اظہار ؔوارثی: اردو ادب کا ایک کا نایاب ہیرا

 اظہارؔ وارثی  ضلع بہرائچ کی اس عظیم ہستی کا نام ہے جنکا سلسلہ مشہور صوفی بزرگ حضرت حاجی وارث علی شاہ کے خاندان سے ملتا ہیں ۔اظہار وارثی کی   پیدائش صوبہ اودھ کے تاریخی  شہر بہرائچ میں 21 نومبر، 1940ء کو  حکیم اظہر وارثی کے یہاں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حکیم اظہر وارثی اور والدہ کا نام کنیز سکینہ تھا۔ اظہار صاحب کے دادا حکیم صفدر وارثی اور والد حکیم اظہر وارثی شہر کے مشہور معالجین میں شمار ہوتے تھے۔ حکیم صفدر صاحب حاجی وارث علی شاہ کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہ پر ایک کتاب لکھی جس کا نام جلوئہ وارث ہے۔ یہ کتاب اردو میں  ہے  اور نایاب ہے۔ اظہار صاحب کیوالد حکیم اظہر استاد شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ اظہار صاحب سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے ہیں ۔آپ کی ایک خاص بات ہے آپ صرف شعر لکھتے ہیں کسی مشاعرہ میں پڑھنے نہیں جاتے۔

ادبی سفر و خدمات

آپ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں ۔ آپ اردو شاعری میں نئے نئے تجربات کرنے کے لیے مشہور اور معروف ہیں ۔ آپ نے اردو شاعری کی تمام اصناف میں اپنے کلام کا جادو بکھیرا اورکئی نء قسمیں ایجاد کیں ۔ آپ نے 11 اصناف میں شاعری کی ہے۔ 1) غزل 2) نظم، نظم کی مشہورقسمیں ہیں (ا) پابند نظم (ب) آزاد نظم (ج) معرا نظم (د) نثری نظم۔۔ 3) رباعی 4) قطعات 5) ثلاثی 6) ماہئے 7) ہائکو 8) دوہے 9) بروے(اردو میں بروے اور چھند کو رائج کیا) 10).سانیٹ (14مصرعوں کی نظم انگرزی میں ہوتی ہے.) 11) ترایلے (یہ فرانسیسی زبان میں 8 مصرعوں کی ہوتی ہے)۔اس کے علاوہ مہتابی  غزل اور لوک غزل کا ایجاد بھی آپ نے کیا۔

پروفیسر مغنی تبسم اظہار وارثی کے بارے میں لکھتے ہے کہ

’’اظہار وارثی جدید دور کے ایک اہم نمائندہ شاعر ہیں ۔انہوں نے نظم ،غزل،رباعی،قطعہ،دوہا،ماہیا،ثلاثی،ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں پر صنف کو کامیابی سے برتا ہے اور اس کا حق ادا کیا ہے۔اظہار وارثی ایک باشعور اور حساس فن کار ہے۔اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات کے علاوہ عالمی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ان حالات اور مسائل پر کبھی بہ راہِراست اور کبھی استعاروں اور کنایوں میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔جن نظموں میں بہ راہِ راست خیالات اور جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ان کو احساس کی شدت نے اثر انگیز بنا دیا ہے۔ اظہار وارثی کی اس نوع کی نظموں میں ’سوچ‘،’دشمنی کیوں ‘،’دیوار‘،’جڑواں نظمیں ‘،’وعدوں کاموسم‘،اور ’میں نہیں جانتا‘،’بچے مفلس‘کے قابل ذکر ہیں ۔‘‘

پروفیسر قمر رئیس اظہار وارثی کے بارے میں لکھتے ہے کہ

’’اظہار وارثی کے موضوعات اور سروکارو ں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اس سے اہم بات یہ ہے کہ اظہار وارثی کی تخلیقی سوچ روایتی شاعری کے رموز علائم پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ ہر تجربہ کی مناسبت سے نئے شعری اظہارات اور علائم تراشتی ہے اور اس طرح اپنے اسلوب کی ایک نئی پہچان بنانے کا جتن کرتی ہے۔ ?

’’حدود جاں میں بگولا سا ایک اٹھتا تھا

زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں سے رشتہ تھا‘‘

’’مجھی میں گم تھا کہیں روشنی کا وہ بادل

تمام شب جو مرے دشت جاں پہ برسا تھا‘‘

’’کھلے تو ٹوٹ پڑیں ہر طرف سے کشتی پر

چھپے ہوئے کئی طوفان ،بادبان میں ہیں ‘‘

’’جہاں میں اپنی حیات کیا ہے ثبات کیا ہے

شجر سے ٹوٹا جو کوئی پتا تو میں نے جانا‘‘

اظہار وارثی کے اشعار میں داخلی اور خارجی حقائق کی ترسیل کا اہم وسیلہ ایک روشن رمزیاتی فضا ہے جس میں ہلکا ساابہام بھی قاری کی تخیل کو متحرک کرکے معنوی گر ہیں کھولنے پر اکساتا ہے۔ان میں بعض جدید ی شعرا کی طرح ایشی تجریدی کیفیت نہیں ہوتی جو شعر کو گورکھدھندہ بنا دے۔اسی طرح جذبہ واحساس کی پیکرتراشی میں بھی اظہار وارثی کے یہاں ایک خاص تازگی اور طرفگی کا احساس ہوتا ہے۔

’’اسوچ کا گھر مہک رہا ہے ابھی

جیسے آکرکوئی گیا ہے ابھی‘‘

’’ایاد ماضی آج کاغم کل کا خواب

سوچ کا اک سلسلہ ہے اور میں ‘‘

‘‘

اہم شخصیات سے رابطہ

پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر مغنی تبسم حیدرآباد، پروفیسر وہاب اشرفی پٹنہ، پدم سری شمش الرحمن فاروقی، پروفیسر سید امین اشرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،عابد سہیل پروفیسر وارث کرمانی ،یوسف ناظم ،پروفیسر ڈاکٹر سید خالد محمود،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ،افتخار امام صدیقی (ایڈیٹر شاعر ممبئی)،کرسن کمار طور(ایڈیٹر سر سبز،ہماچل پردیش)ڈاکٹر سعید عارفی  وغیرہ   نے آپکی کتابوں  پر تبصرے لکھے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی شخصیت پر بھی اپنی کلم چلائی ہیں ۔۔ ، رفعت بہرائچی، وصفی بہرائچی، شفیع بہرائچی، جمال بابا، عبرت بہرائچی، محمد نعیم اللہ خیالی، محسن زیدی، ساغرمہدی بہرائچی،اثر بہرائچی،لطیف بہرائچی،اطہر رحمانی نعمت بہرائچی واغیرہ آپ کے ہمعصراور ساتھیوں میں ہیں ۔

اعزازات

اردو اکادمی اترپردیش، انجمن ترقی پسند مصنفین نے آپ کو اعزازات اور اسناد سے سرفراز کیا ہے۔ ڈی۔ایم۔بہرائچ اور دیگر ادبی تنظیموں نے بھی آپ کو اعزازات اور سند سے سرفراز کیاہے۔ آپ کا جشن بھی منایا گیا، 9 جون 1979کو نگر پالیکا بہرائچ کے ہال میں جس میں ہندوستان کے نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔ خاص مہمانوں میں حسرت جے پوری، غلام ربانی تاباں ، خمار بارابنکی، معین احسن جذبی، ناظر خیامی، ہلال سیوہاروی، ایم.کوٹہوری راہی اور بیگم بانو دراب وفاء وغیرہ تھے۔ کیفی اعظمی صاحب کو بھی شرکت کرنی تھی پر فالج ہونے اور ڈاکٹروں کے منع کر دینے کی وجہ سے شرکت نا کر سکے تو اپنے پیسے لوٹادیئے۔ پروگرام کی نظامت ثقلین حیدرکلکتہ نے کی تھی۔

نمونہ کلام

’’میں سمندر ہوں میری سمت ہے ندیوں کا سفر

تم نے دیکھا ہے کہیں مجھ کو بھی آتے جاتے‘‘

دوہے

’’شاخ شاخ چھم چھم کرے پروہ کی پاذیب

پیڑ پیڑ کے سر چڑھا برکھا رت آسیب‘‘

’’انسانوں کے بیچ کیسا یہ سنجوگ

شیشے کے کچھ آدمی پتھر کے کچھ لوگ‘‘

’’ذات پات پوچھے نہیں دیکھے رنگ نہ روپ

چاند لٹائے چاندنی سورج باٹے دھوپ‘‘

لوک غزل

اظہار وارثی بہرائچی

میٹھی بانی بول کبیرا

کانوں میں رس گھول کبیرا

چھپے ہوئے ہیں اصلی چہرے

چٹرھے ہیں سب پر خول کبیرا

آج کی باتیں آج کے وعدے

ڈھول کے اندر پول کبیرا

بند ہر اک دھنوان کی مٹھی

خالی ہر کشکول کبیرا

دشمن کے شبد انگارے بھی

اپنیگلوں میں تول کبیرا

لیکن آج افسوس اس بات کا بہرائچ کی سرزمین پر اس نایاب ہیرے کو وہ مقام نہیں ملا جس کا وہ حقدار ہیں ۔اظہار ؔوارثی صاحب صحت خراب ہونے کے باوجود اپنے گھر پر ہر روز  تین گھنٹہ کے لئے گھر کے باہری کمرہ میں  بیٹھتے ہیں جہاں  آپ ملنے والوں سے ملاقاتے کرتے ہیں ۔راقم الحروف  وقت وقت پر آپ سے  ملنے جاتا رہتا ہے،جہاں کبھی کبھار جناب اثر ؔبہرائچی صاحب سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

تبصرے بند ہیں۔