امارسونار بنگلہ (قسط 8)
صفدر امام قادری
بنگلہ دیش کے سفر پر تاریخ اور تہذیب کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اردو زبان کے فروغ اورامکانا ت پر غور و فکرایک بنیادی مقصد تھا۔ اردو تدریس کے باب میں طلبہ و اساتذہ کی تعداد بے پناہ تھی جسے دیکھ کر اس بات کا یقین ہو ا کہ بنگلہ دیش اردو کے حوالے سے اب نئے دور میں قدم رکھ چکا ہے۔ کتب خانے میں موجود مخطوطات اور کتابوں کی بھری ہوئی الماریوں سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اسلاف نے اس زبان کے تحفظ اور فروغ کے لیے بہت سارے ذرائع رکھ چھوڑے ہیں مگر یہ بات سمجھنے کی تھی کہ فی زمانہ علمی اعتبار سے اردو کی کس قدر سرگرمیاں وہاں قائم ہیں ۔ وہاں کے اساتذہ اور ریسرچ اکالر س ابھی کیا لکھ پڑھ رہے ہیں اور کس انداز اور معیار کی علمی خدمات میں مبتلا ہیں ۔
بنگلہ دیش کے شعبۂ اردو کی تاریخ پر ایک سر سری نگاہ ڈالیں تو جناب عندلیب شادانی، کلیم سہسرامی سے لے کر کلثوم ابو البشر تک ایسے صاحبِ تصنیف اردو اور فارسی اساتذہ کی ایک بڑی فہرست ملتی ہے جنھوں نے بنگلہ زبان اور تہذیب کے بیچ اردو زبان و ادب کی ترقی کے امکانا ت تلاش کیے اور نئی نسل کے لیے ایسے مواقع پیدا کیے تاکہ ایک نئے ماحول میں اردو کس طرح پھل پھول سکتی ہے۔ اس کے لیے کون سے وسائل قائم کیے جائیں ۔ بنگلہ دیش کے سفر میں یہ خوش گوار احساس ہو تا رہا کہ اردو، فارسی، اسلا مک اسٹڈیز اور اسلا می تاریخ کے شعبوں کے درمیان ایک قریبی تعلق ہے اور علمی رشتہ قائم ہے۔ ترجمہ اور تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے بنگلہ زبا ن اور ڈراما کے شعبوں سے بھی اردو کے اساتذہ اور طلبہ کا ایک زندہ رشتہ ہے۔ غالباًیہی وجہ ہو کہ وہاں کا اردو شعبہ ایک جزیرے کی طرح نہیں معلوم ہوا اور ہمیشہ مین اسٹریم کے شعبوں کی طرح اس کی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں ۔ شعبۂ اردو میں تحقیق اور تصنیف وتالیف کی جانچ پڑتال میں کچھ باتیں توسے می نار کے موقعے سے سمجھ میں آچکی تھیں کیوں کہ وہاں کے اکثراساتذہ نے اپنے بہترین مضامین پیش کیے اور سوال و جواب کے مواقع میں شریک رہے۔ ہندستان کے اردو شعبوں کی طرح وہاں خیمہ بندی نظر نہیں آئی اور کوئی استاد ریسرچ اسکالر پروگرام کو بائیکاٹ کرتے ہوئے سامنے نہیں آیا۔ یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ علمی کاموں میں یہ لوگ ایک دوسرے سے دستِ تعاون دراز کرتے ہیں ۔
شعبۂ اردو ڈھا کہ یونی ورسٹی کے متعدد اساتذہ کی کتابیں موجود ہیں ۔ اُن میں سے صرف وہی نہیں جو صرف ان کے تحقیقی مقالے ہیں ۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ اردو شعبہ ایک سالانہ جرنل شایع کرتا ہے جو تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہے اور نہایت صاف ستھرے انداز میں ایک علمی معیار کے ساتھ بہترین پیش کش اور سلیقہ مندی کے ساتھ منظرِ عام پر آیا۔ 2017کے شمارے میں اُنیس تنقیدی و تحقیقی مضامین شامل ہیں ۔ اس شمارے میں وہاں کے اساتذہ تحقیق کار اور دیگر لکھنے والوں کے ساتھ ہندستان سے بھی مقالہ نگار شامل ہیں ۔ بنگلہ ادب سے لے کر دکنی ادب تک اور نظیر اکبر آبادی اور سر سید سے لے کرعبدالماجد دریا بادی تک مصنفین کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے اس جرنل کو ہندستا ن کے شعبہ ہائے اردو سے شایع ہو نے والے جریدوں سے کم تر کہنا مناسب نہیں ہو گا۔
ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں تحقیق کی سَمت و رفتار کا پتا لگاتے ہوئے یہ بات معلوم ہوئی کہ اردو میں تحقیقی مقالہ لکھنا وہاں لازم نہیں ۔ تحقیق کاروں کے لیے یہ عام آزادی ہے کہ وہ اردو کے بجائے بنگلہ زبان میں اپنے پی ایچ۔ ڈی کے مقالے لکھ کر جمع کریں جنھیں منظوری کے بعد ڈگری عطا کر دی جاتی ہے۔ مقالہ جب بنگلہ میں لکھا جائے گا تو اس کے ممتحنین بھی بنگلہ آشنا ہی ہوں گے۔ اس سے معیا ر بندی میں بعض رکاوٹیں بھی پیدا ہوں گی۔ آخر جس زبان میں آپ کو تحقیقی کا م کرنا ہے، اس کے لیے علاحدہ میڈیم کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟ انگریزوں کے زمانے سے ہندستان میں عربی فارسی کے سوالات بہت سارے امتحانوں میں انگریزی میں ہی پوچھے جانے کا رواج تھا۔ بعض یونی ورسٹیوں میں فارسی کی تدریس بھی انگریزی زبان میں ہو تی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ جو خیر سگالی اور سہولت کے جذبے کے تحت آسانیاں پیدا کی گئی تھیں ، ان سے مہارت کا ٹکراو ہونے لگا۔ اب یہ بات لازمی ہونے لگی ہے کہ زبان وادب کے پرچوں میں کسی دوسری زبان کو میڈیم بنانا درست نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے اربابِ حل و عقد سے ہماری گزارش ہو گی کہ وہ تحقیقی مقالے بنگلہ یا کسی دوسری زبان میں لکھنے کی شق کو ختم کرائیں اس کے بعد ہی اردو میں اُن کے کاموں کی عالمی سطح پر پذیرائی ممکن ہو سکے گی۔ بین الاقوامی بازار میں اُن کے کاموں کی قدر و قیمت بھی متعین ہو سکے گی۔
بنگلہ دیش کے اردو مصنفین اور اساتذہ کی یہ خصوصیت توجہ طلب ہے کہ انھوں نے اردو کے عمومی مضامین سے علاحدہ موضوعات پر بھی کام کیے ہیں ۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر محمد محمود الا سلام نے اردو میں دو تحقیقی کتابیں تحفتاً ہمیں عطا کیں ۔ ’’اردو پر مغرب کے اثرات ‘‘اور ’’مختلف زبانوں کا باہم تعلق‘‘۔ دونوں کتابوں کے موضوعات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ جن موضوعات پر ہند و پاک میں سنجیدہ کاوشیں کم ہو رہی ہیں ، اُن پر بنگلہ دیش میں تحقیق و تنقید کی بنیادیں استوار ہو رہی ہیں یہ کہنا مشکل ہے کہ ڈاکٹر محمد محمود الاسلام کی یہ کتابیں اپنے موضوعات پر بہترین دستاویزات ہیں مگر کسی ایک کتاب میں اردو، ہندی، بنگلہ، فارسی اور انگریزی زبانوں کے لسانی رشتوں پر بحث ہو تو اسے عمومی کتاب کے دائرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ خدا کرے، ایسے شوق ِفراواں سے تصنیف و تالیف کرنے والے افراد بڑی تعداد میں سامنے ائیں اور بنگلہ دیش کی اردو زبان و ادب کے سلسلے کی خدمات میں نمایاں اضافہ ممکن ہو سکے۔
بنگلہ دیش کے اس سفر میں شعبۂ اردو کے ایک استاد جناب جی۔ مولا (غلام مولا) نے اپنی مرتبہ کتاب ’’پویٹ آف پالیٹکس‘‘(سیاست کاشاعر)پیش کی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے موقعے سے شیخ مجیب الرحمان کی وہ تقریر جو انھوں نے 7مارچ1971کو ڈھاکہ ریس کورس گراؤنڈ میں کی تھی، اسے بارہ زبانوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں اس تقریر کا بنگلہ، انگریزی، ہندی، روسی، عربی، فرانسیسی، چینی، اطالوی، جاپانی، ہسپانوی، فارسی، کوریائی اور اردو زبانوں میں ترجمہ شایع کیا گیا ہے۔ ہر زبان میں شیخ مجیب الرحمان کی زندگی کے خاص پہلوؤں کو سال درسال کے گوشوارے میں پیش کیا گیا ہے۔ ہر زبان کا حصّہ جہاں سے شروع ہوتا ہے، وہاں ایک خوبصورت سی تصویر اور پینٹنگ شامل کر کے کتاب کے حسن میں چار چاند لگانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کا نام کچھ ایسا شاعرانہ اور ساحرانہ ہے جس سے مرتب کے اعلا ذوق کا اندازہ ہوا۔ مجیب الرحمان بلا شبہ ایک شاعر اور مغنّی تھے۔ انقلاب کا پیغامبر۔ ایک بڑی قوم کو راہ دکھانے والے کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا یہ انوکھا ڈھنگ معلوم ہوا۔
ہندستان جسے جغرافیائی اعتبار سے بڑے ملک اور آبادی کے مقابلے میں بنگلہ دیش سے چھ گنی حیثیت رکھنے کے باوجود بنگلہ دیش کے سفر نے ہمیں ترقی پذیر قومیت کی جدّو جہد اور لگاتار آگے بڑھنے کے مہم نے متاثر کیا۔ اپنی زبان اور تہذیبی وقوعات سے محبت اور والہانہ لگاو رکھنے کا ان کا انداز ہمیں سرد آہ کھینچنے پر مجبور کر گیا۔ اپنے تعلیمی اداروں اور قومی اہمیت کے مقامات کو جس قدر صفائی اور پاکی کے ساتھ وہ محفوظ رکھتے ہیں ، ہمارے یہاں یہ انداز بہت کم نظر آتا ہے۔ غربت اور کم ذرائع کے باوجود کس طرح سادگی اور خاکساری سے رہ کر اگے بڑھنے کے جذبے کو زندہ رکھا جا سکتا ہے، یہ بنگلہ دیش کے لوگوں سے ہمیں سیکھنا چاہیے۔ اگر ہندستان میں اپنے عظیم کرداروں سے غیر مصلحت اندیش اُنسیت کا شوق پیدا ہو جائے تو ملک میں بہت ساری نفرتیں اچانک کم ہو جائیں گی۔ بنگلہ دیش میں سیاسی اُتھل پتھل ہندستان سے کم نہیں ہے مگر اپنی تاریخ اور تہذیب سے ان کا لگاو بہت قیمتی ہے۔
تبصرے بند ہیں۔