کیا بدعنوانی کا شکار ہوگئی ہے بہار کی اسکالرشپ اسکیم؟

سومیا جیوتسنا

(مظفر پور، بہار)

کسی بھی طرح کی اسکالرشپ معاشی طور پر کمزور طلبہ وطالبات کے روشن مستقبل کی کنجی ہوتی ہے جس کے ذریعہ تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی کے ہدف کو حاصل کرنے میں انہیں مدد ملتی ہے۔ مذکورہ مقاصد کے حصول کے لئے پورے ملک سمیت ریاست بہار میں بھی کئی ناموں سے اسکالرشپ کی کئی اسکیمیں چلائی جارہی ہیں، انہیں اسکیموں میں سے ایک، ریاست بہار رکے موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمارکے ذریعہ ان کی ایک پسندیدہ اسکیم خاص طور پر طالبات کے لئے ”مکھیہ منتری کنیااُتھان یوجنا“کی داغ بیل رکھی گئی۔ مگر بہت جلد ہی یہ بے قاعدگی اورکئی طرح کی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ کنیااُتھان یوجنا کی شروعات سال 2018  میں لڑکیوں کو مالی تحفظ فراہم کرنے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طالبات کی تعداد بڑھانے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ اس اسکیم کے تحت گریجویٹ پاس ہونے والی طالبات کو 50,000 روپے اور 12ویں پاس ہونے والی طالبات کو 25,000 روپے بطور اسکالرشپ دینے کا انتظام ہے۔ لیکن بد نظامی کی وجہ سے اسکالرشپ کے لیے درخواست دینے اور کاغذات جمع کرانے کے باوجود زیادہ تر لڑکیوں کو اسکالرشپ کی رقم اب تک نہیں مل سکی ہے۔

ریاست کے ایک اہم شہر مظفر پور کی باشندہ مونیکا سنہا نے سال 2020 میں ہی ایم ڈی ڈی ایم کالج مظفر پور سے نفسیات میں گریجویشن پاس کیا تھا۔ ان کا تعلیمی سیشن 2017-2020 تھا، لیکن اب تک انہیں اسکالرشپ کی رقم نہیں مل پائی ہے۔ مذکورہ اسکالرشپ کی اہمیت اور اپنی غربت کے تعلق سے مونیکا نے بتایا کہ”میرے والد بیمار ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر رہے ہیں، میرے خاندان میں کل چھ افراد ہیں۔ میری بہن مجھ سے بڑی ہے، ہم دونوں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے میں اپنے محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں “۔ وہ اپنی تعلیم کے تعلق سے مذید کہتی ہیں کہ”میں ماسٹرڈگری کے لئے داخلہ لینا چاہتی ہوں کیونکہ اس سے مجھے آنے والی زندگی اورکیریئر میں فائدہ ہوگا، مذید بڑھنے کا موقع ملے گا۔ لیکن میں ایسا کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ میں جو کما رہی ہوں وہ روزانہ کے راشن اور دیگر گھریلو کاموں میں استعمال ہو رہا ہے،اگر مجھے اپنی اسکالرشپ کے پیسے مل جائیں تویقینامیں اپنے خوابوں کو رنگین بنا سکتی ہوں “۔ ضلع کے مُشہری بلاک کے ایک چھوٹے سے گاؤں پرہلاد پور کی رہنے والی شریچی سال 2022 میں آرٹس میں 12ویں جماعت اچھے نمبرات سے پاس کرنے کے بعد اپنی اسکالرشپ کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ اعلیٰ تعلیم کے لئے کالج میں داخلہ لے سکیں۔ فی الحال وہ ٹیوشن کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کر نے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ شریچی نے بتایا کہ ٹیوشن پڑھا کر گھر واپس آنے میں شام کے تقریباً 6 بج جاتے ہیں، فی الحال سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے اس وقت تک کافی اندھیراہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات آبرو کا خوف بھی رہتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں سڑکیں خالی ہونے کی وجہ سے پریشانیاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ اس نے مذید کہا کہ ”اگر اسکالرشپ کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع کرادی جاتی تو شاید اتنی جدوجہد نہیں کرنی پڑتی اور میں اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دے پاتی کیونکہ اس سے میرا وقت اور محنت دونوں میری اعلیٰ میں صرف ہوتے۔ “ شریچی کے والد گاؤں میں ہی گروسری کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔

 وہیں جیوتی (تبدیل شدہ نام) نے سال 2019 میں شیام نندن سہائے کالج، مظفر پور سے زولوجی میں گریجویشن کیاہے، انہوں نے بتایا کہ”میں نے مارچ 2020؁ء کے مہینے میں اسکالرشپ کے لیے درخواست دی تھی، لیکن مجھے ابھی تک رقم نہیں مل پائی ہے۔ تمام مطلوبہ کاغذات میں نے اپنے کالج میں وقت پر جمع کرادیا تھا، پھر بھی ابھی تک اسکالرشپ کا اسٹیٹس معلوم نہیں ہے۔ اکاؤنٹ اور آدھار کارڈ کی تصدیق کے بعد، تصدیق کا عمل نہ تو کالج کی سطح پر شروع ہوا ہے اور نہ ہی یونیورسٹی کی سطح پر۔ جبکہ رقم صرف یونیورسٹی کی تصدیق کی سطح 2اور سطح 3 اور ہیڈ کوارٹر کی تصدیق کے بعد منتقل کی جاتی ہے۔ کالج میں پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ رقم مل جائے گی، جبکہ یونیورسٹی میں پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ اسکالرشپ نہیں ملے گی کیونکہ کچھ الحاق شدہ کالج کو اس اسکالرشپ کی لسٹ سے باہر رہ کردیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اگر فہرست میں کالج کا نام نہیں تھا تو اسکالرشپ کے لیے درخواست دیتے وقت کالج کو آپشن کے طور پر کیوں رکھا گیا؟ جیوتی نے مذید کہا کہ کالج اوریونیورسٹی کے محکمے اسکالرشپ کے لئے لڑکیوں سے رشوت مانگتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسکالرشپ کی رقم کا کچھ حصہ ہمیں دو، تب ہی آپ کی فائل آگے بڑھے گی۔ اس تعلق سے جب راقم الحروف نے کالج و یونیورسٹی میں محکمہ تعلیم کے افسران اور اسکالرشپ کے ذمہ داران سے بات کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے زیادہ تر لوگ اس مسئلے پر بات کرنا ہی پسند نہیں کرتے،وہ ٹال مٹول سے کام چلاتے ہیں۔ جب راقم نے شیام نندن سہائے کالج کے کلکر اشوک سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے بھی صاف کوئی جواب دینے کی بجائے بات کو ٹالنے کے مقصد سے کہا کہ اسٹیٹس چیک کرتے رہئے، ابھی فنڈ نہیں آیا ہے وغیرہ۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مکھ منتری کنیااُتھان یوجناریاست کی بیٹیوں کے حق میں ایک بہتر اسکیم ہے۔ خاص کر غریب گھر کی لڑکیوں کے لئے یہ کسی وردان (نعمت)سے کم نہیں ہے۔ اس سے ان کی تعلیم میں آنے والی رکاوٹ دور ہو جاتی۔ لیکن بدعنوانی کی وجہ سے یہ اسکیم کہیں نہ کہیں ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ وہ افسران اور ملازم ہیں جن کے کندھے پر اس کو پورا کرانے کی ذمہ داری تھی۔ اس کی ناکامی کا ثبوت ان لڑکیوں کی آنکھوں میں آنسوں کی شکل میں صاف نظرآجاتا ہے، جنہیں اپنے گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی کا خرچ بھی اٹھانا پڑرہا ہے۔ اس اسکیم میں بہت سی خامیاں ہیں، جیسے کہ تصدیق کے عمل میں تاخیر، کالج اور محکمہ تعلیم کا رویہ، اور کسی ایسے پورٹل کا نہ ہونا جہاں لڑکیاں اپنی شکایات درج کرا سکیں۔ اس کے علاوہ کالج میں ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے، جہاں اسکالرشپ کے بارے میں درست معلومات مل سکیں اور اگر کسی کالج یا یونیورسٹی میں کوئی شعبہ ہے تو بھی وہ کوئی معلومات نہیں دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر اسکیمیں کی طرح یہ بھی لڑکیوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ذہنی پریشانی اور بڑے بابووں کی اُپری آمدنی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ لڑکیوں کو اس اسکیم کا فائدہ نہیں ملا ہے۔ حکومت بہار کی ویب سائٹ https://ekalyan.bih.nic.in/  میں  محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق اب تک726114لڑکیاں اس اسکیم سے فائدہ اٹھا چکی ہیں۔ جن کو کل 699,940,000.00کی رقم ان کے کھاتے میں ٹرانسفر کی جاچکی ہے۔ لیکن کنیا اتھان یوجنا کا کام جس طرح سے ہو رہا ہے، اس سے ایک بات تو صاف ہے کہ بدعنوانی کی وجہ سے یہ اسکیم اپنے ہدف سے دور ہو رہی ہے۔ (چرخہ فیچرس)

تبصرے بند ہیں۔