اب جمعیۃ علماء کو کھل کر سیاست میں آنا چاہیے
حفیظ نعمانی
آج سے 71 برس پہلے ہونے والی لکھنؤ میں مولانا آزادؒ کانفرنس کو دیکھنے والے اور یاد رکھنے والے گنے چنے لوگ ہوں گے۔ یہ کانفرنس امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے اس وقت بلائی تھی جب ہندوستان کے مسلمانوں نے جذبات میں ڈوب کر پاکستان بنا لیا اور ملک کی تقسیم کے بعد جب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے پائوں میں کلہاڑی مارلی ہے اور اپنی زمین کو اپنے لئے خود تنگ کرلیا ہے۔ یہ وہ کروڑوں مسلمان تھے جنہوں نے پاکستان تو بنوا دیا لیکن وہ خود اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ پاکستان جاسکیں۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ ان مسلمانوں کی اکثریت وہ تھی جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ملک کی تقسیم کے بعد ہمارے لئے وہ برطانیہ یا روس جیسا ہوجائے گا وہ شاید یہ سمجھے تھے کہ جتنے دن چاہیں گے ہندوستان میں رہیں گے اور جب دل چاہے گا پاکستان چلے جایا کریں گے۔ یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ تقسیم کے وقت ہم بریلی میں تھے اور ہمارے ہم عمر ساتھی جو ہائی اسکول کررہے تھے یا کرچکے تھے وہ بھی ہم سے رخصت ہوتے وقت یہ کہہ کر گئے تھے کہ پریشانی نہ ہو ہم ہر سال ایک مہینے کے لئے چھٹیوں میں آیا کریں گے۔
کم علم اور جذباتی مسلمانوں کو یہ خوش فہمی اس لئے بھی تھی کہ کانگریس کے جلسوں میں ڈائس پر پچاس فیصدی علماء ہوتے تھے اور کوئی ہندو مسلم لیگ یا پاکستان یا مسٹر جناح اور لیگی لیڈروں کے بارے میں کوئی سخت لفظ نہیں بولتا تھا جبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جمعیۃ علمائے ہند کے عالموں کو برلا کے ٹٹو اور ٹاٹا کے پٹھو تکیۂ کلام کی طرح کہا جاتا تھا۔ تقسیم کے لئے جو الیکشن ہوئے اور جس میں مسلمان کا مقابلہ مسلمان سے اور ہندو کا مقابلہ ہندو سے تھا اور اس میں مسلم لیگ کو 90 فیصدی ووٹ ملے تب کانگریسی ہندوئوں کی آنکھیں کھلیں اور ان کے تیور بدلے۔ اور ان تیوروں اور زہریلے بیانات کا نتیجہ تھا کہ جو کروڑوں مسلمان ہندوستان میں رہ گئے انہیں محسوس ہوا کہ ان کے اوپر سے چھت اُڑگئی اور جمعیۃ علماء کے ان ہی عالموں کے سامنے ہاتھ جوڑکر کھڑے ہوگئے اور معلوم کیا کہ اب ہم کیا کریں؟ یہ شور اتنا بلند ہوا کہ ملت اسلامیہ کے سب سے بڑے لیڈر اور امام الہند مولانا آزاد نے لکھنؤ میں مسلم کانفرنس بلائی اور انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی کوئی الگ سیاسی پارٹی اب نہ بنائیں اور جمعیۃ علمائے ہند کو مشورہ دیا کہ سیاست چھوڑکر مسلمانوں میں تعلیمی کام کریں۔
مسلمانوں نے تو پارٹی نہیں بنائی لیکن مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی جو مولانا آزاد کے بعد دوسرے بڑے عالم، مدبر اور سیاسی لیڈر تھے انہوں نے اپنے ہندو ساتھیوں کے انداز میں زمین آسمان کا فرق دیکھ کر ڈاکٹر سید محمود صاحب کے ساتھ آل انڈیا مسلم کنونشن بلانے کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں وزیراعظم پنڈت نہرو نے کانگریس کے صدر دھیر بھائی سے کہا کہ وہ مولانا کو روکیں۔ لیکن مولانا نے انکار کردیا۔
آج حالات اس وقت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ خراب ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ مولانا آزادؒ آج ہوتے یا مولانا حفظ الرحمان حیات ہوتے تو شاید سارے کام چھوڑکر مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت بناتے اور اس خلا کو پرُ کرتے کہ 18 کروڑ مسلمان ہیں اور کوئی قائد نہیں ہے۔ جمعیۃ علماء کے صدر اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کے جانشین مسلمانوں کے ہر مسئلہ میں پیش پیش ہیں حکومت نے مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کیلئے جو اپنی پولیس کو چھوٹ دے دی ہے کہ جس مسلمان نوجوان کو ابھرتا ہوا دیکھو اسے دہشت گرد کہہ کر جیل میں ڈال دو اور وہ دفعات لگائو کہ ضمانت بھی نہ ہوسکے اور عدالتوں کو اشارہ کردیا ہے کہ سپاہی جو الزام لگائے وہی دفعات لگاکر جیل پہونچا دو۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کروڑوں روپئے خرچ کرکے ان درجنوں بدنصیبوں کو باعزت رِہا کرایا ہے جو برسہابرس سے بے یار و مددگار جیل میں پڑے تھے اور ان کی وجہ سے گھر برباد ہورہا تھا۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد میاں نے فرمایا کہ ملک بلاشبہ سب سے نازک دَور سے گذر رہا ہے۔ جن قدروں اور اصولوں پر ہندوستان کی بنیاد رکھی گئی تھی اسے دانستہ کھوکھلا کردیا گیا ہے۔ چنانچہ آئین اور قانون کی بالادستی کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی زبردست خطرہ ہے۔ ایسے حالات میں ہم پر دوہری ذمہ داری آن پڑی ہے ایک طرف جہاں ہمیں ملک میں اتحاد امن یکجہتی کو فروغ دینا ہے وہیں انصاف پسند لوگوں کو ساتھ لے کر ہمیں ان طاقتوں سے لوہا لینا ہے جو ملک کو ایک نظریاتی مملکت میں تبدیل کردینا چاہتی ہیں۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو ہندو راشٹر کی راہ پر لگاکر اسے ایک ترقی یافتہ ملک بنا دیں گے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں یہ ملک امن اتحاد اور یکجہتی کی راہ پر چل کر ہی ترقی کا سفر طے کرسکتا ہے اس ترقی میں ملک کے ہر شہری کا تعاون شرط ہے۔ مولانا نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات خاص طور پر مسلم اقلیت اور دلتوں کے لئے تقسیم کے وقت سے بھی بدتر اور خطرناک ہوچکے ہیں۔ ایک طرف جہاں قوانین کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے وہیں عدل و انصاف کی روشن روایات کو بھی ختم کرنے کی روش اختیار کی جارہی ہے۔ مولانا مدنی نے اپیل کی کہ وہ سیاسی بیداری اور شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ریاست اور ملک کی ترقی امن امان، ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کی مضبوطی کے لئے زندگی کو لگادیں۔
مولانا سید ارشد میاں خود سوچیں کہ اگر مولانا آزاد یا مولانا حفظ الرحمان آج کے زمانہ میں ہوتے تو کیا صرف مسلمانوں کے سامنے صورت حال رکھنے کے بعد صرف یہ مشورہ دے کر گھر بیٹھ جاتے کہ حالات کو بدلنے کیلئے زندگی کو لگادیں ہم نہیں جانتے کہ مولانا کی عمر اب کیا ہے؟ انہوں نے اپنے والد ماجد شیخ الاسلام کا وہ دَور دیکھا ہے یا نہیں جب نہ جانے کہاں کہاں کا دورہ کرکے اور کتنی تقریریں کرکے وہ دیوبند واپس آتے تو تانگہ سامان کے ساتھ گھر جاتا تھا اور خود دربان سے کہہ کر کہ گھنٹہ بجائو سیدھے دارالحدیث کی سیڑھیاں چڑھ کر اپنی مسند پر تشریف لے جاتے تھے اور دورئہ حدیث کے لڑکے وضو کرکے ہر طرف سے حاضر ہوجاتے تھے اور سبق شروع ہوجاتا تھا۔ صبح فجر کی اذان تک پڑھاکر پھر کہیں روانہ ہوجاتے تھے۔ یہ ان کی عمر کا بھی آخری زمانہ تھا لیکن انہوں نے ملک کو آزاد کرانے کا عہد کیا تھا اس کے لئے دن تھا نہ رات۔ اپنی صحت کا خیال کرتے ہوئے مولانا ارشد میاں اتنا بوجھ تو نہ اٹھائیں لیکن اتنا کردیں کہ مسلمانوں کو قیادت مہیا کرادیں ہر طرف کے ذمہ داروں کو جمع کریں اور ایک پرسنل لاء بورڈ جیسا سیاسی ملّی بڑے سائز کا بورڈ بنا دیں اور ہر رنگ کے پھولوں کا ایسا گلدستہ بنادیں جس میں ہر مخلص کو اس کا جائز مقام مل جائے اور سب اسے اپنا گھر سمجھیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔