اب تلک ہاتھ میں جتنے مرے چھالے آئے

ڈاکٹر فیاض احمد علیگ

اب تلک ہاتھ میں جتنے مرے چھالے آئے
اس سے کم ہی مرے حصے میں نوالے ائے

دل جگر جان سبھی کچھ تو اٹھا لے آئے
تم نے مانگی تھی وفا لو یہ وفا لے آئے

زندگی کو تو سنبھلنا ہے سنبھل جائے گی
میرے دل کو تو کوئی یار سنبھالے آئے

جس کو آنا تھا وہی یار نہ آیا اب تک
یوں تو آنے کو بہت جاننے والے آئے

اپنے اندر ہی کہیں ڈوب رہا ہوں میں تو
میرے اندر سے کوئی مجھ کو نکالے آئے

تیری تصویر بھی جاناں ذرا کم دکھتی ہے
روشنی کم جو ہوئی آنکھ میں جالے آئے

زندگی میں تو ہر اک موڑ پہ فیاض مرے
کام آئے تو مرے پاؤں کے چھالے آئے

تبصرے بند ہیں۔