ 240) پھر بخاری شریف کی ایک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی جواب دیتے ہیں "اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں، اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تر دد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔ ( صحیح بخاری۔ 6502)۔ (صفحہ 241)

اس حدیث میں صوفیانہ عقائد کی طرف لوگوں کی غلط فہمی نہ ہو وہ اس غلط فہمی کو دور کرتی ہوے لکھتی ہیں: ’’اس طرح کے صوفیانہ عقائد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ اللہ کا انسان کے اندر حلول کر جانا، وحدت الوجود کا عقیدہ تو کفریہ عقیدہ ہے۔ ‘‘ اس کے بعد خود ہی حدیث کے الفاظ کی تشریح بیان کرتی ہے: ’’اس کا یہ مطلب ہوا کہ جب اللہ کسی انسان سے محبت کرنے لگتے ہیں تو اس کے یہ  تمام اعضا ( جن کا اس حدیث میں ذکر ہے) سب اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال ہونے سے لگتے ہیں۔ انسان نافرمانی اور گناہوں کے کاموں سے بچنے لگتا ہے۔ اللہ اس انسان کو خود سے شہوات اور گناہوں سے بچا بچا کر رکھتے ہیں۔ اس کو چن کر اپنے لیے خالص کر دیتے ہیں۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کو خالص کیا تھا، جیسے انہیں گناہ سے بچا لیا تھا۔۔” (صفحہ 244)

قرآن کریم سے بندے کا تعلق وہ کس قدر عمدگی سے تحریر کرتی ہے:’’سسٹر لیزا! جب میں قرآن پڑھتی ہوں نا تو میرا دل تشکر کے جذبات سے بھر جاتا ہے۔ یہ سات آسمانوں کے پار سے آیا کلام ! یہ الفاظ جنہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پڑھ کر سنایا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلے۔ جب میں دیکھتی ہوں کہ میں انہیں چھو سکتی ہوں، پڑھ سکتی ہوں، مجھے بے تحاشہ رونا آتا ہے۔ ‘‘(صفحہ 251)

چہرہ کے پردہ کے بارے میں قرن اول سے اختلاف رہا ہے۔ مصنف نے اس ناول میں چہرہ کے پردے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ میرے نزدیک ناول میں نہیں ہونا چاہیے۔ کل ملا کر یہ کتاب اس روح کے لیے باعثِ تسکین ہے جو رب سے جڑنا چاہتی ہے۔ یہ کتاب صبر سکھاتی ہے، اس سے اللہ کے راستے پر چلنا آسان لگتا ہے اور بندہ کو پرسکون زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کتاب ‘دوات پبلی کیشن’ اورنگ آباد مہاراشٹر نے چھاپی ہے۔ کتاب کی قیمت 350 روپے مناسب ہے۔

کتاب واٹس ایپ نمبر 9960778991سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

مبصر سے رابطہ : 9906653927

تبصرے بند ہیں۔