انبیاء علیھم السلام کا احترام اور مکالمہ بین المذاہب
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
ایک اندازے کے مطابق تقریباََتمام مذاہب کاآغازانبیاء علیھم السلام کے ہاتھوں سے ہوااور جن مذاہب کے بانی انبیا نہیں بھی تھے تو بھی ان مذاہب کی اساسی تعلیمات انبیا ء سے وابسطہ ہیں۔سیدابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ نازکتاب”انسانی دنیاپر انسانوں کے عروج و زوال کا اثر“میں لکھتے ہیں کہ اگر قبیلہ بنی نوانسان میں انبیاء علیھم السلام مبعوث نہ کیے جاتے تو جنگل کابادشاہ شیر نہیں بلکہ انسان ہی ہوتا۔یہ انبیاء کا احسان ہے کہ انہوں نے انسانوں کو انسانیت کا درس دیا۔آج کی سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیامیں چکاچوند روشنیوں سے چندھیاتی ہوئی تہذیب و تمدن سے ترقی یافتہ قومیں بھی جب انبیاء کی تعلیمات سے دورہوئیں تو بوسنیاہرزگوینیا،شیشان،کشمیر،افغانستان اورعراق کے اندر ظلم وخونریزی و سفاکیت کی وہ خونریزداستان رقم کی گئی کہ جنگل کے خونخوارجانوراوردرندے بھی اس سے شرم کرنے لگیں۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تمام انبیاء کی تعلیمات آج اپنی اصل زبان و شکل میں موجود نہیں ہیں سوائے خاتم المرسلین کی تعلیمات اور خاص طورقرآن مجید کہ جو ایک طویل عرصہ گزرجانے کے باوجوداپنی اصلی حقیقت میں موجود و محفوظ ہے۔
شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”الفوزالکبیر“ میں قرآن مجید کے مضامین ومطالب کو پانچ علوم میں تقسیم کیا ہے۔پہلا علم،علم الاحکام ہے جس میں اوامرو نہاوی،واجبات و فرائض اور مکروہات و امور محرمہ کی تفصیل ہے۔دوسرا علم،علم تذکیربالآء اللہ ہے جس میں اللہ تعالی کی نشانیاں اور تخلیق کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔شاہ ولی اللہ ؒ کے نزدیک قرآن مجید کا تیسرا علم،علم تذکیر بایام اللہ ہے جس میں اللہ تعالی نے کرہ ارضی پر گردش ایام کے عنوان سے اقوام کے عروج و زوال سے بحث کی ہے،چوتھا علم،علم تذکیر بالموت وما بعد الموت ہے جس میں اس دنیا کے بعد کی زندگی میں انسان کے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے علوم قرآن مجید کی پانچوین قسم علم مخاصمہ کو قرار دیا ہے،جس میں اللہ تعالی عظیم الشان نے کفار،مشرکین،منافقین،یہود اور نصاری سے پرزور مکالمہ کیا ہے۔بین المذاہب مکالمے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خود حاکم کائنات اللہ سبحانہ تعالی کی سنت ہے کہ اس نے اپنی کتاب کے آغاز کا ایک بہت بڑا حصہ دوسرے مذاہب کے ساتھ مکالمے میں صرف کیا ہے۔چنانچہ سورہ بقرہ جو قرآن کی پہلی بڑی سورۃ ہے اسکے بیشتر مضامین اسی موضوع سے تعلق رکھتے ہیں اور سورۃ آل عمران سمیت مدنی سورتیں اہل کتاب اور منافقین کے ساتھ جبکہ مکی سورتوں میں مشرکین اور کفار کے ساتھ زوردار مکالموں پر محیط ہیں اور اس ذریعے سے ان تک دعوت پہنچائی گئی ہے۔
قرآن مجید میں جہاں بھی لفظ”قل“سے بات شروع کی گئی ہے ان میں بیشتر مقامات دراصل بین المذاہب مکالمے کا آغاز ہیں جس میں اللہ تعالی اپنے نبیﷺکو حکم دیتا ہے کہ ان سے کہیے۔مثلاََجب کفار مکہ نے محسن انسانیت ﷺ کو پیشکش کی ایک سال تم ہمارے خداؤں کی پوجا کر لواورایک سال ہم تمہارے خدا کی پوجا کرلیں گے تو سورہ کافرون جو ساری کی ساری ہی دراصل مکالمہ ہی ہے اس میں فرما دیا گیا کہ ایسا قطعاََ ممکن نہیں،میں تمہارے خدا ؤں کی پوجا ہر گز نہ کروں گا اور تم میرے خداؤں کی پوجاکرنے والے نہیں ہوپس تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔اسی طرح اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں جب اہل مکہ نے استفسار کیا تو اللہ تعالی نے سورۃ اخلاص میں اپنا تعارف کرایا۔توحید کے بارے میں بہت سے خلجانات جو اہل مکہ کے ذہن میں تھے انکو بین المذاہب مکالمے کے ذریعے قرآن مجید نے بیان کیااور فرمایا یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہواس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں؟کبھی تم نے سوچایہ بیج جو تم بوتے ہو ان سے کھیتیاں تم اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں؟کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اسکے برسانے والے ہم ہیں؟کبھی تم نے خیال کیا یہ آگ جو تم سلگاتے ہو اس کادرخت تم نے پیدا کیا یا اسکے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟تو جب مرنے والے کی جان لبوں تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے اور تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے اس وقت اسکی نکلتی ہوئی جان واپس کیوں نہیں لے آتے؟اس وقت تمہاری نسبت ہم اسکے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے(سورۃ الواقعہ)۔
اسی طرح جب منصب نبوت کے بارے میں اہل مکہ نے بے جا سوالات کیے تو ایک مکالمے کے ذریعے انکو اس کی حقیقت بتلائی گئی۔فرمایا کہ اے نبی ﷺ کہیے مجھ پر وحی کی گئی ہے (کہ)میں تو اپنے رب کو پکارتاہوں اوراسکے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا کہیے میں تم لوگوں کے لیے نہ نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کاکہیے مجھے اللہ تعالی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں میرا کام اس کے سوا کوئی نہیں کہ اللہ تعالی کی بات اور اسکے پیغامات پہنچادوں اب جو بھی اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی بات نہ مانے گا اسکے لیے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا(سورہ جن)ایک اور جگہ فرمایا کہ اے نبی ﷺ کہیے اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیارکرو اللہ تعالی بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ان سے کہ دیں اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت قبول کرو۔(سورہ آل عمران)آخرت کے بارے میں جب لوگوں نے مکالمہ کرنا چاہا تو قرآن نے انہیں بھی یو ں جواب دیا کہ لوگ آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں قیامت کی گھڑی کب آئے گی کہیے اس کا علم تو اللہ تعالی کو ہی ہے تمہیں کیا خبر کہ شایدوہ قریب ہی آ لگی ہو(سورۃ احزاب)۔ایک اور جگہ فرمایا کہ یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کیا اس بڑی خبر(قیامت)کے بارے میں جس کے متعلق یہ مختلف چہ مہ گوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں،ہرگزنہیں عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا(سورۃ نبا)۔قرآن نے اس مکالمے میں کفار کے اقوال بھی نقل کیے اور فرمایا کہ یہ کہتے تھے کیا جب ہم مرکرخاک ہو جائیں گے اورہڈیوں کا پنجر رہ جائیں گے تو پھر اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں؟ اے نبی ﷺ ان لوگوں سے کہ دیجئے یقیناََ اگلے اور پچھلے سب ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے(سورۃ واقعہ)۔
قرآن مجید نے خود اپنے بارے میں کفار مکہ کو متعدد با رچیلنج دیااور کہا اگر اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے کے بارے میں تم شک میں ہو تو اس کی مانند ایک سورۃ ہی بنا لاؤاوراللہ تعالی کے سوا اپنے سارے مددگاروں کو بلا لو(سورۃ البقرہ)۔جب وہ ایک سورۃ بھی نہ بناپائے تو انہیں ایک آیت بنا لانے کا بھی کہا گیا لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے قرآن کے ہر مکالمے کے بعد لاجواب ہو جانے کی طرح اس چیلنج کے بعد بھی وہ مات کھا گئے اور اپنی زبان دانی پر فخور عرب قرآن کی آیات جیسی ایک آیت بھی نہ بنا سکے۔قرآن کے مکالمے آج بھی زندہ ہیں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو دعوت فکر دیتے ہیں۔مدنی زندگی کے آغاز میں جس مخالف قوت سے واسطہ پڑا وہ منافقین تھے،قرآن نے ان سے بھی مکالمہ کیا اور لمبے لمبے مکالمات میں انکی اصل حقیقت آشکار کی۔سورۃ منافقین کا آغاز ہی اسی بات سے ہو رہا ہے کہ یہ منافقین کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ تعالی کے رسول ہیں جبکہ یہ لوگ(دل کے)جھوٹے ہیں۔سورۃ بقرہ میں اللہ تعالی نے ان کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ منافقین کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں جبکہ قرآن نے کہا کہ یہی اصل فسادی ہیں۔منافقین کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ مفاد پرست ہوتے ہیں اس کو قرآن نے یوں بیان کیا کہ اندھیری رات میں جب گرج چمک سے تھوڑی سی روشنی ہوتی ہے تویہ چل لیتے ہیں اور اندھیرا ہونے پر پھر رک جاتے ہیں (سورۃ بقرہ)۔منافقین کا قتال کے بارے میں یہ قول بھی اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں نقل کیا کہ وہ نبیﷺ سے کہتے تھے کہ مجھے رخصت دیجئے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے اللہ تعالی نے اسکا جواب دیا کہ سن لو یہی (قتال کا انکار کرنے والے)فتنے میں پڑے ہوئے لوگ ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیرا ہوا ہے(سورۃ توبہ)۔
منافقین مدینہ کے ساتھ مکالمہ کی ایک اور صورت ملاحظہ ہو:”یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سورۃ نازل نہ ہو جائے جو انکے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے اے نبیﷺ ان سے کہو کہ اور مذاق اڑائیں،اللہ تعالی اس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو۔اگر ان سے پوچھو تم کیا باتیں کر رہے تھے تو یہ جھٹ سے کہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ان سے کہو کیاتمہاری ہنسی دل لگی اللہ تعالی،اسکی آیات اور اسکے رسول ﷺ ہی کے ساتھ تھی؟اب عذرات نہ تراشو،تم نے ایمان کے بعد کفر کیا ہے۔اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے“۔(سورۃ توبہ(
مدینہ میں بہت جلد جس دوسرے طاقتورترین گروہ سے پالا پڑاوہ بنی اسرائیل تھے۔انہیں غم کھائے جا رہا تھا کہ ختم نبوت جیسامرتبہ اور قرآن جیسی عالی شان کتاب ان کے خاندان سے نکل کرتو بنو اسمئیل میں آگئی جن کو وہ جاہل اور گنوارسمجھتے تھے۔حسد کے مارے انکا برا حال تھاجبکہ قرآن نے اس بات کی گواہی دی کہ اے نبیﷺ یہ بنی اسرائیل والے آپ کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے سگے بیٹوں کو پہچانا جاتا ہے۔حق جان لینے کے باوجود آج تک انکار حق اس خاندان کاتاریخی کردار ہے۔اس پس منظر کے باوجود اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ان سے ایک طویل مکالمہ کیااور انہیں ان کی اصل حیثیت اور انکے عہدوپیمان یاد دلائے جس کے نتیجے میں عبداللہ بن سلام جیسے چند بھلے مانس لوگ ایمان بھی لے آئے۔”اے بنی اسرائیل ذراخیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی۔میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا(آخری نبی پر ایمان لانا)اسے تم پورا کرو تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا میں اسے پورا کروں،اورمجھ ہی سے ڈرو۔اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ یہ اس کتاب کی تائد میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی لہذاسب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔تھوڑی قیمت پر میری آیات نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤاور نہ ہی جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو“(سورۃ بقرہ)۔
اللہ تعالی نے مکالمات کے ذریعے یہود کو وہ سب نعمتیں گنوائیں جو ان پر کی گئی تھیں۔آل فرعون سے نجات،صحرائے سینا میں قیام،من و سلوی،پانی کے بارہ چشمے،بادلوں کا سایہ اور بہت سی دوسری نعمتوں کے ساتھ سب سے افضل یہ کہ سارے جہانوں پر فضیلت اور فوقیت۔پھر قرآن نے انکے جرائم بھی گنوائے جن میں اولین ناشکری ہے جب انہوں نے کہا کہ ہم من و سلوی کھاکھاکر تھک گئے ہیں،انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی،جہاد سے انکار کیا،نبیوں کو ناحق قتل کیا،قانون سبت کے بارے میں نافرمانی کی اور نبیوں پر بے تکے الزامات لگاکر جہاں انہیں بے وقعت کرنے کی کوشش کی وہاں اللہ تعالی کی کتاب کو بھی معاف نہ کیا اور اس میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کرنا شروع کر دیں۔اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی اور وہ دنیا میں عبرت کا نشان بن گئے۔
نصاری سے بھی قرآن نے مکالمہ کیا۔اور سورۃ آل عمران کے آخر میں کہا”اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اوراللہ تعالی کی طرف سے حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو،حضرت عیسی علیہ السلام اس کے سوا کچھ نہ تھے کہ اللہ کا رسول۔اور ایک فرمان تھا جو اللہ تعالی نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ تعالی کی طرف سے(جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کر لی)پس تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ (خدا)تین ہیں۔باز آجاؤکہ یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔حضرت عیسی علیہ السلام نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں“۔اللہ تعالی نے خود اپنے آخری نبی ﷺ کو حکم دیا کہ اہل کتاب سے کہیں کہ آؤہم اس بات پر اتفاق کر لیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔
قرآن نے مکالمہ کی حدودبھی مقرر کیں اور سب سے پہلے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو برا نہ کہیں وگرنہ وہ تمہارے سچے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔پس جب کوئی ہمارے دین میں گھس کر فتنہ انگیزی کی کوشش کرے گا تو اس سے مکالمہ نہیں کیا جائے گا بلکہ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گاچنانچہ جب منافقین نے مدینہ میں مسجد ضرار بنائی جس کا مقصد مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا تھاتوان سے مکالمہ نہیں کیا گیا بلکہ پوری قوت سے مسجد گرا کر ملیا میٹ کر دی گئی۔مکالمے کی حدود معاہدے کی وفاداری تک ہی ہیں،بنی قریظہ جب معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے تو انہیں تہہ تیغ کر دیا جائے گا اور قریش مکہ جب معاہدہ حدیبیہ کا پاس نہیں رکھیں گے تو ابوسفیان مدینہ آکر بھی اس معاہدے کو دوبارہ جاری کرنا چاہے تو اسکا موقع نہیں دیا جائے گااور پوری قوت سے مکہ پر چڑھائی کر کے تو اسے اپنی قلمرو میں داخل کر لیا جائیگا۔سیرت طیبہﷺاور قرآن مجید نے تو روزقیامت کے مکالمے بھی نقل کیے ہیں،جنت اور دوزخ میں رہنے والوں کے باہمی مکالمے تک اس کتاب کا حصہ ہیں اور اس قرآن مجید نے تو اللہ تعالی اور دوزخیوں کے درمیان اور دوزخیوں کے باہمی مکالمات تک بھی نقل کیے ہیں۔گویا ہمارا یہ دین دوسرے ادیان کے برعکس مکمل طور پر مکالمات یا مزاکرات پر یقین رکھتا ہے۔اس دنیا پر کم و بیش ایک ہزاربرس تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اور مشرق سے مغرب تک توحید کا جھنڈا لہراتا رہا ہے لیکن اس دوران کوئی مذہبی انتہا پسندی پروان نہیں چڑھی،کسی دہشت گردی نے جنم نہیں لیااور کوئی نام نہادروشن خیالی اپنا جواز نہیں بنا سکی۔
آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر ایک بار پھر بین المذاہب مکالمے کی ضرورت ہے،نام نہادسکیولر جدید تہذیب نے مذہب کو فرد کا انفرادی معاملہ قراردے کر انسانیت کو چکاچوند روشنیوں کے باوجود گمراہی و جہالت اور خودغرضی،نفسانیت اور جنسیت کے گہرے اور مہیب غار میں دھکیل دیا ہے۔مذہب جو انسانوں میں انسانیت کا داعی تھاآج اسی کے عنقا ہونے سے قبیلہ بنی نوع آدم میں سے انسانیت رخصت ہوچکی ہے۔مذہب کے وسیع تر پلیٹ فارم سے نکل کر انسانوں نے وطن،رنگ،نسل اور زبان کے جھوٹے خداؤں کی پوجا شروع کر دی ہے،کل سے جزومیں تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔جمہوریت کے نام پر ہر ہر علاقہ اور ہر ہر قوم اپنا حق مانگتی ہے،آخر انسانوں کی اور کتنی چھوٹی چھوٹی اکائیاں بنیں گی کہ ہر ہر انسان چند فٹ کی جگہ لے کر اس میں اپنی ریاست بنانے کا اعلان کر چکے گا۔مذہب کے درمیان مکالمے کا آغازاور ایک دوسرے کوسمجھنے کی کوشش ایک ثمر آورمشق ثابت ہوگی۔تاریخ انسانی میں سب سے پہلے محسن انسانیت ﷺ نے کثیرالقومی،کثیراللسانی اور کثیرالمذہبی معاشرہ تشکیل دیا تھا۔اس معاشرے میں میثاق مدینہ کے معاہدے کے تحت دیگر فریقوں کے جائز حقوق تسلیم کیے گئے تھے اور مقتدر قوت کی طرف سے نہ صرف یہ کہ ان حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی اور ضمانت دی گئی تھی بلکہ آسمان نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان کسی نزاع پر فیصلہ نبوی ﷺ یہودی کے حق میں تھا۔بجا طور پر یہ بات درست کہ ذات نبوی ﷺ کے باوجود اس معاشرے میں سب کا ایک مذہب نہ بن سکالیکن کم از کم برداشت کا رویہ تو فروغ پا گیاتھا۔
آج ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے بعد آخربرداشت کیوں اٹھ گئی؟محض مذہب کااختلاف کشت و خون کا باعث کیوں بنا؟مذہبی ریاستیں مذہبی انتہا پسندی کی جانب کیوں مائل ہوئیں؟اور مذہبی گروہوں نے دوسروں کا استحصال کیوں کیا؟یہ سوال آج کی مقتدرتہذیب سے کیے جانے چاہییں۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسرائیل کی قیادت گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کا قتل عام کرتی چلی جا رہی ہے؟کیا آسمان وہ دن بھول جائیگاجب بوسنیاکے مسلمانوں کی نسل کشی ان لوگوں کے ہاتھوں ہوئی جن کی زبانیں انسانیت کی تسبیح پڑھتے تھکتی نہیں؟کیا شیشان میں بہتا ہوا خون مسلم کے نقوش مٹ جائیں گے؟اور کیا تاریخ ان کشمیری خواتین کی بہتی ہوئی لاشوں کو بھلا دے گی جو پاکستان کے دریائے جہلم تک آن پہنچیں اور مورخ کا قلم کیا افغانستان اور عراق کے حالات سے انصاف کر پائیگا؟۔
بین المذاہب مکالمہ شاید پوری دنیاکوایک مذہب پر تو نہ لا سکے لیکن کم از کم برداشت اورانبیاء علیھم السلام کاادب تو سکھا سکتا ہے۔اتنا تو ہر انسان کو سمجھ جانا چاہیے کہ وہ دوسرے کو اسی کے گھر میں اپنی مرضی سے رہنے کی اجازت دے دے۔لیکن یہ مکالمہ ان حدود و قیودکے تحت ہی ہونا چاہیے جو قرآن مجید نے متعین کیے ہیں۔کم و بیش نو سو قراردادیں جو اقوام متحدہ نے اسرائیل کے لیے منظور کیں ان میں سے کسی پر آج تک عمل نہ ہو سکا دوسری طرف چوبیس گھنٹے کی ریکارڈ مدت میں پچاس کے قریب قراردادیں عراق کے خلاف منظورکراکے تو انہیں فی الفور نافذ بھی کر دیا گیا۔بوسنیا کے لیے بتیس قراردادیں منظور کی گئیں جن میں سے صرف ایک پر عمل ہوا جس میں کہاتھا کہ بوسنیاکے مسلمانوں کو اسلحہ نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔پاکستانی 1971سے امریکی بحری بیڑے کا انتظارکر رہے ہیں اور کشمیری گزشتہ صدی کے نصف سے اقوام متحدہ کے تحت ریفرنڈم کے منتظر ہیں۔ان حالات میں مسلمانوں کو مجبور کرناکہ وہ مذہبی مکالمہ کا آغازکریں تو یہ اس حقیقت کے مترادف ہو گاکہ شنوائی کو طول دینا گویا ظالم کو مددفراہم کرنا ہے۔
بین المذاہب مکالمہ ضرورہو لیکن برابری کی بنیادپر۔نیچے لیٹے ہوئے کمزور،لاغراور بے بس انسان کی شہ رگ پر انگلی رکھ کر اس سے مکالمے کا نتیجہ جو برآمد ہوگاوہ روزروشن کی طرح عیاں ہے۔بین الاقوامی مذہبی مکالمہ ضرورہو لیکن ان لوگوں سے جو امت کے نمائندہ ہوں،آمروں،ڈکٹیٹروں اور خاندانی حکمرانوں سے جنہیں اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے سامراج کی اعانت چاہیے ان سے مکالمہ انہیں سے ہی مکالمہ ہو گا امت اس سے بری الذمہ ہوگی۔اللہ کرے یہ مکالمہ شروع ہو،اقوام عالم کے درمیان ہم آہنگی فروغ پائے،امن عالم اس کرہ ارض کا مقدر بنے اور محسن انسانیتﷺ کا آخری خطبہ اس بات کا ضامن بنے کہ انسانیت کا مستقبل انسان سے وابسطہ ہو۔
تبصرے بند ہیں۔