متاعِ لوح وقلم حضرت شاہ اکبر دانا پوری

ڈاکٹر سیّدشاہ شمیم احمد گوہرؔ

(سجادہ نشیں : خانقاہ حلیمیہ ابوالعُلائیہ،الہ آباد)

ہندو پاک اور بنگلہ دیش وغیرہا کی ان تمام خانقاہوں، بارگاہوں، آستانوں اور دائروں میں جو محفل سماع صوفیوں، بزرگوں اور مشائخ کی موجودگی میں منعقد ہوتی ہے اس میں پڑھے جانے والے تمام کلاموں کا تعلق روحانی،اخلاقی اور نعتیہ موضوعات سے ہوتاہے قدیمی معمولات و رواج کے مطابق عموماًسعدی، ؔحافظؔ، جامیؔ، عرفیؔ، قدسیؔ، نظامیؔ، خسروؔ، صائبؔاورنیازؔو غیرہم جیسے شہرۂ آفاق اساتذۂ سخن کے کلام زیادہ تر پڑھے جاتے ہیں، باربار اعادہ و تکرار کے باوجود صدیوں سے اصحاب ِ وجد و کیف محظوظ ومسرور ہوتے آرہے ہیں مثلاً

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسروؔ

محمد شمعِ محفل بود شب جائے کہ من بودم

(امیرخسروؔ)

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم

مگر نازَم بایں ذوقے کہ پیش ِ ِیار می رقصم

(شہبازؔقلندر)

برسریردل شاہم شوکت گدائی ایں است

گردِ کوئے معشوقم رتبۂ رسائی ایں است

 (سعدیؔ)

چمنے کہ تا قیامت گلِ او بہار بادا

ضمنے کہ بر جمالش دو جہاں نثار بادا

(خسروؔ)

خواجۂ خواجگان معین الدین

فخر کون و مکاں معین الدین

(نیازؔ)

اے شاہ بتاں گدا نوازے

برمن بفگن نگاہِ نازے

نسیما جانب بطحا گذرکن

زا حوالم محمد راخبر کن

(جامیؔ)

مرحبا سید مکی مَدَنی العربی

دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

(قدسیؔ)

ایسی نوعیت کے اور بھی بے شمار روحانی و عرفانی فارسی کلام ہیں جنہیں محفل سماع میں برسوں سے فوقیت و سرفرازی حاصل رہی محفل سماع کی تاریخ ہے کہ اس میں صرف عربی و فارسی ہی کا کلام پڑھنا رائج تھا جس کااصول آج تک زندہ و تابندہ ہے یہ عجیب تقدس مآب حقیقت ہے کہ وہ صوفی حضرات جو فارسی نہ جاننے کے باوجود محفل سماع میں زیادہ تر فارسی ہی کلام پر وجد کرتے ہیں گویا محفل سماع کی روحانی عظمت زبان و لفظیات پر بھاری پڑجاتی ہے اردو کلام پڑھنے کا رواج بہت بعد میں ہوا گذشتہ وموجودہ صدی میں جن شعر اکے اردو کلام زیادہ مقبول ہوئے ان میں حضرت شاہ اکبرؔداناپوری،بیدمؔ شاہ وارثی،بے نظیرؔ شاہ وارثی، آسی غازی پوری،فانیؔ گیاوی،رخشاں ؔ ابدالی،شکیل ؔ بدایونی،شمیم ؔ جے پوری،احمد فرازؔ،رازؔ الہ آبادی،مشیر ؔجھنجھانوی اور صباؔ افغانی و غیرہم کے علاوہ صنعت محبوب میں لکھا گیا احمد رضاؔ بریلوی کے مایہ ناز چہار لسانی کلام لم یات نظیر و کفی نظرا کو قوال بڑی لطیف لحجے اور لے سُر میں پڑھتے ہیں صوفیوں اور مشائخ پر خوب وجد طاری ہوتا ہے محفل سماع ہی کے سبب اس نعتیہ غزل کی ہر طرف شہرت ہوئی۔

ممتاز و نامور شعرا کی صف میں حضور شاہ اکبرؔ داناپوری علیہ الرحمۃ والرضوان کا نام بھی بطور خاص لیاجاسکتا ہے جن کے علم وفضل، تفقہ وتصوف، تقویٰ و طہارت، تاریخ نویسی اور صوفیانہ شاعری نے بڑے بڑے اصحاب علم و دانش کو متاثر و گرویدہ کیا اور اپنے دیدۂ وارانہ تخیلات کی گہری چھاپ چھوڑی، حضرت کے کلام تقریباً سو برسوں سے خانقاہوں کی محفلوں میں پڑھے جارہے ہیں ایک زمانہ تھا کہ حضرت محفل سماع میں خود اساتذہ کے کلام پر وجد فرماتے تھے اب حضرت کے کلام پردنیا وجد وکیف میں مبتلا ہورہی ہے صوبۂ بہار کی تقریباً تمام خانقاہوں میں بلاشبہ آپ کے کلام پڑھے جاتے ہیں خوب دلچسپی اور توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے سامعین پر کیفیت بھی طاری ہوتی ہے اگر کسی قوال نے آپ کاکلام نہ پڑھا تو بھاری کمی کا احساس ہونے لگتا ہے آپ کا سلسلۂ بیعت اور شعری وقار چوں کہ ہندوپاک کے بیشتر علاقوں میں پھیلا ہواہے اس لئے آگرہ، الہ آباد، بنارس، حیدرآباد، دہلی، اجمیر، گوالیار، لاہور اور کراچی وغیرہ کی محفلوں میں آپ کے عارفانہ کلام کی دھوم ہے ایک بار میں اپنے صاحبزادے سیّدشاہ حیات احمدارمان سلمہٗ کے ساتھ دائرہ حضرت شاہ ملا محمدی قدس اللہ سرہٗ الہ آباد کی محفل سماع میں حاضرتھا قوال نے حضرت شاہ اکبرؔداناپوری کا مشہور کلام شروع کیا، ارمان سلمہٗ نے الہ آباد کی مناسبت سے یہی اندازہ لگایا کہ یہ کلام اکبرؔ الہ آباد ی ہی کا ہو سکتا ہے سلمہٗ نے مجھ سے دریافت کیا تو میں نے بتایا کہ قوال حضرت شاہ اکبرؔداناپوری کا کلام پڑھ رہاتھا مقبولیت کا اندازہ لگاتے ہوئے ارمان سلمہٗ بے حد خوش ہوئے۔

خانقاہ حلیمیہ ابوالعُلائیہ،چک الہ آبادجسے حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری سے خاص نسبت ہے یہاں کی ہر محفل میں کلام اکبرؔ ی کے جلوے تو بکھیرتے ہی ہیں الہ آباد کی دیگر خانقاہوں میں بھی خوب پڑھا اور سنا جاتا ہے اکبرؔ الہ آبادی اور شاہ اکبرؔ داناپوری اگر چہ ایک ہی استاد حضرت وحیدؔ الہ آباد ی کے شاگرد ہیں مگر شعری منصب اور فکری نظریات میں کافی فاصلہ ہے، اکبرؔ الہ آباد ی اپنے لطیف طنزیہ لہجے میں سماجی و معاشرتی اصلاح اور سائنسی تعلیمات کی غیر اسلامی نتائج کی طنبیہ میں مصروف ہوگئے اور شاہ اکبرؔ داناپوری اپنے فقہی وابستگی اور خانقاہی ماحول کے زیر اثر صوفیانہ شعری کو فروغ دینے لگے، ان دونوں شاعروں کے شاعری اثاثوں نے نہ صرف اپنے استاد گرامی کا نام روشن کیا بلکہ دنیائے شعر وادب کو اپنے نظریات و انکشافات سے بھی خوب مالامال کیا۔

حضرت شاہ اکبرؔداناپوری چوں کہ اکبرآباد میں پیداہوئے اور عمر عزیزکا بیشتر حصہ یہیں گذارا اس لئے آپ کو آگرہ سے خصوصی لگاؤ تھا،عقیدت مندوں اور مریدوں کی کثیر تعداد ہونے کے سبب خواہ آستانۂ سرخیل طریقت حضرت سیّدناپاک امیر ابوالعُلا رضی  اللہ عنہ کی محفل ہو یا کہیں اور کی،آپ کے عارفانہ کلام برسوں سے پڑھے جارہے ہیں، آستانۂ حضرت سیّدنا پاک پر آج بھی یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ کوئی نہ کوئی قوال بیشتر اوقات آپ کا کلام گاتارہتاہے،ساکنان ِ آگرہ کی بے لوث محبت و قربت کے پیش نظر آپ کا یہ مستزاد یہ کلام آگرہ والوں کے لئے ایک نعمت ہے۔

بے مثل ہے تو ہیں ترے انداز نرالے، ائے آگرے والے

محفل قوالی یا بزم سوز وساز میں آپ کے جو کلام زیادہ تر پڑھے جاتے ہیں ان کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں۔

اے بے نیازِمالک،مالک ہے نام تیرا

مجھ کو ہے ناز تجھ پر میں ہوں غلام تیرا

۔

ہوگا بڑے بڑوں کا ہنگامہ روز محشر

اکبرؔقبولہوگاکیوں کر سلام تیرا

وہ مسیحا ہونے کا دعویٰ کرے

ہم سے بیماروں کو جو اچھا کرے

۔

آدمی عاشق بھی ہے معشوق بھی

اپنا جلوہ آپ ہی دیکھا کرے

۔

سیکھنا چاہے اگر جادو کوئی

ان کی نظروں کی طرف دیکھا کرے

۔

بسے ہیں عطرِسُہاگ میں ہم، گلے سے کس کو لگالیا ہے

ہمارا پیراہنِ محبت کسی کی اُتری ہوئی قبا ہے

۔

دل میں اللہ کا گھر آنکھوں میں حضرت کا جمال

میرا کعبہ ہے یہی میرا مدینہ ہے یہی

۔

جوبنے آئینہ وہ تیرا تماشا دیکھے

اپنی صورت میں ترے حسن کا جلوہ دیکھے

۔

اپنی حد سے جو بڑھ چلااکبرؔ

ایسا انساں خراب ہوتا ہے

عشق حقیقی پر مبنی شاعری کاعمل ذہنی آسودگی اور فرحتِ جاں کے لئے بیش بہا سرمایہ ہوتا ہے، شاعری کایہی راستہ تخئیلی شعور اور طہارت نواز جذبات کو پروان چڑھاتا ہے خارجی فکروں سے متحیر ہونا اور بات ہے اور داخلی فکروں کی بارگاہ میں سررگڑنا اور ہے، صالح نظریاتی منصب کی سلامتی کے لئے متصوفانہ شعورکی بیداری بہت ضروری ہے اسی لئے کہاگیا ہے کہ عشق کے لئے شاعری کا ہر دروازہ کھولنا آسان کام نہیں عشق کے اسرار ورموز اس کی طمازت وسوزش اور اضطرابی کیفیت سے شاعر کو جہاں تک قربت و آشنائی ہوگی عطر ریز تخیلات کا دائرہ اسی قدر وسیع ہوگا ظاہر ہے تخئیلی سرفرازیاں جب خوشبوئے مشک و زعفران میں نہاتے ہوئے تقدس مآب صفات پر بکھرتی ہیں تودولتِ گرانمایہ کی شکل اختیار کرلیتی ہیں عبادت گزار شاعری سوزش و تپش کی تجلیوں کو سانسوں کے قریب رکھنے اور دل کی گیرائیوں میں پناہ دینے کا حوصلہ شاعری کی معراج ہے، حضرت شاہ کبرؔداناپوری نے عشق ومحبت کی ایسی کئی منزلیں پار کیں ہیں فتح و نصرت کہ ایسے کئی دریامیں ڈوب کر اُبھرے ہیں جہاں خود اپنے کو جلوہ گاہ محبت سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎

طواف اپنا کروں میں کیوں نہ اکبرؔ

مجھی میں جلوہ فرماں ہے محمد

حضرت شاہ اکبرؔداناپوری بے حد ذودگواور کثیر گو شاعر تھے، دوضخیم بیاضتجلیات عشقاور جذبات اکبرؔکے پیش نظر آپ اپنے ہم عصرشعرا کے ہجوم ہمیشہ میں امتیازی شان کے حامل تھے بلکہ موجودہ دور میں بھی آپ کے شعری اوصاف و محاسن کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

شعر و سخن کی متعدد منزلوں سے گزرنے کے دوران ہر پڑاؤ پر اپنے گراں قدر فکروں کے نقوش چھوڑتے گئے، حمد،نعت، منقبت،غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی، قطعہ، مستزاد اور شہر آشوب جیسی تمام صنفوں میں طبع آزمائی کرتے ہوئے روایتی شاعری کے بے شمار چراغ روشن کئے صوفیانہ وعارفانہ کلام کی کثرت کے باوجود روایتی ادب کے تناظر میں عشق وعاشقی کی وادیوں کی بھی خوب سیر کی ہے،دردوکسک،رنج وملال،ہجروفراق،حسن وجمال،شمع و پروانہ اور شوخی دادنان جیسے موضوعات کی ترجمانی میں آپ کی شاعری نے ایک سے ایک جوہر دیکھائے ہیں اگر ایک طرف بادِ صبا کے ہلکے ہلکے جھونکے دل بیتاب کو تسلیاں دیتے ہیں تو دوسری طرف دست حنائی کی نیر نگیاں عاشقان زخم نواز کے دلوں میں ہیجان پیداکرنے لگتیں ہیں، پختہ کاری،دیدہ وری،سلاست نوازی،فنی مہارتوں اور بلندفکروں سے آپ کے دونوں بیاض منور و مجلہ ہیں، وقت کے بیشتر اساتذہ ٔ سخن اور اصحاب علم و دانش نے آپ کی شعری عظمت کی تائید کی اور خراج تحسین پیش کئے۔

شعرائے متقدمین کی کثرت ہو یا شعرائے متاخرین کی بھیڑ، فکری وفنی شہرتوں کے باوجود ایسے شعرا کی تعداد ہمیشہ کم رہی جن کے کلام کو محفل سماع میں جگہ ملی ہو یا جن کے کلام میں اتنی تاثیر محسوس کی گئی ہو کہ حاضرین بزم جب بھی سماعت کریں بے خود وپُر کیف ہوجائیں، محفل سماع کے تعلق سے یہ تاثراتی جوہر سامعین کے لئے روحانی غذا کے طور پر سامنے آتا ہے اس لائق صد فخر کامیابی کے علاوہ حضور شاہ اکبرؔداناپوری کے اشعار محفل سماع سے نکل کر اسلامی جلسوں کی بھی رونق بنتے رہے ہیں مقررین کرام عام طور پر آپ کے اشعار پڑھتے ہیں ابّی المغفور حضور عزیزالعلماحضرت علامہ الحاج حکیم سیّدشاہ عزیزاحمد حلیمی علیہ الرحمۃ والرضوان ابق سجادہ نشین خانقاہ حلیمیہ ابوالعلائیہ، نیا حجرہ چک،الہ آبادفقیہہ و عالم، صوفی و عابد اور ایک مایہ ٔ ناز واعظ و خطیب کی حیثیت سے جو ساری زندگی میدان خطابت میں نہ صرف وقت کے تمام ممتاز وناموردانشوران ادب اور علمائے کرام کو حیرت میں ڈال دیتے تھے بلکہ اپنے علمی و تحقیقی مہارتوں کا دریابہاتے ہوئے عوام الناس کو بھی گرویدہ و فریفتہ بناتے رہے، ہندوستان کا وہ کون ساشہر اور کون سا گوشہ ہے جہاں حضور عزیز العلما نے اپنی پُر کیف اور علمی تقریر سے سامعین کو محظوظ نہ کیاہو۔

آپ نے تمام زندگی اپنی تقریر سے لوگوں کا دل جیتاہے تبلیغ حق کا فریضہ نبھایا ہے اور عشق رسالت مآبﷺکے بے شمار چراغ روشن کئے ہیں آپ کو فقیہ کبیر صوفی بے نظیر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی شاعری سے بے پناہ لگاؤ اور شغف تھا بہت اشعار یاد تھے اشعار اکبری کے علاوہ شاید ہی کسی دوسرے شاعر کے اتنے زیادہ اشعار یاد ہوں سامعین اس بات کا ہمیشہ انداز لگاتے رہے کہ آپ کی کوئی بھی تقریر ایسی نہ ہوتی جس میں بار بار حضرت شاہ اکبرؔداناپوری کے اشعار نہ سناتے ہوں موضوع کوئی بھی ہر موضوع کی مناسبت سے اشعار کے حوالے پر تقریر کا رخ بدل دیاکرتے تھے۔ قوال محفل سماع میں حضور شاہ اکبرؔ کی کوئی بھی غزل پڑھے کبھی کسی جگہ غلطی ہونے پرآپ فوراً اصلاح فرماتے خانقاہ حلیمیہ ابوالعُلائیہ،الہ آباد کی مجلس عام ہو یا کسی جگہ بھی دوران گفتگو آپ حضرت شاہ اکبرؔداناپوری کے اشعار برابر سناتے رہتے تھے۔

یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت سیّد شاہ اکبرؔابوالعُلائی داناپوری علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حضرت سیّدشاہ محسنؔ ابوالعُلائی داناپوری علیہ الرحمہ اور آپ کے صاحبزادے ظفر المکرم حضرت سیّدشاہ محمدظفرسجادابوالعُلائی داناپوری علیہ الرحمہ میرے والد گرامی حضور عزیز العلماحکیم الحاج سیّدشاہ عزیزاحمد حلیمی ابوالعُلائی کا عقد ثانی آپ ہی کی صاحبزادی سیّدہ جہانگیرہ خاتون سے ہوا راقم کی والدۂ دوم بھی نہایت دین دار، پر ہیز گار،اور انتہائی محتاط و صابر خاتون تھیں، مرحومہ کی زندگی ایک مشعل راہ تھی، اکثر و بیشتر چھوٹے بڑے اور بوڑھے جوان ان کی دعائیں حاصل کرنے حاضر ہوا کرتے تھے ایک طویل علالت کے بعد ۲۱؍اپریل ۲۰۱۴کی شام سواسات بجے دائمی اجل کو لبیک کہا عمر تقریباً۸۰؍برسکی تھی، سابق قاضی شہر حضرت مفتی سیّدقاری مقبول حسین صاحب قبلہ نے نماز جنازہ پڑھائی،اکیلاآم قبرستان، الہ آباد میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں ہزاروں غم گساروں نے شرکت کی اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کے صدقے میں غریق رحمت فرمائے اور درجات و مراتب سے سرفراز فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔