الطاف حسین جنجوعہ
ولادت کے سلسلہ نقشبندیہ، مجددیہ اور نظامیہ کے کشمیر میں خلیفہ اورعظیم روحانی وسیاسی شخصیت میاں بشیر احمد لارویؒ جوکہ 14اگست 2021کودار اجل سے دار البقاء کی طرف کوچ کرگئے، کی جدائی کا احساس، اُن کے لاکھوں چاہنے والوں کو ہر گذرتے دن کے ساتھ شدت سے ہورہا ہے۔ 15اگست کے پیشِ نظر جموں وکشمیر میں اِس قدر سیکورٹی ہوتی ہے کہ پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا اور پھر اُس روز کشمیر صوبہ سے جموں آنا یا جموں سے کشمیر جانے کا تو تصور بھی نہیں کیاجاسکتا مگر14اگست شام کو میاں بشیر احمد لاروی ؒ کے سانحہ ارتحال کی خبر سننے کے بعد جموں وکشمیر کے اطراف واکناف سے لاکھوں لوگوں نے فوری طور وانگت لار کی طر ف سفر شروع کر دیا، جوجس حال میں تھا، اُسی میں چل پڑا۔ سخت سیکورٹی بندشوں اور بارش کے باوجود کونے کونے سے لاکھوں عقیدتمند بابانگری پہنچے اور اپنے پیر ومرشدکے آخری سفر کا حصہ بنے۔ 98سالہ میاں بشیر احمد لاروی ؒ کی زندگی کا ہرپہلو اتنا خوبصورت ہے جس پر مکمل کتاب بھی تحریر ہوتو کم ہے۔ گوجر اینڈ بکروال طبقوں کی سیاسی، سماجی وتعلیمی ترقی میں اُن کا رول ناقابل ِ فراموش ہے۔ اسی لئے اُنہیں گوجر اور بکروال قبیلوں کا سردار کہاجاتا تھا اور جرگہ کے چیف جسٹس تھے یعنی کہ قبیلہ کے عدالتی نظام (جوڈیشل سسٹم)کے سپریم، جومعاملہ قبیلہ کے اند رکسی بھی سطح پر حل نہیں ہوتا، وہ اُن کاتصفیہ اُن کے دربار میں ہوتاتھا۔ اسی لئے بعض سرکردہ دانشوروں، مفکرین، محققین، ادبی وعلمی شخصیات نے یہ کہا ہے کہ قبیلہ سرپرست اعلیٰ سے محروم ہوگیا۔ میاں بشیر احمد لاروی ؒ واحد ایسی شخصیت ہیں جن کو اپنے قبیلہ میں سب سے زیادہ عزت، احترام ملا اور جن کی شخصیت کا بلا لحاظ مسلک ہر کوئی معترف ہے۔
اِس سے پہلے کہ میاں بشیر احمد لاروی ؒ کی شخصیت کے بارے میں مزید کچھ کہاجائے۔ سلسلہ نقشبندیہ ومجددیہ کو مختصر طور سمجھتے ہیں ۔ ہندوستان میں ولادت کے چار سلسلے زیادہ مقبول ہیں جن میں چشتیہ، قادریہ، سہراوردیہ اور نقشبندیہ،میاں بشیرصاحب ؒکا تعلق نقشبندیہ سلسلہ سے تھا، اُن کے دادا محترم کے پیر ومرشد حضرت خواجہ نظام الدین ؓکیناں شریف تھے۔ نقشبندی سلسلہ کی وجہ سے میاں بشیر احمد لاروی ؒ سرہند شریف بھی جایاکرتے تھے جہاں آپ نے اعتکاف بھی کیا۔ سرہند میں سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ امام ربانی مجدد الف ثانی، حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ، خواجہ حجتہ اللہ محمد نقشبندی ثانیؒ اور حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی قابل ِ ذکر ہیں، کشمیر میں حضرت خواجہ امیر صدیق ماگام شریف بھی نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سلسلہ نقشبندیہ حضرت شیخ بہا اء الدین نقشبند ؒ سے جبکہ مجددیہ حضرت شیخ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ سے منسوب ہے جبکہ نظامیہ میاں نظام الدین لاروی ؒسے منسوب ہے۔ مجددیہ اور نظامیہ (نقشبندی سلسلہ کی کڑی ہیں )اس لئے سلسلہ بابا جی لار سے جڑے لوگ خود کوسلسلہ نقشبندیہ، مجددیہ اورنظامیہ سے جوڑتے ہیں ۔
میاں بشیر احمد لارویؒ کی سیاسی خدمات اور روحانی کمالات پر اب تک سینکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں، درجنوں سیاسی، سماجی ومذہبی شخصیات نے انٹرویو کے ذریعے اُن کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، جتنا بھی اُن کے بارے میں لکھا یا کہا جائے کم معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے جوکہ اللہ اور اُس کے رسول ؐکی رسی کو مضبوطی سے پکڑتا ہے دُنیا اُس کے قدموں میں ہوتی ہے ۔ اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر روحانی سمندر میں گھوتے لگانے والے میاں بشیر احمد لارویؒ نے دُنیا کے شیان ِ شان اور اعلیٰ عہدوں کو ٹھوکر ماری لیکن اللہ نے اُنہیں یہاں بھی بادشاہی عطا کی اور اپنے ہاں بھی بلند مقام دیا۔ اخلاقی اقدار، اصولوں کے پاسدارباجرت، سوچ اورحُسن اخلاق وانسانیت کے پیکر میاں بشیر احمد لاروی ؒ اُس میاں خانوادے کے چشم وچراغ ہیں، جس خانوادے کو ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مہاراجہ جموں وکشمیر کی پرجا سبھا سے لیکر آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔ سیاسی سطح پر لوگوں کی نمائندگی کا یہ سلسلہ میاں نظام الدین لاروی ؒ سے شروع ہواتھا اوراِس وقت میاں الطاف احمد اُس کو آگے بڑھارہے ہیں ۔ وہ خانوادہ جس کامختلف سیاسی نظریات رکھنے والے یکساں عزت واحترام کرتے تھے۔
1967سے میاں بشیر احمد لارویؒ نے 1983تک چار مرتبہ اسمبلی انتخابات جیتے، دو مرتبہ کانگریس کی ٹکٹ پر اور پھر بعد میں نیشنل کانفرنس پر۔ 1987سے میاں الطاف احمد ضلع گاندربل کے اسمبلی حلقہ کنگن کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ 1990سے1996کے دوران ملی ٹینسی کی وجہ سے جموں وکشمیر میں صدر راج نافذ رہا،اِس دوران متعدد بار یہاں پر منتخب حکومت لانے کی کوشش کی گئی جس طرح پچھلے تین برس کے دوران کئی امکانات پر تجربات کئے جارہے ہیں ۔ سنیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ظفر چوہدری ایک اہم سیاسی پہلو کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ میاں بشیر احمد لاروی ؒ سے مرکزی سرکار نے 1990-96کے دوران بارہاجوع کیا اور اُنہیں جموں وکشمیر کا وزیر اعلیٰ بنانے کی پیشکش کی گئی ۔ چونکہ اُس وقت کشمیر کے اندر عمومی سوچ یہ تھی کہ جلد وہ اپنے مقصد کو پالیں گے، میاں بشیر صاحب نے یہ کہتے ہوئے پیشکش ٹھکرائی کہ وہ تاریخ میں خود کو غدار کہلاوانا نہیں چاہتے کہ کل یہ کہاجائے کہ ایک گوجر لیڈر کی وجہ سے کشمیری عوام اپنی منزل نہ پاسکے۔ آج آپ دیکھیں کہ متعدد سیاسی لیڈران خود اِس دوڑ میں ہیں، کہ مرکز کا دست ِ شفقت ملے اور وہ کسی طرح وزیر اعلیٰ کی کُرسی پر براجمان ہوجائیں لیکن میاں بشیر احمد لاروی ؒ نے صد فیصد وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات اورپیشکش کو ٹھکرادیا۔ وزیر اعظم ہند آنجہانی اندرا گاندھی کو بھی بابانگری سے خاص لگاؤ تھی اور وہ میاں بشیر احمد لاروی ؒ کی حد درجہ عزت واحترام کرتی تھیں ۔ اُس وقت کانگریس میں اُن کے سیاسی قدکا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ملک کی سرکردہ سیاسی شخصیات کانگریس اعلیٰ قیادت کے منظور ِ نظر بننے کے لئے میاں بشیر احمد لاروی ؒ سے سفارش کرانے آتے تھے۔ اندرا گاندھی نے اپنے فرزند راجیو گاندھی کو سیاست میں دلچسپی لینے پر آمادہ کرنے کے لئے میاں بشیر صاحب کی مدد حاصل کی۔ دیگر ریاستوں میں جہاں جہاں گوجر اکثریتی علاقے ہیں، وہاں اندرا گاندھی کی ایماء پر میاں بشیر صاحب ؒکوانتخابی مہم میں بطور ِ خاص شامل کیاگیا، جس کا برملا اظہار غلام نبی آزاد نے حالیہ دورہ بابا نگری کے دوران کیا۔
سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ایک مرتبہ جو اقتدار میں آیا، اُس کی پھر یہ خواہش رہتی ہے کہ آخری سانس تک وہ مسندِ اقتدار میں رہے لیکن میاں بشیر احمد لارویؒ نے 1987میں جب اُن کی عمر 64برس تک، عملی سیاست کو خیر آباد کہہ دیاکہ کہیں نئے سیاسی تقاضے روحانی سلسلہ میں حائل نہ ہوجائیں کیونکہ اُن کی زندگی تصوف اورعشق حقیقی کے گرد گھومتی ہے جس متعلق اُن کا کہناتھا’’ اِس راستے میں لالچ اور طمع سے بچنا ضروری ہے۔ یہاں لاکھوں جال اور دانے ہیں، ہم لالچی پرندوں کی طرح نئے نئے جالوں میں گرفتار ہوتے چلے جاتے ہیں، جس طرح گہیوں کے بورے کو چوہے ستیا ناس کر دیتے ہیں، اُسی طرح لالچ اور طمع ہمارے دل کے صدق کو پوری طرح تباہ کرسکتا ہے اور ہم وصال یار کے عشق سے منہ موڑ کر دنیا وی باتوں میں پھنس جاتے ہیں، اس لئے عشق کی ہرمنزل پر بیدار رہنا ضروری ہے‘‘۔ خدا پرستی، خود شناسی اور خود اعتمادی کامیاب لوگوں کا وصف ہے۔ تاج وتخت اور مال وزر توتمکنت اور شکم سیری کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے۔ اللہ کے نیک بندے تو زہد وتقویٰ اور توکل کے سہارے آگے بڑھتے ہیں اور مخلوق خدا کو اپنا ہم نوا بنالتے ہیں اور میاں بشیر احمد لاروی ؒوہی عظیم ہستی تھے۔
بابا نگری وانگت لار کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ وہاں پر چوبیس گھنٹے بلالحاظ مذہب وملت، رنگ نسل، ذات پات اور مسلک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ملکی وغیر ملکی سطح پر معروف علمی، ادبی شخصیات بھی یہاں فیض پانے جاتی ہیں ۔ میاں بشیرلاروی ؒ کی ہر محفل میں قرآن اور حدیث کی بات ہوتی تھی، تصوف پر وہ گھنٹوں بلا کے تفصیلی خطاب فرماتے تھے۔ علمی وادبی شخصیات کا بہت احترام کرتے تھے ۔ وسعت قلبی اِتنی تھی کہ کسی بھی مذہب ومسلک کا عالم ہو، آپ اُس کو کے خیالات ونظریات کو بغورسنتے تھے ۔ پونچھ کے معروف تاریخ داں، ادیب اور مصنف خوشدیو مینی المعروف کے، ڈی کی باباغلام شاہ بادشاہ شاہدرہ شریف متعلق تحریر ایک تصنیف جب بابا جی صاحب لارویؒ کی نظروں سے گذری تو انہوں نے فوری طور کے ڈی مینی سے رابطہ کیا ۔ کے ڈی مینی اس متعلق خود کہتے ہیں ’’ ایک بار نہیں بلکہ کئی مرتبہ انہوں نے مجھ کو خود ٹیلی فون کیا اور ملاقات کرنے کو کہا، میں بار بار وعدہ کرتا رہا لیکن کبھی کسی نہ کسی وجہ سے نہیں جاپایا،، پھر ایک دن انہوں نے فون کے کر کے تھوڑی ناراضگی کا بھی اظہار کیا کہ آپ پونچھ جھوٹے ہو، میں نے سوچا آپ ٹھیک ہوں گے لیکن، آپ بھی وہی نکلے، مجھے بڑی ندامت ہوئی کہ یہ معاملہ تو خراب ہوگیا، پھر میں جموں پہنچا، جہاں سے وہ سرینگر کے لئے جاچکے تھے، پھر میرے لئے خصوصی گاڑی کا انتظام کیا، وہاں جب پہنچا، جتنا پیار ومحبت اور عزت بابا جی صاحب نے مجھے دی، اِتنی مجھے اپنے والدین سے بھی نہ ملی‘‘۔ یاد رہے کہ کے ڈی مینی نے میاں بشیر احمد لاروی ؒ کی حیات مبارکہ متعلق ایک کتاب ’متاع ِ فقر و دانش درباربابا جی صاحب (تاریخ کی روشنی میں )‘تحریر کی ہے، جس کا نومبر2012کوجنرل زور آور سنگھ آڈیٹوریم جموں میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں افتتاح کیاگیاتھا۔ یہ بڑی نایاب کتاب ہے جس میں بابا جی صاحب متعلق کئی قیمتیں باتیں ہیں ۔
خطہ پیر پنجال سے میاں بشیر صاحب ؒاُنہیں بہت لگاؤ تھا جس کی ایک لمبی تاریخ بھی ہے ۔ سرنکوٹ کے گاؤں ’لسانہ ‘جس کو اسمبلی حلقہ سرنکوٹ کی سیاسی راجدھانی بھی کہاجاتاہے، میں بھی وہ کئی مرتبہ آئے تھے جہاں سے راقم کا بھی تعلق ہے۔ لارشریف کا لسانہ سے گہر ا لگاؤ اور رشتہ ہے۔ میاں نظام الدین لاروی ؒ اور لسانہ کے چوہدری غلام حسین لسانوی کے درمیان ذہنی وقلبی رفاقت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور دینی معاملات میں بھی خیالات کی یکسانیت تھی ۔ گوجر اینڈ بکروال طبقوں کی فلاح وبہبودی کے لئے گوجر جاٹ کانفرنس کی بنیاد دونوں نے ساتھ ساتھ مل کر ڈالی تھی۔ بعد ازاں یہ تعلق رشتوں میں بھی بدل گیا۔ چوہدری غلام حسین لسانوی کی تین بیٹیوں میں سے ایک بیٹی محترمہ غلام مریم کی شادی میاں بشیر احمد ؒؒ کے ساتھ 1942میں طے پائی۔ بعد ازاں غلام حسین کے اکلوتے فرزند چوہدری محمد اسلم سابقہ رکن اسمبلی سرنکوٹ کی شادی میاں بشیر احمد لاروی ؒ کی ہمیشیرہ محترمہ شریفہ بیگم سے ہوئی۔ علاوہ ازیں میاں بشیر صاحبؒ کی دو بیٹیوں کی بھی شادی لسانہ گاؤں میں ہوئی ہے، جن میں سابقہ کابینہ وزیر چوہدری عبدالغنی کی اہلیہ زرینہ جی شامل ہیں جبکہ چوہدری عبدالرشید لسانوی کے فرزند ماسٹر مشتاق جوکہ اِس وقت پنچایت اپر لسانہ کے سرپنچ ہیں، کی اہلیہ محترمہ شہناز اختر تھیں، جوکہ سال 2011کو جموں میں ایک سڑک حادثے کے دوران اللہ کو پیار ی ہوگئی تھیں جس کی نماز جنازہ میاں بشیر صاحب نے ہی ادا کی تھی۔ مینڈھر میں ضلع ترقیاتی کونسل ممبر باجی میاں فاروق کی والدہ بھی میاں بشیر احمد لاروی ؒ کی ہمشیرہ ہیں ۔ بابا جی صاحب خطہ پیر پنجال کے جب بھی دورکرتے تو لسانہ ضرور آتے۔ سال2016کو میرے ہم جماعتی ایڈووکیٹ شوکت علی جوکہ بابا جی صاحب کے نواسے کی شادی میں وہ شامل ہوئے تھے اور برات کے ساتھ راجور ی آئے تھے۔ یہ غالباً اُن کا آخری دورہ پیر پنجال تھا۔
بشیر احمد لارویؒ کی سب سے خاص اور منفرد بات یہ تھی کہ اُن کے پاس جو بھی جاتا اُس کو یہ محسوس ہوتا تھاکہ ’بابا جی ‘صاحب سب سے زیادہ اُسی سے محبت کرتے ہیں اور و ہ ہی اُن کے سب سے قریب ہے۔ اُن کی کرامات ان گنت ہیں اور اُن کے ہاں سے لاکھوں نے فیض پایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُن کی جدائی کے بعد بابا نگری تشریف لانے والوں میں ہرمذہب، ہرسیاسی جماعت، ہر خطہ، ہرمکتب فکر کی قد آورشخصیات شامل ہیں ۔ سیاست جس کو آج بدنام زمانہ پیشہ کہاجاتاہے، کو سخاوت اور عبادت سمجھ کر میاں خانوادے نے انجام دیا ہے۔ سیاستدانوں کے آگے پیچھے لوگ تب ہی ہوتے ہیں جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں اوراُن کی عزت بھی ہوتی ہے لیکن میاں بشیر احمد لاروی نے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی، جس وجہ سے آج وہ لاکھوں لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں ۔ سیاسی اور روحانی زندگی میں توازن، سیاست اور ولادت کو ساتھ ساتھ چلانا، سیاست کو بطور عبادت سمجھ کر کس طرح کیاجاتاہے۔ طاقت میں رہ کر انسانیت، اخلاقیات، اخلاقی اقدار، عاجزی، بادشاہی میں فقیری ۔ اس کے بارے میں اگر آپ کو جاننا ہے، اِس کا عملی مشاہدہ کرنا ہے تو بابانگری وانگت جائیں، آپ کو ہرسوال کا جواب ملے گا۔
تبصرے بند ہیں۔