اسلام کے پیمانے پر بدترین پڑوسی پاکستان

حفیظ نعمانی

ساڑھے چار برس سے زیادہ ہوگئے بابو اکھلیش یادو اترپردیش جیسے جہازی صوبہ کے وزیر اعلیٰ ہیں اور وہ ہماری معلومات کی حد تک وہ اپنے بہن بھائیوں میں بھی سب سے بڑے ہیں اور جس صوبہ کے وزیر اعلیٰ ہیں وہ بھی سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کی وجہ سے انھیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ بڑا ہونا صرف انعام ہی نہیں امتحان بھی ہے۔اور انھیں اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ بڑے ملک کی ذمہ داری بھی بڑی ہوتی ہے۔
انھوں نے برسوں کے بعد پہلی بار اپنی حدوںسے نکل کر وزیر اعظم کو مخاطب کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان سے جنگ نہیں گفتگو ہونی چاہیے۔ یہ بات وہ اس وقت کہہ رہے ہیں جب پچاس برس سے گفتگو ہورہی ہے اور جنگ کے بارے میں حکومت نہیں عوام کہہ رہے ہیں بس اب گفتگو ہوچکی، اب جنگ ہی علاج ہے، اکھلیش بابو کو معلوم ہونا چاہیے کہ گفتگو کی ابتدا یہاں سے ہوتی ہے جب پاکستان مقدمہ بحیثیت ایک وکیل کے مسٹر جناح نے جب جیت لیا تو انھیں خیال آیا کہ اندازہ سے زیادہ خون خرابہ ہوگیا اور اب یہ رکے گا نہیں، اس لیے پنڈت جواہر لال نہرو سے گفتگو کرنا چاہیے اور پورے ملک کو ایک ہی بنادینا چاہیے لیکن قدرت نے انھیں موقع نہیں دیا، ورنہ شاید اس کی شکل بدل جاتی۔
مسٹر جناح نے ایک وکیل کی حیثیت سے مسلمانوں کا مقدمہ لڑا تھا، انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ پاکستان کے معنی کیا ؟لاالہ الا اللہ ۔انھوں نے لاکھوں بینر لکھوائے ، واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا ، ان باتوں سے جناح صاحب سے کوئی سروکار نہیں تھا، انھوں نے تو گورنر جنرل کی حیثیت سے جتنے دن بھی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت کی اس کی اجازت بھی نہیں دی کہ کاروائی سے پہلے تلاوت قرآن پاک کی جائے، وہ دین سے بے تعلق بس ایک سربراہ کی خدمات انجام دیتے رہے اور جب دنیا سے چلے گئے اور اجلاس کی صدارت حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے کی تو خود ہی پہلے تلاوت قرآن کی اور پھر کاروائی شروع کرائی۔
درمیان میں وزیر اعظم مسٹر محمد علی بوگرہ نے پنڈت نہرو کے سامنے تجویز پیش کی تھی کہ ہم ناجنگ معاہدہ کرلیں، جس کے جواب میں پنڈت جی نے کہا تھا کہ جتنی دیر میں پائجامہ نہیں بدل پاتا اتنی دیر میں پاکستان میں حکومت بدل جاتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس زمانہ میں ہر مہینے وزیر اعظم بدل رہے تھے، اس کے بعد ایوب خاں نے مارشل لاء حکومت قائم کردی۔
یہ واقعات دیکھے تو نہیں لیکن اکھلیش بابو نے پڑھے اور سنے ضرور ہوںگے کہ 65میں وزیر اعظم شاستری جی اور ایوب خاں کے درمیان روس میں ایک معاہدہ ہوا تھا اور اس کا حاصل یہی تھا کہ اب جنگ نہیں کریں گے۔
اکھلیش بابو نے یہ بھی کہا ہے کہ سندھ کا پانی روکنا مسئلہ کا حل نہیں ہے، اکھلیش بابو ذرا ایوب خاں کے معاہدہ کے بعد پھر مسٹر بھٹو اور مسز اندرا گاندھی کے شملہ معاہدہ کے بعد کے حالات دیکھیں تو شاید انھیں رائے بدلنا پڑے۔ میں ایک مسلمان ہوں، قدرتی طور پر میری ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں، جب پاکستان بنانے کی تحریک چل رہی تھی تو میرے 80 فیصدی دوست مسلم لیگ میں تھے اور ہم 20 فیصدی مخالف تھے اور پاکستان کے بن جانے کے بعد مخالف نہ رہتے لیکن اس کی حرکتوں نے کلیجہ میں چھید کردئے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، اسلام صرف مذہب نہیں ہے، اس کی حکومت کا بھی اپنا انداز ہے، اسلام کی اپنی تہذیب ہے جس میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں، جھوٹ وہ گندگی ہے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، پاکستان کے حکمراں پچاس بر س سے صرف جھوٹ بول رہے ہیں، وہ مسلسل سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور یہ ہر بار جھوٹ بولتے ہیں، مئی میں جو ہوا اس میں جتنے بھی مارے گئے آخر ان میں سے کوئی دشمن تھا؟ اور جو اسٹیشن پر مارے گئے ان میںپ چاس مسلمان تھے، اور پاکستان کہتا رہا کہ یہ ہمارے آرمی نہیں ہیں،اس کے بدلے ہر دوسرے تیسرے دن جموں وکشمیر کی سرحد پر، پنجاب میں ،پٹھان کوٹ میں، آخر جتنی جگہ بھی حملے ہوئے کیا ان میں سے کہیں کوئی لڑائی ہورہی تھی؟ یہ صرف ایک حکومت کو چین سے نہ رہنے دینے کے علاوہ اور کیا ہے؟ اور آج سے پہلے کیا کبھی سنا ہے کہ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیرکے کسی ٹھکانے پر سنجیدگی سے حملہ کیا ہو اور اب بھی کیا ہے تو بہت معمولی سا صرف یہ بتانے کے لیے کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
اکھلیش بابو نے صرف ڈاکٹر لوہیا اور آچاریہ کرپلانی کا نام سنا ہے، ہم نے ان کے کاندھے سے کاندھا ملا کر ان کا الیکشن لڑا ہے، اور انھیں جتایا ہے اور ان سے باتیں کرکے انھیں سمجھنے کا موقع ملا ہے، بے شک وہی نہیں اٹل جی بھی کہتے تھے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے لیکن اکھلیش بابو کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں پڑوسی کا کتنا حق ہے؟ خدا کرے یہ سطریں کوئی اکھلیش بابو کو سنا دے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے شرمندہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان پر مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے پڑوسی ملک ہندوستان اور افغانستان کا اتنا حق ہے کہ ہم سب کے آقا حضرت محمد ؐ نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں جس کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی امن میں نہیں اور اس فرمان کے بعد سارے پاکستانی حکمراں مومن نہیں یعنی کافر ہیں۔ پڑوسی کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال کہ ان کے صحابۂ کرام ؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پڑوسیوں کی اتنی فکر فرماتے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ ہماری جائیدادمیں بھی ان کا حصہ مقرر کردیںگے۔ آپؐ نے بار بار فرمایا کہ خدا کی قسم وہ مومن نہیں جس کا پڑوسی بھوکا سوئے اور مسلمان کھانا کھائے۔
آج ہندوستان کا سب سے بد ترین پڑوسی پاکستان ہے اور وہ حضور اکرم ؐ کے فرمان کے مطابق مومن نہیں کافر ہے، اس لیے اس کی شرارتوں سے ہندوستان جیسے پڑوسی کو چین نہیں اور جموں و کشمیر سرحد کے جانے کتنے مسلمان ڈر کی وجہ سے بھوکے سوتے ہیں، بے شک جنگ سے گفتگو اچھی ہے لیکن گفتگو کی ایک حد ہوتی ہے، ایوب خاں سے ہوئی، بھٹو سے ہوئی، پرویز مشرف سے ہوئی، بے نظیر سے ہوئی، نواز شریف سے ہوئی اور ایک بار نہیں بار بار ہوئی اور وزیراعظم نریندر مودی نے تو حد ہی کردی اور ایسے حالات پیدا کئے جیسے وہ نواز شریف کو جگری دوست بنا کر رہیں گے لیکن نواز شریف نے ثابت کردیا کہ وہ بدترین پڑوسی ہے اور بدترین مسلمان ہے اور لوہار ہونے کی وجہ سے لوہے کی زبان سمجھتا ہے، اب فیصلہ اکھلیش بابو کریں اور گفتگو کا شوق وہ بھی پورا کرنا چاہیں تو کرلیں، ہم پیشین گوئی کرتے ہیں کہ انھیں صرف مایوسی ہاتھ لگے گی، انھوں نے سندھ ندی کے پانی کی بات کی ہے، پانی بند کرنا بے شک آخری ہتھیار ہے لیکن پاکستان نے جو رویہ اپنایا ہے اس کے بعد تو پانی نہیں حقہ بھی بند کردینا جائز ہے، ہندوستان کے پڑوسی بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا بھی ہیں اور ان سے اختلاف بھی ہوتا ہے لیکن وہ عذاب نہیں بنتے اور یہ بات 50 برس کے بعد کہی جارہی ہے کہ پاکستان سے جب بھی بات ختم ہوگی جنگ سے ہوگی، اس کے بعد جو ہوگا سب کو معلوم ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔