علامہ مشتاق احمد نظاؔمی کی شاعرانہ حیثیت

طفیل احمد مصباحی

ایک شخص متعدد اوصاف و خصوصیات سے متصف ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ لیکن اس کو شہرت و مقبولیت کسی وصفِ خاص کی وجہ سے حاصل ہوا کرتی ہے اور اس کے دیگر اوصاف اس وصفِ خاص کی چکاچوند میں گم ہو جایا کرتے ہیں۔ کچھ یہی حال پاسبانِ ملت، خطیبِ مشرق، مناظرِ اسلام، ادیب العصر حضرت علامہ مشتاق احمد نظاؔمی قدس سرہ کا ( وفات : ۲۹ / اکتوبر ۱۹۹۰ ء) بھی ہے۔ ان کے وصفِ خطابت اور شانِ صحافت نے ان کے دیگر اوصاف کو پردۂ خفا میں ڈال دیا۔ ورنہ ان کی حیثیت جامع العلوم اور جامع الکمالات کی تھی۔ علامہ نظاؔمی ہمہ جہت، انقلاب آفریں اور سدا بہار شخصیت کے مالک تھے۔ وہ علومِ اسلامیہ کے ممتاز عالم، فنونِ درسیہ کے با کمال مدرس، میدانِ مناظرہ کے بطلِ جلیل، مملکتِ خطابت کے بے تاج بادشاہ، جادۂ صحافت کے تیز رو مسافر، اسلامی ادب کے مایۂ ناز ادیب، دینِ متین کے بے لوث خادم، مصلحِ امت، داعیِ قوم، اور ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ علم و فضل، ذہانت و طباعی، شعور و آگہی، بصیرت و دانائی اور دیگر اوصاف و کمالات میں فائق الاقران تھے۔ پوری زندگی باطل قوتوں اور گمراہ فرقوں سے برسرِ پیکار رہے اور احقاقِ حق کی تجلیوں سے خرمنِ وہابیت و نجدیت پر ایسی بجلی گرائی کہ آج بھی قلوبِ اعدا پر دہشت طاری ہے۔ مذہب و مسلک کے اس بیباک مجاہد کی پوری زندگی مجاہدانہ سرگرمیوں میں بسر ہوئی۔ اعلائے کلمۃ الحق کی خاطر آپ کا خامۂ زر نگار مسلسل حرکت میں رہا۔ آپ کی دینی، ملی، علمی اور تصنیفی خدمات قابلِ قدر اور لائقِ رشک ہیں۔ مذہب و ملت کے تئیں آپ کی بلند نگاہی، دل نوازی اور جاں سوزی نے آپ کو جماعتِ اہل سنت کا "میرِ کارواں” بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات مندرجہ ذیل شعر کا مصداق ٹھہرتی ہے  :

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز

 یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے 

رئیس التارکین، سلطان المناظرین، مجاہدِ ملت حضرت علامہ الحاج محمد حبیب الرحمٰن قادری عباسی ( رئیسِ اعظم اڑیسہ ) نور اللہ مرقدہ کو اپنے اس ہونہار شاگرد پر ناز تھا۔ ان کے معاصرین میں قائدِ اہلِ سنت، رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ اور دیگر چند حضرات ہی ان کا بدل اور مدِ مقابل ہو سکتے ہیں۔

علامہ مشتاق احمد نظاؔمی کی عالمانہ، مناظرانہ، خطیبانہ، ادیبانہ اور صحافیانہ حیثیت معلوم و مسلّم ہے، لیکن ان کی شاعرانہ عظمت و حیثیت سے اخص الخواص ہی واقف ہیں۔ وہ اپنی تمام علمی و ادبی فضیلتوں کے با وصف ایک قادر الکلام اور منجھے ہوئے شاعر بھی تھے۔ شعر و سخن کا فطری ذوق تھا۔ مختلف اصنافِ سخن حمد، نعت، منقبت، غزل اور قطعات و رباعیات پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ راقم الحروف کی نظروں سے ماہنامہ پاسبان، الہٰ آباد ( جو آپ کی شان دار ادارت میں پورے آب و تاب کے ساتھ شائع ہوا کرتا تھا ) کے دو درجن سے زائد قدیم شمارے ( فائلیں ) گذرے ہیں۔ اس کے مختلف شماروں میں دیکھا گیا کہ ہر صفحہ کی پیشانی پر ایک معنیٰ خیز شعر لکھا ہوا ہے اور یہ سلسلہ آخری صفحات تک برقرار ہے۔ یہ کام غایت درجہ شعری ذوق رکھنے والا مدیر ہی کر سکتا ہے۔ آپ کی میگزین میں اس دور کے مشہور شعرا مثلاً : جگرؔ مرادآبادی، شکیلؔ بدایونی، معین احسنؔ جذبی، رازؔ الہٰ آبادی اور بیکلؔ اتساہی وغیرہ کے کلام شائع ہوا کرتے تھے۔ امام المنطق و الفلسفہ حضرت علامہ محمد سلیمان اشرفی بھاگل پوری کا بھی ایک منقبتی کلام ” پاسبان ” میں شائع ہوا ہے۔ آپ نے شاعری کب شروع کی، اس فن میں آپ کے استاذ کون ہیں اور آپ کا کوئی مجموعۂ کلام شائع بھی ہوا یا نہیں ? ان باتوں کی تفصیل معلوم نہ ہو سکی۔ لیکن ماہنامہ ” پاسبان ” میں بکھرے آپ کے شعری جواہر پارے آپ کی بلند پایہ شاعری کا واضح ثبوت ہیں۔ ڈاکٹر حسن رضا خان ( ڈائریکٹر ادارہ تحقیقاتِ عربی و فارسی، پٹنہ ) علامہ نظاؔمی کی شاعرانہ حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں  :

حضرت نظاؔمی صاحب کے کلام ( شاعری ) کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس عہد کے اچھے شعرا میں سے ایک کا نام علامہ نظاؔمی ہے۔ علامہ نظاؔمی کے کلام میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ جذبے کی فراوانی اور ان کا والہانہ پن ہے ……….. علامہ نظاؔمی جس موضوع کو چھوتے ہیں اور جو بات کہتے ہیں، متاثر کیے بغیر نہیں رہتے۔ ان کا کلام ” از دل خیزد بر دل ریزد ” کا مصداق ہے ……… علامہ نظاؔمی کا دل نواز کلام دل سے ٹکرا کر جگر میں اترتا ہے …….. شاعری کے ذیلی عنوان کی تمہید میں جتنے مفکرین کی رائے پیش کی گئی ہے، اس کا ما حصل یہ نکلتا ہے اچھے اشعار کا معیار یہ ہے کہ سہل، رواں، فصیح، با معنیٰ اور بلیغ ہوں۔ حضرت نظاؔمی صاحب کا کلام اس معیار کا آئینہ دار ہے۔

( پاسبانِ ملت : حیات و خدمات، ص : ۴۳، ۴۴، ۴۵، ۴۶، ناشر : ادارہ فروغِ اسلام، سلطان گنج، پٹنہ )

حضرت علامہ نظاؔمی کی شاعری میں جذبات کی فراوانی، احساسات کی پاکیزگی، افکار و خیالات کی بلندی، زورِ بیان، والہانہ اسلوب اور مواد و ہیئت کی عمدگی پائی جاتی ہے۔ علوئے فکر و فن اور ندرتِ اظہار ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ ان کی غزلوں میں ” تغزل ” کا رنگ بھی پایا جاتا ہے۔ وہ وارداتِ قلبی کا اظہار بڑے اچھوتے انداز میں کرتے ہیں اور قارئین کو سحر آگیں کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں اور شاعر کی مہارتِ فن کا اندازہ لگائیں  :

ازل میں میں نے پایا تھا اشارہ چشمِ یزداں سے

جھکا دو سر تو پھر اٹھنے نہ پائے سنگِ جاناں سے

۔

” گلِ رعنا ” سے کہہ دو مسکرائے اب نہ گلشن میں

مجھے تسکین ہوتی ہے بس اس کے روئے خنداں سے

۔

 یہی اک دن زمانے کی قیادت کرنے والے ہیں

جو دیوانے ابھی الجھے ہیں اپنے جیب و داماں سے

۔

طوافِ کعبہ بھی کرنا ہے مجھ کو اے حرم والو

اگر فرصت ملی مجھ کو طوافِ کوئے جاناں سے

۔

اسی دن سے مرے طرزِ سخن میں جان آئی ہے

کبھی اک گھونٹ میں نے پی لیا تھا جامِ عرفاں سے

۔

غمِ جاناں تو آ بھی جا کہ تیرا ہی سہارا ہے

مرا دل ڈوبا جاتا ہے خیالِ شامِ ہجراں سے

۔

کبھی اپنے بھی دن ہوتے نظاؔمی ان کی محفل میں

 مجھے  زنجیر  پہناتے  وہ  اپنی زلفِ  پیچاں  سے

 زلفِ پیچاں کو زنجیر فرض کرتے ہوئے ” زلفِ پیچاں کی زنجیر پہنانا ” تعبیر کی عمدگی کی بہترین مثال ہے، جو علامہ نظاؔمی جیسے صاحبِ طرز ادیب اور قادر الکلام شاعر ہی تخلیق کر سکتا ہے۔ اسی طرح مندرجہ ذیل غزلیہ اشعار بھی علامہ نظاؔمی کے نظامِ شعر و سخن کی قابلِ قدر پرتیں ہیں، جن میں سادگی ہے، صفائی ہے، زبان و بیان میں کشش ہے، برجستگی ہے اور سب سے بڑھ کر اظہار کا والہانہ قرینہ ہے  :

زلفوں کو اپنی آپ پریشاں نہ کیجیے

 صحنِ چمن میں خونِ بَہاراں نہ کیجیے

ناکامیوں کے ہاتھ جو دنیا سے چل بسا

مرقد پہ اس کے جشنِ چراغاں نہ کیجیے

کہنے کو دل مرا ہے، مگر آپ ہی کاہے

اپنے چمن کو آپ ہیاباں نہ کیجیے

 دامن نہ چھوٹ جائے کہیں صبر و ضبط کا

 اتنا کسی کو آپ پر یشاں نہ کیجیے

 اپنی جفا کو چھیڑ کے میری وفا کے ساتھ

 اپنے کو آپ خود ہی پشیماں نہ کیجیے

 توہینِ عشق ہے یہ نظاؔمی سمجھ لیں آپ

  دامن کو تار، چاکِ گریباں نہ کیجیے

غزل، رمز و کنایہ اور ایمائیت کا فن ہے۔ اس میں جذبات و احساسات رمزیہ اسلوب میں بیان کیے جاتے ہیں۔ پہلے غزل حسن و عشق کی ترجمان تھی، لیکن اب اس میں کافی تنوع اور وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ یہ انفس و آفاق میں پھیلے بیشمار واقعات و حقائق کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ علامہ نظاؔمی کی غزلوں میں یہ دونوں اوصاف موجود ہیں۔ وہ رمز و کنایہ کے پردے میں مچلتے جذبات کا اظہار بڑے انوکھے پیرائے میں کرتے ہیں اور باتوں ہی باتوں بہت سارے حقائق و مسلمات بیان کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ” وسیلہ ” ایک عالم گیر حقیقت ہے۔ دنیا کا کوئی کام وسیلہ اور ذریعہ کے بغیر انجام نہیں پاتا۔ اسی طرح مذہبی تناظر میں بھی ” وسیلہ ” کو بڑی اہمیت حاصل ہے، لیکن افسوس ہے اس طبقے کی نا رسائی پر جس کی کھوپڑی میں اب تک یہ عالم گیر سچائی اپنی حقیقت نہیں منوا سکی ہے اور وہ اب تک اس کے خلاف نبرد آزما ہے۔ ” الاقرب کالعقرب ” یعنی اپنے بیگانوں کی طرح ہوتے ہیں اور بچھو کی مانند ڈنک مارتے ہیں۔ بالعموم شریکِ غم اور ہمدرد و غم خوار ہی آشیانہ پھونکنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ” گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ” بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انسانی عقل آج ہواؤں اور خلاؤں میں کمندیں ڈال رہی ہے اور کائنات کے سربستہ رازوں کو بے نقاب کر رہی ہے۔ راقم الحروف نے چند سال پیشتر اس حوالے سے کہا تھا  :

خلاؤں کو پامال کر کے بھی انساں

 ابھی  اور  کچھ  ارتقا  چاہتا  ہے

 شاعر ( علامہ نظاؔمی ) قلبی واردات، دلی کیفیات، گہرے احساسات و جذبات اور مذکورہ بالا حقائق کو اس طرح بیان کرتا ہے  :

ترے حسنِ ازل کے سب پجاری

کوئی  شیخِ حرم  ہو  یا بر ہمن

نہ پوچھو رفعتِ انساں کا عالم

وہاں پہنچا جہاں چلمن پہ چلمن

 تمھیں دیکھا ہے یا سوچا ہے جب بھی

 نہ جانے کیوں اٹھی ہے دل میں دھڑکن

بس اتنا جانتا ہوں تم  نے لوٹا

تمہارا  بانکپن  ہو   یا  لڑکپن

 جو کل تک تھے شریکِ غم ہمارے

 انھیں ہاتھوں نے پھونکا ہے نشیمن

 وہ دل جس میں جلی تھی شمعِ الفت

وہی  اب  آزروؤں  کا  ہے  مدفن

 وسیلہ بھی بڑی شے ہے خدایا

 میں پہنچا تو مگر دامن بدامن

   بڑا نا دان ہے تو بھی نظاؔمی !

اسی کو دل دیا جو دل کا دشمن

کامیاب اور مکمل شاعری کے سلسلے میں نیازؔ فتح پوری ” گیتان جلی ” کے مقدمے میں لکھتے ہیں  :

دو چیزیں شاعری کی جان ہیں۔ تخیل کی رنگینی مگر عمق کے ساتھ۔ زبان کا ترنم مگر سادگی کے ساتھ اور جس شخص کی شاعری میں یہ دونوں باتیں توازن کے ساتھ پائی جاتی ہیں، اس کو ہم ” مکمل شاعر ” کہتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تخیل میں جدّت و رنگینی ہوتی ہے، لیکن علو ( بلندی ) نہیں ہوتا یا علو ہوتا ہے، مگر رنگینی نہیں پائی جاتی۔ زبان میں ترنم ہوتا ہے، مگر سادگی نہیں یا سادگی ہوتی ہے تو ترنم نہیں۔ لیکن ایسے لوگ جن کی شاعری ان سب صفات کی جامع ہو، بہت کم ہوتے ہیں۔

( مقدمہ ‘ گیتان جلی ‘، ص : ۹، مطبوعہ : درویش پریس، دہلی )

علامہ نظاؔمی کی شاعری میں گہرائی کے ساتھ تخیل کی رنگینی بھی ہے اور سادگی کے ساتھ زبان کا ترنم بھی ہے۔ علاوہ ازیں ان دونوں کے مابین اعتدال و توازن بھی ہے۔ مذکورہ دونوں وصف سے متصف ذیل کے اشعار ہمارے دعویٰ کو دلیل فراہم کرتے ہیں  :

نہ جانے کتنی رعنائی کو تم میں جلوہ گر دیکھا

کبھی لعل و گُہر دیکھا، کبھی شام و سحر دیکھا

کبھی بجلی سی کوندی تھی بس اتنا یاد آتا ہے

 نہ جانے ان کو دیکھا یا کوئی برق و شرر دیکھا

میں قرباں حسنِ جاناں تیری اس جلوہ نمائی کے

تجھے جب جب جہاں دیکھا باندازِ دیگر دیکھا

لبِ لعلیں، دُرِ دنداں، رخِ زیبا، قدِ رعنا

زمیں پر اک فرشتے کو بہ اندازِ بشر دیکھا

تمہیں دل میں مکیں پا کر نظاؔمی کا یہ عالم ہے

نہ کوئی رہ گذر دیکھا، نہ کوئی بام و در دیکھا

بھڑک جاتی ہے جب یہ آگ تو بجھنے نہیں پاتی

چراغِ عشق جب جلتا ہے تو مدھم نہیں ہوتا

نشیمن خاک ہو جائے، متاعِ زیست لٹ جائے

مگر اہلِ وفا کی بزم میں ماتم نہیں ہوتا

 خلوصِ دوستی اس میں کہاں دھوکا ہی دھوکا ہے

 جو اپنا ہو کے بھی اپنا شریکِ غم نہیں ہوتا

یہ دل خود جلوہ گاہِ یار ہے پھر اس کا کیا کہنا

یہاں کی صبح پر اب شام کا عالَم نہیں ہوتا

محبت کی یہ دنیا بھی عجب پُر کیف دنیا ہے

متاعِ دو جہاں کھو کر بھی کوئی غم نہیں ہوتا

( ماہنامہ پاسبان، الہٰ آباد، جنوری و فروری ۱۹۶۵ ء، ص : ۱۰ )

غرض کہ علامہ نظاؔمی کی شاعری ایک پُر کشش شاعری ہے، جس کے الفاظ و کلمات، معانی و خیالات، اسالیبِ بیان سبھی پُر کشش ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق، کیفیاتِ عشق، حسن و جمال، جذبِ پیہم، گریۂ شبنم، درد، کسک، اضطراب جیسے لوازماتِ عشق جو غزلیہ شاعری کے طرہ ہائے امتیاز ہیں، در اصل ان کیفیات کا والہانہ اظہار ہے جس کا ادراک سلوک و معرفت کے آشنائے راز ہی کر سکتے ہیں۔ شاہ عبد العلیم آسیؔ غازی پوری کی شاعری اس کی واضح مثال ہے۔ علامہ نظاؔمی کے یہ اشعار ان کی جودتِ طبع، شعری مہارت اور طمطراقِ فن کو اجاگر کرتے ہیں  :

کیا ابھی پُر درد میری داستانِ غم نہیں

سننے والے سن رہے ہیں اور آنکھیں نم نہیں

چاہیے ایسی خلش جو دل کو تڑپاتی رہے

وہ بھی کوئی زندگی ہے جس میں کوئی غم نہیں

بارگاہِ حسنِ پہ جھکتی ہے دل کی کائنات

کون ایسا سر پھرا ہے جو یہاں پہ خم نہیں

ایک پروانے کے جلنے پہ نہیں ہے منحصر

حسن کی کس انجمن میں عشق کا ماتم نہیں

فرق  بس  اتنا  ہے  میرے  اور  ان  کے  درمیاں

مجھ کو ان کا غم ہے، لیکن ان کو میرا غم نہیں

اشک بن کر ڈھل رہا ہے خونِ دل  خونِ جگر

یہ متاعِ عشق ہے، پانی نہیں،  شبنم نہیں

کوئی دیکھے تو سہی کیسا ہے محکم رابطہ

غم برائے دل نہیں یا دل براۓ غم نہیں

اے نظاؔمی چھوڑ دے افسانۂ شعر وسخن

 یہ تری منزل نہیں اور یہ ترا عالم نہیں

( ماہنامہ پاسبان، الہٰ آباد، جنوری، فروری ۱۹۶۶ ء، ص : ۳۰ )

خیال کی پاکیزگی کے ساتھ، بیان کی وارفتگی، حسنِ تشبیہ، لطفِ استعارہ، فصاحت و بلاغت، معنویت، شعریت، سلاست و نفاست، زبان و بیان پر قدرت، عصری حسّیت، سادگی و روانی اور صفائی و برجستگی سے مملو یہ اشعار بھی ملاحظہ کریں  :

کون کھینچے جا رہا ہے سوئے میخانہ مجھے

لے نہ ڈوبے اب کہیں یہ ذوقِ رندانہ مجھے

غیرتِ ایماں کہاں سوئی ہے اٹھ کر دیکھ لے

لے چلی ان کی محبت سوئے بت خانہ مجھے

میرے سجدے تیرے سنگِ در کے گر قابل نہیں

بخش دے اپنے کرم سے ذوقِ رندانہ مجھے

ان کے غم میں مر کے جینا، جی کے مرنا دیکھ کر

 اہلِ عالم کہہ رہے ہیں رشکِ پروانہ مجھے

چشمِ میگوں سے پلا دی آج ساقی نے میرے

اب نہ ہرگز چاہیے یہ جام و پیمانہ مجھے

کچھ نہ بولوں گا زباں سے ان کی بزمِ خاص میں

آنسوؤں کے ساز پہ کہنا ہے افسانہ مجھے

 بڑا انمول موتی ہے یہ آنسو

 بیانِ درد ہے، شبنم نہیں ہے

نہ جانے کس کے غم میں جل رہا ہوں

 چراغِ  صبح  کی  لو  کم  نہیں  ہے

 یہ انسانوں کی بستی میں اندھیرا

 کوئی  اسرار  کا  محرم  نہیں  ہے

 ہے  تسلیم  و  رضا  آئینِ  الفت

یہ صلح و جنگ کا سنگم نہیں ہے

 نظاؔمی یوں تو ہیں لاکھوں سہارے

 کوئی  اب چارہ  سازِ  غم  نہیں  ہے

غرض کہ ایک قادر الکلام سخنور، سحر طراز اور باکمال شاعر کے طور پر علامہ نظاؔمی کی حیثیت مسلم ہے۔ ان کے کلامِ بلاغت نظام میں وہ سارے ادبی و فنی اوصاف موجود ہیں، جو کسے بڑے اور کامیاب شاعر کی شاعری کا لازمہ تصور کیے جاتے ہیں۔ آپ کے ادبی اور شعری سرمایے کو محفوظ کرنے اور منظرِ عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ راقم کا مقصد شاعر کی حیثیت سے علامہ نظاؔمی کا تعارف ہے اور اس حوالے سے جو کچھ بیان ہوا،  ان کے شاعرانہ تعارف کے لیے کافی ہے۔ اس لیے مندرجہ ذیل اقتباس پیش کر کے اپنا مضمون ختم کرتا ہوں۔ پیکرِ علم و حکمت، نازشِ شعر و سخن حضرت علامہ مفتی محمد اطہر حسنؔ ضیائی بھاگل پوری دام ظلہ العالی ( جو علامہ نظاؔمی کی با فیض درس گاہ سے کچھ اسباق پڑھنے کا شرف رکھتے ہیں ) نظاؔمی صاحب کی تہہ دار فکر و شخصیت اور ان کی بلند و بالا علمی و ادبی و شعری حیثیت کے حوالے سے رقم طراز ہیں  :

پاسبانِ ملت حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ اہل سنت وجماعت کے ایک عظیم قائد اور مسلکِ  اعلیٰ حضرت کے بے باک ترجمان تھے۔ آپ کی ذات علوم عقلیہ و نقلیہ کی حسین آماج گاہ تھی۔ آپ کا علمی قد اتنا بلند تھا کہ بڑے بڑوں کو بھی آپ کی قابلیت کا اعتراف تھا۔ آپ اہلِ زبان بھی تھے اور صاحبِ قلم بھی۔ سرکار مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی توجہ اور حضور مجاہدِ ملت علیہ الرحمۃ کی تربیت نے علامہ نظاؔمی علیہ الرحمہ کو وہ عروج عطا کیا کہ ثریا کی رفعتیں بھی ان کو جھک جھک کر سلام پیش کرتی ہیں۔ جہاں آپ ایک عظیم مناظر، باکمال مدرس، مفکر، مدبر، خطیب، متکلم، انشا پرداز اور صحافی و ادیب تھے۔ وہیں ایک قابلِ رشک شاعر بھی تھے۔ آپ کی ذات کے ساتھ ساتھ  آپکی شاعری بھی بہت حسین اور پرکشش تھی۔ جو کہا، خوب کہا۔ جو لکھا، خوب لکھا۔ شاعروں نے اپنی شاعری میں عشق، اشک، متاع، شبنم، دردِ دل اور دردِ جگر وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا ہے، مگر علامہ نظاؔمی نے بڑی خوب صورتی کے ساتھ ان تمام لفظوں کو ایک ہی شعر میں جمع فرما کر اپنے عشق کو ایسے انوکھے رنگ میں پیش کیا ہے کہ جسے پڑھ بزمِ شعر و سخن پکار اٹھتی کہ آپ یقینا ایک منفرد المثال شاعر تھے۔ مثال کے طور پر حضرت علامہ نظامی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :

اشک بن کر ڈھل رہا ہے خونِ دل خونِ جگر

یہ متاعِ عشق ہے، پانی نہیں، شبنم نہیں

اسے پڑھیے، ایک بار نہیں بار بار پڑھیے اور اپنے دل سے فیصلہ لیجیے کہ اسے شاعری کا نام دیا جائے یا معراجِ شاعری سے تعبیر کیا جائے۔ یقینا علامہ نظامی علیہ الرحمہ نے جس راہ میں قدم رکھا، اس راہ کے وہ شہسوار کہلائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کی تہہ دار شخصیت کے ہر پہلو کو اجاگر کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔