بزمِ اردو قطر کا طرحی مشاعرہ ستمبر 2016

رپورٹ: محمد طاہر جمیل۔ میڈیا سیکریٹری بزمِ اردو قطر

قطر کی اولین ادبی تنظیم بزمِ اردو (قائم 1959ء) کے زیرِ اہتمام ماہانہ طرحی مشاعرہ ستمبر2016 جمعہ 9 ستمبر کی شام پی این ٹی سی ہال واکرہ میں منعقد ہوا۔ تقریب کی ابتدائی نظامت معروف شاعر اور بزم کے جنرل سیکریٹری احمد اشفاق نے کی انہوں نے نہایت باوقار اور دلکش طر یقے سے آج کی تقریب کے صدر جناب نجم الحسن خان ( بانی اور صدر جامعہ ملیہ اسلامیہ المنائی قطر ) ، مہمانِ خصوصی چھ سے زائد شعری کتابوں کے مصنف جناب آ صف شفیع جو گزشتہ چھ سالوں سے قطر میں مقیم ہونے کے باوجود ادبی حلقوں سے دور تھے ،مہمان اعزازی ریاض سے تشریف لائے ہوئے ادبی گھرانہ کے چشم و چراغ اور احمد اشفاق کے بڑے بھائی جناب پرویز احمد پرویز جبکہ بزم کی نمائندگی کیلئیے قطر کے معروف شاعر شو کت علی نازؔ کو شہ نشین ہونے کیلئیے درخواست کی۔ شہ نشینوں اور ہال میں تمام مہمانوں کے تشریف رکھنے کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام، پاک سے ہوا جسکی سعادت قاری زاہد شیخ نے حاصل کی ۔ بزم کے رابطہ سیکریٹری اور خازن راقم اعظمی نے بہت ہی شاندار انداز سے خطبہء استقبالیہ پیش کیا۔، احمد اشفاق کی ابتدائی نظامت کے بعد مشاعرہ کا مرحلہ تھا جس کی نظامت کی ذمہ داری دو سالوں کے عرصہ کے بعد دوسری بار طا ہر جمیل کو سونپی گئی جو بقول صدر تقریب نجم الحسن خان کے خوش اسلوبی سے نبھائی جو پچھلی دفعہ کے نسبت اس بار قدرے بہتر تھی جس کا اندازہ مہمانانِ اور سامعین ِ مجلس کی پسند سے ہوا۔ آج کے طرحی مشاعرہ کا مصرح طرح تھا،
ـ’ـ’ یہ بھی ممکن ہے مجھے تیری محبت نہ ملے ‘‘
بالکل نئی جگہ، دوحہ سے باہر اور بہت ہی مختصر نوٹس پر اس تقریب کے انعقاد کے باوجود یہ ایک کامیاب مشاعرہ تھا جس میں۱۵ مقامی شعرائِ کرام نے اپنا طرحی اور غیر طرحی کلام پیش کیا اور ای میل سے 2 غزلیں موصول ہوئیں۔ اس تقریب کی خاص بات اس میں نئے شعرائے کرام کا اضافہ تھا ، بزم اردو قطر ایک قدیم ادبی تنظیم ہے جو ہمیشہ نئے شعراء کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اس تقریب میںسامعین کی ایک بڑی تعدا د نے شرکت کی۔ جب تمام شعراء اپنا کلام سنا چکے تو پرویز احمد پرویز نے اپنے مہمانِ اعزازی بنائے جانے پر بزم کا شکریہ ادا کیا۔ جس کے بعد مہمانِ خصوصی جناب آصف شفیع نے اپنے خیالات پیش کئے انہوں نے بزمِ اردو کو کامیاب مشاعرہ کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور بزم کی ادب نوازی کو سراہا کہ وہ نئے آنے وا لوںکو اپنے دامن میںجگہ دیتی ہے اور انکے لئیے میدان فراہم کرتی ہے جہاں وہ اپنی ادبی تخلیقات کو پیش کر سکیں آج مشاعرہ میں نو واردان ِ بزم کی کاکردگی شاندار رہی اور مجھے ہر طرح کے رنگ دیکھنے کو ملے جس سے پروگرام کو چار چاند لگ گئے۔ آج کے مشاعرہ کے صد ر نجم الحسن خان کو اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی، انہوں نے اس عزت افزائی پر بزم کے اراکین اور چئیرمین شوکت علی نازؔ کا شکریہ ادا کیا ، اپنے مختصر خطاب میں انہوں نے تمام شعراء کے کلام پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیااو ر بقول اُنکے آج کے مشاعرہ میں انہیںسیاسی، عشقیہ، مزاحیہ اور ادبی ، تمام رنگ دیکھنے کو ملے اور ناظم مشا عرہ نے پروگرام کو اچھا آہنگ دیا۔، انہوں نے کامیاب مشا عرہ پر مبارکباد پیش کی اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ۔ بزم کے صدر اعجاز حیدر نے تقریب کے صدر، مہمانان ِ خصوصی و اعزازی، شعرائے کرام اور معزز سامعین اور شرکائے مجلس کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا ، انہوں نے راقم اعظمی کا خصوصاً پروگرام کی جگہ اور ریفریشمینٹ کے انتظام پر شکریہ ادا کیا۔ جن نامور اشخاص نے اس تقریب کو رونق بخشی ان میں خالد داد خان ، صدرانجمنِ محبانِ اردو ہند ، ابراہیم خان بانی انجمنِ محبانِ اردو ہند ، سینئیر شاعر اور پاک شمع اسکول کے پروفیسر شفیق اختر، ہر دلعزیز ڈاکٹر توصیف ہاشمی، انجینئیر ّآصف ناخدا اور اسامہ طاہر وغیر ہ شامل ہیں ۔
آخر میں تمام شعرائے کرام اورمہمانان کے گروپ فوٹو لئیے گئے۔۔۔۔ تقریب میں شامل غزلوں سے منتخب اشعار۔
امجد علی سرور۔
گر ملے ہو تو دعائوں کے خزینے لے جائو
کون جانے کبھی ملنے کے بھی فرصت نہ ملے
دولت علم و ہنر بانٹ چلو اے سرور
بزم ِ احباب کو شاید یہ سعادت نہ ملے
ڈاکٹر آفتاب مجاہد۔
مختصر سی بھی ملاقات کی فرصت نہ ملے
اتنا مصروف نہ ہو جائو کہ چاہت نہ ملے
اتنا سنجیدہ کوئی دوست کہاں ملتا ہے
دشمنی دل سے مٹادو کہیں نفرت نہ ملے
انمول اتفاق۔
مل گئی راہ طلب جانب منزل جو گئے
کشمکش میں ہیں جنہیں نقشِ ہدایت نہ ملے
طریف مہر بلوچ۔
بزم ہے ، جام ہے اور آپ ہیں پہلو میں میرے
حاکمِ وقت کو بھی ایسی سعادت نہ ملے
رضا نقوی۔
جب کوئی دور چلا جاتا ہے مرکز سے تو پھر
ذوقِ ایمان و عبادت میں حلاوت نہ ملے
سعادت علی سعادت۔
بزم ِ اردو میں جلاتے ہیں یہ اردو کے چراغ
غیر ممکن ہے سعادت اسے عزت نہ ملے
جس کے ملنے سے طبیعت میں غرور آجائے
اے خدا مجھ کو کبھی ایسی بھی شہرت نہ ملے
محمد عباس عباسی۔
حیف اس درد پہ جس درد میں لذت نہ ملے
خوئے الفت نہ ملے، حسن، رفاقت نہ ملے
انُ سے عباس یہ کہنا کہ بس اتنا کریں
میری تربت پہ جب آئیں تو اذیت نہ ملے
رضا حسن۔
ہم جو ہر بات صاف کرتے ہیں
سب کو اپنے خلاف کرتے ہیں
کرسیاں دو ہیں صرف دفتر میں
چار افسر طواف کرتے ہیں
محمد طاہر جمیل۔
بعد مدت کے جلائیں چلو یادوں کے چراغ
کون جانے کہ یہ لمحہ، یہ رَفاقت نہ ملے
میں نے تو جان لٹا دی تُجھے پانے کے لئیے
ـ’’ یہ بھی ممکن ہے مجھے تیری محبت نہ ملے‘‘
راقم اعظمی۔
ہم جلاتے ہیں محبت کے شب و روز چراغ
تیرے ہونے کی مگر کوئی شہادت نہ ملے
محمد اطہر اعظمی۔
ساتھ مل بیٹھیں تو اے رب ہمیں پتھر کردے
تاکہ پھر تم سے بچھڑنے کی اجازت نہ ملے
سر میں سودا نہ ہو گر تیرا تو حاصل یہ ہے
میری تحریر سے میری ہی عبارت نہ ملے
منصور اعظمی۔
بن بلائے ہوئے مہمان کی صورت یارو
کیسی ہوگی ذرا سوچو جہاں دعوت نہ ملے
میر و غالب کے کہیں ہیں، کہیں اقبال کے رنگ
آپ کے رنگ کسی شعر میں حضرت نہ ملے
اعجاز حیدر۔
یہ بھی ممکن ہے کہ میں چاک پر آجائوں اور
کوزہ گر کو میرے معیار کی صورت نہ ملے
محسن حبیب۔
شہر میں کون ہے جس کو تیری چاہت نہ ملے
ایک ہم ہیں کہ ترے در کی اجازت نہ ملے
احمد اشفاق۔
یہ بھی ممکن ہے کہ تو چھوڑ دے آنا جانا
یہ بھی ممکن ہے مجھے تیری اجازت نہ ملے
تجھ سے تجدیدِ تعلق کا ارادہ ہے مگر
ایک خدشہ ہے کہیں پہلی سی چاہت نہ ملے
آصف شفیع۔
ہم نے تو زندگی گزاری ہے
تم تو آئے ہو اب محبت میں
جو بھی کہنا ہے اسے آج ہی کہہ دو آ صف
یہ بھی ممکن ہے تجھے کل یہ سہولت نہ ملے
شوکت علی نازؔ

یہ بھی ممکن ہے کہ میں تجھ میں رہوں تا دمِ مرگ
’’ یہ بھی ممکن ہے مجھے تیری محبت نہ ملے‘‘
وقت آئے نہ کبھی ایسا میرے داستاں گو
قصہ خوانی کو تجھے میری حکایت نہ ملے

تبصرے بند ہیں۔