قوموں کا انتشار خطرناک ہوتا ہے

عبدالعزیز

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

’’سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘ (آل عمران:103)۔

  جس طرح رسی دو چیزوں کو آپس میں جوڑتی ہے اسی طرح قرآنِ کریم عظیم دولت ہے جس سے وابستگی اللہ سے وابستگی اور قرب کا ذریعہ بنتی ہے۔ قرآن کریم سے وابستگی کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ اسے اللہ کی کتاب سمجھ کو اور اس کا کلام جان کر اسے ادب سے چوما جائے اور گھر کے بلند طاق پر اسے سجاکے رکھا جائے بلکہ اس رسی کو پکڑنے کا مفہوم وہی ہے جسے سابقہ آیات میں تقویٰ اور اسلام سے تعبیر کیا گیا ہے کہ تم اگر چاہتے ہو کہ اللہ سے ٹوٹ کے محبت کرو اور اس کی محبت کا حق ادا کرنے کیلئے دل و جان سے اسے چاہو تو اپنے دل کو اسی سے آباد کرو، اپنی فکری جہتوں کو اسی کی تعلیم کی روشنی میں متعین کرو، زندگی کا ہر فیصلہ اسی کی راہنمائی سے کرو، اس کے ایک ایک حکم کی اطاعت اس طرح کرو جیسے محبوب کی اداؤں اور احکام کی اطاعت اور قدر کی جاتی ہے۔ ہر وقت اسی کی رضامندی کے حصول میں لگے رہو اور اس کی ناراضگی سے ہمیشہ لرزاں و ترساں رہو۔ اس نے اپنی کتاب میں جو قانونِ شریعت دیا ہے اس کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کما حقہ نافذ کرو اور تمہاری زندگی اور موت اسی اللہ رب العالمین کے احکام کی اطاعت کی آئینہ دار ہو۔ لیکن یاد رکھو کہ اب جبکہ تم ایک امت بن چکے ہو اس لئے انفرادی طور پر تمہاری اطاعت اور فرماں برداری اس رسی کو پکڑنے کا حق ادا نہیں کرسکتی۔

اب ضروری ہے کہ تم سب مل کر اس رسی کو تھامو؛ یعنی امت مسلمہ میں باہمی ربط و ضبط اس اخلاص اور وفا کا عکاس ہونا چاہئے جس سے معلوم ہو کہ اس امت کا ایک ایک فرد اللہ کی رسی کو اس قدر مضبوطی سے پکڑ چکا ہے کہ اسی کی رہنمائی میں ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ سوچتے ہیں تو اسی کی فکر کے مطابق جیتے ہیں تو اسی کے احکام کے سائے میں اور اسی کی قوت کا سامان بن کر اور مرتے ہیں تو اسی کے حفظ و بقا اور اس کی سربلندی کیلئے۔ ایسی صورت حال میں اس بات کا تصور بھی گناہ ہے کہ امت کی اس مضبوط دیوار میں کوئی دراڑ پڑے، ان میں کسی طرح کی عصبیت سر اٹھائے، یہ قرآن کے دیئے ہوئے اہداف سے ہٹ کر کوئی اور ہدف اپنے سامنے رکھے۔ ان کا ضابطۂ حیات قرآن کے علاوہ کوئی اور ہو کیونکہ یہی وہ ضابطۂ حیات ہے جس نے ان کے صدیوں کے اختلافات کو مٹاکر رکھ دیا ہے۔ یہی وہ اللہ کا عظیم احسان ہے جس نے ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔

یہ اختلاف و انتشار کی اس انتہا کو پہنچ چکے تھے کہ تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑے اس میں کودنے ہی والے تھے کہ اللہ کی رحمت نے انھیں سہارا دے کر بچالیا۔ دریا کے کسی بند کا ٹوٹ جانا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا قوموں کا انتشار خطرناک ہوتا ہے اور ٹوٹے ہوئے بند کو باندھ دینا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا مختلف قبیلوں اور قوموں کو ایک شیرازے میں پرونا۔ لیکن اللہ کی اس رسی نے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ راہنمائی نے، اللہ کی تائید و نصرت سے وہ کام کر دکھایا جو کسی کے بس کا نہ تھا۔ اب حال یہ ہے کہ کل کے دشمن جو ایک دوسرے کا نام لینے کے روادار نہ تھے اور جو ایک دوسرے کا خون پی کر خوش ہوتے تھے اور ایک دوسرے کو تباہ کرکے ٹھنڈی سانس لیتے تھے آج آپس میں بھائی بھائی بن گئے ہیں۔

 جنگ بدر میں چشم فلک نے یہ حیرت انگیز منظر بھی دیکھا کہ میدانِ جنگ میں جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو باپ ایک طرف تھا اور بیٹا دوسری طرف، چچا ایک طرف تھا تو بھتیجا دوسری طررف، بھائی بھائی کے مقابل کھڑا تھا، ماموںبھانجے کا خون بہانے کیلئے بے قرار تھا۔ وہ تمام عربی عصبیّتیں ، قبیلوں کے انتسابات، حسب و نسب کی رعونتیں سب اسلامی اخوت کے سامنے پامال ہوکر رہ گئی تھیں۔

حضرت مصعب بن عمیرؓ جب قیدیوں کے معائنے کیلئے نکلے تو ایک انصاری صحابی کو دیکھا کہ وہ ان کے حقیقی بھائی کی مشکیں کس رہا تھا۔ تو آپؓ نے انصاری صحابی سے کہاکہ اسے کس کر باندھئے کہیں بھاگ نہ جائے۔ بھائی نے آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا مصعب! میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ تمہارا خون اس قدر سفید ہوگیا ہے۔ تم میرے بھائی ہوکر میری مشکیں کسوا رہے ہو۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے نہایت تحمل سے جواب دیا کہ تم میرے بھائی نہیں ہو، میرا بھائی وہ ہے جو تمھیں باندھ رہا ہے۔ اسی اسلامی اخوت نے مسلمانوں کو مضبوط قوت میں بدل دیا۔ اسی کا حوالہ دے کر فرمایا جارہا ہے کہ تمہارے اندر یہ حیرت انگیز تبدیلی قرآن کریم سے وابستگی کے نتیجے میں آئی ہے۔ دیکھنا اس رسی کو ہاتھ سے چھوٹنے نہ دینا اور آپس میں کبھی الگ الگ نہ ہونا۔ تفرقے کا شکار نہ ہونا۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب تک تم اللہ کی کتاب کی راہنمائی میں اللہ سے اپنا تعلق مضبوط رکھو گے۔

تبصرے بند ہیں۔