اسلام میں معاشرتی حقوق

مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانی

اسلام ہماری زندگی کو صرف نماز، روزہ ، حج ،زکوٰۃ،جہاد،اور دعوت و تبلیغ جیسے دینی شعبوں تک ہی محدود نہیں رکھتا؛ بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے؛ جن کی مبارک زندگی ساری انسانیت کے لئے نمونہ اور اسوہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا روشن اور مثالی پہلویہی ہے کہ انہوں نے صرف نماز و روزہ کی تلقین نہیں کی بلکہ حقوق انسانی کے متعلق سب سے بڑھ کرپیغام دیا، کام کیا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی تلقین فرمائی۔
اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے؛ اس میں خدمت خلق ، حقوق انسانیت ،رہن سہن اور معاشرت بھی ایک لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.
نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے [حقیقی ضرورت مندوں]، اور غلاموں کی آزادی پر میں خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔(البقرۃ 2:177)
معاشرتی حقوق کی پاسداری کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا حیثیت دیتے تھے اس کا اندازہ ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے جو بخاری شریف میں مذکور ہے۔ آنحضرتؐ ایک محفل میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر بچہ (حضرت عبد اللہ بن عباسؓ) اور بائیں جانب بڑی عمر کے جوان (حضرت خالد بن ولیدؓ) بیٹھے تھے۔ حضورؐ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا جو آپ نے نوش فرمایا۔ جبکہ برتن میں کچھ مشروب بچ گیا جو آپ نے بائیں جانب والے ساتھی کو دینا چاہا۔ مگر چونکہ حق دائیں جانب والے کا تھا اس لیے اس سے پوچھا کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ بچا ہوا مشروب دوسری طرف والے ساتھی کو دے دوں؟ اس پر نو عمر لڑکے نے کہا کہ
’’میں آپؐ کے تبرک میں اپنے حق پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔‘‘
اس واقعہ کے راوی حضرت سہل بن ساعدؓ کہتے ہیں کہ یہ جواب سن کر آنحضرتؐ نے وہ پیالہ اس بچے کے ہاتھ میں اس طرح تھمایا کہ اس میں ناگواری کے اثرات محسوس ہو رہے تھے۔
اس سے اندازہ کر لیجیے کہ جناب نبی اکرمؐ کی نظر میں باہمی حقوق کی کیا اہمیت تھی کہ خود حضورؐ وہ پیالہ دوسری طرف دینا چاہتے تھے لیکن حق والا اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوا جس پر آپؐ کو ناگواری ہوئی مگر اس کے باوجود پیالہ اسی کے ہاتھ میں دیا جس کا حق تھا۔ ایسا کر کے جناب رسول اللہؐ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ باہمی حقوق کی ادائیگی کا کس درجہ اہتمام ضروری ہے۔حالی مرحوم نےکیا خوب کہا ہے
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہُداٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا خلائق سے ہی جس کو رشتہ ولا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

آج ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہیں اور دنیا کو بھی ان سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہمیں صحیح طور پر محسوس نہیں ہو رہی۔ ورنہ حقوق کا جو جامع اور متوازن تصور دین اسلام نے دیا ہے دنیا کے کسی نظام میں اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
آئیے اختصار کے ساتھ دین اسلام کے معاشرتی حقوق پر طائرانہ ہی سہی ایک نظر ڈالی جائے !!
مخلوق کا حق: حضور ﷺ نےارشاد فرمایا: بنی اسرئیل میں ایک بدکار عورت ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے سے جنت میں چلی گئی(ترمذی)۔ مزید فرمایاِ: بنی اسرائیل میں ایک پارسا عورت ایک بلی محبوس کرکے بھوک پیاس سے ماردینے کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی۔(ترمذی)
انسان کا حق: حضور ﷺ نےا رشاد فرمایا:کامل مؤمن وہ ہے جس سے لوگ مامون و محفوظ ہوں ۔(بخاری)۔بہترین انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچے۔(جامع الاحادیث، کنز العمال)۔
مسلمان کا حق: حضور ﷺ نےارشاد فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے پر چھ حقوق ہیں: (1) ملاقات ہونے پر سلام کرنا (2)چھینک آنے پر رحمت کی دعا دینا(3) بیماری میں عیادت کرنا (4) مرنے پر جنازے میں شرکت کرنا (6) جو اپنے کوپسند ہو، وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرنا۔(ترمذی)۔
مصبیت زدہ ، مشکلات کا شکار اور مجبور کا حق: حضور ﷺ نےارشاد فرمایا:جودنیامیں کسی مصیبت زدہ سے کسی دنیاوی تکلیف اور مصبیت کودور (کرنے میں مدد) کردے تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن اُخروی مصبیت کو ہٹادیں گے۔ جودنیا میں مشکلات میں گھرا ہو کسی شخص کے لیے آسانی پید ا کرنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسانیاں پیدا فرمادیں گے۔اللہ تعالیٰ اس بندے کی مسلسل مدد فرماتے ہیں جو کسی اور کی مدد کرتا ہے۔(ترمذی)۔
ماتحتوں کا حق: حضور ﷺ نےارشاد فرمایا:جس کسی کا کوئی غلام ہو تو اس غلام کو وہی لباس پہنائے جو خود پہنتا ہے وہی کھانا کھلائے جو خود کھاتا ہے ۔ان کے ذمہ اتنا کام نہ لگادے جو اس پرغالب آئے اگر ایسا لگادیا تو پھر اس کا ہاتھ بٹائے۔(بخاری و مسلم)۔مزید فرمایا: جب تم میں سے کسی کاخادم اس کو آگ کی گرمی اور دھواں سے بچا کر اس کے لئے تیار کرلے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلاؤ! ورنہ کم از کم ایک لقمہ اس کے منہ میں ڈال دو۔(ترمذی)۔
پڑوس کا حق: حضور ﷺ نےارشاد فرمایا:میرے اوپر اس شخص کا کوئی ایمان ہی نہیں جو خود سیر ہو کر رات گزارے ساتھ میں پڑوسی اس کا بھوکا رہ جائےاور اس کو علم ہو (معجم طبرانی) مزید فرمایا: اللہ کی قسم : وہ مؤمن نہیں وہ مؤمن نہیں وہ مؤمن نہیں لوگوں نے پوچھاکون مؤمن نہیں؟ ارشاد فرمایا: جس سے پڑوسی مامون و محفوظ نہیں۔ (بخاری و مسلم)
شوہر کا حق: حضور ﷺ نےارشاد فرمایا:اگر میں کسی کو غیر اللہ کےسامنےسجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو شوہر کے آگے سجدہ کرنے کا کہتا لیکن سجدہ اللہ ہی کے لیے ہے۔ عورت اللہ تعالیٰ کاحق اس وقت تک پورا پوراادا نہیں کر سکتی جب تک شوہر کاحق پورا پورا ادا نہیں کرتی۔ (مسند احمد)۔
رفیقہ ٔحیات کا حق: حضور ﷺ نےارشاد فرمایا:تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہترین ہو۔ (سنن ترمذی ،صحیح ابن حبان)
والدین کا حق: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: نمازوں کو اپنی مقررہ اوقات پر پڑھنا ۔میں نے کہا اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک۔ (ترمذی) حضور ﷺ نےارشاد فرمایا: جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کی عزت اور علماء کے ساتھ وفا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (مسند بزار) ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت ، بچوں پر شفقت اور علماء کی تعظیم نہیں کرتا (جامع الاحادیث، کنز العمال)۔
شاگردوں کا استاذ پر حق: شاگردوں پر استاذ کے حق کو ہر ایک جانتا ہے کہ شاگرد پر استاذ کی اطاعت، ادب اور خدمت لازم ہے اور شاگرد کے حق کے بارے میں ابو ہارون عبدی حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مشرق کی طرف سے لوگ تمہارے پاس علم سیکھنے کے لئے آئیں گے تو ان کے بارے میں تم مجھ سے خیر کی وصیت لے لو۔ یعنی تمھیں بھلائی اور خیر خواہی کی وصیت کرتا ہوں۔ ابوہارون کہتے ہیں چنانچہ جب ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ ہمیں دیکھتے تو فرماتے: حضورﷺ کی وصیت کو خوش آمدید۔ گویا ایک تو آپﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوگی دوسرا وہ بار بار احساس دلاتے کہ آپ ﷺ کی وصیت پر عمل پیراہوں۔(ترمذی)۔
عوام کا حکمرانوں پر حق: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے آنے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں: (1)اللہ تعالیٰ سے ڈرے! (2) مسلمانوں کے بڑوں کا احترام کرے! (3) چھوٹوں پر شفقت کرے! (4) علماء کی تعظیم کرے! (5) تکلیف دیکر ذلیل نہ کرے! (6) ڈرا ڈرا کر کافر نہ کردے! (7) خصی کرکے نسل کشی نہ کرے! (8) اپنا دروازہ ان کے لیے (فریاد رسی) بند نہ کرے! یہاںتک کہ کمزوروں پر طاقتور ظلم کرنے لگ جائیں (سنن کبری للبیہقی)۔
معاشرتی حقوق کی تفصیل میں علمائے کرام نےمستقل کتابیں لکھ دی ہیں۔ علم کا ذوق اور عمل کا شوق کا رکھنے والے حضرات ان سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔
حاصل کلام:
فی زماننامشرق ومغرب کے مابین جو تہذیبی جنگ چھڑی ہوئی ہے ، اس میں اہل مشرق کے غالب اورساکنان یورپ کے مغلوب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ایک نے اسلام کی آفاقی وابدی ہدایات واحکام کو سینے سے لگا رکھا ہے۔جب کہ دوسرے نے انسانیت کا جامہ اتارکر حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیاہے۔ مغربی تہذیب رشتوں کے تقدس کو کب سے خیر باد کہہ چکی ہے۔ وہاںانسانیت تو درکنار ماں باپ ،بہن بھائی، چچا ماموں،خالہ پھوپھی کا تصورتک عنقاہے۔مغرب اپنی خاندانی قدروں اور معاشرتی اکائیوں کو پامال کرنے کے بعد ،اب یہ چاہتاہے کہ پوری دنیا میں اس کی دجالی تہذیب کا ڈنکا بجے ۔اس طاغوتی مقصد اورمشن کو پورا کرنے کے لیے قدیم وجدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا جارہاہے۔ نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ہماری نئی نسل بڑی تیزی سے اس دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے۔مگر اس حقیقت سے کوئی ہوش مندانکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے آج کے اسلامی معاشرے میں رشتوں کا ادب واحترام ،عظمت ومحبت اوروارفتگی وفریفتگی بری طرح پامال ہورہی ہے۔ اولاد ماں باپ کی نافرمان بن چکی ہے۔ بہن بھائی باہمی حسد وبغض میں مبتلاہیں۔ رشتہ دار ایک دوسرے کوکاٹ کھانے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ احکام دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم ابھی اور اسی وقت یہ عزم وارادہ کرلیں کہ شریعت مطہرہ کے ہرہر حکم پر دل وجان سے عمل کریں گے،اللہ رب العالمین کاڈر وخوف پیدا کرکے اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل پیراہوں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ذہنی اضطراب اورنفسیاتی ہیجان میں کمی واقع نہ ہو۔اور ہم طاغوتی کھائی میں گرنے سے بچ جائیں۔ ضرورت ہے صرف پختہ نیت اور حوصلے کی ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔