مولانا عبداللہ رحمانی قاسمی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس ارباب حل وعقد کے رکن ، مدرسہ اسلامیہ چھٹہی ہنومان نگر سوپول کے سابق صدر مدرس، مدرسہ اٹکی رانچی اور ترہت اکیڈمی سمستی پور کے سابق استاذ، شاہی عیدگاہ بیگم پور سمستی پور کے امام وخطیب، حضرت مولانا محمد عارف ہرسنگھ پوری کے بڑے پوتا، جید عالم دین، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی ہرسنگھ پوری حال مقام وارڈ نمبر 14 ،رام نگر سمستی پور نے 23 جمادی الاخریٰ 1444ھ مطابق 16 جنوری 2023ءبروز پیر صبح کے آٹھ بجے سمستی پور واقع اپنے مکان میں جان، جان آفرین کے سپرد کر دیا، اہلیہ کا انتقال 2007 میں پہلے ہی ہوچکا تھا، پسماندگان میں دو صاحب زادے؛ فضل الرحمن ، حفظ الرحمن اورچارصاحب زادیوں کو چھوڑا،جنازہ کی نماز دوسرے دن بروز منگل صبح کے دس بجے مولانا مظہر الحق ٹیچرس ٹریننگ کالج متھرا پور کے وسیع میدان میں ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت مولانا سعد اللہ صاحب صدیقی سابق مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ نے پڑھائی ، اس موقع سے علماء، صلحاء، صوفیاءکے ساتھ بڑی تعداد میں عام مسلمانوں نے شرکت کی اور جنازہ کے بعد ان کو لحد تک پہونچایا ، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم پر امارت شرعیہ کے ایک موقر وفد نے مولانا مفتی محمد انظار عالم قاسمی قاضی شریعت کی قیادت میں جنازہ اور تجہیز وتکفین میں شرکت کی،اس وفد میں نائب قاضی شریعت مولانا مفتی وصی احمد قاسمی، مولانا سید محمد عادل فریدی اور قاضی شریعت سمستی پور مولانامفتی امان اللہ قاسمی شریک تھے۔ مولانا مظہر الحق ٹیچر ٹریننگ کالج متھراپور کے احاطہ میں تدفین عمل میں آئی۔

مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی بن مولانا عبد الرحمن (م 1982) بن حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہرسنگھ پوری (متوفی9 صفر1363 ھ مطابق 13فروری 1924) بن شیخ بلاغت حسین بن امداد حسین عرف نبدی بابو بن شیخ خیرات علی بن شیخ منشی حسن یار وکیل بن شیخ ہبة اللہ کی ولادت 1929ءمیں ہرسنگھ پور ضلع دربھنگہ میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال محمد پور مبارک عرف آوارہبنگرا، ضلع مظفر پور تھی، نانا کا نام علی حسن تھا، جو سروے آفس میں امین تھے، بعد میں مولانا کی نانی روپس پور دھمسائن ضلع دربھنگہ نقل مکانی کرکے جا بسیں ، مولانا کے دو ماموں مولانا غزالی اور مولانا نظیر حسن کا شمار علاقہ کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجد مولانا عبد الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری اور مولوی امداد حسین سے حاصل کرنے کے بعد مولانا نے پہلے باقرخاں کے مدرسہ آشاپور، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ، مدرسہ رحمانیہ سوپول اور پھر جامعہ رحمانی مونگیر کے اساتذہ علم وفن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اعلیٰ تعلیم کے لیے دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے بخاری شریف پڑھ کر 1955 میں سند فراغ حاصل کیا، انہوں نے دارالعلوم دیو بند میں قیام کے دوران حضرت مولانا اعزاز علی اور مولانا نصیر احمد خان رحمہما اللہ سے بھی کسب فیض کیا۔مولانا کے رفقاءدرس میں حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒکا نام سب سے نمایاں ہے، ان کے علاوہ حضرت مولانا ابوظفر رحمانی،حضرت مولانا اکرام اور مولانا سعید احمد سابق معاون قاضی امارت شرعیہ بھی آپ کے رفیق درس تھے۔

 تدریسی زندگی کا آغاز اپنے چھوٹے چچا مولانا ولی الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری (م2001) کے قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ چھٹہی ہنومان نگر سوپول سے کیا، کوئی بارہ سال 1971ءتک یہاں بحیثیت صدر مدرس خدمت انجام دیتے رہے، چھٹہی ہنومان نگر میں مسلمانوں کے درمیان جو بدعات ان دنوں رائج تھیں ان میں ایک بدعت تعزیہ سازی اور اس کے مروجہ ملحقات تھے، مولانا نے یہاں قیام کے دوران اس بدعت کے زور کو توڑنے، بلکہ ختم کرنے کی مثالی جد وجہد کی اور اس مہم میں بڑی حد تک وہ کامیاب رہے۔ چھٹہی مدرسہ اسلامیہ چھوڑنے کے بعد دو سال مدرسہ اٹکی رانچی میں پڑھایا اس کے بعد ترہت اکیڈمی سمستی پور میں فارسی زبان وادب کے استاذ کی حیثیت سے بحال ہو گیے، اور مدت ملازمت پوری کرکے یہیں سے سبکدوش ہوئے۔ مولانا کی سسرال داوود نگر سمستی پور تھی،حضرت مولانا محمود صاحب کی دختر نیک اختر سے آپ رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئے، مولانا محمود صاحب شاہی عیدگاہ بیگم پور کے خطیب وامام عیدین تھے، مولانا کے انتقال سے جب یہ جگہ خالی ہوئی تو لوگوں کی توجہ حضرت مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی کی طرف گئی، جن کی صلاحیت وصالحیت کا چرچا ہر خاص وعام کی زبان پر تھا، چنانچہ مولانا بیگم پور شاہی عیدگاہ کے خطیب اور امام عیدین مقرر ہوئے اور پوری زندگی، کوئی بتیس سال تک انتہائی ذمہ داری کے ساتھ فی سبیل اللہ اس کام کو انجام دیتے رہے۔

 مولانا عبد اللہ صاحب اپنے خاندانی روایتوں کے امین تھے، ان کا علم پختہ تھا اور تقویٰ طہارت میں شہر کے ممتاز ترین لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا، مولانا کی وابستگی یوں تو عصری تعلیم کے ادارہ سے تھی ، لیکن رکھ رکھاو، وضع قطع، شریعت کی پاسداری، دینی حمیت اور جذبہ  اصلاح معاشرہ میں کبھی کمی نہیں آئی، خود شاعری تو نہیں کرتے تھے، لیکن شعراءکے سینکڑوں اشعار ان کے حافظہ کی گرفت میں تھے، اقبال کے شیدائی تھے اور ان کے اشعار خاص لطف وکیف کے ساتھ حسب موقع پڑھا کرتے تھے، طبیعت میں لطافت تھی اور خشیت الٰہی نے ان کے قلب کو نرم اور دماغ میں تواضع اور انکساری کو جاگزیں کر دیا تھا، وہ اچھے خطیب تھے، آج کے پیشہ ور مقرروں کی طرح ان کی خطابت میں گھن گرج نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اعضاءو جوارح (باڈی لنگویج) کا وہ زیادہ استعمال کرتے تھے، لیکن خلوص سے نکلے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتے تھے، عوامی اور درسگاہی زندگی میں خفگی ان کا شعار نہیں تھا، وہ بات نرمی سے کہنے کے عادی تھے، ڈانٹنا ، بگڑنا، تنبیہ کرنا ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، مولانا باخبر عالم دین تھے، ان کی نگاہ عالم اسلام کے رست وخیز اور سیاسی حالات پر گہری تھی وہ اسلام پسندوں کے غلبوں سے خوش ہوتے تھے، اور اسلام دشمن کا رروائیوں پر ان کا دل روتا تھا، جو اصلا کامل ایمان کی پہچان ہے، کیوں کہ مو من جسد واحد کی طرح ہے ، جب کسی ایک عضو میں کانٹا چبھتا ہے تو دماغ تکلیف محسوس کرتا ہے، زبان اف اف کرتی ہے اور آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں، مولانا کی کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی ہوا کرتی تھی۔

 میرا سمستی پور سے گہرا رشتہ رہا ہے ، میں نے تدریسی زندگی کا آغاز دار العلوم بربٹہ سے کیا تھا، جتوار پور، چاند چوڑ وغیرہ رشتہ داری کی وجہ سے آناجانا رہا ، سمیع خان مرحوم جب تک زندہ تھے، سمستی پور کھینچ لیا کرتے تھے، اس طرح مختلف موقعوں سے ان سے ملاقات کی سعادت مجھے بھی ملی، لیکن عجیب وغریب بات ہے کہ کبھی کسی نے ان کا تعارف خانوادہ ہرسنگھ پور کے گل سر سبد کی حیثیت سے نہیں کرایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا کی شناخت اپنی تھی اور سمستی پور کے لوگ ان کے تعارف میں خاندانی عظمت کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے تھے، مولانا جید عالم دین تھے، اس حیثیت سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ موت العالِم ، موت العالَم۔

 اللہ کا بڑا فضل اور کرم ہے کہ مولانا کے دو حقیقی بھائی حضرت مولانا سعد اللہ صاحب صدیقی اور مولانا ظفر اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم حیات سے ہیں اور یہ حقیر ان دونوں حضرات کی شفقت اور لطف وعنایت سے بہرہ ور ہوتا رہا ہے، حضرت مولانا ظفر اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ کی پوسا رہائش گاہ میں جو کتابیں تھیں خود سے میرے لڑ کے نظرالہدیٰ قاسمی کو بلا کر نور اردو لائبریری حسن پور گنگٹھی ویشالی کے لیے حوالہ کیا ، اس سے زیادہ اعتماد کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ مولانا عبد اللہ صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تبصرے بند ہیں۔